پہلوانوں کی طرف سے جنسی ہراسانی کے الزام کا سامنا کر رہے بی جے پی ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ کی حمایت میں ایودھیا کے ‘سنتوں’ کا ایک گروپ آواز بلند کر رہا ہے، اور الزام لگانے والی خواتین کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس کےساتھ ہی وہ پاکسو قانون کو ‘ناقص’ قرار دیتے ہوئے اس میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔
ملک کی کئی نامور خواتین پہلوانوں کوجنسی طور پر ہراساں کرنے کےملزم، بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیامنٹ اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے سابق صدر برج بھوشن شرن سنگھ نے ‘ایودھیا کے سنتوں’ کی’کھلی حمایت’کے باوجود وہاں کے رام کتھا پارک میں آئندہ 5 جون کومجوزہ ‘ملک بھر کے سنتوں’ کی جن چیتنا مہا ریلی کو اچانک ملتوی کیوں کر دیا،اس سوال کے جواب میں کئی باتیں کہی جاسکتی ہیں، لیکن اس دوران ان کی حمایت میں تھیوکریسی اور پدرشاہی کا جیسا میل جول دیکھنے کو مل رہا ہے، اس سے مضطرب تو ہوا جا سکتا ہے لیکن انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ہاں، جو تھیوکریسی اور پدرشاہی کے چولی اوردامن کے رشتے سے واقف ہیں، انہیں اس پر اتنی حیرت بھی نہیں ہوئی ہے، جتنی کہ کئی حلقوں میں اس معاملے میں نریندر مودی حکومت کی خواتین وزیروں کی خاموشی یا نئے پارلیامنٹ ہاؤس کے افتتاح کے موقع پر منعقد ہونے والی مذہبی رسومات میں خواتین کی کمیاب موجودگی اور اس سے بھی کمیاب شرکت کے حوالے سے ہو رہی ہے۔
تاہم، بہت سے لوگ حیران ہیں کہ جب مودی حکومت تمام تر جگ ہنسائی جھیل کربھی برج بھوشن کا دفاع کرتی نظر آرہی ہے، تب بھی وہ خود کو اتنا ‘غیر محفوظ’ محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں اس طرح کے سہارے اور حمایت کی ضرورت پڑ رہی ہے اور ‘سنت’ ہیں کہ ان کی یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے تھیوکریسی کےخواتین مخالفت کی ایک اور مثال بننے سے گریزنہیں کر رہے۔
تاہم، زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ پدرشاہی کاپروردہ کوئی بھی اقتداریا نظام مظلوم عورت کے حق میں اسی وقت کھڑا ہوتا ہے جب اس کی نظر میں وہ عورت اتنی ‘اپنی’ ہو کہ اس کی ہتک کو اپنی ناک کا سوال بنا کر لڑنے میں فخر کا احساس ہو۔اس کے لیے بھی وہ ضروری سمجھتی ہے کہ اسے تکلیف دینے والےشخص کی دوسری سائیڈ ہو کیونکہ اپنی سائیڈکے مردوں کی جانب سےایذا رسانی کو تو وہ تکلیف ہی نہیں سمجھتی اور اسےوہ ان کا حق سمجھتی ہے۔
اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر میں شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے 2019 میں ‘دوسری’ سائیڈ میں جا کر ریاست کے وزیر اعلیٰ بنے اور انہوں نے فلمی اداکارہ کنگنا رناوت ،جنہیں اس سائیڈ میں سمجھا جاتا ہے، جسے وہ چھوڑ گئے تھے، کے بنگلے کا کچھ حصہ تجاوزات کے نام پر گرا دینے میں اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا، تو اسی ایودھیا کے کئی سنتوں کی نگاہ میں وہ ولن بن گئے۔ تب یہ ‘سنت’ کنگنا کے اس قدر ہمدردد تھے کہ اپنی حکومت کے 100 دن مکمل ہونے پر ادھو کاایودھیا دورہ بھی انہیں گوارہ نہیں تھا۔
لیکن ملک کی پہلوان بیٹیاں کنگنا جتنی خوش قسمت نہیں ہیں کیونکہ برج بھوشن نے ادھو کی طرح سائیڈ نہیں بدلا ہے، وہ ابھی بھی ‘سنتوں کے سگے’ بنے ہوئے ہیں اور پہلوان بیٹیاں ان کی سائیڈ میں ہونے کے بجائے اپوزیشن میں ہیں۔
ویسے اس صورت حال کا ایک اور پہلو بھی ہےکہ اس میڈیا کی مہربانی سے، جو پہلوان بیٹیوں کی اس درخواست کو بھی نہیں مان رہا، جس کے خلاف انصاف کے حصول کی جدوجہد میں وہ اتنے پاپڑ بیل رہی ہیں،اسے ہیرو نہ بنائے اور ان کے بارے میں نازیبا تبصرے نشر نہ کریں،آپ تک جو خبریں پہنچ رہی ہیں، ان سے ایسا لگتا ہے کہ ایودھیا کے سارے سنت اور مہنت ایک ہو کر برج بھوشن شرن سنگھ کی حمایت میں کھڑے ہو گئے ہیں اور وہ 5 جون کو مجوزہ ریلی میں آر یا پار کرکے رکھ دیں گے، جبکہ یہ پورا سچ نہیں ہے۔
ایودھیا کے سنتوں – مہنتوں میں فرقے، عقائد، عقائد اور فرقوں وغیرہ کی بنیاد پر وسیع اختلاف پایا جاتا ہے اور اگرچہ کہا جاتا ہے کہ ذات نہ پوچھو سادھو کی، ان میں ذات پات کی بنیاد پر تقسیم پائی جاتی ہے۔ ان کے پیش نظر، وہ اکثر بہت زیادہ متحد نہیں ہو پاتے۔ اس معاملے میں بھی ان کا جوگروپ برج بھوشن کے حق میں آواز اٹھا رہا ہے، وہ وہی ہے، جو اپنی بالادستی کی بنیاد پر ہندوتوا کی وکالت کرتا رہا ہے اور بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے مفادات کوپورا کرتا رہا ہے۔
یہ اور بات ہے کہ یہ سطریں لکھنے تک بی جے پی خود کو ان تمام پیش رفت سے الگ دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
منی رام داس کی چھاؤنی کے مہنت کمل نین داس، جو برج بھوشن کی حمایتی مہم میں سب سے آگے چل رہےہیں، شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس کے جانشین ہونے کی وجہ سے فطری طور پر ہندوتوا کے پیروکار ہیں۔
اسی طرح، مہنت متھلیش نندنی شرن اس مہم میں کچھ زیادہ ہی سرگرم ہوکر 2012 میں لائے گئے پاکسو ایکٹ کے نقائص کو پیش کرتے ہوئے، اسے کئی حضرات کی’کردار کشی’ اور میڈیا ٹرائل کا باعث بتا رہے ہیں اور اس میں ترمیم کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ گزشتہ اپریل میں اپنی ایک طویل فیس بک پوسٹ کی وجہ سے سرخیوں میں آئے تھے۔
مذکورہ پوسٹ میں انہوں نے سوال اٹھایا تھاکہ اگر مقتدرہ نظام ایودھیا کو ایودھیا ہی نہیں رہنے دے تو کیا وہاں شری رام رہ پائیں گے؟ لیکن بعد میں انہوں نے اپنا موقف بدل لیا اور اپنی طرف سے کی گئی اس تنقید کے حوالے سے وضاحت پیش کرنے لگے۔
کہا جاتا ہے کہ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف پاکسو کے تحت ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے انہیں اس قانون میں کبھی کوئی خامی نظر نہیں آئی ۔ لیکن اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اس قانون کے ہوتے ہوئے کسی سنت کے ذریعےآشیرواد دینے کے لیے کسی نابالغ کے سر پر رکھے گئے ہاتھ کو بھی ‘بیڈ ٹچ’ مان کر اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ ایودھیا برج بھوشن کے اسٹوڈنٹ لیڈر سے ہندوتوا لیڈر اور باہوبلی وغیرہ بننے کی گواہ رہی ہے۔ وہ یہاں کے معروف کامتا پرساد سندر لال ساکیت پی جی کالج کے طالبعلم اور طلبہ یونین کے عہدیدار بھی رہے ہیں۔ بعد ازاں 1992 میں وہ بابری مسجد انہدام کیس میں ملزم بنے اور گرفتار بھی ہوئے۔ تب سے، وہ اس پر بے انتہافخرکرتےآئے ہیں۔
طویل رفاقت کی وجہ سے ایودھیا میں ان لوگوں کی کمی نہیں ہے، جو ان کے مقروض ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کی جو ان پر احسان کرنے اور ان کے نزدیک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ویسے بھی، ان کے آبائی ضلع اور ایودھیا کے بیچ سریو ندی کےاس پار کا ہی فرق ہے۔دونوں پار یعنی بی جے پی کے اندر اور باہر بھی ان کے خیر خواہ پائے جاتے ہیں کیونکہ انہیں’آڑے وقت میں کام آنے والا ایک بااثر آدمی’ یا باہوبلی مانا جاتا ہے۔
وہ بی جے پی کی پارٹی لائن کے بھی بہت زیادہ پابند نہیں ہیں کیونکہ انتخابات جیتنے کے لیےپارٹی کے ٹکٹ سے زیادہ اپنے ذاتی اثر و رسوخ، کہنا چاہیے کہ حنق پر بھروسہ کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال ایک خاص حکمت عملی کے تحت بی جے پی پردے کے پیچھے سے مہاراشٹر نونرمان سینا کے رہنما راج ٹھاکرے کے 5 جون کو ایودھیا کے مجوزہ دورے کو اسپانسر کر رہی تھی تو برج بھوشن نے اعلان کیا تھا کہ راج ٹھاکرے نے شمالی ہندوستان کے لوگوں کی توہین کے لیے معافی نہیں مانگی تووہ انہیں ایودھیا میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
تب انہوں نے کہا تھا کہ پہلے وہ بھگوان رام کی اولاد ہیں، پھر شمالی ہندوستانی اور پھر بی جے پی کے رکن۔ انہوں نے رام مندر تحریک میں ٹھاکرے خاندان کے رول سے بھی انکار کیا تھا۔ تب بھی بی جے پی نے ان کو روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔
لیکن وہ تو وہ، اس کے دوسرے لیڈر کے ایسے معاملے اجاگرہونے پر اس کو لے اڑنے اور آسمان سر پر اٹھانے لینے والی اپوزیشن سماجوادی پارٹی نے بھی برج بھوشن کے معاملے میں اپنا موقف بہت ٹھنڈا رکھا ہے اور خود برج بھوشن کی مانیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کانگریس لیڈروں کے برعکس اس کے سپریمو اکھلیش یادو کو معاملے کی ‘سچائی’ کہیں زیادہ معلوم ہے۔ وہ پہلوانوں کی دنیا سے بھی کانگریس والوں سے کہیں زیادہ واقف ہیں۔
کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‘ایودھیا کے سنتوں’ کی طرف سے برج بھوشن کی حمایت دونوں فریقوں کے باہمی انحصار کا معاملہ ہے، کیونکہ دونوں وقت اور ضرورت کے مطابق ایک دوسرے کی پناہ لیتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ سنتوں میں پہلوانوں کی بھی ایک پرانی روایت رہی ہے اور برج بھوشن نے اس روایت کے محافظ یا نجات دہندہ کی اپنی شبیہ کو برقرار رکھا ہے۔
دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مقامی لیڈر سوریہ کانت پانڈے سوال کرتے ہیں کہ میڈیا انہیں سنت کے بجائے سنت ویش دھاری(سنت کے کپڑے پہننے والا بہروپیا) کیوں نہیں لکھتا؟ پھر وہ خود ہی جواب دیتے ہیں؛ کیونکہ اس نے رام چرت مانس میں گوسوامی تلسی داس کے بتائے گئے سنتوں کی خصوصیات اوراوصاف کو نہیں پڑھا۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر