سیمی ہائی اسپیڈ وندے بھارت ایکسپریس،یا اس جیسی دیگر ‘ٹرافی’ مودی حکومت کے لیے قومی وقار کے احساس کو بڑھانے کا ایک اور طریقہ ہو سکتا ہے، لیکن کیا اس طرح کے پروپیگنڈے کو اہم اور ضروری معاملوں پر فوقیت دی جانی چاہیے؟
شاید ہی کبھی بالاسورحادثےجیسا جان لیوا اور دل دہلا دینے والا ایکسیڈنٹ ٹرینوں کے حوالے سے حکومت کی بڑے پیمانے پر اشتہاری اور پروپیگنڈہ مہم کی مضحکہ خیزی کو ظاہر کرنے کا باعث بنا ہے۔
بہر حال، دو دہائیوں کے سب سے بڑے ٹرین حادثے نے، جس میں275 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کی ‘پی آر’ مہم والی سیمی ہائی اسپیڈ وندے بھارت ایکسپریس، یا یہاں تک کہ ہندوستان کی پہلی بلیٹ ٹرین کے بارے میں بحث شروع کی ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب مثالی طور پر ان کی حکومت کو ہندوستانی ریلوے کو متاثر کرنے والے اسٹرکچرل مسائل کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔
دو مسافر ٹرینوں کے ٹکر کے ہولناک سانحے نے ہماری توجہ ریلوے کے قدیم سکیورٹی سسٹم، فیل ہوتے بنیادی ڈھانچے، ہر سطح پر خالی آسامیاں، ناقص اور ناکافی بجٹ جیسے مسائل کی جانب مبذول کرائی ہے۔ جہاں مودی اور ان کی حکومت وندے بھارت ایکسپریس جیسی فلیگ شپ ٹرینوں کو ریلوے کی ترقی کی تاریخ میں سنگ میل قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتی تھی، وہیں ریلوے حکام اور سرکاری ادارے وقتاً فوقتاً ان ضروری اور اہم مسائل کو اٹھاتے رہے ہیں۔
حکومت کی پروپیگنڈہ مہم نے مودی کی قیادت میں بڑے پیمانے پر اور تیزی سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے دعووں کو تقویت بخشی، لیکن ہندوستانی ریلوے کے جب تب پیش آنے والے مسائل کو پیچھے چھوڑ دیا۔ حکومت کے لیے محکمے کی ایک چمکتی ہوئی تصویر پیش کرنا اسٹرکچرل لیول پر بڑی تبدیلیاں لانے سے زیادہ معنی رکھتا ہے جو ممکنہ طور پر پچھلے کچھ سالوں میں پیش آنے والےبالاسور جیسے دیگر واقعات کو روک سکتی تھیں۔
ماضی میں ریل حادثات نے ریلوے کے اس طرح کے خدشات کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی، جس کی وجہ سے حکومتوں کو ان مسائل میں سے بعض پر دھیان دینےکے لیے مجبور ہونا پڑا ، بھلے ہی کچھ وقتوں کے لیے ہی صحیح۔ تاہم، بی جے پی کے سانسکرتک راشٹرواد (ثقافتی قوم پرستی)کے برانڈ،جو کسی بھی تنقید کو مکمل طور پر دبانے کی کوشش کرتا ہے، کے حوالے سےمودی حکومت کی مبالغہ آمیز پروپیگنڈہ مہم کے درمیان یہ عارضی شور بھی غائب ہے۔
کچھ مثالیں دیکھیے، جہاں ہندوستانی ریلوے کی ترجیحات کو یا تو سائیڈ لائن کر دیا گیا یا ان پر توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ حال ہی میں فروری2023 تک ساؤتھ ویسٹرن ریلوے زون کے ایک اعلیٰ ریلوے اہلکار نے بار بار سگنل کی خرابی پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح کی خرابی سنگین حادثات کا باعث ہو سکتی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ بالاسور حادثہ اسی طرح کے سگنل فیل ہونے کا نتیجہ ہے۔
اسی طرح، ایک حالیہ سی اے جی رپورٹ نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ 2017-18 اور 2020-21 کے درمیان تمام ٹرین حادثات میں سے دو تہائی ٹرین حادثات ٹرین کے پٹری سے اترنے کی وجہ سے ہوئے – جیسے چنئی جانے والی کورومنڈیل ایکسپریس کھڑی ہوئی مال ٹرین سے ٹکرانے کے بعد پٹری سے اتر گئی۔
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ مودی کے دور حکومت میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کو سنبھالنے کے لیے ٹریک کی تجدید جیسے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے بجٹ میں مختص رقم میں گراوٹ آئی ہے۔ حکومت کی دیرینہ اینٹی کولیشن (تصادم کو روکنے والی) سسٹم ‘کوچ’ کو بھی مناسب فنڈنگ نہیں ملی، اس کے ساتھ ہی 90 فیصد سے زیادہ ریلوے روٹس اس سہولت کو استعمال کرنے کے لائق ہی نہیں ہیں۔
مودی حکومت کا سرکاری مشینری کو نظرانداز کرنے کا رجحان اتنا واضح اور زبردست رہا ہے کہ بالاسور حادثہ ریلوے کے سکیورٹی خدشات کے تئیں حکومت کی بے حسی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ٹرانسپورٹ، سیاحت اور ثقافت کی323 ویں رپورٹ میں ریلوے بورڈز کی جانب سے کمیشن آف ریلوے سیفٹی کی سفارشات کو نظرانداز کرنے کی نشاندہی کی گئی تھی۔
اسی کے ساتھ اگر ہم بنیادی سطح پر دیکھیں تو آر ٹی آئی کے جوابات کے ایک سلسلے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریلوے کے ہر سطح پر 3 لاکھ سے زیادہ عہدے خالی ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ موجودہ ملازمین کو 12-14 گھنٹے کی شفٹوں میں کام کرنے کے لیے مجبور کیوں کیاجاتا ہے۔
دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو نے بالاسور حادثے کے بعد لکھا تھاکہ یہ حادثہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مودی کے ‘رفتار اور پیمانے’ کے فارمولےپر ‘سیفٹی فرسٹ’ پر توجہ دی جانی چاہیے، خاص طور پر ہوا بازی، سڑکیں، پل اور ریلوے جیسے اہم بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے۔
درحقیقت یہ سنگین حادثہ مودی حکومت کی ترجیحات اور ان حقیقی مسائل کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو اجاگر کرتا ہے، جن پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ سیمی ہائی اسپیڈ وندے بھارت ایکسپریس، یا اس جیسی ‘ٹرافی’ مودی حکومت کے لیے قومی وقار کے احساس کو بڑھانے کا ایک اور طریقہ ہو سکتا ہے، لیکن کیا اس طرح کے پروپیگنڈے کو بالکلیہ اہم مسائل پر حاوی ہونے دینا چاہیے؟
جب یہ سوال اٹھایا ہی جا رہا ہے، اسی دوران مرکزی حکومت نے پھر اپنی شبیہ کو اچھا بنانے کا سہارا لیا ہے۔ حادثے پر تنقید کا سامنا کرتے ہوئے وزیر اعظم، مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنو اور دیگر بی جے پی رہنماؤں نے سوشل میڈیا مہم کے ذریعے سیاسی بیانیہ کو منظم کرنے کی کوشش کی، جس میں راحت اور بچاؤ کے کاموں میں حکومت کی لگن کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔
کچھ بی جے پی لیڈروں کے غیر متوقع دعوے کہ حادثے کے پیچھے بائیں بازو کے انتہا پسندوں کا ہاتھ تھا اور ویشنو کی سی بی آئی کو حادثے کی تحقیقات کی فوری سفارش بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حکومت اپنی شدیدناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اس حادثے کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل اپنی پروپیگنڈہ مہم میں محض رکاوٹ سمجھنے کے بجائے، مودی حکومت کو سنجیدگی سے ہندوستانی ریلوے کے اہم مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔
(اس مضمون کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر