سوشلسٹ ذہنیت کے گلزار اعظمی نے نوے سال کی عمر پائی جس میں سے انہوں نے پینسٹھ سال جمعیۃ علماء میں گزارے اور ان ایام میں ان کا شیوہ صرف مظلوموں اور بے قصوروں کی داد رسی کرنا ہی تھا۔
گلزار اعظمی جیسی شخصیت کا ہمارے درمیان سے چلے جانا نہ صرف ان کے اہل خانہ کا ذاتی نقصان ہے بلکہ ملک کی مختلف جیلوں میں قیدسینکڑوں مسلمانوں اور ان کے اہل خانہ کی امیدیں معدوم ہوجانا بھی ہے۔جمعیۃ علماء ہند (مولانا ارشد مدنی) کے پلیٹ فارم سے ان کی خدمات کی فہرست طویل ہے۔
ایک جانب جہاں انہوں نے درجنوں فسادات کی انکوائری کرنے والے کمیشنوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی، وہیں سال 2007 سے جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے دہشت گردی جیسے سنگین الزامات کے تحت گرفتار بے قصور مسلم نوجوانوں کے مقدمات کی پیروی آخری سانس تک کرتے رہے، 300 مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے مقدمات سے بری کرایا، جس میں سے 30ملزمین کو پھانسی کی سزا ہوچکی تھی،200مسلم نوجوانوں کی ضمانت منظور کرائی۔
اسی طرح 600 مسلم نوجوانوں کے مقدمات کی پیروی کررہے تھے جس میں سے 75 ملزمین کو نچلی عدالت اور ہائی کورٹ سے پھانسی کی سزا ہوچکی ہے جبکہ 125ملزمین کو عمر قید کی سزاہوچکی ہے اور ان کی اپیلیں زیر سماعت ہیں۔
گلزاراعظمی نے ایک انٹریو میں کہا تھا کہ ہم کسی کو پھانسی پر چڑھنے نہیں دیں گے اورہوا بھی ایسا ہی، ان کی حیات میں کسی بھی مسلم نوجوان کو پھانسی نہیں ہوئی اور اس کی ایک ہی وجہ ہے ایماندارانہ اور منظم مقدمات کی پیروی۔
ایک دہائی قبل راقم الحروف مالیگاؤں سے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جمعیۃ علماء مہاراشٹر سے منسلک ہوا، تقرری کے وقت مرحوم الحاج گلزار اعظمی صاحب نے ہی راقم کا انٹرویو لیا تھا اور انٹرویو مکمل ہوتے ہی کہا کہ آج سے آپ کی ڈیوٹی شروع۔ گلزار اعظمی صاحب کے وہ الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں، جو انہوں نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہے تھے۔ انہوں نے کہا تھاکہ جمعیۃ سے جڑنے کا مطلب چوبیس گھنٹے عوام کی خدمت میں لگے رہنا ہے۔
حالانکہ ممبئی آنے سے قبل راقم الحروف کبھی جمعیۃ سے منسلک نہیں تھاچونکہ والدمحترم انصاری احسان الرحیم برسوں سے جمعیۃ سے جڑے ہوئے ہیں، اس لیے جمعیۃمیرے لیےکوئی اجنبی چیز نہیں تھی پھر بھی مجھے ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگا۔
گلزار اعظمی کو اپنی ذمہ داری کا اتنا احساس تھا کہ انہوں نے جمعیۃ آفس کو ہمیشہ عوام کی خدمت کے لیےکھلی رہنے کی ترتیب بنائی تھی۔ ملازمین کی چھٹیاں ایسے ڈھنگ سے ترتیب دی تھی کہ آفس ہفتہ بھرکھلی رہتی تھی اور وہ خود آفس میں بیشتر اوقات موجود رہتے تھے۔ ملازمین کو تاکید تھی کہ کوئی بھی پریشان حال دفتر سے واپس اس لیےنہیں جانا چاہیے کہ دفتر بند ہے یا ملازمین موجود نہیں ہیں۔
شروعاتی دنوں میں گلزار اعظمی کے ساتھ مرحوم ایڈوکیٹ شاہد اعظمی کی آفس اور عدالت جایا کرتا تھا، مقدمات کی تاریخوں پر گلزار اعظمی صاحب کے ساتھ عدالتوں میں حاضر رہنا معمول بن گیا تھا۔ ایڈوکیٹ شاہد اعظمی کے انتقال کے بعد ان کے بھائی ایڈوکیٹ خالد اعظمی نے کچھ دنوں تک کام کیا،لیکن کسی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع ہوگیا،جس کے بعد گلزار اعظمی صاحب نے مقدمہ کی پیروی کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپ دی تھی، پیرانہ سالی اور ضعف و نقاہت کی وجہ سے انہو ں نے باقاعدہ عدالت جانا بند کردیا تھا.
حالانکہ لاک ڈاؤن سے قبل تک وہ سپریم کورٹ میں مقدمات کی تاریخوں پر جاتے تھے اور میں ان کے ساتھ رہتا تھا۔گزشتہ چند سالوں سے سفر کرنا انہوں بند کردیا تھا اور مجھے ہی سفر پر جانے کے لیے کہتے تھے۔ سفر کرنا انہوں نے بند تو کردیا تھا لیکن مقدمات کی پیروی کرنا آخری وقت تک بند نہیں کیا تھا۔
انتقا ل سے چنددن قبل ہی انہوں نے مجھے کہا تھاکہ پندرہ اگست کی تعطیلات کے بعد دہلی کے سفر پر چلے جانا اور ہریانہ کے نوح ضلع میں ہوئے فساد میں گرفتار کیے گئے مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا۔آپ ملی مسائل پر ہمیشہ فکر مند رہتے تھے، سپریم کورٹ کی خبروں پر نظریں جمی رہتی تھیں اور جہاں انہیں لگتا تھا سپریم کورٹ سے رجوع ہونا چاہیے، مشورہ کرکے رجوع ہوجاتے تھے۔
رویش کمار کی خبریں سننا انہیں بہت پسند تھا،رویش کمار کے این ڈی ٹی کو چھوڑنے سے وہ دل برداشتہ تھے، لیکن پھر جب رویش کمار نے اپنا یو ٹیوب چینل بنایا اور عوام سے مخاطب ہونے لگے تو گلزار اعظمی انہیں بلا ناغہ سننے لگے، عصر کی نماز مکمل ہوتے ہی مفتی ابو ایوب قاسمی ان کے موبائل مین رویش کماریو ٹیوب چینل لگا دیا کرتے تھے۔
گلزار اعظمی نہایت اصول پسند مزاج کے سخت لیکن رحم دل انسان تھے۔ میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ بند مٹھی سے ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتے تھے، رمضان کے ایام میں محروسین کے گھروں پر پیسے بھیجتے تھے۔لاک ڈاؤن کے بعدسے ان کا دوپہر کا کھانا آفس میں ہی ہوتا تھا لہذا اگر میں آفس میں ہوتا تو مجھے ان کے ساتھ کھانا کھانا ہی پڑتا تھا، انکار کرنے پر غصہ ہوجاتے تھے۔ میری والدہ کے ہاتھوں کابنا ہواپایا انہیں بہت پسند تھا، سردی کے ایام میں اکثر وہ پایا کھانے کا تقاضہ کرتے تھے۔
چند برس قبل پیرانہ سالی کے باوجود میری ایک درخواست پر مالیگاؤں کا سفر کیا اور میری آفس کا افتتاح بھی کیا تھا، آج میں جو کچھ بھی تھوڑا بہت پڑ لکھ لیتا ہوں یہ گلزار اعظمی کی ہی مرہون منت ہے، مجھے ہمیشہ قانونی پہلوؤں پر آرٹیکل لکھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے، مرحوم کو مالیگاؤں سے خصوصی لگاؤ تھا۔اسی طرح جب بھی کسی کا دہلی جانا ہوتا تھا، موسم کے حساب سے وہ اپنے ذاتی پیسوں سے مٹھائیا ں منگوایا کرتے تھے، سردیوں کے ایام میں چاندنی چوک کے پنجابی پھاٹا سے حبشی حلوہ جبکہ دیگر ایام میں مسجد فتح پوری کے پاس واقع چائنارام مٹھائی کی دکان سے حلوہ سوہن اور پرانی دہلی سے نلی نہاری منگوایا کرتے تھے۔
کھانے اور کھلانے کے بہت شوقین تھے، اکثرسردیوں کے ایام میں مجھ سے کہا کرتے تھے کہ دہلی جانا ہوگا تو جامع مسجد کے پاس جاکر مچھلی فرائی کھا لینا،دوپہر کا کھانا اپنے دو بیٹوں کے گھر سے منگواتے تھے جبکہ وہ بہت کام کھانا کھاتے تھے لیکن اسٹاف کے عملہ کو ساتھ لیے بغیرکھانا نہیں کھاتے تھے، مہمان نواز اورمشفق تھے۔
ان کے علاقے پٹھان واڑی پیرو لین ممبئی میں سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے، ان کے ایک حکم پر بڑی بڑی پنچایتو ں کو ختم ہوتے دیکھا ہے، ایڈیشنل کمشنر آف پولیس جنوبی ممبئی،جے جے مارگ پولیس اسٹیشن کے سینئر افسر کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہتے تھے تاکہ محرم کے ایام میں علاقے میں امن قائم رہے۔
گلزار اعظمی کی طویل عمری کا راز ان کا نظم و ضبط اور قوت ارادی ہی تھا، وقت پرکھانا اوروقت پر سونا ان کے مزاج میں شامل تھا، میں نے انہیں کھانے کے وقت اہم میٹنگوں میں سے اٹھتے دیکھا ہے، کھانے کا وقت ہوتے ہی کتنی بھی اہم میٹنگ اور کتنی بھی بڑی شخصیت سے گفتگو چل رہی ہو، درمیان میں چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔قانونی مشیر ہونے کی وجہ سے میں انہیں ڈائرکٹ رپورٹ کرتا تھا، میری صلاح پر بہت سنجیدگی سے سوچنے کے بعد فیصلہ کرتے تھے اور حسب ضرورت مشوروں سے نوازتے تھے۔
گلزار اعظمی نہ تو عالم تھے اور نہ ہی گریجویٹ لیکن قدرت نے انہیں بے پناہ صلاحتیوں سے نوازا تھا، مذہبی معاملات میں ان کی گفتگو انتہائی جامع ہوا کرتی تھی جبکہ قانونی معاملات میں ان سے گفتگو کرنے والا انہیں وکیل ہی سمجھتا تھا اسی لیے بیشتر احبا ب انہیں مولانا گلزاراعظمی اور ایڈوکیٹ گلزار اعظمی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
گلزار اعظمی کے کسی بھی مشورہ کو حضرت مولانا ارشد مدنی نے کبھی نہیں ٹالا اور گلزار اعظمی نے بھی کبھی مولانا کی ہدایت کی نفی نہیں کی، مولانا کی ہدایت گلزار اعظمی کے لیے حکم ہوجایا کرتی تھیں اور پھراس حکم کی تکمیل میں میں د ل و جان سے لگ جایا کرتے تھے۔
گزشتہ پندرہ سالوں میں جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں متعد عرضداشتیں داخل کی بیشتر میں گلزار اعظمی ہی مدعی بنے تھے، چاہےوہ طلاق ثلاثہ ہو یا پھر غیر قانونی بلڈوزر کارروائی کے خلاف داخل پٹیشن یا پھر لو جہاد قانون کو کالعدم قرار دینے والی پٹیشن۔
گلزار اعظمی نہایت نڈر تھے، کبھی کسی سے نہیں ڈرے، اقتدارکے خلاف ببانگ دہل بیانات دیتے تھے،چھ سال قبل روی پجاری نامی غنڈے نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی، دھمکی سے وہ ذرہ برابر بھی ڈرے نہیں اور اپنے کام میں ڈٹے رہے، دھمکی کے بعد حکومت نے انہیں سیکورٹی گارڈ فراہم کیاتھا، لیکن وہ سیکورٹی نہیں چاہتے تھے لہذا جب سیکورٹی تجدید کرنے کا مرحلہ آیا تو انہوں نے منع کردیا۔
ان کی کوشش رہتی تھی کس طرح سے قوم کے مسائل حل کیے جائیں اور مسلمانوں کو درپیش دشواریوں کا ازالہ کیا جاسکے۔
گلزار اعظمی کی یاداشت بلا کی تھی، درجنوں موبائل نمبر انہیں زبانی یاد تھے، ٹرینوں اور بسوں کی معلومات ایسی کہ پوچھتے ہی وقت، نمبر اور روٹ بتادیا کرتے تھے، دوائیوں کے تعلق سے بھی ان کی معلومات کسی حکیم سے کم نہیں تھی، یونانی دواؤں کے مشکل سے مشکل نام اور فوائد فوراً بتا دیا کرتے تھے، گو کہ وہ اپنے آپ میں انسائیکلو پیڈیا تھے۔افضل علی اور خلیل الرحمن گلزار اعظمی کے چوبیس گھنٹہ کے ساتھی تھے۔ ان دونوں کے بغیر گلزار اعظمی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے تھے۔
آخری ایام میں گلزار اعظمی کافی فکر مند رہنے لگے تھے اور اکثر کہتے تھے کہ ان کے جانے کے بعد قانونی امداد کمیٹی کا کیا ہوگا، کیسے مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی کی جاسکے گی کیونکہ مقدمات کی پیروی کرنے میں انہوں نے جتنا وقت دیا ہے شاید ہی کوئی اتنا وقت دے پائے گا، ایسے دیوانے شخص کا نعم البدل تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا۔
گلزار اعظمی کے انتقال کے بعد وہاٹس اپ پر ایک پیغام موصول ہوا جسے پڑھ کر میری آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔چند پسماندہ کمیونٹی کے ہندو اور مسلم لڑکوں کی جانب سے ایک پیغام تھا جس میں تحریر تھا کہ آج ہم جو دو وقت کی روٹی کھا رہے ہیں وہ گلزار اعظمی اور جمعیۃ علماء کی ہی مرہون منت ہے۔گلزار اعظمی نے ہمارا مقدمہ ہائی کورٹ سے لےکر سپریم کورٹ تک لڑا اور ہمیں انصاف دلایا۔
دراصل مہاوترن کمپنی میں ملازمت کو لےکر ریاستی حکومت امتیازی سلوک کررہی تھی، مراٹھا سماج سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو نوکریوں میں فوقیت دی جارہی تھی جس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا جہاں کامیابی جاصل ہوئی تھی۔ایسے کئی معاملات ہیں جس میں گلزار اعظمی نے مذہب دیکھے بغیر لوگوں کی مدد کی اور انہیں انصاف دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
قانونی امداد کمیٹی کے علاوہ بھی وہ جمعیۃ علماء کے مختلف کاموں سے جڑے رہے۔سوشلسٹ ذہنیت کے گلزار اعظمی نے نوے سال کی عمر پائی جس میں سے انہوں نے پینسٹھ سال جمعیۃ علماء میں گزارے اوران ایام میں ان کاشیوہ صرف مظلوموں اور بے قصوروں کی داد رسی کرنا ہی تھا۔
(شاہد ندیم حقوق انسانی کے وکیل اور جمعیۃ علماءہند،مہاراشٹر لیگل ایڈ کمیٹی کے قانونی معاون ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر