خبریں

اترپردیش: غیر قانونی زمین پر بنا ہوا بتا کر عیسائی پریئر سینٹر کو جونپور انتظامیہ نے منہدم کیا

گزشتہ 11 اکتوبر کو اتر پردیش کے جونپور ضلع میں محکمہ محصولات کے عہدیداروں کی ایک ٹیم نے بھاری پولیس فورس کی موجودگی میں بھولن ڈیہہ گاؤں میں جیون جیوتی ست سنگ نامی عیسائی پریئر سینٹر کی دو منزلہ عمارت اور باؤنڈری وال کو زمین بوس کردیا۔ یہ پریئر سینٹر گزشتہ کئی سالوں سے دائیں بازو کے گروہوں کے نشانے پر تھا۔

جونپور کے بھولن ڈیہہ گاؤں میں واقع عیسائی پریئر سینٹر، جسے مقامی انتظامیہ نے 11 اکتوبر کو منہدم کر دیا۔ (تصویر: عمر راشد)

جونپور کے بھولن ڈیہہ گاؤں میں واقع عیسائی پریئر سینٹر، جسے مقامی انتظامیہ نے 11 اکتوبر کو منہدم کر دیا۔ (تصویر: عمر راشد)

نئی دہلی: محکمہ محصولات کے کچھ عہدیداروں نے بدھ (11 اکتوبر) کو اتر پردیش کے جونپور ضلع میں ایک عیسائی پریئر سینٹر کو یہ کہتے ہوئے منہدم کر دیا کہ یہ ‘غیر قانونی’ زمین پر بنایا گیا تھا۔

حکام نے دی وائر کو بتایا کہ گزشتہ دو ہفتوں میں پولیس نےاس سینٹر سے وابستہ کچھ پادری سمیت کم از کم 18 افراد کوقتل کی کوشش اور مجرمانہ سازش کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ الزام ہے کہ جب پولیس اور ریونیو اہلکار اس جگہ کا سروے کرنے گئے تو ان لوگوں نے ان پر حملہ کردیا تھا۔

یہ پریئر سینٹر گزشتہ کئی سالوں سے دائیں بازو کے گروہوں کے نشانے پر تھا۔

بدھ کو محکمہ ریونیو کے افسران کی ایک ٹیم نے تین تھانوں کی بھاری پولیس فورس کی موجودگی میں جونپور کے بھولن ڈیہہ گاؤں میں جیون جیوتی ست سنگ پریئر سینٹر کی دو منزلہ عمارت اور باؤنڈری وال کو بلڈوز کر دیا۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) گورو شرما، کیراکت کے سرکل آفیسر، جس کے تحت یہ گاؤں واقع ہے، نے کہا کہ تحصیل کے ریونیو اہلکاروں نے پولیس کے تعاون سے ‘غیر قانونی تجاوزات’ کو ہٹا دیا۔

گزشتہ ستمبر میں مقامی انتظامیہ نے پریئر سینٹر کے منتظمین کے خلاف تین ایف آئی آر درج کی تھیں۔ ان میں سے ایک ایف آئی آر ایک ریونیو افسر کی شکایت پر درج کی گئی تھی، جس نے الزام لگایا تھا کہ پریئر سینٹر کے احاطے میں وہ زمین بھی شامل ہے جس پر ‘غیر قانونی طور پر قبضہ’ کیا گیا ہے۔

اہلکار نے دعویٰ کیا کہ یہ اصل میں گرام سبھا کی زمین تھی، جو کچھ دلت برادریوں کے ذریعے استعمال کیا جانے والا سمادھی استھل کہا جاتا ہے،  کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ ایک بنجر زمین بھی تھی۔

ڈی ایس پی شرما نے دی وائر کو بتایا کہ مسمار کی گئی جگہ کا سائز تقریباً 11 بسوا ہے، جو تقریباً 15000 مربع فٹ یا 0.14 ہیکٹر کے برابر ہے۔ تاہم، افسر نے واضح کیا کہ تمام زمین غیر قانونی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو حصہ قانونی اور نجی ملکیت والا پایا گیا اسے ہاتھ نہیں لگایا گیا۔’

عیسائی پریئر سینٹر پچھلے 15 سالوں سے کام کر رہا تھا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کس چیز نے پولیس کو مرکز کے بارے میں تحقیقات شروع کرنے پر اکسایا، ڈی ایس پی شرما نے کہا کہ انہیں ریاست کے آن لائن شکایت رجسٹریشن پورٹل، انٹیگریٹڈ کمپلینٹ رجسٹریشن اور مانیٹرنگ سسٹم پر شکایات موصول ہوئی تھیں۔

عیسائی  پریئر سینٹر

اس عیسائی پریئر سینٹر کا خیال اس وقت آیا جب درگا پرساد یادکی ملاقات ممبئی میں ایک خود ساختہ متنازعہ ڈیوائن ہیلر  سیباسٹین مارٹن سے  ہوئی۔

بھوپال میں ایک پرنٹنگ پریس میں بطور آپریٹر کام کرتے ہوئے درگا پرساد کو جلد کی ایک سنگین بیماری میں ہو گئی تھی۔ صحت یاب ہونے کے لیے انہوں نے وارانسی سے کولکاتہ تک ملک بھر کا سفر کیا اور مختلف قسم کے علاج کو آزمایا۔

پھر وہ ممبئی چلے گئے اور ایک ہوٹل میں سیکورٹی گارڈ کے طور پر کام کرنے لگے۔

یہاں انہیں ہائیڈروسیل کی بیماری کی تشخیص ہوئی۔ تب انہوں نے ٹیلی ویژن پر مارٹن کے تھراپی سیشن دیکھنا شروع کیے اور ایک پڑوسی کی ماں کے کہنے پر اس کے سیشنز میں جانا شروع کیا۔

جونپور کے بھولن ڈیہہ گاؤں میں واقع عیسائی پریئر سینٹر۔ (تصویر: عمر راشد)

جونپور کے بھولن ڈیہہ گاؤں میں واقع عیسائی پریئر سینٹر۔ (تصویر: عمر راشد)

ان کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ وہ تین ہفتوں میں معجزانہ طور پر صحت یاب ہو گئے، حالانکہ ان کے دعووں کی کسی سائنسی ثبوت سے تائید یا تصدیق نہیں ہوتی۔

اس کے بعد انہوں نے اپنی دعائیہ خدمات شروع کیں اور اپنے آبائی گاؤں بھولن ڈیہہ آگئے۔ 2010 میں کرسمس کے دن  درگا پرساد، جو اب ایک پادری ہیں، نے اپنی پہلی دعائیہ خدمت شروع کی، جسے ‘چنگائی  پریئرز’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ابتدائی طور پر انہوں نے اپنی رہائش گاہ سے یہ خدمت کی۔ بعد میں انہوں نے اپنی آبائی زمین پر ایک پریئر سینٹر بنوایا۔

گاؤں کی بستی سے دور سرسبز و شاداب کھیتوں سے گھرا یہ کمپلیکس ہر منگل اور اتوار کو زائرین اور عقیدت مندوں سے گلزار رہتا تھا۔ وہ یسوع مسیح پر واعظ سننے اور ’ڈیوائن ہیلنگ‘ حاصل کرنے آئے تھے۔ آس پاس کے دیہاتوں کے ساتھ ساتھ اعظم گڑھ، غازی پور، مئو اور وارانسی اضلاع کے لوگ بھی یہاں آتے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ دعا اور لمس کے ذریعے کینسر، تپ دق اور مرگی سمیت ہر قسم کی بیماریوں کا علاج کر سکتے ہیں۔

ان کے گھر کو یسوع مسیح اورکراس کے فوٹو فریموں  سے سجایا گیا ہےجو- عیسائیت کی نشانی  ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انہوں نے رسمی طور پر عیسائیت قبول نہیں کی ہے اور اپنی ہندو او بی سی (دیگر پسماندہ طبقے) کی شناخت اور ثقافت کو برقرار رکھا ہے۔

ان کے گھر کے احاطے میں ایک بیل کا درخت اور ایک تلسی کا پودا لگایا گیا ہے، جنہیں  ہندوؤں کے نزدیک مبارک مانا جاتا ہے۔

تاہم، جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ریاست میں اقتدار سنبھالا ہے، یہ عیسائی پریئر سینٹر مقامی دبدبے والی  ذات اور ہندوتوا گروپوں کے نشانے پر رہا ہے۔ انہوں نے اس کے مینجرز، خاص طور پر چیف پادری درگا پرساد پر غریب لوگوں کو عیسائیت اختیار کرنے اور ہندو مذہب کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔

ستمبر میں یونائیٹڈ کرسچن فورم نے جونپور کو ہندوستان کے 13 اضلاع میں سے ایک کے طور پر شناخت کیا تھا، جہاں ‘عیسائیت پر عمل کرنا خطرناک ہوتا جا رہا ہے’۔ یو سی ایف کے مطابق، چھتیس گڑھ کے بستر، کونڈاگاؤں اور اتر پردیش کے اعظم گڑھ کے بعد جون پور میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 13 واقعات رپورٹ ہوئے – جو اس سال ملک میں چوتھا بدترین واقعہ ہے۔

بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعدپریشانیوں میں اضافہ ہوا

سال 2018 میں ہندو جاگرن منچ کے ایک کارکن کی شکایت پر درگا پرساد یادو اور اس کے کئی ساتھی پادریوں سمیت 270 دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ درگا پرساد نے غریب لوگوں کو لالچ دے کر عیسائی بنانے کی کوشش کی۔ ایف آئی آر عدالت کے حکم پر درج کی گئی تھی۔

اس وقت اتر پردیش میں غیر قانونی تبدیلی مذہب کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا۔

ان پر مختلف تعزیری جرائم کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، جن میں دوائیوں کی آڑ میں خطرناک ادویات اور دیگر ممنوعہ اشیاء دینا، دھوکہ دہی، پریئر سینٹر کی بے حرمتی، لوگوں کو یہ یقین دلانا کہ فلاں چیز سے گاڈ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا، زہر سے نقصان پہنچانا اور مجرمانہ سازش وغیرہ شامل ہیں۔

اگرچہ انتظامیہ نے سینٹر میں پریئرپر پابندی لگا دی،  لیکن درگا پرساد گرفتاری سے بچ گئے اور بالآخر الہ آباد ہائی کورٹ سے  انہوں نے اسٹے حاصل کر لیا۔ مرکز کے منتظمین نے جبری مذہب تبدیل کرنے کے الزامات کی بھی تردید کی ہے۔

گزشتہ 29 ستمبر کو زمین کا سروے کرنے آئے پولیس فورس اور ریونیو اہلکاروں پر پتھراؤ کرنے اور حملہ کرنے کے الزام میں درگا پرساد کے بھائی، بیٹی، بیٹے، بھتیجے اور 15-20 دیگر نامعلوم افراد سمیت 12 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اہلکاروں پر مبینہ طور پر لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا گیا۔

ریونیو انتظامیہ کے ایک اہم اہلکار نائب تحصیلدار حسین احمد نے اپنی شکایت میں دعویٰ کیا کہ وہ (پادری، اس کے خاندان اور ساتھی) زمین کی قانونی حیثیت کی تحقیقات کرنے والے اہلکاروں کو ‘سبق’ سکھانا چاہتے تھے۔

پولیس نے 9 اکتوبر کو پادری درگا پرساد یادو، پادری سنجے مسیح، منوج جیکب اور لیلایادو کو گرفتار کیا(تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

پولیس نے 9 اکتوبر کو پادری درگا پرساد یادو، پادری سنجے مسیح، منوج جیکب اور لیلایادو کو گرفتار کیا(تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

احمد نے الزام لگایا کہ تشدد میں تین تحصیل افسران اور چار پولیس اہلکار زخمی ہوگئے، جبکہ ایک سرکاری ایس یو وی کو نقصان پہنچا۔

ایف آئی آر میں قتل کی کوشش، مجرمانہ سازش اور فسادات سمیت ایک درجن سے زائد الزامات لگائے گئے ہیں۔

گزشتہ ایک  اکتوبر کو درگا پرساد کے خلاف عوامی املاک کو نقصان  پہنچانے سے متعلق ایکٹ، 1984 کی دفعہ 3 اور 5 کے تحت ایک اور ایف آئی آر درج کی گئی، جب ایک ریونیو ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پرائیویٹ زمین کے علاوہ پریئر سینٹر نے گرام سبھا اور سمادھی کی زمین پر ‘غیر قانونی طور پر’ قبضہ کر لیا ہے اور اسے احاطے میں شامل کر لیا ہے۔

ایک دلت شخص، دھرم راج کی شکایت پر اسی دن سخت ایس سی ایس ٹی  ایکٹ 1989 کی دفعہ 3 (2) (وی ات) کے تحت تیسری ایف آئی آر درج کی گئی تھی ، جنہوں  نے الزام لگایا  تھاکہ درگا پرساد نے غیر قانونی طور پر 10سے 12 سال قبل ڈرا دھمکا کر سمادھی کی زمین کو پریئر سینٹر کے نام کرا لیا تھا۔

درگا پرساد، ان کی بیوی لیلا اور بھائی جئے پرکاش کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا اور ان پر مجرمانہ سازش کا الزام لگایا گیا تھا۔

گزشتہ 9 اکتوبر کو پولیس نے یادو، ان کی بیوی، بیٹے منیش اور ساتھیوں، مرزا پور کے پادری سنجے مسیح اور راشٹریہ عیسیٰ مہاسنگھ یوپی کے صدر منوج جیکب کو گرفتار کیا ہے۔

پولیس نے درگا پرساد یادو کے خلاف یوپی غیر قانونی تبدیلی مذہب روک تھام  ایکٹ 2021 کے تحت بھی مقدمہ درج کیا ہے۔

اکھل بھارتیہ کشتریہ مہاسبھا یووا کے سکریٹری سرویش سنگھ، جو پریئر سینٹر کے خلاف مہم کی قیادت کر رہے تھے، نے کہا، ‘میں اپنے مذہب کو بچانا چاہتا ہوں۔وہاں  مرکز میں جو لوگ تھے وہ سب ہندو تھے۔ کوئی بھی عیسائی نہیں تھا۔ ان کا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔’

سنگھ پہلے بھی  درگا پرساد کے خلاف کئی شکایتیں درج کراچکے ہیں۔

اب منہدم ہوچکے مرکز سے وابستہ زیادہ تر لوگ یا تو جیل میں ہیں یا مفرور ہیں۔ اس لیے ان کے خلاف الزامات پر ان کا تبصرہ حاصل کرنا مشکل تھا۔

ان کے قریبی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی وائر کو بتایا کہ اگرچہ 1970 کی دہائی کے اواخر میں زمینی استحکام کی اصلاحات کی وجہ سے مرکز کے ایک حصے میں گرام سبھا کی زمین شامل تھی، انتظامیہ اسے کمپلیکس کے باہر درگا پرساد یادو کی ملکیت والی اضافی زمین کے ساتھ تبدیل کرسکتی تھی۔

ذرائع نے کہا کہ اتنے طویل  عرصے سے موجود ڈھانچے کو گرانا انتظامیہ کی جانب سے ناانصافی تھی۔ انہوں نے سوال کیا، ‘ان حصوں (یا علاقوں) میں بہت سی چیزیں غیر قانونی ہیں۔کیا وہ جا تے ہیں ہر مندر اور مسجد کی زمین کی رجسٹری چیک کرتے ہیں کہ کیا یہ غیر قانونی زمین پر بنایا گیا ہے؟‘

انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔