ذات کا تعارف: بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے دی وائر نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ دوسرا حصہ سنتراش ذات کے بارے میں ہے۔
گزشتہ 2 اکتوبر 2023 کو جب بہار حکومت کے ایڈیشنل چیف سکریٹری وویک کمار سنگھ نے ذات پر مبنی سروےرپورٹ کی پہلی قسط جاری کی تو اس نے بلاشبہ سیاست کے گلیاروں میں ہلچل مچا دی۔ اس رپورٹ نے حزب اختلاف کے ‘انڈیا’ اتحاد کے حملے کو ایک نئی دھار دی اور کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی کہنے لگے- جتنی آبادی، اتنا حق۔
دوسری طرف بیک فٹ پر آئی بی جے پی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس نے بہار میں ذات پر مبنی سروے کی مخالفت نہیں کی۔ تاہم ،یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جب نتیش کمار کی قیادت میں بہار کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا مطالبہ کیا تو حکومت کا ردعمل منفی تھا۔
خیر،سیاست کے گلیاروں میں جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے، اس قطع نظربہار حکومت کی رپورٹ نے نسلیات (قوم نگاری )میں دلچسپی رکھنے والوں اور سماجیات کے سامنے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ان میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ان ذاتوں کا کیا ہوا، جن کا ذکر 1931 کی مردم شماری رپورٹ میں ملتا ہے یا جن کا ذکر کاکا کالیلکر کمیشن یا منڈل کمیشن کی رپورٹ میں ملتا ہے؟
ایک ذات ہے – سنتراش۔
یہ ایک دلچسپ ذات رہی ہے اور اس کی وجہ اس کا پیشہ ہے۔ یہ وہ ذات ہے جس کے لوگ لوہے کی چھینی اور ہتھوڑے سے پتھر تراشتے آئے ہیں۔ اسی لیے انہیں چھتیس گڑھ میں سنگ تراش بھی کہا جاتا ہے۔ لسانیات کے نقطہ نظر سے بھی یہ ذات بے مثال ہے۔ تراش فارسی زبان کا لفظ ہے۔ جب اس میں سنگ (پتھر)کا اضافہ ہوتا ہے تو سنگ تراش بنتا ہے۔ لیکن یہ مسلمان نہیں ہوتے ۔یہ ہندو ہوتے ہیں۔
تاہم، اس بات کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے کہ اس ملک میں جتنے بھی محل، قلعے اور مندر وغیرہ بنے ، ان میں کام کرنے والے یہ سنگ تراش تھےیا نہیں۔ لیکن روایتی طور پر ان کی مہارت کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کوئی کردار ضرور ادا کیا ہوگا اور کسی وقت وہ پورے ملک میں رہتے ہوں گے۔
لیکن اب اس ذات کا وجود معدومیت کے دہانے پر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ذات کے لوگ اب صرف بہار کے نوادہ ضلع میں رہتے ہیں اور ان کی تعداد کے بارے میں جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ یہ نمبر کوئی من گھڑت اعداد و شمار نہیں ہے۔ یہ اعداد و شمار بہار حکومت نے جاری کیے ہیں۔
ذات پر مبنی مردم شماری-2022 کی رپورٹ میں نوادہ ضلع میں صرف 287 لوگوں نے خود کو سنتراش ذات کا مانا ہے۔ ہاں، اگر دوسری ریاستوں جیسے چھتیس گڑھ، اڑیسہ، اتر پردیش، جھارکھنڈ، مغربی بنگال وغیرہ میں ذات پر مبنی سروے یا ذات پر مبنی مردم شماری ہوتی ہے تو اس ذات کے بارے میں مزید جانکاری سامنے آسکتی ہے۔
اس ذات کے لوگ بہار میں سنتراش اور چھتیس گڑھ میں سنگ تراش کہے جاتے ہیں۔ کام ہر جگہ ایک ہی ہے۔ پتھر کاٹنا۔ روایتی پیشوں کی ترقی تاریخ کے مطالعہ کو انسانوں کے لیے دلچسپ اور مفید بنا سکتی ہے، حالانکہ اس سمت میں بہت کم کام ہوا ہے۔ اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے۔
ان ذاتوں کے لوگ اس وقت کیا کرتے ہیں؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ چونکہ پتھر پر کاریگری اب دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں اور یہ اب مجسمہ سازی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے، اس لیے ہر کسی کو سنتراش یا سنگ تراش نہیں کہا جا سکتا ہے۔
لیکن جو لوگ خود کو سنتراش کہتے ہیں، وہ آج بھی پتھر کاٹ کر روزی روٹی کماتے ہیں۔ یہ پتھروں کاسل بٹہ بناتے ہیں جن پر مصالحہ جات، چٹنیاں وغیرہ پیسی جاتی ہیں۔یہ جگہ جگہ مل بھی جاتے ہیں، لیکن یہ اپنی ذات کو براہ راست عام نہیں کرتے۔ یہ خانہ بدوشوں کی طرح رہتے ہیں، لیکن خانہ بدوش قبیلہ نہیں ہیں۔
چونکہ یہ وہ ذات ہے جو ایک طرح سے کاروبار بھی کرتی ہے، اب چاہے وہ کاروبار پتھر کے سل بٹہ کا ہو یا مورتیوں کا ہی کیوں نہ ہو، تو یہ اپنی ذات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں یہ لوگ خودکو بیلدار ذات سے جوڑتے ہیں، جن کا روایتی کام مٹی کاٹنا ہے۔
ذات کو چھپانا ہی شاید ایک بڑی وجہ ہے کہ آج بہار میں اس ذات کی آبادی صرف ایک نوادہ ضلع میں287 تک محدود ہے۔ بہار حکومت نے انہیں انتہائی پسماندہ طبقے میں شمار کیا ہے۔ جبکہ چھتیس گڑھ میں انہیں پسماندہ طبقے میں شامل کیا گیا ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ دوسری ریاستوں کے سنتراش کہاں گئے؟ ان کے روایتی فن کا کیا ہوا؟ کیا اس ملک کی حکومت کبھی ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے گی؟
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر