ذات کا تعارف: بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے دی وائر نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ چوتھا حصہ کوئری/کشواہا ذات کے بارے میں ہے۔
انسانی تہذیب کی تاریخ میں ہمیشہ سےاقتدار کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ اسی کے باعث سماج میں درجہ بندی ہوتی رہی ہیں، اور اسی سے ذات پات کا نظام وجود میں آیا۔ تاہم، یہ ایک سوال ضرور ہے کہ مغربی ممالک میں تقسیم کرنے والے جن عوامل کی بنیاد پر طبقات بنے، وہ ہندوستانی معاشرے میں ذات پات کا نظام کیسے بن گیا اور اس کے لیےکون ذمہ دارہے؟
آج ہم جس ذات کی بات کر رہے ہیں، وہ کوئی ایک ذات نہیں بلکہ کئی ذاتوں کا مجموعہ ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ سب کاشتکار ذاتیں ہیں۔ خواہ وہ کوئری ہوں، دانگی ہوں یا پھرکاچھی۔ سب سے پہلے ہم کوئری/کشواہا کے بارے میں بات کرتے ہیں جو بہار کی ایک اہم ذات رہی ہے۔
تاہم، اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملتا کہ ان کے ماضی کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے اور ماضی کے کس دور میں وہ کسان سے کوئری/کشواہا کیسے بنے، کسی دستاویز میں یہ نہیں بتایا گیا۔
ہاں،کشواہا کیسے بنا، اس کے بارے میں ایک بات جو پھیلائی گئی ہے اور جس کا کہیں اور حوالہ نہیں ملتا کہ وہ یہ ہے کہ کوئری کا سلسلہ رام کے بیٹے کش سے شروع ہوا تھا۔ لیکن یہ صرف خیالی بات ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج بھی یہ کسان ہی ہیں اور کھیتی باڑی ہی ان کا روایتی پیشہ رہا ہے۔
تاہم،بعض مقامات پر انہیں کھشتری بھی کہا گیا ہے اور اس ذات کے لوگ خود کو کھشتری ماننے میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن کھشتریہ کی تعریف ہمیشہ سےمبہم رہی ہے۔
مثلاً ایک تو یہ کہ جس کے پاس کھیشتر ہو اسے کھشتریہ کہا جاتا ہے۔ دوسری تعریف جیوتی راؤ پھولے نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ‘غلامگیری’ میں جو 1873 میں دی، اس کے مطابق،توکھشتریہ دراصل کھیشتریہ یعنی مقامی جنگجو رہے، جنہوں نے آریائی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا۔ تیسری تعریف جو آج کے دور میں عمل میں لائی جا رہی ہے،اس کے مطابق راجپوت ہی کھشتریہ ہے اور کھشتریہ ہی راجپوت ۔
مذکورہ بالاتعریفوں میں سے کسی سے بھی کوئری ذات کی پہچان واضح نہیں ہوتی۔ مطلب یہ کہ نہ تو ان کے پاس خوب ساری زمین رہی ہے کہ انہیں کھشتریہ کہاجائے اور ویسے بھی کھشتریہ کا مطلب ہے جو کھیشتر کی حفاظت کرے۔ جب گزر بسر کے لیے زمین بھی نہ ہو تو انسان کس کی حفاظت کرے؟ جیوتی راؤ پھولے کی تعریف ایک وسیع تعریف ہے اور ممکن ہے کہ اس ذات کے لوگ علاقائی جنگجوؤں میں بھی شامل رہے ہوں، لیکن اس کی گواہی کون دے گا؟
خیر، ہندوستانی ہندو معاشرہ اس قدر منقسم ہے کہ پیشہ ورانہ مماثلت کے باوجود اتحاد ممکن نہیں ہے۔ جیسے کوئری/کشواہا کھیتی کرتے ہیں۔ لیکن کھیتی کرنے والے اور بھی ہیں۔ کہنے کو تو برہمن، بھومیہار اور راجپوت بھی اپنے آپ کو کسان کہتے ہیں۔ لیکن ان کی کسانی اور کوئری/کشواہاکی کسانی میں فرق ہے۔ ان کے پاس کھیتی کے لیے بڑی زمینیں ہیں۔
زمینی اصلاحات یا اصلاحات اراضی کا مرکزی خیال – زمین جوتنے والےکی – کا کوئی مطلب نہیں۔ان کے پاس زمین پر حق ہے، لیکن وہ کاشتکاری نہیں کرتے۔ کھیتی کرنے کا کام دوسری ذاتیں کرتی ہیں، جن میں سے ایک کوئری/کشواہا بھی ہیں۔ اسی طرح ایک کرمی ذات بھی ہے جو کھیتی باڑی کرتی ہے۔ ان کے پاس برہمنوں، راجپوتوں اور بھومیہاروں کی طرح بہت زیادہ زمینیں نہیں ہوتیں، لیکن ان کے پاس یقیناً کوئری، یادو، دانگی، کشواہا، کوری، کاچھی وغیرہ کے مقابلے زیادہ زمین ہوتی ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ پیشہ ورانہ مماثلت کے باوجود کوئی اتحاد نہیں ہے۔ زمین کی جوت کی بنیاد پر بھی درجہ بندی کی جاتی تو یہ ممکن تھا کہ چھوٹے کسان یا بڑے کسان کے طور پر درجہ بندی ہو تی اور سب ایک دوسرے کو اپنے ساتھ بٹھاتے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کرمی اور دانگی بھی کوئری کوپاس بٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے لیے وہ محض کوئری ہیں،گویا ہم خلد سے نکالے گئے آدم ہیں، جن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
جبکہ 2017 سے پہلے جب بہار میں کشواہا اور دانگی کو کاسٹ سرٹیفکیٹ جاری کیاجاتا تھا، تب ذات کے طور پر کوئری اور ذیلی ذات کے طور پر کشواہا یا دانگی لکھا جاتاتھا۔
اس کو سماجی اور ثقافتی سطح پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ دانگی برادری جو کہ کوئری کی سب سے قریبی برادری ہے اور اس سے تھوڑی ہی دوری پر یادو برادری ہے، دونوں کا پیشہ تقریباً ایک جیسا ہے، لیکن نہ تودانگی کے ساتھ بیٹی اور روٹی کا رشتہ ہے اور نہ ہی یادوکے ساتھ۔
لیکن بہار میں کوئری کئی وجوہات کی بناء پر اہم رہے ہیں۔ ایک وجہ یہ رہی کہ تعداد کے لحاظ سے کوئری ذات کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ مثال کے طور پر، بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ-2022 کے مطابق، آج بہار میں کوئری/کشواہا کی آبادی 55 لاکھ 6 ہزار 113 ہے جبکہ دانگی کی آبادی صرف 3 لاکھ 36 ہزار 629 ہے۔ یہ توتازہ ترین اعداد و شمار ہے اور یہ جس وجہ سے سامنے آیا ہے، وہ انتہائی دلچسپ ہے۔
دراصل اس وقت جمہوری سیاست کا کھیل بڑا نرالا ہے۔ 2017 سے پہلے دانگی بہار میں پسماندہ طبقے (پچھڑا) کے دوسرے ضمیمہ (اپینڈکس) میں شامل تھے، جس میں کوئری کے علاوہ یادو اور کرمی بھی شامل تھے۔ سرکاری زبان میں اسے اپینڈکس— 2کہتے ہیں۔ لیکن 2017 میں نتیش کمار کی حکومت نے دانگی برادری کو پسماندہ طبقے کے پہلے ضمیمہ میں ڈالا اور انتہائی پسماندہ طبقے کاتمغہ اس کے گلے میں لٹکا دیا۔ یہ بے وجہ نہیں تھا۔
دراصل، پہلے کیا تھا کہ کشواہا/کوئری کے علاوہ مالی (آج کی تاریخ میں 3 لاکھ 49 ہزار 285)، گنگوتا (آج کی تاریخ میں 6 لاکھ 48 ہزار 943) وغیرہ کو ملاکر ایک بڑا سیٹ بنتا تھا، جس کے اپنےسیاسی مضمرات تھے۔
اس عددی قوت کا نتیجہ تھا کہ بہار میں او بی سی کا پہلا وزیر اعلیٰ اسی برادری سے تھا۔ نام تھا ستیش پرساد سنگھ۔ تاہم، عددی قوت کی وجہ سے انہیں بی پی منڈل کے لیے صرف دو دنوں کے اندرکرسی خالی کرنی پڑی تھی۔
جگدیو پرساد بہار میں اس ذات گروپ کے سب سے بڑے اور انقلابی لیڈر ثابت ہوئے، لیکن کم عددی طاقت کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کی کرسی تک نہیں پہنچ سکے۔ 1974 میں بہار کے کرتھا بلاک میں ان کے قتل کے بعد یہ اتحادختم ہو گیا۔ آج کوئری/کشواہا برادری اپنی سیاست میں مصروف ہے اوردانگی بھی خاموش نہیں ہیں۔ ناگمنی (جگدیو پرساد کے بیٹے) اور باغی پرساد ورما نے اپنی سیاست کو متحرک رکھا ہے۔
یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ منڈل تحریک کی وجہ سے تمام ذاتوں میں قیادت تیار ہوگئی ہے۔ تاہم اس کے مضر اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ لیکن یہ دیکھیے کہ چونکہ کوئری ذات کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، اس لیے ان کی سیاسی مانگ کتنی ہے۔ بی جے پی اور جے ڈی یو دونوں نے کشواہا برادری سے تعلق رکھنے والے سمراٹ چودھری اور امیش کشواہا کو اپنا ریاستی صدر بنایا ہے۔ کشواہا کی سیاست میں ایک الگ پہچان بنانے والے ایک اور لیڈر ہیں، ان کا نام اوپیندر کشواہا ہے۔
وہیں، دانگی برادری کے لوگ اکڑ میں رہتے ہیں کہ انہیں پسماندہ سے انتہائی پسماندہ بنا دیا گیا۔ جبکہ ان کے یہاں بھی بڑکی دانگی (بڑی دانگی) اور چھوٹکی دانگی (چھوٹی دانگی) کی تقسیم ہے۔ یہاں بھی بنیادی فرق زمین کی جوت پر منحصر ہے۔ بڑی دانگی کے پاس بڑی جوت ہے اور چھوٹی دانگی کے پاس چھوٹی جوت۔ تاہم، ایک اور فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ کل دیوتا ایک ہونے کے باوجود بڑکی دانگی اپنے آپ کو اعلیٰ سمجھتے ہیں، کیونکہ ان میں بیوہ کی دوبارہ شادی کی روایت نہیں ہے۔
اس بارے میں بہار اسمبلی کے سابق ممبر این کے نندا کا کہنا ہے کہ ‘جگدیو پرساد بڑی دانگی سے آتے تھے۔ لیکن پہلی بار انہوں نے ہی شاکھا (بڑی دانگی اور چھوٹی دانگی) کو توڑکر روٹی بیٹی کا رشتہ قائم کرنے کی اپیل کی ۔ وہ تواہیر، کرمی، کوئری اور دانگی کے درمیان بھی شادی کے حق میں تھے۔
دانگی برادری کے لوگ بھلے ہی تعداد میں کم ہوں، لیکن تعلیمی اور معاشی بنیادوں پر وہ کوئری/کشواہا برادری سے آگے رہے ہیں۔ جب جگدیو پرسادنے بڑی دانگی برادری سے آنے کے باوجود اپنے بیٹے سینا پتی کی شادی ایک کوئری خاندان میں کی تب دانگی برادری کے لوگوں نے ان کا سماجی بائیکاٹ کردیا اور کوئری/کشواہا برادری نے انہیں قبول کرلیا۔ تاہم بعد میں جب جگدیو پرساد پٹنہ میں اپنے لیےٹھکانہ تلاش کر رہے تھے تو پٹنہ کے مرلی چک کے دانگی برادری کے لوگوں نے ہی انھیں رہنے کے لیے زمین دی۔ آج جہاں ان کا بنایا گھرہے، جگدیو پرساد کے نام سے ہی جانا جاتا ہے اور یہ بیلی روڈ کے بالکل ساتھ میں ہے۔
نندا کہتے ہیں کہ ‘اب شاکھاتوڑ شادیاں اور کوئری — دانگی کے درمیان شادیاں ہونے لگی ہیں۔ حالانکہ یہ شرح اب بھی بہت کم ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ تبدیلی کا دور شروع ہو چکا ہے۔
بہرحال، چاہے کوئری ہوں، کشواہا ہوں ، دانگی ہوں یا کوری-کاچھی، بنیادی طور پر سبھی کسان ہیں اور یہی ان کی پہچان ہے۔ اگر اس شناخت کی بنیاد پر ان میں اتحاد ہوگا تو جگدیو پرساد کا یہ نعرہ حقیقت کا روپ دھارے گا کہ- دھن، دھرتی اور راج پاٹ میں نوے بھاگ ہمارا ہے۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر