ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ آٹھواں حصہ رنگ ریز کے بارے میں ہے۔
رنگ ریز اس ملک میں تہذیب و ثقافت کی علامت رہے ہیں۔ ان کا اپنا ماضی رہا ہے۔ آپ چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار رہے ہیں۔ ان کے لیے سب برابر تھے۔ ذات یا مذہب کا کوئی فرق نہیں ہے۔ انہوں نے سب کے کپڑے رنگے۔ سب کے کپڑے پر چھاپ لگائی ۔ اسی لیے امیر خسرو نے بھی لکھا —
چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملاے کے
پریم بھٹی کا مدوا پلاے کے متواری کر دینہیں رے
بل بل جاؤں میں تورے رنگ رجوا
اپنی سی رنگ دینہیں رے موسے نیناں ملائی کے
سیکولر ہندوستان پر یقین رکھنے والوں کے لیے امیر خسرو کا یہ گیت کسی خوشگوار احساس سے کم نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کی میکانائزیشن نے رنگ ریزوں کی روزی روٹی چھین لی ہے۔ ثقافتی طور پر ان کے برے دن اسی وقت شروع ہوگئے تھے جب رنگریزی کو ہندو اور مسلمان میں بانٹ دیا گیا۔
اگر ہم تھوڑا سا تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں رنگ ریزوں کا سنہرا ماضی نظر آتا ہے۔ پھر چاہے وہ اودھ کے علاقے ہوں یا سلطنتِ دہلی کے وہ دن جب لال قلعہ کے مینا بازار میں رنگ ریزوں کا رتبہ کسی منصب دار سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اتر پردیش کے روہیل کھنڈ علاقے میں بھی رنگ ریزوں کا دبدبہ تھا۔ اور بنارس تو ان کا اپنا گھر رہا۔ بنارسی ساڑیوں پر رنگ ریزوں کا کام آج بھی بولتا ہے۔ رنگریز بہار اور مغربی بنگال میں بھی رہے ۔ وہ پنجاب میں بھی رہے۔
اگر ہم صرف بہار کی بات کریں تو بہار حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ذات پر مبنی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ان کی آبادی صرف 43 ہزار 347 ہے۔ یہ آبادی بھاگلپور، پٹنہ، نالندہ، بکسر وغیرہ اضلاع میں رہتی ہے۔ ظاہر ہے یہ تعداد بہت کم ہے۔
ایسا کیوں ہے، اس کے پیچھے ایک جامع تحقیق کی ضرورت ہے، جو یہ بتائے کہ جن رنگ ریزوں کی دکانوں سے بازاروں کی رونق رہتی تھی، وہ کہاں گئے؟ کیا انہوں نے پیشہ بدلنے کے بعد اپنی ذات بھی بدل لی؟
رنگ ریزمسلمان ہوتے ہیں۔ تاہم، ہندوؤں میں بھی رنگوا ہوتے ہیں، جن کا کام رنگ ریزوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ بہار میں رنگوا ذات کے لوگوں کی آبادی صرف 3001 رہ گئی ہے۔
رنگ ریزوں کی سماجی حیثیت کے بارے میں بات کریں تو انہیں سنی مسلمان سمجھا جاتا ہے اور اگرچہ وہ اپنے پیشے کی وجہ سے اچھوت نہیں سمجھے جاتے ہیں، لیکن وہ مومنوں (جلاہوں) کی طرح اشرف مسلمانوں کے عزت اور احترام کے لائق نہیں سمجھے جاتے ہیں۔
جہاں تک سیاسی حصے داری کا تعلق ہے، تو بہار میں ان کی آبادی کل آبادی کا صرف 0.0332 فیصد ہے اور موجودہ جمہوری سیاست میں اس تعداد کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ یہ برادری، یہ ذات اور اس کا پیشہ، جو سماجی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی حملوں کا شکار ہے، اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ کیونکہ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ کچھ لوگ اب بھی اپنے فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن جب روٹی ہی میسر نہ ہو تو کب تک خالی پیٹ زندہ رہیں گے؟
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر