ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ دسواں حصہ گورکن کے بارے میں ہے۔
ذات پات کا نظام پہلے وجود میں آیا یا مذہب کا؟ یا یوں کہنا چاہیے کہ مذہب پہلے وجود میں آیا اور ذات پات کا نظام بعد میں؟ یہ کوئی بہت پیچیدہ سوال نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کے پہلے پیشہ وجود میں آیا۔ پیشوں کی وجہ سے بھی انسانوں میں اجتماعیت قائم ہوئی۔ مثال کے طور پر زراعت کو لے لیں۔ زراعت ایک سماجی پیشہ ہے، جس میں تمام ذات کے لوگوں کا رول ہوتا ہے۔ کوئی تن تنہا چاہے بھی تو کھیتی باڑی نہیں کر سکتا۔ اور شروع میں زراعت ایک پیشہ ہی تھا، جسے تمام لوگوں نے اپنایا۔ لیکن تقسیم بھی اسی بنیاد پر ہوئی۔
خیر، ہم ذات پات کی تشکیل کی نہیں، کسی ذات کے ختم ہونے کی بات کر تے ہیں۔ سال 1931 میں کرائی گئی آخری ذات پر مبنی کل ہند مردم شماری کی رپورٹ میں بہت سی ذاتیں تھیں جو اب کم از کم بہار میں نہیں ہیں۔ یہ بات بہار حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ-2022 کی بنیاد پر کہی جا سکتی ہے۔ انہی ذاتوں میں سے ایک ہے – گورکن۔ بہار حکومت کی رپورٹ میں یہ ذات ندارد ہے۔
یہ ایک ایسی ذات ہے، جس کا تعلق اسلام سےبالکل ویسا ہی ہے جو ڈوم ذات کا ہندو دھرم سےہے۔ جس طرح ہندو مذہب میں مرنے والوں کو ڈوم ذات کے ہاتھوں سے دی گئی آگ سے ہی ‘نجات’ ملتی ہے، اسی طرح اسلام میں گورکن کی محنت کی وجہ سے ہی مردےسپرد خاک ہوتے ہیں۔
دراصل قبریں کھودنے والوں کو گورکن کہتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی مرتا ہے، اس کی اطلاع سب سے پہلے گورکن کو دی جاتی ہے۔ گورکن میت کے لواحقین کی طرف سے بتائی گئی جگہ پر جا کر قبر کھودتے ہیں۔ لیکن ان کا کام صرف قبریں کھودنا نہیں ہے۔ وہ سب سے آخری لوگ ہوتے ہیں جو مدفون کے پاس ہوتے ہیں۔ ان کا کام سب سے آخری میں قبر میں مٹی دینا ہوتا ہے، یوں کہیں کہ قبر کو بھرنا۔
بہار میں یہ کام کرنے والے گورکن کہے گئے۔ فارسی میں گور کا مطلب ہے قبر اور کن کھودنے والا۔ ان کا پیشہ یہی تھا اور اس ذات کے لوگوں کی سماجی حیثیت ارذالوں کی سی ہے۔
درحقیقت اسلام میں –ایک مذہب کے طور پر– یقیناً کوئی امتیاز نہیں ہے، لیکن سماجی سطح پر امتیازی سلوک نظر آتاہے۔ مثلاً اشراف وہ ہیں جن کے پاس زمین، جائیداد اور سماجی وقار ہو۔ ان میں شیخ، سید، مغل اور پٹھان شامل ہیں۔ دوسرے اجلاف وہ ہیں جو خدمت کرنے والی ذات ہیں۔ بڑھئی، حجام، ادریسی (درزی)، رنگ ریز وغیرہ ذاتیں اسی زمرے میں آتی ہیں۔
ہم چاہیں تو ان کو ہندوستانی آئینی نظام میں درجہ بند پسماندہ طبقات کے برابر سمجھ سکتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ان میں شامل ذاتوں کو اچھوت نہیں سمجھا جاتا۔ جبکہ تیسری ارذال وہ ذاتیں ہیں جن کے لیے آج بھی چھواچھوت جاری ہے۔ مثلاً لال بیگی، حلال خور اور گورکن وغیرہ۔
لیکن گورکن ذات کے لوگ اب بہار میں نہیں ہیں۔ کم از کم اعدادوشمار کی حد تک تونہیں ہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ذات معدوم ہو گئی ہے؟ اور اگر ختم ہو گئی تو قبریں کھودنے کا کام کون کرتا ہے؟
جواب یہ ہے کہ گورکن اب بھی موجود ہیں، لیکن بدلتی ہوئی معیشت نے انہیں اپنا پیشہ بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پہلے کیا ہوتا تھا کہ گورکن برادری کو مذہبی تحفظ حاصل ہوتا تھا اور انہیں زندہ رہنے کے لیے مدد دی جاتی تھی۔ جب تک یہ نظام تھا وہ اسی شناخت کے ساتھ رہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحفظ ختم ہو گیا۔ اور قبریں کھودنے کا کام دوسری ذاتوں نے کرنا شروع کر دیا جن میں نٹ سرفہرست ہیں۔
بہار کی یہ ذات بھی بہت دلچسپ ہے۔ وہ ہندو بھی ہے اور مسلمان بھی۔ مثال کے طور پر اس وقت بہار میں ہندو مذہب کے نٹ ذات کے لوگوں کی آبادی 1 لاکھ 5 ہزار 368 ہے اور اسلام مذہب کے ماننے والے نٹ ذات کے لوگوں کی آبادی 61 ہزار 629 ہے۔
تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ گورکن ذات کے لوگوں نے نٹ ذات کے طور پر اپنی ذات کو تبدیل کیا ہے یا نہیں۔ لیکن اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اور اس بات سےبھی نہیں کہ اپنا پیشہ بدلنے کے بعد انہوں نے اپنی ذات کی شناخت بھی بدل لی ہو۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر