ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ تیرھواں حصہ کَمار کمیونٹی کے بارے میں ہے۔
ذاتوں کا نام کس نے رکھا؟ اس سوال کا جواب صرف وہی دے سکتا ہے جس نے ذاتیں بنائیں۔ اب دیکھیے کہ بہت سی ذاتیں ہیں جن کے نام کتنے اچھے ہیں، جیسے کہ برہمن ایک ذات ہے۔ اس نام میں ہی عزت و احترام کا جذبہ شامل ہے۔ ایسی ہی ایک ذات کایستھ ہے۔ یہ سن کر ہی لگتا ہے کہ اس نام کا کوئی خاص مطلب ہے۔ ایسی ہی ایک ذات ہے بھومیہار، جسے سن کر کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کوئی ایسی ذات ہے جس کا تعلق زمین سے ہے اورجیسے ‘ہون’ کے ساتھ ‘ہار’ لگانے پر ‘ہونہار’ ہو جاتا ہے، ویسے ہی’بھومی’ کے ساتھ ‘ہار’ لگانے پر ‘بھومیہار’۔ ایسی ہی ایک ذات ہے راجپوت ہے۔ کچھ کہے بغیر کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ وہ ذات ہے جس کا مطلب راج کرنا ہے۔
یقیناً یہ سماجی وقار کی علامت بھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا چار ذاتیں اونچی ذاتیں ہیں، اس لیے ان کے نام ان کے سماجی رتبے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جہاں تک باقی ذاتوں کا تعلق ہے تو ایسی کوئی ذات نہیں جس کے نام میں عزت واحترام کا پہلو شامل ہو۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کوئری رام کے بیٹے کش کے نام پر خود کو کشواہا کہنے لگے ہیں۔ بَھر ذات کے لوگوں نے بھی اس کے آگے راج جوڑ کر خود کو راج بھر کہنے لگے ہیں۔ اسی طرح رمانی/کَہار ذات کے لوگوں نے اپنی ذات کو چندرونشی کہنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے ہی چمار ذات کے لوگ بھی اپنے آپ کو روی داس کہتے ہیں۔
درحقیقت دنیا میں کوئی ایسا نہیں جسے عزت پسند نہ ہو۔ معاشرے میں عزت ہر کوئی چاہتا ہے، لیکن عزت کی اس بھوک کے گہرے مضمرات ہیں۔
بہار میں ایک ذات ہے کَمار۔ چمار اور کمار کے نام میں فرق صرف ورن کا ہے، لیکن مماثلتیں بہت ساری ہیں۔ مثال کے طور پر چمار ذات بھی ایک کاریگر کی ذات ہے۔ وہ مردہ جانوروں کی کھال سے ہر قسم کی اشیاء بناتے ہیں۔ بادشاہ کے زرہ بکتر سے لے کر جوتے تک۔ تمام آواز بڑھانے والے آلات چمار ذات کے لوگوں نے ہی بنائے ہیں۔ لیکن کَمار بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ انہوں نے انسانی تہذیب کو ایک سے بڑھ کر ایک سوغات دیے ہیں۔ اگر آپ نے گاؤں کی زندگی گزاری ہے تو کوئی بھی چیز جو لکڑی یا لوہے کی بنی ہو، وہ انہی کی دین ہے۔
یہ تو وہ ہیں جن کے لیے یہ کہاوت کہی گئی ہے کہ ‘جیتے لکڑی، مرتے لکڑی ، دیکھ تماشہ لکڑی کا۔’
مطلب یہ کہ کَمار بڑھئی اور لوہار دونوں ہیں۔ یایوں کہیے کہ کَمار ایک ایسا مجموعہ ہےجس میں تین برادریاں شامل ہیں – لوہار، بڑھئی اور کرمکار۔ دراصل، کرمکار ایک بالکل نیا لفظ ہے اور یہ کیوں ہے، اس کی سیاسی اور سماجی وجوہات ہیں۔ لیکن اس سے پہلے یہ جان لیں کہ ان لوگوں کے ہنر کے بغیر آج بھی انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ خواہ آپ سونے کے لیے پلنگ کی بات کریں، چارپائی کی بات کریں یا کچن کی بات کریں۔ یہاں تک کہ ارتھی بھی یہی لوگ بناتے ہیں۔
دراصل ذاتوں کے نام پر دو کام کیے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ‘اونچی’ ذات کے لوگوں نے اس کے ذریعے اپنی عزت کو یقینی بنایا، تو دوسری جانب، محنت کرنے والی نچلی ذاتوں کی محنت کی بے قدری کی گئی۔ انہیں بتایا گیا کہ ان کا کام کیا ہے اور وہ عزت کے مستحق نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر معاشرے کو صاف ستھرے کپڑے فراہم کرنے والے کو دھوبی کہہ کر توہین کی گئی، گائے اور بھینسیں پالنے والوں کو گوالا یا گوار کہہ دیا گیا تو چمڑے کا کام کرنے والوں کو چمار اور لوہے اور لکڑی کاکام کرنے والوں کو کَمارکہہ کر ان کی محنت کا مذاق اڑایا گیا۔
تو بنیادی بات یہ ہے کہ سماج کی درجہ بندی اور محنت کی بے قدری ہی ذات پات کے نظام کی بنیاد میں ہے۔ لیکن یہ بات 1990 سے پہلے کی ہے۔ ہندوستان کی تمام کاریگروں اور کاشتکار ذاتوں کے نقطہ نظر سے 1990 واقعی میں کمال کا سال تھا۔ اس سال منڈل کمیشن کی سفارشات ا نافذ ہوئیں۔ تاہم اس کا ایک کارنامہ یہ تھا کہ پسماندہ ذاتوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 27 فیصد ریزرویشن کا انتظام کیا گیا۔ لیکن اس کے سماجی اثرات بہت گہرے تھے۔
اس ایک قدم نے ہندوستان میں سماجی انقلاب کا آغاز کیا، جس نے کَماروں کو کرمکار اور چماروں کو چرمکار کہنے کے لیے مجبور کر دیا۔ لیکن یہ بھی کسی سازش سے کم نہیں کہ آج حکومتی سطح پر ان کی محنت اور ہنر کا سہرا ہندو دیوتا وشوکرما کو دیا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ ہنر ان کا اپنا ہے اور محنت ان کی اپنی ہے۔
دراصل کَمار ذات کے لوگوں کو بڑھئی، لوہار اور کَماروں میں تقسیم کرنے کے پیچھے سیاسی سازش کارفرما ہے کہ حکمران طبقہ ان لوگوں کو متحد نہیں دیکھنا چاہتا۔ ایک حالیہ اور سرکاری ثبوت حکومت بہار کی طرف سے جاری کی گئی ذات پر مبنی سروے رپورٹ-2022 ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کَمار (لوہار اور کرمکار) کی آبادی 8 لاکھ 21 ہزار 103 ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بڑھئی ذات کی آبادی 18 لاکھ 95 ہزار 672 ہے۔ اب اگر ہم ان دو اعداد و شمار کو شامل کریں تو بہار میں ان لوگوں کی کل آبادی 27 لاکھ 16 ہزار 775 ہے۔
یہ تعداد بہار میں کایستھوں کی کل تعداد 7 لاکھ 85 ہزار 771 سے تین گنا زیادہ ہے۔ لیکن گورننس میں شرکت بالکل صفر ہے۔ وسائل کے نام پر ان کے پاس صرف ہتھوڑے، چھینی، برما، رندہ اور آری ہیں۔
خیر، بہار حکومت نے ان لوگوں کو انتہائی پسماندہ طبقے میں شامل رکھا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اس کے مستحق ہیں؟
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر