ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ پندرہواں حصہ باری اور بوری کے بارے میں ہے۔
آپ نے انہیں ضرور دیکھا ہوگا، ان کی ایک خاص پہچان رہی ہے۔ میں آپ کو دو اشارے دیتا ہوں۔ اول تو یہ کہ شادی کے موقع پر یہ اپنے سر پر لائٹ (روشنی) لے کر چلتے ہیں۔ دوم یہ کہ ان کے بنائے ہوئے پتوں پر دیہاتوں میں اب بھی شادی بیاہ یا کسی اور تقریب کے موقع پر لوگ کھانا کھاتے ہیں۔
یہ دونوں کا کام کرنے والے باری اور بوری ہیں۔ جو ہندو رہے، وہ باری کہلائے اور جنہوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا، وہ بوری کہے گئے۔ یہ بھی اس ملک میں مذہب پر مبنی معاشرے کا ایک مختلف چہرہ ہے۔
خیرپتے سے یہ بات یاد آئی کہ یہ قبائلی پیشہ ہے۔ بات ان دنوں کی ہے جب نہ تو تانبا تھا اور نہ ہی لوہا۔ یہ بات وادی سندھ کی تہذیب سے پہلے کی کہہ رہا ہوں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب ایک شہری تہذیب تھی اور اس میں قبائلیت اپنی اصل شکل میں موجود نہیں تھی۔ یوں کہیے کہ قبائلی فنون کو خالص کیا جا چکا تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ وادی سندھ کی تہذیب کی تاریخ میں کانسے اور تانبے کے آثار ملتے ہیں۔ موہن جوداڑو میں کھدائی کے دوران برتن ملے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ایک رقاصہ کا مجسمہ بھی ہے۔ ظاہری طور پروہ باری اور بوری نہیں تھے، جنہوں نے ان برتنوں اور مجسموں کو بنایا۔ ویسے بھی پتے کے دونوں اور پتل کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے۔ جلد ہی وہ مٹی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
درحقیقت کسی بھی تہذیب کی ترقی کی کہانی کو نزول سے عروج کی ترتیب میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے جو چیزیں عروج کی ترتیب میں پہلے آتی ہیں وہ معدوم ہو جاتی ہیں۔ یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس ملک کے پہلے باشندوں میں رہے ہوں گے۔ تانبے اور کانسے کے برتنوں سے پہلے کمہاروں نے مٹی کے برتن بنائے۔ لیکن اس ایجاد کو بھی شہری ایجاد تصور کیا جائے گا۔ کمہاروں سے پہلے باری اور بوری رہے ہوں گے، جنہوں پتوں سے کھانے کے برتن بنائے ہوں گے۔
اگرچہ آج یہ بات بالکل بیکار سی لگے، لیکن سوچ کر دیکھیے کہ ان کے آباؤ اجداد نے کس سوچ کے ساتھ اسےایجاد کیا ہوگا۔ سب سے پہلے تو انہیں اس بات کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے اس کی ضرورت محسوس کی کہ زمین پر رکھ کر کھانے کی اشیاء نہیں کھانی چاہیے۔ اس میں تقدس کا جذبہ شامل نہیں تھا بلکہ اہم چیز صفائی تھی۔ زمین پر کھانا رکھ کر کھانے سے اول تو مٹی کے ذرات اس میں میں شامل ہو جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ کھانا زمین پر پڑا رہنے کی وجہ سے جس جگہ کھانا کھایا گیا وہاں اناج کے سڑنے گلنے سے کئی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔
اب اگر ہم اس کو اس زاویے سے دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ پتوں کی ایجاد کتنی اہم تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کے مہنگے اور جدید آلات کا بھی وجود نہ ہوتا۔ لیکن ان کی اس عظیم ایجاد کو تاریخ میں کوئی جگہ نہیں دی گئی۔
خیر، یہ لوگ اب بھی شمالی ہندوستان کی کئی ریاستوں جیسے کہ مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، راجستھان، مہاراشٹر، اتر پردیش، اتراکھنڈ، بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور دہلی میں رہتے ہیں۔ جھارکھنڈ میں انہیں شیڈولڈ ٹرائب کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ بہار میں، وہ انتہائی پسماندہ طبقے میں شامل ہیں۔
تاریخ کے بارے میں بات کریں ،تو ہندوستانی مؤرخین نے انہیں نظر انداز کیا، لیکن غیر ملکی مؤرخین نے اپنے تحقیقی مقالوں میں ان کے بارے میں خواہ تھوڑا سا ہی لیکن حوالہ ضرور دیا ہے۔ مثال کے طور پر، رابرٹ وین رسل نے اپنی رپورٹ میں ان لوگوں کو گھریلو ملازموں اور خادموں کی ذات اور پتوں سے بنی پلیٹیں بنانے والے کے طور پر بیان کیا ہے، جو شمالی ہندوستان میں رہتے ہیں۔’
رسل نے کچھ اور باتیں بھی کہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ بوری/باری لوگ شادیوں اور دیگر تقریبات اور سفر میں مشعل جلانے اور مشعل بردار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے زراعت کو بھی اپنا لیا ہے۔
ابھی حکومت بہار کی طرف سے جاری کی گئی ذات پر مبنی سروے رپورٹ- 2022 کے مطابق، ان کو بہار کی دو الگ الگ ذاتوں کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ باری، وہ جود ہندو ہیں ، ان کی تعداد 61003 بتائی گئی ہے۔ اور وہ جو اب بھی غیر ہندو شناخت کے ساتھ رہ رہے ہیں ، ان کی تعداد 3250 ہے۔ یہ تعداد اس بات کا ثبوت تو ہے ہی کہ یہ لوگ اب بھی موجود ہیں اور چاہے وہ کسی بھی مذہب کی پیروی کرتے ہو، وہ اپنی ‘باری/بوری’ شناخت سے انکار نہیں کرتے ہیں۔
بہار کی راجدھانی پٹنہ کے دلہن بازار بلاک کے نرہی گاؤں میں باری ذات کے وشوناتھ باری کا خاندان رہتا ہے۔ تقریباً 58 سال کے وشوناتھ باری کے والد رام دھیان باری کی موت 2015 میں اس وقت ہو گئی جب وہ ایک درخت پر چڑھ کر پتے توڑ رہے تھے۔ ان کی موت کے بعد وشوناتھ باری کے خاندان نے پتے کا برتن بنانا چھوڑ دیا۔ تاہم، وہ اس کی ایک اور وجہ بھی بتاتے ہیں کہ اب مارکیٹ پہلے جیسی نہیں رہی۔
ان کا کہنا ہے کہ پتل بنانے کے لیے پلاش، بڈ، بہیڑا اور مہوا کے پتے استعمال کیے جاتے تھے۔ یہ ایک محنت طلب کام تھا۔ پہلے درختوں سے پتوں کو توڑنا، پھر ان کو چھانٹنا اور پھر سینک کی مدد سے ایک ساتھ باندھنا، دھوپ میں خشک کرنا، رات کو سردی میں بھیگنے کے لیے چھوڑ دینا اور پھر اگلے دن ان کے بنڈل بنانا ان کا روز کا کام تھا۔
وشوناتھ باری کہتے ہیں کہ اب تو درخت بھی ختم ہو چکے ہیں۔ پتے دستیاب نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے مجھے یہ کام بھی چھوڑنا پڑا۔ اب وہ اور ان کے تین بیٹے دہاڑی مزدوری کرتے ہیں۔ اپنے گھر کے علاوہ ان کے پاس کھیت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہے۔
وشوناتھ باری کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق روپن باری کے خاندان سے ہے۔ وہی روپن باری جن کا چرچا مہوبا کے راجا رہے آلہا اودل کے سپہ سالار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ گیارہویں صدی کی بات ہے۔ آلہا اودل نے پرتھوی راج چوہان کو شکست دی تھی۔
خیر، رسل نے سچ ہی لکھا ہے۔ میرے لوگ صرف پتوں سے دونے اور پتل بنا کر اپنا پیٹ نہیں پال سکتے تھے اس لیے انہوں نے کچھ اور پیشے بھی اختیار کر لیے۔ ان میں مشعل بردار کا پیشہ بھی شامل ہے۔ مشعل بردار کے کام میں تین کام شامل تھے۔ ایک مشعل میں تیل ڈالنا، دوسرا اسے وقت پر روشن کرنا اور تیسرا جب ضروری ہو تو اسے سفر میں لے جانا، جیسا کہ رسل نے لکھا ہے۔
لیکن سر پر چراغ اٹھانے کا مطلب روشنی میں رہنا نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے چراغ تلے اندھیرا کا ہونا۔
ایک اور غیر ملکی مؤرخ نے ان کی جڑیں تلاش کی ہیں۔ ان کا نام ہے- ایم اے شیرنگ۔ انہوں نے ان لوگوں کو ایک آدی واسی قبیلہ بتایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ باری/بوری ذات ایسی ہے،جس میں صرف ایک ہی گوترہے۔
وہ رقمطراز ہیں؛
ان کا خاص مشغلہ پتوں سے پلیٹیں اور پیالے بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مشعل بردار اور حجام کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ چونکہ وہ اپنا زیادہ تر وقت جنگل میں پتے جمع کرنے میں گزارتے ہیں۔ اس لیے وہ نہ صرف پتے، بلکہ جنگل کے درختوں کو کاٹنے کے کاروبار میں بھی مصروف ہیں۔
دراصل جن کے پاس زمین نہیں ہوتی وہ کئی طرح کے پیشے کرتے ہیں۔ ایک پیشے سے روزی کمانا ممکن نہیں ہے۔ باری اور بوری نے بھی کبھی ایک پیشے پر انحصار نہیں کیا۔ اس وجہ سے بھی یہ لوگ صفائی کےکاموں سے وابستہ رہے۔ خیر، اب یہ ذات رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔ معدومیت کا یہ خطرہ ان تمام ذاتوں کو درپیش ہے جن کے روایتی پیشوں کو اب مشینوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر