ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ حصہ بھٹیارا کمیونٹی کے بارے میں ہے۔
بلاشبہ اسلام ایک مذہب طور پر مختلف ہے۔ اس کے صحیفوں میں کہیں کوئی امتیاز یا تفریق نہیں ہے۔ امیر ہو یا غریب، مسجد سے لے کر قبر تک سب کے لیے یکساں اصول و ضوابط ہیں۔ یہ ہندو دھرم کی طرح نہیں ہے، جس کی بنیاد میں کہنے کو تو ‘ وسودھو کٹم بکم’ کا نظریہ ہے اور وید اور منواسمرتی جیسے—انسانوں کو تقسیم کرنے والے صحیفے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کے ماننے والوں میں کوئی امتیاز یا تفریق نہیں ہے۔ یہاں اشراف، اجلاف اور ارذال کے تصور میں ذات پات کے نظام کو دیکھا جا سکتا ہے۔
بہار میں بھٹیارا بھی ایک کمیونٹی ہے، جس کا نام ہی گالی سمجھا جاتا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہ گالی سرعام کسی کو بھی دے دی جاتی ہے اور کوئی اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ خود بھٹیارا بھی اس کی مخالفت نہیں کرتے۔
دراصل احتجاج کے لیے عددی قوت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر میں صرف بہار کی ہی بات کروں تو حال ہی میں بہار حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ-2022 میں اس ذات کے لوگوں کی موجودہ تعداد صرف 27263 ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ اس ذات کے زیادہ تر لوگ بے زمین ہیں اور شہروں میں اکثر سڑکوں کے کنارے دیکھے جاتے ہیں۔
لیکن ہندوستان میں صرف تعداد ہی سماجی طور پر کسی کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر چمڑے کا کام کرنے والی چمار کمیونٹی کی تعداد 6869664 ہے۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے اور اس کے سیاسی اثرات بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس ذات کے لوگوں کو ‘اچھوت’ سمجھا جاتا ہے اور لوگ اکثر اس ذات کا نام گالی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ملک میں شیڈول کاسٹ/ٹرائب پریوینشن آف ایٹروسیٹیز ایکٹ نافذ ہے، جو ایسی ذاتوں کی سماجی تذلیل کو روکتا ہے۔
یہاں تک گائے اور بھینس کی دیکھ بھال کرنے والے اور ان کا دودھ نکال کر روزی کمانے والے ‘گوار’ کہہ کر ذلیل کیے جاتے ہیں، جبکہ ان کی تعداد بہار میں سب سے زیادہ 016500119 ہے اور آبادی میں حصہ داری کے لحاظ سے یہ 14.266 فیصد ہے۔
بھٹیارا دیگر خوشحال کمیونٹی کے لیے ایک فحش لفظ ہو سکتا ہے، لیکن وہ لوگ جو اس ذات سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ اہم لفظ ہے۔ ہندوستانی آئین میں بھی ان کی جگہ ہے۔ یہ لوگ بہار میں انتہائی پسماندہ طبقے اور اتر پردیش میں پسماندہ طبقے میں شامل ہیں۔ وہ نہ صرف یوپی اور بہار میں رہتے ہیں بلکہ راجستھان میں بھی رہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں مغل یہاں لے کر آئے تھے۔
وہ راجستھان میں پسماندہ طبقات میں شامل ہیں۔ چونکہ جھارکھنڈ سال 2000 سے پہلے بہار کا حصہ تھا، اس لیے یہ وہاں بھی ہیں اور اسی زمرے میں شامل ہیں۔ اس ذات کے لوگوں کا مسکن مدھیہ پردیش میں بھی ہے جو غالباً بہت بعد میں روزی روٹی کی تلاش میں اتر پردیش سے ستنا کے علاقوں میں آباد ہوئے۔
تاہم اب اس ذات کے لوگ خود کو کبھی فاروقی اور کبھی شیخ فاروقی کہتے ہیں۔ لیکن انہیں آج بھی سرکاری دستاویزوں اور سماجی سطح پر بھٹیارا ہی سمجھا جاتا ہے۔
لیکن یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس ذات کا تعلق شیرشاہ سوری سے ہے، جنہوں نے ہمایوں کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کیا تھا۔ بہار کے ساسارام میں آج بھی اس حکمراں کی یادیں زندہ ہیں۔ شیر شاہ سوری نے گرینڈ ٹرک روڈ بنوائی تھی، جو کلکتہ سے سیدھے افغانستان تک جاتی تھی۔ بھٹیارا وہ رہے، جن کے کندھوں پر شیر شاہ سوری نے اس سڑک کی دیکھ بھال کے ساتھ سرائے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی۔ آج بھی دہلی میں ایک جگہ سرائے کالے خان ہے۔ یقیناً یہ وہ سرائے رہی ہوگی جو دہلی میں داخل ہونے سے پہلے پڑتی ہے۔
ویسے یہ تاریخ کئی جگہوں پر بیان کی گئی ہے۔ لیکن اتر پردیش میں ان لوگوں کی آبادی الہ آباد اور فتح پور میں زیادہ ہے۔ جبکہ وسطی بہار کے اضلاع میں ان لوگوں کی آبادی بے ساختہ ہی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ جبکہ راجستھان میں یہ لوگ الور، بھرت پور، سیکر، جھنجھنو، بیکانیر، چورو اور ناگور اضلاع میں رہتے ہیں۔
دراصل ان کا تاریخی کام سرائے کی دیکھ بھال کرنا رہا ہے۔ لیکن سب کچھ وقت کی بات ہے۔ جب شیرشاہ سوری کا انتقال ہوا تو اس خاندان کے آخری حکمراں اور شیرشاہ سوری کے بھائی سلیم شاہ سوری تک تو ان کا یہ کام جاری رہا۔ لیکن جب مغلوں کی باری آئی تو ان سے سرائے چھین لی گئی اور ان لوگوں سے شیر شاہ سوری کی بہادری کا بدلہ لیا گیا۔
تاریخ کا تجزیہ کبھی محروم اور شکست خوردہ لوگوں کے نقطہ نظر سےنہیں کیا گیا۔ بھٹیاروں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جو کبھی خود کو افغان سمجھتے تھے، مغلوں کی بالادستی قبول کر کے خود کو کارندہ سمجھنے لگے۔ اور بعض جگہوں پرتو یہ لوگ اپنے آپ کو شیخ کی طرح اشراف سمجھتے ہیں۔ لیکن سمجھنے کا کیا ہے، کچھ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
بہرحال یہی زندگی ہے اور یہی معاشرہ ہے۔ وقت کسی کے لیے یکساں نہیں ہوتا۔ نہ شیر شاہ سوری کا زمانہ رہا نہ مغلوں کا۔ سب کچھ بدلتا ہے اور یہ لوگ بھی بدل رہے ہیں۔ کسی زمانے میں سرائے کی نگہانی کرنے والے یہ لوگ اینٹ کے بھٹوں پر اینٹیں بنا کر اور پرانے کپڑے اور برتن بیچ کر اپنا گزارہ کررہے ہیں۔ جہاں تک ان کی ترقی کا تعلق ہے تو اس کے لیے سب سے اہم چیز زمین کا مالک ہونا ہے اور ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر