ادبستان

امین سایانی: جن کی آواز نے نسل در نسل لاکھوں سامعین کو مسحور کیا

امین سایانی کی آواز سامعین پر جادو کرتی رہی۔ہندوستانیوں کی جانے کتنی نسلیں ہر بدھ کی شب 8 بجے نشر ہونے والے بناکا گیت مالا میں ان کی آواز کے ساتھ پروان چڑھی ہیں۔

امین سایانی اور بناکا گیت مالا کے ریکارڈ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/امین جے سایانی)

امین سایانی اور بناکا گیت مالا کے ریکارڈ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/امین جے سایانی)

امین سایانی کی حرارت بخش آواز کئی نسلوں تک سامعین کو مسحور کرتی رہی۔ ایک براڈکاسٹر اور بناکا گیت مالا کے پریزنٹر کے طور پر امین سایانی کے حصے میں  جو شہرت آئی  اس میں بی وی کیسکر کے ضدی رویے اور ہندی فلم میوزک کے تئیں ان کے نظریے کا نمایاں رول رہا۔ اگر ہندوستان کے پہلے وزیر اطلاعات و نشریات کیسکر جو نہایت ہی خالص اور اعلیٰ سوچ کی اہمیت کے حامل شخص تھے، آل انڈیا ریڈیو پر فلمی موسیقی پر پابندی نہ لگاتے تو شاید امین سایانی کا مشہور زمانہ پروگرام بناکا گیت مالا شروع نہیں ہوا ہوتا۔

کیسکر کے اس فیصلے نے فلم پروڈیوسروں اور ریکارڈ کمپنیوں کے لیے مصیبت کھڑی کردی تھی، کیونکہ انہیں اپنے گانوں کی تشہیر کی ضرورت تھی۔ بہت حد تک فلموں کی کامیابی کا دارومدار اسی پبلسٹی پر منحصر تھا۔

ریڈیو سیلون نے اس خلا کو پُرکیا۔ امریکی لوگ سیلون سے واپس جاتے ہوئے وہاں ایک طاقتور شارٹ ویب ٹرانسمیٹر چھوڑ گئے تھے۔ اس ٹرانسمیٹر کو استعمال کرتے ہوئے سیلون ریڈیو سٹیشن نے اپنے پروگرام ہندوستان اور دیگر پڑوسی ممالک میں نشر کرنا شروع کر دیے۔

ہندوستانیوں کی کئی نسلیں ہر بدھ کی شب 8 بجے نشر ہونے والے بناکا گیت مالا پر ان کی آواز کو سنتے ہوئے پروان چڑھیں۔ یہ نام ٹوتھ پیسٹ کے ایک برانڈ کے نام پر رکھا گیا تھا۔

اس پروگرام میں سایانی 16 گانوں کو ان کی مقبولیت کے  لحاظ سے(کم سے زیادہ تک) سامعین کو سناتے تھے جن میں آخری گانے کو ان کے لفظوں میں کہیں تو، ایک بگل کے ساتھ سنایا جاتا تھا۔ ان کی میٹھی آواز اور ان کے نرم دوستانہ لہجے نے انہیں لاکھوں سامعین کا محبوب بنا دیا تھا ۔ اور ان کا تکیہ کلام ‘بہنوں اور بھائیوں’ اور ‘اب اگلے پائیدان پر’ کافی مقبول ہوا۔ جسے آج کی زبان میں وائرل ہونا کہا جا سکتا ہے۔

گانوں کی یہ فہرست سامعین سے موصول ہونے والے پوسٹ کارڈ کی بنیاد پر تیار کی جاتی تھی- بعض اوقات خود فلمسازوں کی جانب سے بڑی تعداد میں پوسٹ کارڈ بھیجے جانے کی خبریں آتی تھیں، جنہیں سایانی کو مسترد کرنا پڑتا تھا۔

اس پروگرام پر ملک کے کونے کونے سے ردعمل آتے تھے – وہ اکثر کوئی بھی پوسٹ کارڈ منتخب کرکےسنایا کرتے تھے اور سامعین پہلے کبھی نہ سنے گئے جگہوں کے نام سے ایک پہچان قائم کر لیتے تھے – مثلاً جھمری تلیا اور راجاناندگاؤں۔ جو آج کل میمز بن گئے ہیں۔

سایانی اپنے بڑے بھائی حامد کی وجہ سے کمرشیل براڈکاسٹنگ کی دنیا میں داخل ہوئے۔ حامد بناکا ہٹ پریڈ کے نام سے ایک شو چلایا کرتے تھے، جس میں مغربی گانے بجتے تھے۔

فرینک سناترا اور ڈین مارٹن جیسوں کے گانوں کو ترسنے والے ہندوستانیوں میں حامد کا پروگرام بہت مقبول تھا۔ حامد نے بناکا کو نوجوان امین کو اس پروگرام کے ہندی ورژن کا پریزینٹربننے کے لیے راضی کیا۔ یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ثابت ہوا۔

بھائی حامد سایانی کے ساتھ امین سیانی۔ (فوٹو بہ شکریہ: راجل سیانی)

بھائی حامد سایانی کے ساتھ امین سیانی۔ (فوٹو بہ شکریہ: راجل سیانی)

ان کا صاف ستھرا انداز بیاں اور عام فہم ہندوستانی کا استعمال کرنے کی صلاحیت انہیں اپنی والدہ کلثوم سایانی سے وراثت میں ملی تھی، جنہیں 1940 میں مہاتما گاندھی نے نو خواندہ لوگوں کے لیے ہندی، اردو اور گجراتی میں ایک رسالہ نکالنے کے لیے کہا تھا۔

وہ ولوگ شروعات میں ممبئی کے سینٹ زیویئر کالج، جہاں سایانی نے تعلیم حاصل کی تھی، کے ایک کمرے میں پروگرام ریکارڈ کرتے تھے۔

ریڈیو سیلون پر بہت سے دوسرے پروگرام بھی نشر ہوتے تھے، جن میں سے ایک کی نظامت گوپال شرما اور دوسرے کی  بلراج نامی ایک پرجوش نوجوان کرتے تھے ، جو فلمی ستاروں کے انٹرویو کیا کرتے تھے۔ دت کو جلد ہی سنیما میں رول مل گیا اور انہوں نے اپنا نام بدل کر سنیل دت رکھ لیا۔

بناکا کے زیر اہتمام یہ دونوں پروگرام ایک ساتھ چلتے تھے۔ 1975 میں حامد سایانی کا انتقال ہوگیا اور ان کے بھائی نے ان کے پروگرام کی باگ ڈور سنبھال لی۔ تاہم، یہ پروگرام تین سال کے اندر بند کر دیا گیا۔ لیکن سایانی کی آواز کی طرح ہی  بناکا گیت مالا بھی ناقابل تسخیر تھا – یہ 1994 تک نشر ہوا،اور اس نے 42 سال تک نشر ہونے  کا ایک ریکارڈ قائم کیا!

اس دوران اس ٹوتھ پیسٹ کا نام پہلے بدل کر سباکا ہوگیا اور پھر جب کولگیٹ نے اسے خریدا تو اس پروگرام کا نام کولگیٹ سباکا گیت مالا ہو گیا۔ ان تمام تبدیلیوں کے دوران پروگرام کی باگ ڈور امین سایانی کے ہاتھوں میں ہی رہی۔

سال 1970 میں آل انڈیا ریڈیو نے ہندی فلمی گانوں کو نشر نہ کرنے کی اپنی پابندی والی پالیسی ترک کر دی جس کے بعد سباکا گیت مالا آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے لگا۔ ان کی آواز کی مقبولیت پہلے کی طرح ہی قائم رہی۔ وہ اکثر اسٹیج شو وغیرہ  کی نظامت کرتے تھے اور انہوں نے کم از کم 10 فلموں میں بھی کام کیا۔ ان تمام فلموں میں انہوں نے اناؤنسر یا انٹرویو لینے والے کا کردار ادا کیا۔

وہ اپنے دفتر میں ہی ایک اسٹوڈیو چلایا کرتے تھے، جہاں وہ پروگرام ریکارڈ کرتے تھے، جو دنیا کے مختلف حصوں میں جا یا کرتا تھا۔ ان کے پاس ایک بہت بڑی آڈیو لائبریری تھی، جس میں مختلف نسلوں کے فلمی ستاروں کے انٹرویوز کے نادر ریکارڈ شامل تھے۔

ان کی آواز کی مقبولیت کچھ ایسی تھی کہ اگر لوگ انہیں فوراً پہچان نہ بھی پاتے تو جب وہ بولنا شروع کرتے تو لوگ بڑی تعداد میں جمع ہو جاتے تھے۔ لوگ اکثر ان سے ان کا پسندیدہ تکیہ کلام ‘بہنوں بھائیوں’ سنانے کی گزارش کی کیا کرتے تھے۔

لمکا بک آف ریکارڈز کے مطابق، سیانی نے 54000 ریڈیو پروگراموں کے لیے اپنی آواز ریکارڈ کی تھی۔ وہ یقینی طور پر ملک کے نشریاتی سفر کا، کئی نسلوں کے جوان ہوتے  سالوں کا حصہ رہے ہیں، جو ان کی بدولت ایسے گانے سنتے تھے، جن کے بارے میں وہ جانتے تک نہیں تھے۔

زندگی کے آخری سالوں میں ان کی صحت کافی خراب رہنے لگی تھی اور انہوں نے لوگوں سے ملنا جلنا بند کر دیا تھا۔ وہ اپنی یادداشت لکھ رہے تھے۔ لیکن وہ پھر بھی کبھی کبھار اپنی آواز ریکارڈ کیا کرتے تھے، وہ آواز جس نے لوگوں کو دہائیوں تک دیوانہ بنائے رکھا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)