الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اس انتخابی حلقہ کے اہم ووٹر، قبائلی گجر اور بکروال برادریوں کے لوگ اپنی سالانہ نقل مکانی کےلیے پیر پنجال کی پہاڑیوں کی طرف روانہ ہونے کو تیار ہیں۔ کمیشن کے اس فیصلے کو ‘بدقسمتی’ بتاتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے الزام لگایا کہ یہ ‘خانہ بدوش گجر-بکروال آبادی کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی سازش’ ہے۔ وہیں محبوبہ مفتی نے خبردار کیا کہ ووٹنگ ملتوی کرنے کی کسی بھی کوشش سے ‘الیکشن کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔’
سری نگر: الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) نے مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں کچھ سیاسی جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود اننت ناگ-راجوری لوک سبھا سیٹ کے لیے ووٹنگ کی تاریخ تبدیل کر دی ہے۔ اس حلقے میں پہلے تیسرے مرحلے کے تحت 7 مئی کو الیکشن ہونا تھا، جنہیں اب چھٹے مرحلے (25 مئی) تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اس انتخابی حلقے کے اہم ووٹر – قبائلی گجر اور بکروال برادریوں کے لوگ اپنی سالانہ نقل مکانی کے لیے پیر پنجال کی پہاڑیوں کی جانب جانے کو تیار ہیں۔ اس کمیونٹی کی یہاں اچھی خاصی آبادی ہے، جو ووٹنگ کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اب الیکشن کی تاریخ ملتوی ہونے کی وجہ سے ان کے ووٹ دینے کی پوزیشن پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو ‘بدقسمتی’ قرار دیتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس (این سی) کے نائب صدر عمر عبداللہ نے الزام لگایا کہ یہ ‘خانہ بدوش گجر-بکروال آبادی کو ووٹنگ کے حق سے محروم کرنے کی سازش’ ہے، جو ان کی پارٹی کے امیدوار سینئر قبائلی رہنما میاں الطاف لاروی کے لیے ایک اہم ووٹ بینک ہے۔
عبداللہ نے دی وائر کو بتایا، ‘بھارتیہ جنتا پارٹی بخوبی جانتی ہے کہ یہ قبائلی لوگ اپنے مویشیوں کے ساتھ (25 مئی تک) اونچی چراگاہوں پر چلے جائیں گے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قبائلی عوام کس کو ووٹ دیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے تھا۔’
معلوم ہو کہ انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف ریسرچ جرنل آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق، گجر اور بکروال گروپ جموں و کشمیر کی تیسری بڑی برادری ہیں، جو کل آبادی کا 8.1 فیصد ہیں۔
دونوں قبائلی گروہ بنیادی طور پر جموں کے اضلاع پونچھ (40.12فیصد) اور راجوری (33.19 فیصد) وادی کشمیر کے اضلاع اور اننت ناگ اور کولگام اضلاع (8.3 فیصد) میں مرکوز ہیں، جو ایک ساتھ نو تشکیل شدہ اننت ناگ-راجوری لوک سبھا حلقہ کا حصہ ہیں۔
الیکشن کمیشن نے منگل (30 اپریل) کو ایک خصوصی گزٹ نوٹیفکیشن میں کہا کہ اننت ناگ-راجوری حلقہ میں ووٹنگ اب تیسرے مرحلے میں 7 مئی کے بجائے چھٹے مرحلے میں 25 مئی کو ہوگی۔ یہ سیٹ 2022 میں جموں و کشمیر کی حد بندی کے بعد وجود میں آئی تھی۔
کمیشن کا نوٹیفکیشن حکمراں بی جے پی اور چار دیگر سیاسی جماعتوں،جنہیں بڑے پیمانے پر بی جے پی کے اتحادیوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کی نمائندگی کے بعد آیا،درخواست گزاروں میں دو آزاد امیدوار بھی شامل تھے، جنہوں نے دیگر وجوہات کے علاوہ خراب موسم کی وجہ سے امیدواروں کے ووٹرز تک نہ پہنچنےکا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن ملتوی کرنے کے لیے کمیشن سے رجوع کیا تھا۔
بی جے پی اور دیگر جماعتوں کی اپیل پر کمیشن نے گزشتہ ہفتے جموں و کشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر (سی ای او) پی کے پولے اور چیف سکریٹری اٹل ڈولو سے انتخابی حلقہ میں ‘سڑکوں کی حالت، موسم اور رسائی میں رکاوٹوں’ پر رپورٹ طلب کی تھی۔
اب الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کی تاریخ میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے اسی رپورٹ کو بنیاد بنایا ہے۔
کمیشن نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے مواصلات اور رابطوں کی قدرتی رکاوٹوں کے پیش نظر انتخابی مہم میں درپیش چیلنجز کی وجہ سے پولنگ کی تاریخ تبدیل کرنے کی درخواست کی تھی، جس کے بعد کمیشن نے یہ فیصلہ کیا ہے، کیونکہ یہ رکاوٹیں امیدواروں کے لیے مناسب مواقع کی کمی کے مترادف ہے۔
اپنے نئے نوٹیفکیشن میں کمیشن نے کہا کہ ‘زمینی صورتحال کا تجزیہ’ کرنے اور جموں و کشمیر انتظامیہ کی رپورٹ کو دیکھنے کے بعد عوامی نمائندگی کی دفعہ 56، ایکٹ 1951 کے تحت ووٹنگ کی تاریخ پر نظر ثانی کی گئی ہے۔
دوسری طرف، نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) دونوں نے سری نگر جموں قومی شاہراہ سے متبادل سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے ‘کنکٹیویٹی’ کی دلیل کو خارج کر دیا ہے۔ یہ سڑک اننت ناگ-راجوری کے دو مختلف علاقوں کو جوڑتی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، بی جے پی کا خیال ہے کہ گھٹتے ہوئے گجر اور بکروال ووٹ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان تقسیم ہو سکتے ہیں۔ اس کے پیچھے بڑی وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں پہاڑی بولنے والوں کی ترقی کے لیے انہیں یہاں قبائلی درجہ دیا گیا ہے، جن کی آبادی 56 فیصد سے زیادہ ہے۔ پونچھ اور راجوری اضلاع میں ان لوگوں کا ایکویشن بی جے پی کی اتحادی اور ‘اپنی پارٹی’ کے امیدوار ظفر اقبال منہاس کے حق میں ہو سکتا ہے۔
غور طلب ہے کہ اپنی پارٹی اور سجاد لون کی پیپلز کانفرنس (پی سی) ان پانچ سیاسی جماعتوں میں شامل تھیں، جنہوں نے ووٹنگ کی تاریخ ملتوی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔ تاہم، بی جے پی اور پی سی نے اس حلقہ سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔
پہلے ایسی خبریں تھیں کہ اگر الیکشن کمیشن نے انتخابات کو ملتوی کر دیا اور اس حلقے کے لیے نئے شیڈول کا اعلان کیا تو بی جے پی بھی اس حلقے سے اپنا امیدوار کھڑا کر سکتی ہے، لیکن نئے نوٹیفکیشن نے اس امکان کو مسترد کر دیا ہے۔
اس نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ سابقہ نوٹیفکیشن نمبر 464/ای پی ایس/ 2024 (3)، مورخہ 12 اپریل 2024، کا بقیہ مواد، جس کے تحت 19 اپریل اننت ناگ-راجوری لوک سبھا حلقہ کے لیے نامزدگی کا پرچہ داخل کرنے کی آخری تاریخ تھی، اس میں کوئی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
اس سے قبل اپنے نوٹیفکیشن میں کمیشن نے کہا تھا کہ جموں ڈویژن کے کچھ حصوں کو وادی کشمیر کے ساتھ ملا کر اس خطے کو دوبارہ بنایا گیا ہے اور یہ حلقہ لوک سبھا انتخابات کے تیسرے مرحلے میں 7 مئی کو ووٹ ڈالے گا۔
انتخاب میں کنگن اسمبلی حلقہ سے پانچ بار کے ایم ایل اے نیشنل کانفرنس کے الطاف، جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی اور پہاڑی سیاست دان منہاس کے درمیان سہ رخی مقابلہ متوقع ہے۔
غلام نبی آزاد کی نئی پارٹی ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ کانگریس کے سابق رہنما اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے۔ لیکن بعد میں انہوں نے ایک چونکا دینے والے اقدام میں نئی پارٹی بنانے کے اپنے وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد اس سیٹ سے ایک وکیل سلیم پرے کو میدان میں اتارا گیا۔
یہاں مقابلے کی اہم دعویدار نیشنل کانفرنس کا خیال ہے کہ انتخابی تاریخ میں تبدیلی الطاف کی جیت کے امکانات کو متاثر کر سکتی ہے۔ محبوبہ نے بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس طرح کے اقدام کا موازنہ1987 کی دھاندلی سے کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ووٹنگ ملتوی کرنے کی کسی بھی کوشش سے ‘الیکشن کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔’
خیال کیا جاتا ہے کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں مسلح شورش کو جنم دیا تھا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )
Categories: الیکشن نامہ, خبریں