فکر و نظر

آئی سی ایم آر نے بی ایچ یو کی کوویکسین ریسرچ کو خارج کیا، واپس لینے کی مانگ

بی ایچ یو کی جانب سے جاری ایک اسٹڈی، جس میں 926 افراد نے حصہ لیا تھا، میں کہا گیا تھا کہ ان میں سے 33 فیصد لوگوں کو کوویکسین لینے کے بعد کسی نہ کسی طرح کے مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔ اب آئی سی ایم آر نے اس تحقیق پر سوال اٹھاتے ہوےئے خود کو اس سے الگ کر لیا ہے۔

کوویکسین. (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/بھارت بایوٹیک)

کوویکسین. (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/بھارت بایوٹیک)

نئی دہلی: انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) نے بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کی اس تحقیق سے خود کو دور کر لیا ہے،جس میں محققین کے ایک گروپ نے بھارت بایوٹیک کی کووڈ ویکسین – کوویکسین کے تحفظ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اس تحقیق کے حوالے سے میڈیا میں کئی سنسنی خیز خبریں چلائی گئی تھیں، جن میں کہا گیا کہ اس تحقیق میں 926 افراد نے حصہ لیا تھا، جن میں سے 33 فیصد لوگوں کو کوویکسین لینےکے بعد ایڈوورس ایونٹس آف اسپیشل انٹرسٹ (اے ای ایس آئی) یعنی ایک طرح کے سائیڈ افیکٹ کا سامنا کرنا پڑا۔

اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس ٹیکہ کے بعد لوگ اے ای ایس آئی جیسے ایلوپیسیا (بالوں  کاگرنا)، سانس سے متعلق انفیکشن، ٹائیفائیڈ بخار، ہائپوتھائیرائیڈزم، گوئیلن بیری سنڈروم(نسوں کا ایک سنگین ڈس آرڈر جو فالج کا سبب بن سکتا ہے) وغیرہ کے شکار ہوئے اور چار لوگوں کی موت تک ہو گئی۔

اس تحقیق میں آئی سی ایم آر کو اس کی تحقیق میں ‘ریسرچ سپورٹ’ فراہم کرنے کے لیے ‘شکریہ’ ادا کیا گیا تھا، جسے آئی سی ایم آر نے اب غلط اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔

اس سلسلے میں اس نے 18 مئی کو تحقیقی مقالے کے شریک مصنفین ڈاکٹر اپیندر کور اور ڈاکٹر شنکھا شبھرا چکرورتی کو ایک خط لکھ کر اپنے احتجاج کا اظہار کیا۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ آئی سی ایم آر کو بغیر کسی پیشگی رضامندی یا اطلاع کے ریسرچ سپورٹ کے لیے منظور کر لیا گیا، جو کہ نامناسب اور ناقابل قبول ہے۔

گزشتہ 20 مئی (سوموار) کو میڈیا میں جاری اس خط میں تحقیق سے آئی سی ایم آر کی منظوری کو ہٹانے کو کہا گیا ہے۔

خط میں بی ایچ یو واقع انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (آئی ایم ایس) میں کام کرنے والے ان دو فیکلٹی ممبران سے یہ بتانے کو کہا گیا ہے کہ آئی سی ایم آر کو ان کے خلاف قانونی اور ایڈمنسٹریٹو کارروائی کیوں نہیں کرنی چاہیے۔

دوسری جانب یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئی ایم ایس اس معاملے کو دیکھ رہا ہے اور متعلقہ افراد نے اپنا جواب آئی سی ایم آر کو بھیج دیا ہے۔

آئی سی ایم آر نے 18 مئی کو ‘ڈرگ سیفٹی’ کے ایڈیٹر نتن جوشی کو بھی ایک خط جاری کیا ہے، جہاں یہ تحقیق شائع ہوئی ہے۔ اس میں ایڈیٹر سے کہا گیا ہے کہ وہ پیپر واپس لے لیں یا اس میں بتائی گئی خامیوں کو دیکھتے ہوئے آئی سی ایم آر کا حوالہ ہٹا دیں۔

دی وائر نے نتن جوشی کو خط لکھا اور اس سلسلے میں ان کا موقف جاننا چاہا۔ جواب میں کہا گیا کہ وہ چھٹی پر ہیں۔ دی وائر نے جوشی کے جواب میں مذکور ایک اور شخص سے رابطہ کیا، لیکن ان کی طرف سے بھی کوئی جواب نہیں ملا۔

تحقیق کی خامیاں

آئی سی ایم آر نے اس اسٹڈی کے طریقہ کار کے ساتھ مختلف مسائل کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے بعض کی وضاحت 18 مئی کو دی وائر اپنے ایک تجزیے میں بھی کی تھی ۔

بی ایچ یو کی تحقیق میں حصہ لینے والوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی یادداشت کے مطابق ویکسین لینے کے بعد ہونے والےمضر اثرات کو بیان کریں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کیا شرکاء اپنے مسائل کو صحیح طریقے سے یاد رکھ سکیں گے اور بتا سکیں گے یا نہیں۔

یہ اسٹڈی جنوری 2022 سے اگست 2023 کے درمیان فون کے ذریعے 926 شرکاء سے انٹرویو کے ذریعے کی گئی تھی۔

اس سلسلے میں آئی سی ایم آر نے کہا، ‘ٹیکہ کاری کے ایک سال بعد شرکاء سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا گیا اور کلینکل ریکارڈ یا طبی معائنے کی تصدیق کے بغیر ان کے جوابات ریکارڈ کیے گئے۔’

ڈاکٹر اویرل وتس، جو کہ اسکاٹ لینڈ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے ساتھ کام کرنے والے ایک جنرل فزیشن اور سائنسدان ہیں ، انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ اگر شرکاء نےاپنی یادداشت پر مبنی درست انٹرویو نہیں دیے ہوں گے، تو تحقیق کے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں۔

دوسری بات جو آئی سی ایم آر نے بتائی، وہ یہ تھی کہ مطالعہ میں حصہ لینے والے لوگوں کو ویکسین لینے سے پہلے کیا مسائل تھے، اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

آئی سی ایم آر نے کہا کہ اس لیے یہ جاننا ناممکن ہو جاتا ہے کہ آیا شرکاء کو ان مسائل کا سامنا صرف ٹیکہ کاری کے بعد کی مدت میں ہوا، جس کی تحقیق میں اطلاع دی گئی ہے۔

دی وائر نے اپنے تجزیے میں کہا تھا کہ اس مقالے میں دیے گئے ‘نتائج’ کا مفہوم تحقیق میں بتائی گئی ‘حدود’ سے پوری طرح میل نہیں کھاتا تھا۔

کوویکسین مطالعہ سے متعلق خبروں کا اسکرین شاٹ۔

کوویکسین مطالعہ سے متعلق خبروں کا اسکرین شاٹ۔

ٹیکہ کاری کے خلاف خوف و ہراس پھیلانے کی وجہ یہ بھی رہی کہ زیادہ تر میڈیا رپورٹنگ صرف پیپر کے ‘نتیجے’کے حوالہ سے کی گئی۔ جبکہ پوری رپورٹ کسی نے نہیں دیکھی۔

مثال کے طور پر، مقالے نے اپنے ‘نتائج’ میں نوٹ کیا ہے کہ تقریباً نصف شرکاء کو سانس کی بیماریوں میں مبتلا پایا گیا۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ لیکن اس تحقیق کی حدود میں یہ کہا گیا کہ انھوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اسے کس طرح  کے سانس کا انفیکشن تھا۔

یہ ایک اہم خرابی تھی، کیونکہ یہ ممکن تھا کہ شرکاء کو ٹیکہ لینے کے بعد کووڈ 19 ہو سکتا تھا، جو  سانس سے متعلق ایک انفیکشن بھی ہے۔

اس کے علاوہ شرکاء میں کووِڈ 19 کی تصدیق کے لیے کوئی ٹیسٹ نہیں کرایا گیا۔ اب یہ اہم ہے کیونکہ جس وقت یہ مطالعہ کیا جا رہا تھا اس مدت میں کووڈ 19 عام تھا، قطع نظر اس کے کہ کسی نے  ٹیکہ لیا ہو یا نہیں۔

یہ واضح کیا جانا چاہیے کہ کووِڈ 19 کے انفیکشن کو روکنے کے لیے کوئی ویکسین تیار نہیں کی گئی تھی، بلکہ صرف کووِڈ سے متعلقہ شدید بیماری اور موت کو روکنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔

نتیجے کے طور پر، میڈیکل بیک گراؤنڈ کی جانچ کے بغیر یہ بتانا کہ تقریباً 50 فیصد شرکاء میں کووڈ 19 انفیکشن ہوا، پوری طرح سے ٹھیک نہیں تھا۔

محققین نے مقالے میں یہ بھی کہا کہ کچھ شرکاء کو ٹیکہ لینے کے بعد ٹائیفائیڈ بخار ہوا۔ لیکن اس کی حدود کے حوالے سے مقالے میں کہا گیا ہے کہ ایک ہی ٹیسٹ سے ٹائیفائیڈ بخار اور کووڈ 19 دونوں کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ لہذا، اس بات کی کوئی ٹھوس جانکاری نہیں ہے کہ مریضوں کی ایک مخصوص تعداد کو صرف ٹیکہ لینے کے بعد ہی ٹائیفائیڈ بخار ہوا تھا۔

وتس نے دی وائر کو بتایا کہ مقالے کے مصنفین نے جن مسائل کو ٹیکہ کے نتیجے کے طور پربیان کیا ہے ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں، جو کسی شخص میں کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے کے دوران بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جسے لانگ کووڈ کہا جاتا  ہے۔ یہ ٹیکہ  کی وجہ سے یا اس کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔

دی وائر نے اس حوالے سے مقالے میں کہی گئی کچھ دوسری باتوں کی بھی نشاندہی کی، جو کہ مکمل طور پر واضح نہیں تھیں، جن کے بارے میں یہاں پڑھا جا سکتا ہے ۔

دوسری طرف، بی ایچ یو کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی مطالعہ کے بعد آنے والے ردعمل سے آگاہ تھی۔ اس میں کہا گیا ہے، ‘ہم یونیورسٹی کے ریسرچ ایکو سسٹم کو مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔’

اس مقالے کو سوشل میڈیا پر کئی سائنسدانوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو آئی سی ایم آر کے خط میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ سائنسدانوں نے سوال کیا ہے کہ اس پیپر کو سنجیدگی سے کیوں لیا جانا چاہیے، جبکہ اس میں کئی ‘خامیاں’ ہیں۔

دی وائر نے آئی سی ایم آر کے خطوط پر ان کا ردعمل جاننے کے لیے تحقیقی مقالے کی مصنفہ اوپیندر کور سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی سی ایم آر کے خط قابل احترام اور خفیہ ہیں۔ اس لیے وہ اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔

کور نے کہا، ‘ہم کوئی اور بیان نہیں دینا چاہتے کیونکہ ہم سائنسدان ہیں اور غیر ضروری تنازعات میں پڑنا پسند نہیں کرتے۔’

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنا جواب آئی سی ایم آر کو میل کر دیا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)