خبریں

بی جے پی لیڈر کے فیملی اسکول سے چھ نیٹ  ٹاپر: ’مودی کی گارنٹی‘ کا ہریانہ میں نام و نشان نہیں

وقت کا زیاں ہردیال پبلک اسکول اور وجیا سینئر سیکنڈری اسکول، دونوں سینٹر کے امیدواروں کا ہوا، لیکن گریس مارکس صرف ہردیال کے طالبعلموں کو ہی ملے۔ جھجر کے ایک دیگر سینٹر پر امتحان دینے والی ایک طالبہ طنز کرتی ہیں، ‘میں ٹاپ کیسے کرتی، میرا سینٹر ہردیال تھوڑے ہی تھا!’

بائیں سے - سرخ دائرے میں انورادھا یادو (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ شیکھر یادو)، ہردیال پبلک اسکول (تصویر: انکت راج/ دی وائر) اور بی جے پی لیڈر شیکھر یادو (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ شیکھر یادو)

بائیں سے – سرخ دائرے میں انورادھا یادو (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ شیکھر یادو)، ہردیال پبلک اسکول (تصویر: انکت راج/ دی وائر) اور بی جے پی لیڈر شیکھر یادو (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ شیکھر یادو)

نئی دہلی/جھجر: بہادر گڑھ سٹی پولیس اسٹیشن میں بیٹھے اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر مہاویر سنگھ کو بالکل نہیں معلوم کہ ان کے تھانے سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہردیال پبلک اسکول ان دنوں سرخیوں میں ہے۔ یہی حال ان کے پاس بیٹھے کمپیوٹر پر کام کر رہے ایک اور پولیس اہلکار کا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ملک بھر کے سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے ہوئے نیٹ (این ای ای ٹی) امتحان میں گڑبڑی  کا سب سے بڑا مرکز جھجر کا ہردیال پبلک اسکول ہے۔ اس سینٹر میں 500 سے زائد طالبعلموں نے امتحان دیا تھا، جن میں سے چھ امیدواروں کو 720 میں سے 720، یعنی پورےنمبر حاصل ہوئے۔ اس کے علاوہ دو امیدواروں نے 718 اور 719 نمبر حاصل کیے جو کہ ریاضی کے لحاظ سے ناممکن بتایا جا رہا ہے۔

بہادر گڑھ سٹی پولیس اسٹیشن (تصویر: شروتی شرما/دی وائر)

بہادر گڑھ سٹی پولیس اسٹیشن (تصویر: شروتی شرما/دی وائر)

بی جے پی نے اپنے منشور، مودی کی گارنٹی میں لکھا تھا کہ جب حکومت اقتدار میں آئے گی، وہ پیپر لیک اور امتحانات میں دیگر بے ضابطگیوں کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی ۔ اس سال فروری میں مرکزی حکومت نے پیپر لیک کو روکنے کے لیے ایک قانون پاس کیا تھا ، جس کے تحت امتحانات میں بے ضابطگی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا اہتمام  ہے۔

لیکن اتنی بڑی دھاندلی بھی اس بی جے پی مقتدرہ  ریاست کی پولیس اور انتظامیہ کو حرکت میں نہیں لا سکی۔ دی وائر نے پایا کہ اس معاملے میں کوئی جانچ تو دور، جھجر کی پولیس یا مقامی پولیس اسٹیشن میں کوئی رپورٹ تک درج نہیں ہے۔ پولیس کے پاس اس بارے میں کوئی خاص جانکاری نہیں ہے۔ جب دی وائر نے جھجر کے ڈپٹی کمشنر شکتی سنگھ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

گویا  ‘مودی کی گارنٹی’ ان کی اپنی ریاست میں ہی ناپید ہے، وہ بھی ایسے اگزام سینٹر پر جو دارالحکومت دہلی سے صرف پچاس کلومیٹرکی  دوری پر ہے۔

کون ہیں ہردیال اسکول کے  مالک؟

ہردیال اسکول کی ویب سائٹ کے مطابق، یہ سال 1995 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس اسکول کی صدر انورادھا یادو ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق، ان کے خاندان کا بہادر گڑھ میں کافی اثر و رسوخ ہے۔

غورطلب ہے کہ انورادھا یادو کے بھتیجے شیکھر یادو بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے جھجر ضلع صدر ہیں۔ ان کے فیس بک پروفائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ روہتک سے بی جے پی کے سابق رکن پارلیامنٹ اروند شرما کے قریبی ہیں۔ شیکھر نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران اروند شرما کے لیے مہم چلائی تھی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شیکھر یادو آئندہ اسمبلی انتخاب بی جے پی کے ٹکٹ پر لڑنا چاہتے ہیں۔

شیکھر یادو (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/بی جے پی)

شیکھر یادو (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/بی جے پی)

شیکھر یادو نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘اگر تنظیم چاہے گی تو ہم اسمبلی الیکشن لڑیں گے… ہم اپنی طرف سے بھی (ٹکٹ کے لیے) کوشش کر رہے ہیں۔

مبینہ دھاندلی میں ہردیال پبلک اسکول کا نام آنے کے سوال پر یادو نے کہا، ‘اسکول ہماری فیملی کا ہے۔ لیکن آپ جس بارے میں بات کر رہے ہیں، اس میں اسکول کا کوئی رول نہیں ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا، ‘اسکول خاندان کا ہے لیکن میں اسکول کا حصہ نہیں ہوں۔ ہمارے خاندان میں بہت سارے بزنس ہیں۔ لیکن اسکول میں میرا کوئی رول نہیں ہے۔’

شیکھر یادو کی بیوی نہایادو بھی بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ ان دونوں سے متعلق خبریں اکثر مقامی اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ سال 2022 میں نہا خودکو بہادر گڑھ میونسپل کونسل کے صدر کے لیے بی جے پی کی مستقبل کی امیدوارکے طور پر پیش کرتےہوئے پرچے تقسیم کر رہی تھیں، اور بی جے پی کی پالیسیوں اور حصولیابیوں کی تشہیر کر رہی تھیں۔ لیکن تمام کوششوں کے باوجود انہیں بی جے پی سے ٹکٹ نہیں ملا تھا۔

اس دوران ہردیال پبلک اسکول کی صدر انورادھا یادو کو بھی بی جے پی کے پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے اور پارٹی کی تشہیر کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، جس کی تصاویر اب بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

انورادھا یادیو سرخ دائرے میں (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ شیکھر یادو)

انورادھا یادیو سرخ دائرے میں (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ شیکھر یادو)

دی وائر نے انورادھا یادو کے گھرپہنچ کر ان سے رائے مانگی، لیکن انہوں نے کچھ بھی کہنے سے انکار کردیا۔

مودی حکومت امتحانات میں ہونے والی گڑبڑیوں کو روکنے کےحوالےسے کئی طرح کے دعوے کرتی ہے۔ 2023 میں ہوئے راجستھان اسمبلی انتخابات کے دوران نریندر مودی نے پیپر لیک کے حوالے سےراجستھان کی کانگریس حکومت کو نشانہ بنایا تھا۔ اس کے باوجود ان کی پارٹی کی حکومت والے ہریانہ کے اس اگزام سینٹر میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر انتظامیہ خاموش ہے۔

جھجر کے اگزام سینٹرپر کیا ہوا تھا؟

جھجر میں پہلی بار  نیٹ (این ای ای ٹی)  کا امتحان لیا گیا تھا۔ ضلع کے تین اسکولوں – ہردیال پبلک اسکول، وجیا سینئر سیکنڈری اسکول اور ایس آر سنچری پبلک اسکول – کو مرکز بنایا گیا تھا۔

ایس آر سنچری سیکنڈری اسکول میں امتحانات کا انعقاد بخوبی ہوا، لیکن ہردیال اور وجیا میں طلبہ کو ملک بھر کے طلبہ سے الگ  سوالنامے دیے گئے۔

نیٹ (این ای ای ٹی) جیسے اہم امتحانات کے سوالنامے عام طور پر سیکورٹی وجوہات کی بنا پر پبلک سیکٹر کے بینکوں میں رکھے جاتے ہیں۔ جھجر کے مراکز کے لیے پرچوں کے دو سیٹ تھے۔ ایک کو ایس بی آئی اور دوسرے کو کینرا بینک میں رکھا گیا تھا۔

اگزام سینٹر پر پرچوں کے دو سیٹ ہوتے ہیں۔ ایک جو طالبعلموں کو دیا جاتا ہے اور دوسرا پیپر لیک ہونے کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں مراکز پر پرچوں کے دونوں سیٹ طلباء میں تقسیم کیے گئے۔ غلطی کا پتہ چلنے کے بعد مرکز کے عملے نے طلباء سے ایس بی آئی بینک کے سیٹ واپس لے لیے اور کینرا بینک والا سیٹ تقسیم کر دیا۔ لیکن غلطی یہ ہوئی کہ ان دو مراکز کے علاوہ پورے ملک کے مراکز پر ایس بی آئی والے سیٹ تقسیم کیے گئے تھے۔

طلباء کے مطابق، پرچے کی تقسیم کے دوران گڑبڑی  کی وجہ سے دونوں مراکز پر امتحان دینے والے طلباء کا کافی وقت ضائع ہوا۔

طلبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کینرا بینک والا  پرچہ ایس بی آئی والے پرچے سے زیادہ مشکل تھا۔ اس لیے انہیں اضافی نقصان اٹھانا پڑا۔

گریس مارکس کس بنیاد پر دیے گئے؟

عام طور پر نیٹ (این ای ای ٹی) امتحان میں صرف ایک یا دو طالبعلم ہی پورے نمبر حاصل کرپاتے ہیں۔ 2021 واحد سال ہے جہاں تین طلباء نے پورے نمبر حاصل کیے تھے۔ لیکن اس سال ہردیال پبلک اسکول میں امتحان دینے والے چھ امیدواروں نے 100 فیصد نمبر حاصل کیے، اور دو طالبعلموں نے 719 اور 718 نمبر حاصل کیے۔

ملک بھر میں ان 1563 امیدواروں کو گریس مارکس  دیے گئے، جن کے وقت زیاں ہوا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ ہردیال پبلک اسکول میں پورے نمبر حاصل کرنے والے تمام چھ طلباء کواور719 اور 718 نمبر حاصل کرنے والے دو طالبعلموں کو بھی گریس مارکس دیے گئے۔

جھجر کے ایس آر سنچری پبلک اسکول سینٹر میں امتحان دینے والی ایک طالبعلم نے طنز کرتے ہوئے دی وائر کو بتایا، ‘میں کیسے ٹاپ  کرتی، میرا سینٹر ہردیال تھوڑے ہی تھا۔’

گریس مارکس کے بارے میں این ٹی اے نے کہا ہے کہ اگزام سینٹر میں وقت ضائع ہونے کی وجہ سے ان طلباء کو گریس مارکس دیے گئے جنہوں نے این ٹی اے کو درخواست دی تھی۔ لیکن این ٹی اے کو کیسے پتہ چلا کہ آف لائن امتحان میں کن بچوں کا کتنا وقت ضائع ہوا؟

امیدواروں نے دی وائر کو یہ بھی بتایا کہ ہردیال اور وجیا سینئر سیکنڈری اسکول دونوں میں وقت کا زیاں ہوا، لیکن صرف ہردیال کے طلباء کو ہی گریس نمبر ملے۔ تاہم، ہردیال کے تمام طلباء کو گریس نمبر نہیں دیے گئے، حالانکہ تمام طلباء کا وقت خراب ہواتھا۔

جھجر کے ایک کوچنگ سینٹر میں حیاتیات کے ایک استاد نے دی وائر کو بتایا، ‘این ٹی اے کا کہنا ہے کہ اس نے صرف درخواست دینے والوں کو ہی گریس مارکس دیے۔ لیکن ایسا کیوں؟ ایک سینٹر کے تمام بچوں کا وقت ضائع ہوا تو ان بچوں کا کیا ہوگا جو سمجھتے تھے کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب این ٹی اے کو معلوم ہوا کہ ایک سینٹر پر تمام بچوں کا وقت ضائع ہواہے تو پھر اس نے تمام بچوں کے ساتھ یکساں سلوک کیوں نہیں کیا؟

نیٹ (این ای ای ٹی) سے متعلق عرضیوں پر سماعت کے دوران 13 جون 2024 کو سپریم کورٹ نے گریس مارکس کو ردکر دیا۔ عدالت نے 23 جون تک گریس نمبر حاصل کرنے والے 1563 بچوں کا امتحان لینے اور 30 جون سے پہلے نتائج جاری کرنے کو کہا تھا۔