فکر و نظر

نریندر مودی لفاظی کے سہارے کب تک زمینی حقائق سے چشم پوشی کر سکتے ہیں؟

نریندر مودی اپنی تقریروں میں لفظی بازی گری کا نمونہ پیش کرتے رہتے ہیں – کبھی  معجز نمائی کے لیے تو کبھی ‘دانشوری’ بگھارنے کے لیے۔ حالاں کہ آئندہ 23 جولائی کو جب ان کی تیسری سرکار کا پہلا بجٹ آئے گا تو وہ اس ‘المیہ’ سے دو چار ہوں گے کہ لفظی بازی گری کا اب ایسا کون سا نیا نمونہ پیش کریں اور کس طرح پیش کریں؟

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

عرصے سے ایک کے بعد ایک باتیں بناتے اور خواب دکھاتے (پڑھیے: سبز باغ) یا  بیچتے آ رہے کسی لیڈر کے پاس   بنانے ، دکھانے اور بیچنے  کو کچھ نیا نہ رہ گیا ہو، اس کے کئی جھوٹ پکڑے جا چکے ہوں اور لغویات کو بار بار آئینہ دکھایا جا چکا ہو، اس کے باوجودلمبی چوڑی  پرانی تقریروں کی ہم سری کرنے یا ان سے آگے نکلنے کی مجبوری اس کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہ ہو تو سمجھنا مشکل نہیں کہ اس کی حالت کیا ہوگی۔

ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کی حالت اب اسی لیڈر جیسی نظر آتی ہے۔

اسے  آکاشوانی سے نشر ہونے والے ان کے ‘من کی باتوں’ میں محسوس  کیا جا سکتا ہے اور پارلیامنٹ میں دیے گئے بیانوں میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، جن میں اس حقیقت کے باوجود کہ کوئی جدت نہیں رہ گئی ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ان کی کمزور  ہوچکی حیثیت نے ان کے سامنے بالکل نئی صورتحال پیدا کر دی ہے۔

تاہم، میڈیا کا وہ حصہ جو ان کی حمایت کرتا ہے وہ ‘خوش’ ہے کہ نئے حالات میں بھی وہ اپنی پرانی پالیسی  پر ‘قائم’ ہیں، جبکہ جو حصہ ان سے متفق نہیں ہے انہیں لگتا ہے کہ ایسا اس لیے ہے کہ اب ان کے پاس نمائش کے لیے کوئی نیا ‘فن’ نہیں رہ گیاہے، جس کے باعث  وہ وقت کی نزاکتوں کے مطابق ‘بدل’ بھی نہیں  پا رہے۔

اس حصے کے مطابق، اس طرح انہوں نے اپنی حدیں طے  کرلی ہیں، جس میں کسی بھی طرح سے تجاوز کرنےسے وہ بالکل عاجز ہیں۔ لیکن چونکہ ابھی ان کی تیسری پاری  کا آغاز ہی ہوا ہے، اس لیے ہم انہیں رعایت دیتے ہوئے یہ بھی  کہہ  سکتے ہیں کہ وہ خود کو بدلنے میں وقت لگا رہے ہیں۔

نرگسیت کے مارے

ہاں، یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے فروگزاشت  اور چوک جانے کے اشارے پچھلے سال لال قلعہ سے ان کے یوم آزادی کے اب تک کے آخری خطاب سے ہی ملنے لگے تھے۔ اس میں وہ ایسا کوئی پیغام نہیں دے سکے (جس کا ملک انتظار کر رہا تھا) جو  ان کے راج میں 1947سے بھی زیادہ اندہناک ذہنی اور جذباتی تقسیم سے گزر رہے ملک کو اطمینان دلاتا کہ  اس تقسیم کو وقت رہتے بے قابو ہونے سے روک دیا جائے گا اوراسے  کسی بھی صورت میں جغرافیائی تقسیم کی انتہا تک نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔

یہ بھی ان کی فروگزاشت ہی تھی ملک کے بہت سے پیچیدہ مسائل کا ’انسٹینٹ‘ حل تجویز کرنے کی ان کی ’روایت‘ کو اس پیغام میں پرانی باتوں کی تکرار کہہ لیں یا سب کچھ سننے کے باوجود کچھ نہیں سننے اور سب کچھ دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں دیکھنے والی نرگسیت کا روپ اختیار کرگئی تھی  اوروہ محض اپنے بدلے ہوئے حلیے سے ہی ‘جدت’ کا کسی قدر احساس کرا پائےتھے۔

 لوک سبھا انتخابی مہم میں ہندو مسلم کارڈ کے پرانے خول میں میں پناہ لے  کر انہوں نے اس جدت کی بھی نفی کر دی۔

دوسری طرف مشکل سوالوں سے بچ کر نکلنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو نشانہ بنانے  کا ان کا’ فن‘ بھی بوسیدہ ہو کر ان کی بے چارگی کا اعلان کر رہا ہے۔ اس کے باوجود وہ اس کے ’تحفظ‘ کے لیے جمہوری اور پارلیامانی روایات اور اخلاقیات کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور یہ سمجھنے سےمسلسل  انکار کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپوزیشن بلکہ اہل وطن کو بھی جوابدہ ہیں اور اہل وطن نے اپنے جس مینڈیٹ سے انہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھایا ہے، اسی میندیٹ میں اپوزیشن کو انہیں کٹہرے میں کھڑا کرنے کا حق بھی دیا ہے— ان کے  کانگریس مکت (پڑھیے: اپوزیشن مکت) بھارت کی اپیل کو بالکلیہ مسترد کر کے۔

لفظی بازی گری

ان کا یہ انداز بھی اب نیا نہیں رہا کہ جب بھی ان کا دل ہو، اصلی، نقلی اور مرئی ، غیر مرئی دشمنوں کو چیلنج کرتے ہوئے پھبتی، لعن، طعن، چھینٹاکشی، چھچھورا پن، غلط بیانی، آدھے سچ اور لفاظی کا سہارا لے کر حقائق کے تقدس کو پاما ل کریں اور مذمت کرتے ہوئے لمبی چوڑی تقریر کرنے لگیں، ورنہ قومی بحران کے وقت بھی ایک چپ ہزار چپ  کے ضرب المثل پر عمل کریں اور اہل وطن کوان کے حال پر چھوڑ دیں۔

جو لوگ انہیں غور سے اورصبر و تحمل کےساتھ سننے کے عادی  ہیں وہ جانتے ہیں کہ اب ان کی لفظی بازی گری بھی کہیں پیچھے رہ گئی ہے، جس کے دم پر وہ  کبھی اپنے فن خطابت کو حیرت کا نمونہ بنا ڈالتے تھے- خواہ یہ ‘ٹوسٹ ٹی اینڈ ٹوبیکو ٹوگیدرود ٹیریلن ٹرانزسٹر ٹیلی ویژن ٹاپ لیس ٹیئر لیس ٹیرر اینڈ ٹنکار آف ٹاٹا ٹیک ٹو ٹین اینڈ ٹوئنٹی ٹوئسٹ’ جیسی بے مطلب کی لفظی بازی گری ہی کیوں نہ ہو!

بہت ممکن ہے کہ انہیں اب اپنی اس نوع کی  پرانی لفظی بازی گری یاد بھی نہ ہوں۔ لیکن اس وقت ہندی یا انگریزی کے ایک ہی حرف سے شروع ہونے والے کئی کئی  لفظ کے گھال میل سے لفظی کرتب دکھانے اور لوگوں کو ان میں الجھانے میں ان کی مہارت سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔

وہ ‘برانڈ انڈیا’ کی بات کہتے ہوئےبھی سننے والوں پر ‘فائیو ٹی’ یعنی- ٹیلنٹ، ٹریڈیشن،ٹورازم، ٹرینڈ اینڈ ٹکنالوجی – کی بارش کرتے تو ان کے پرستار کہتے تھے کہ پہلی بار ملک کو ایک غضب کا ‘بولنے والا پی ایم’ یا باتونی پی ایم ملا ہے اور اس نے اپنے پہلے دور حکومت میں ہی جس قدر تجنیس صوتی ایجاد کر دیے ہیں، اتنے تو شاعر اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بھی ایجاد نہیں کر پائے تھے۔

لیکن مخالفین کی رائے اس کے برعکس تھی۔ ان کے مطابق، اٹل، دوسرے وزرائے اعظم کی طرح یہ بھی جانتے تھے کہ ملک کے مسائل کو تک بندی کرنے والے  شاعروں کے اسلوب میں اس نوع کی لفظی بازی گری  سے’سہل پسندی’ کےساتھ حل نہیں کیا جا سکتا اور حقیقی حل کے لیے ان کے سنجیدہ معاشی، سماجی اور بعض اوقات تنقیدی اپروچ کی  ضرورت بھی پڑتی ہے۔

وہ دن، وہ دراوڑ پرانایام!

پھر بھی مودی اپنی تقریروں میں لفظی بازی گری کا نمونہ پیش  کرتے رہتے تھے۔ کبھی معجزنمائی  کے لیے اور کبھی اپنی ‘دانشوری’ بگھارنے کے لیے۔ اس کے لیے انہیں بار بار سیاق و سباق کو بدل کر صنائع و بدائع کے دراوڑی پرانایام کرنے سے بھی گریز نہیں تھا۔

یاد کیجیے، 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں مہم چلاتے ہوئے انہوں نے اسی طرح کا پرانایام کیا اور تھری اے  کا حوالہ دیا تھااور کہاتھا؛ پاکستان میں تین اے کے کی بہت تعریف ہوتی ہے – ایک اے کے 47، دوسرا اے کے انٹنی اور تیسرا اے کے 49۔

اے کے انٹنی اس وقت ملک کے وزیر دفاع تھے اور اے کے 49 سے مودی کا مطلب 49 دنوں میں ہی  دہلی کے سی ایم  کا  عہدہ چھوڑ نے والے عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال سے تھا۔

پھر اپنی حکومت سازی کے 100 دن مکمل ہونے سے پہلے ہی جب وہ جاپان گئے تو انہوں نے ‘تھری ڈی’ کے ساتھ اسی ‘اے ‘ جیسا سلوک کیا۔جس  ‘تھری ڈی’ سے ہمارا پہلا تعارف کبھی  فلموں نے کرایا تھا، اور ہم جن کے سلسلے میں اسے  استعمال کرتے آ  رہے تھے، اسے بہت دور لے جا کر دور  کی کوڑی لے آئے تھے وہ؛ تھری ڈی یعنی ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ، ڈیموکریسی اور ڈیمانڈ۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ تینوں ہندوستان میں ہیں اور ایشیا میں صرف ہندوستان میں ہی ہیں۔

پھر نیپال کے دورے کے دوران ان کے پاس اس کی مدد کا نام  ‘نام میں بھی ہٹ ، اور کام میں بھی ہٹ’ کا فارمولہ تھا؛ ہٹ یعنی ہائی ویز، انفارمیشن ٹکنالوجی اور ٹرانسمیشن لائنز۔ لیکن جب وہاں ایک زبردست زلزلہ آیا تو انہیں اس کی یاد نہیں آئی تھی!

ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے جس  ایف ڈی آئی کی  ان کی پارٹی ہر طرح سے مخالفت کرتی تھی، ابھی پی ایم بنے تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کی ایک لاجواب لفظی بازی گری  نے اس کا مطلب بدل کرفارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ سے ‘فرسٹ ڈیولپ انڈیا’ کر دیا تھا! اُس وقت لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اِسے غضب کا اِلیٹریشن کہیں یا اِلیٹریشن کا ڈھایا غضب!

غضب کا ڈھایا غضب!

لیکن ایسےغضب ڈھاتےڈھاتے اب وہ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں، جہاں ڈھانے کے لیے نئے غضب کا ٹوٹا (خالی پن)بھی محسوس کرنے لگے۔ اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اپنی پہلی حکومت کے پہلے بجٹ کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے ‘تھری ایس’ کا الیٹریشن تیار کیا تھا، جس کا مطلب تھا: سماویشک، سرودیشک اور سرودرشی۔ اب جب ان کی تیسری حکومت کا پہلا بجٹ 23  جولائی کو آئے گا تو انہیں اس ‘بے چارگی’ کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ کون سا نیا الیٹریشن بنائیں اور کیسے؟ کب تک اس نوع کی لفظی بازی گری کرتے رہیں گےاور زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے رہیں گے اور کس انداز میں؟

اتنا ہی نہیں، کیسے نہ یاد رکھیں کہ کبھی انہوں نے ہم وطنوں کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ‘تھری ایس’ کا منتر دیا تھا – اسکل، اسکیل اور اسپیڈ۔ جب چینی صدر ہندوستان کے دورے پر آئے تو  ان کے ساتھ جھولاجھولتے ہوئے ایک نیا الٹریشن بدبدانے لگے: انچمائلز یعنی انڈو چائنا ملینیم آف ایکسیپنشنل سنرجی۔ لیکن یہ سارے منتر پرانے پڑ گئے اور پیچھے بھی چھوٹ گئے مگر حقیقت نہیں بدلی۔

اس وقت بھی نہیں، جب انہوں نے پچھلی حکومتوں کی پی پی پی (پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ) میں ایک اور پی کا اضافہ کیا، اور اسے فور پی (پیپل پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ) بنا ڈالا اور لیہہ اور لداخ کے لیے ‘تھری پی’ (پرکاش،پریاورن اور پریٹن) ایجاد کر ڈالا۔ اس کے ساتھ ہی  ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے ‘فائیو ایف’ کا ایک زود اثر منتر لے آئے، جس کا آہنگ بھی سننے میں بہت دلچسپ ہے؛ فارم سے فائبر، فائبر سے فیبرک، فیبرک سے فیشن اور فیشن سے فارن! یعنی سارے مسئلے  چٹکیوں  میں حل ۔

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں

بہرحال، اس حل کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کے کچھ پرانے الیٹریشن جان لیجیے؛ پی ٹو جی ٹو یعنی پرو پیپل گڈ گورننس، ریڈ ٹیپ نہیں ریڈ کارپٹ ،ا سکیم انڈیا سے اسکل انڈیا، ایکٹ ایسٹ، سب کا ساتھ اور سب کا وکاس، پہلے شوچالیہ، پھر دیوالیہ اور ایکٹ نہیں ایکشن! یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ اب ان کے کئی  پرانے الیٹریشن بادلوں کی طرح پھٹ کر ان پر ہی بجلی گرانے لگے ہیں۔ خاص طور پر، ‘منیمم گورنمنٹ،میکسمم گورننس’ والا۔

ایسے میں سوچیے، تھوتھا چَنا باجے گَھناکی راہ چل کر اس نوع کی لفظی بازی گری کے دم پر انہوں نے اہلِ وطن میں جو امیدیں جگائی تھیں اور خواب دکھائے تھے، آج ان کے کھنڈرات پر کھڑے ہو کر ان کے لیے خود کو بدلنا یا کچھ نیا کر پانا اتنا آسان ہے کیا؟

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)