طبقہ مقتدرہ و اشرافیہ کے ہاتھوں ماہی گیر خواتین کا جنسی استحصال عام سا واقعہ رہا ہے۔ خواہ وہ برہمن ہوں، یادو ہوں یا کوئی اور، مردوں کی مبینہ صنفی برتری اور پیسے کی طاقت اس بات کو یقینی بناتی رہی کہ متاثرہ عورتیں جبر و استحصال کے خلاف لب کشائی نہ کریں۔
(پلتزر سینٹر اور روہنی نیلے کنی پھلانتھراپیز کے تعاون سے تیار کی گئی یہ رپورٹ ہندوستان کی ماہی گیر خواتین کے حوالے سے کی جارہی ایک سیریز کا حصہ ہے۔)
چندرکلا دیوی کے شوہر کی موت اسی وقت ہوگئی تھی جب ان کے چاروں بچے بہت چھوٹے تھے۔ کوئی سہارا نہ ہونے کے باعث وہ ایک برہمن زمیندار کے گھر میں کام کرنے کو مجبور تھیں۔ ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے مالکوں نے ان کا جنسی استحصال کیا۔ طبقہ مقتدرہ اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے دوسرے مردوں نے بھی ان کے ساتھ یہی رویہ روا رکھا۔
‘وہ اونچی ذات کے طاقتور لوگ تھے۔ ‘ چندرکلا کہتی ہیں۔’اگر میں احتجاج کرتی یا اس کے بارے میں کچھ بھی بولتی تو وہ مجھےزدوکوب کرتے۔ اس لیے میں خاموش رہ گئی۔’
چندرکلا کا تعلق بہار کے مدھوبنی ضلع کے اندھراتھاری کے ایک ماہی گیر خاندان سے ہے۔ وہاں جنسی استحصال کے بارے میں دبی زبان سے یاسرگوشی کے انداز میں میں بات کی جاتی ہے۔ دی وائر نے اس بلاک کی درجنوں ماہی گیر خواتین سے اس موضوع پر بات کی – بعض باتیں شخصی طور پر اور بعض باتیں اجتماعی ملاقاتوں میں۔ ان میں سے کسی نے بھی جنسی استحصال کی بات سے انکار نہیں کیا۔اکثر نے اثبات میں سر ہلایا۔ کسی نے نظریں چراتے ہوئے حامی بھری اور کچھ نے اس کے بارے میں آن ریکارڈ بات کی۔ اس موضوع سے متعلق تہمتوں کے باعث یہ عورتیں جنسی استحصال کے بجائے اس کو ‘گندہ کام’ یا ‘بری نظر’ کہتی ہیں۔
‘ماہی گیر برادری مقتدر طبقہ کے کنٹرول میں تھی، ارمیلا دیوی کہتی ہیں۔’میرے معاملے میں یہ یادو لوگ تھے۔ جب آپ ان کے کنٹرول میں ہوتے ہیں تب جو بھی وہ کہیں، آپ وہی کرنے کو مجبور ہوتے ہیں۔ آپ ڈر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔’
جب شانتی دیوی سے پوچھا گیا کہ کیا ماضی میں یہ لوگ ان کا جنسی استحصال کرتے تھے، تو انھوں نے کہا، ‘اس طرح کا جنسی تشدد چھوٹی ذات کی خواتین کا سب سے بڑا خوف تھا۔’ وہ پلٹ کر سوال کرتی ہیں، ‘اسی بات کا ڈر تھا، نا؟ اگر یہ نہیں تو اور کیا؟ یہی وجہ تھی کہ ہمارے آدمی ہمیں ان بڑے لوگوں کے کھیتوں اور گھروں میں بھیجنے سے ڈرتے تھے۔’
‘یہ جنسی غلامی کا کوئی واحدمعاملہ نہیں تھا،’سمن سنگھ کہتی ہیں، جو یہاں تین دہائیوں سے ماہی گیر خواتین کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور اب سکھی این جی اوکی سربراہ ہیں۔ ‘جب ہم نے سال 1990 میں ماہی گیر خواتین کو منظم کرنا شروع کیا تو ہم نے پایا کہ مقتدر طبقہ کے ہاتھوں ان ماہی گیر خواتین کا جنسی استحصال ایک عام ساواقعہ تھا۔’
سنگھ کی شریک کار، منجو دیوی، جو خود ماہی گیر قوم سے آتی ہیں، کہتی ہیں کہ ان کی ابتدائی ملاقاتوں کے دوران ہر گاؤں میں ماہی گیرعورتوں نےمقتدر طبقہ کے ہاتھوں جنسی استحصال کے اپنے تجربات شیئر کیے۔ ‘وہ مردبرہمن، یادو یا کوئی اور مقتدر اور امیرآدمی ہوتا تھا۔ مردوں کی صنفی برتری اور پیسے کی طاقت اس بات کو یقینی بناتی تھی کہ متاثرہ عورتیں جبر واستحصال کے خلاف لب کشائی نہ کریں۔’
یہ مردخواتین کو بھی باقاعدگی سے زدوکوب بھی کرتے تھے۔ ایک اور ماہی گیر خاتون بچیا دیوی،جو اسرار گاؤں سے ہیں، کہتی ہیں کہ ‘بولنے پر وہ ہمیں پیٹتے تھے، اس لیے ہم خاموش رہے۔’
یہ سچ ہے کہ بے بس عورتیں دبنگ مردوں کے خلاف نہیں لڑ سکتیں، چندرکلا کہتی ہیں۔’لیکن میں نے تو ان سے قرض بھی لیا تھا، اس بات نے مجھے اور بھی خاموش رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔’
ایسا اس لیے ہوتا تھا کیونکہ ماہی گیرخواتین کے پاس ذریعہ معاش کی کمی تھی،ارمیلا کہتی ہیں۔ ‘میں نے ان سے قرض لیا تھا اور وہ مجھے کہیں اور کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ استحصال کے باوجود میں انہی مالکوں کے یہاں کام کرنے کو مجبور کی گئی۔’
§
بہار کے اس سیلاب زدہ علاقے میں ہر گاؤں کے پاس کئی سرکاری تالاب ہیں۔ حکومت تالابوں کی نیلامی کرتی ہے اور ماہی گیروں کو لیز پر دیتی ہے، لیکن یہ نظام صرف کاغذوں پر ہی کام کرتا تھا۔ حقیقت میں ماہی گیرمقتدر طبقہ کامہرہ بھر تھا۔ لیز کےکاغذات پر ماہی گیروں کے نام تو ہوتے تھے، لیکن تالاب طبقہ مقتدرہ و اشرافیہ کے قبضہ میں ہی رہتے تھے۔
ماہی گیر اس بات سے لا علم تھےکہ تالاب ان کے نام پر تھے۔ اسرار گاؤں کی ردھیا دیوی کہتی ہیں، ‘ہمارے گاؤں کے برہمن اکثر میرے شوہر کو مچھلی پکڑنے کے لیے بلایا کرتے تھے۔ وہ ایک-دو مچھلی یا تھوڑے سے پیسے لے کر واپس آتے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ تالاب پر ہمارا حق تھا۔’
زمیندار اکثر ماہی گیروں کو اپنے تالاب میں مچھلیاں پکڑنے نہیں دیتے تھے۔ اس کے نتیجے میں،اکثر ماہی گیر اپنے آبائی کام کو چھوڑ کر شہروں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے جانے لگے۔ ان کے بچے اپنے روایتی ہنرتک سے واقف نہیں ہو پائے۔ ملاح برادری کی شناخت خطرے میں پڑ گئی۔ ‘جب ہمارے پاس تالاب ہی نہیں تھے تو ہم ملاح اپنی شناخت کیسے برقرار رکھ سکتے تھے۔ ہم اس سے محروم ہورہے تھے،’ردھیا کہتی ہیں۔
انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والی ملاح برادری کی عورتوں کا حال اور بھی خراب تھا۔ کہیں اور جانے کا موقع نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان زمینداروں کے کھیتوں میں کام کرنےکو مجبور تھیں، جنہوں نے انہیں جنسی استحصال کے ساتھ ساتھ بندھوا مزدوری میں پھنسا رکھا تھا۔
سن 1990 میں، ایک سماجی کارکن وی جی سری نواسن کی رہنمائی میں ملاح برادری کی خواتین نے خود کو منظم کرنا شروع کیا۔ انہوں نے سمجھا کہ ان کے حقوق کیا ہیں، مثلاً؛ تالاب پر دخل۔ ان کی مسلسل مہم نے بہار حکومت کو مجبور کیا کہ وہ کوآپریٹو قانون میں ترمیم کریں اور خواتین کوآپریٹو سوسائٹیوں کو ماہی پروری کا حق دیں۔
جلد ہی ماہی گیر خواتین نے کوآپریٹو سوسائٹیاں بنا کر لیزپر تالاب حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس سماجی مہم نے 1999 تک سکھی این جی او کی شکل اختیار کر لی۔ سوئس ریڈ کراس کی مدد سے سکھی نے خواتین کو فش فارمنگ کی تربیت دی۔ آج 5000 سے زیادہ خواتین ریاست بھر میں 13 کوآپریٹو سوسائٹی چلا رہی ہیں جنہوں نے 150 سے زیادہ سرکاری تالاب لیز پرلیا ہے۔
انہوں نے درجن بھر خشک تالابوں کو زندہ کیا ہے اور جدید تکنیک سے ماہی پروری کا کام کر رہی ہیں۔ خواتین ان مچھلیوں کو فروخت کرکے آمدنی حاصل کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے انہوں نے معاشی آزادی کے ساتھ ساتھ ماہی گیر کے طور پر بھی اپنی شناخت دوبارہ حاصل کر لی ہے۔
متحد ہو کر ان خواتین نے ان جابر جاگیرداروں سے آزادی حاصل کی ہے جنہوں نے انہیں غلام بنا رکھا تھا۔
§
ارمیلا دیوی 1990 کی دہائی کے آخری دن یاد کرتی ہیں۔ ایک دن وہ بستر پر بیمار پڑی تھیں اور کام پر نہ جا سکیں۔ اچانک کچھ لوگ ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور انہیں گھونسے مارنے لگے۔’یہ سب یادو لوگ تھے، جن کے گھر میں وہ کام کرتی تھی، ارمیلا کہتی ہیں۔’ انہوں نے مجھے بری طرح مارا۔ میں اتنی تکلیف میں تھی کہ بیٹھ سکتی تھی نہ لیٹ سکتی تھی۔’
یہاں زمینداروں اور مالکوں کا عورتوں کو مارنا عام تھا۔
لیکن، اس دن ارمیلا نے فیصلہ کیا کہ وہ بہت برداشت کر چکی۔ انہوں نے سماجی کارکنوں کے ساتھ ماہی گیر خواتین کی بہت سی میٹنگ میں حصہ لیا تھا، جہاں انہیں عزت کے حق کے بارے میں جانکاری ملی تھی۔ وہ ماہی گیر عورتوں کے ایک رضاکار گروپ سے بھی وابستہ تھیں، جس نے ایک تالاب لیز پر لیا تھا۔ اس آمدنی سے انہوں نے کچھ بچت بھی کی تھی۔ اس سب نے ان کی ہمت بڑھا ئی۔
وہ گھنٹوں پیدل چلتی رہیں۔ کئی بار آرام کرتے ہوئے اور پانی کے گھونٹ لیتے ہوئے وہ سکھی این جی او کے دفتر پہنچیں۔ این جی او میں کچھ علاج کے بعد ارمیلا نے پولیس اسٹیشن جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ خبر ان کے گاؤں پہنچی اور ملزموں نے ان سے منت سماجت کی کہ وہ پولیس کے پاس نہ جائیں اور پنچایت میں فیصلہ کرا لیں ۔ ارمیلا نے ان کی بات نہ سنی اور پولیس کو ثالث بنایا۔ پولیس نے ملزموں سے کہا کہ وہ ارمیلا کو ہر ماہ معاوضہ ادا کریں۔
ماہانہ معاوضے کی ادائیگی تو یادووں نےصرف ایک یا دو ماہ تک ہی کی، لیکن اس معاملے کی وجہ سے مظالم بند ہوگئے۔ ارمیلا کہتی ہیں۔ ‘اس دن کے بعد انہوں نے خواتین کو مارنا چھوڑ دیا، جو پہلے بے حد عام تھا۔ اس دن سے گاؤں کی قدریں بدل گئیں۔’
‘تبدیلی لانے کی یہ طاقت ہمیں معاشی آزادی سے ملتی ہے،’ وہ کہتی ہیں۔
‘چونکہ میں اب ان سے قرض کی بھیک نہیں مانگتی، میں ان کے تشدد کے خلاف احتجاج کرسکتی ہوں۔ ورنہ مجھ میں بولنے کی ہمت نہیں آتی۔’ ارمیلا کہتی ہیں ‘قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے۔’
(انگریزی میں ملٹی میڈیا رپورٹ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔) (ہندوستان کی ماہی گیر خواتین پر پانچ حصوں پر مشتمل ملٹی میڈیا سیریز دیکھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)
Categories: فکر و نظر, گراؤنڈ رپورٹ