راج شیکھر کا کام نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے، جس کے دوران انہوں نے دلتوں کے جذبات اور مسائل کی انتھک نمائندگی کی ہے، اپنے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ ذات کی بالادستی کو چیلنج کیا۔ جرنل دلت وائس کو انہوں نے 1981 میں قائم تھا۔ ان کا جرنل ہندوستان کے انسانی حقوق سے محروم سبھی طبقات کے ترجمان کے طور پر کام کرتا تھا۔
غالباً 1997 میں جب معروف دلت لیڈر رام ولاس پاسوا ن ہندوستان کی مرکزی کابینہ میں ریلوے کی وزارت کے انچارج تھے، انہوں نے کشمیر میں ریل لائن کی تعمیر کے حوالے سے اپنے گھر پر پریس بریفنگ اور لنچ کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ وہ کشمیر کے دورے سے واپس آئے تھے اور وادی کشمیر میں ریلوے ٹریک بچھانے کا انہوں نے ارادہ کیا ہوا تھا۔
خیر، اس دوران انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کرسفید قمیض شلوار میں ملبوس ایک شخصیت سے متعارف کروایا، جو بظاہر ایک سیاسی لیڈر جیسے لگتے تھے۔مگر معلوم ہوا کہ یہ مرنجا مرنج حلیم الطبیعت شخص مشہور دلت دانشور، مصنف اور صحافی وی ٹی راج شیکھر تھے، جن کا پچھلے ہفتے 92 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔
ان کے ساتھ غائبانہ تعارف تو کالج زمانے سے ہی تھا، کیونکہ وادی کشمیر کے سوپور میں ہمارے گھر پر ان کا جرنل دلت وائس بذریعہ ڈاک میرے چاچا پروفیسر یونس گیلانی کے نام آتا تھا، جو ان دنوں کیرالا کی ایک یونیورسٹی میں استاد تھے۔
اس جرنل نے ہی مجھے ہندوستان کی انتہائی پیچیدہ سماجی صورتحال، ذات پات اور دلت سیاست سے متعارف کروایا۔
لہذا راج شیکھر کو دیکھتے ہی میں ان پر فدا ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ دلت وائس کے لیے وہ کشمیر پر کوئی مضمون لکھنا چاہتے تھے اور پاسوان سے انہوں نے اس کا ذکر کیا تھا۔ اس لیے پاسوان نے مجھے ان سے متعارف کروایا۔ وہ بنگلور میں مقیم تھے، اور اس کے بعد جب بھی وہ دہلی آتے تھے، تو اکثر ان سے ملاقات ہوتی تھی۔
گو کہ فی الوقت کئی دلت دانشوروں اور صحافیوں نے سوشل میڈیا پر جگہ بنائی ہے اور ان کے پوسٹ خاصے مقبول ہوتے ہیں، مگر 80 اور90 کی دہائی میں وہ واحد ایسی آواز تھی، جو دلتوں پر مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے اور اس کا حل بھی پیش کرتے تھے۔
جرنل دلت وائس کو انہوں نے 1981 میں قائم تھا۔ ان کا جرنل ہندوستان کے انسانی حقوق سے محروم سبھی طبقات کے ترجمان کے طور پر کام کرتا تھا۔ میگزین نے متنازعہ موضوعات سے کبھی گریز نہیں کیا۔ ایسے مضامین شائع کیے جن میں ہندو ازم، صیہونیت، یہودیت، کمیونزم، اور امریکی نو قدامت پسندی پر تنقید کی گئی۔
انہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز 1959 میں دکن ہیرالڈ سے کیا، بعد ازاں انڈین ایکسپریس میں شامل ہو گئے، جہاں انہوں نے 25 سال خدمات انجام دیں۔
سماجی مسائل کے بارے میں ان کی گہری سمجھ اور ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے لڑنے کی وابستگی نے انہیں دلت وائس شائع کرنے پر اکسایا۔ ہیومن رائٹس واچ نے ایک وقت اس کو ہندوستان کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا جریدہ قرار دیا۔
راج شیکھر کا کام نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے، جس کے دوران اس نے دلتوں کے جذبات اور مسائل کی انتھک نمائندگی کی ہے، اپنے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ ذات کی بالادستی کو چیلنج کیا ہے۔ متعدد پمفلٹس اور کتابوں کے ذریعے،انہوں نے بتایا کہ کس طرح ذات پات ہندوستان میں سیاست، قانون، مذہب اور سماجی اداروں کو متاثر کرنے والے بنیادی ڈھانچے کے طور پر کام کرتی ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ذات، تاریخ، معاشیات، سیاست اور مذہب سمیت مختلف موضوعات پر 100 سے زیادہ کتابیں اور مونوگراف لکھے ہیں۔ 2005 میں، ان کی کتاب کاسٹ اے نیشن ود ان دی نیشن نے لندن انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا(ایل آئی ایس اے) انٹرنیشنل ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
ان کی ایک اور معرکتہ الآرا تصنیف دلت دی بلیک ان ٹچ ایبلز آف انڈیا ہے، جس کو ہندوستان سے باہر خاصی پذیرائی ملی اور اس سے ملک کے سماجی تانے بانے کو سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔
ہندو قوم پرستوں کے شدید دباؤ کی وجہ سے 2011 میں ان کے جرنل دلت وائس کی اشاعت بند ہوگئی۔ 1986میں ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا تھا۔ اسی سال ان کو انسداد دہشت گردی کے بدنام زمانہ قانون ٹاڈا کے تحت گرفتار بھی کیا گیا۔
ان کو ملک کے خلاف بغاوت وغیر دیگر دفعات کے تحت بھی کئی بار جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ ان کے خلاف کیس تھا کہ اپنے جرنل کے ادارتی نوٹ میں وہ ہندو اونچی ذاتوں خاص طور پر برہمنوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔
برصغیر یعنی غیر منقسم ہندوستان دراصل امریکہ کی طرح تارکین وطن کی سرزمین ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی دس ہزار سال قبل،تو کوئی پانچ ہزار سال قبل، تو کوئی ایک ہزاس سال قبل تو کوئی کئی سو سال قبل اس خطے میں آباد ہونے کے لیے آیا ہے۔ اس خطے کے اصل باشندے گونڈ، بھیل وغیرہ قبائلی اور دلت ہیں۔ باہر سے آئے افراد نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا، جو یورپی اقوام نے امریکہ، کنیڈا اور آسٹریلیا میں مقامی آبادی کے ساتھ کیا، یعنی ان کو جنگلوں کی طرف دھکیل کر ان کی زمینوں پر قبضہ کیا۔
جو جنگلوں کی طرف چلے گئے ان کو قبائلی کہا گیا اور جو شہروں اور دیہاتوں میں رہے اور باہر سے آئی قوموں کی غلامی یا ان کے زیر اثر کام کرنے پر رضامندی ظاہر کی،وہ شودر یا نچلی ذات کے افراد کہلائے گئے۔
دلت شودروں میں سب سے نچلی پائیدان پر آتے ہیں۔ ان کو صاف صفائی، مردہ جانوروں کی کھال نکال کر ان کو ٹھکانے لگانا اور انسانی فضلہ سر پر ڈھو کر لے جانا، جوتے بنانا اور مرمت کرنے جیسے کام دیے گئے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں ہندو آبادی 96.62کروڑ تھی، جس میں 85فیصد شودر اور 15فیصد اونچی ذات کے ہندو ہیں۔ اس میں دلت اور قبائلی 30فیصد کے لگ بھگ ہیں۔
اپنی کتاب میں راج شیکھر لکھتے ہیں کہ ہزاروں سالوں سے دلتوں پر ہو رہے مظالم اور چھوت چھات جنوبی افریقہ کی نسل پرستی اور امریکہ میں سیاہ فام نیگرو آبادی کے ساتھ سفید فاموں کے سلوک سے کہیں زیادہ بد تر ہے۔ ہندوستانی دانشور اپنی کم ہمتی اور بے ایمانی کی وجہ سے ان مظالم پر قلم اٹھانے سے احتراز کرتے ہیں اور بیرو ن ملک محققین بھی اس کو قابل در اعتناء نہیں سمجھتے ہیں۔
غیر ملکی محقیقین، صحافیوں اور سفارت کاروں نے اس اہم ایشو کے حوالے سے آنکھیں موند لی ہیں۔ جبکہ یہی لوگ جنوبی افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام آبادکے حقوق کے لیے خاصے سرگرم ہو جاتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب وہ ہندوستان کے دورہ پر آتے ہیں، تو پندرہ فیصد اونچی ذات کے افراد کے ہی رابطہ میں آتے ہیں۔ میڈیا میں دلت برائے نام ہیں۔ اس وقت 98 وفاقی سکریٹریوں میں کوئی دلت نہیں ہے۔
یہ حال اس وقت ہے جب اعلیٰ تعلمی اداروں میں داخلہ اور نوکریوں میں ان کے لیے کوٹہ مقرر ہے۔پھر بھی وہ فیصلہ ساز پوزیشن میں نہیں پہنچ پاتے ہیں۔راج شیکھر نے بائیں بازو کی جماعتوں کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ان کو کہنا ہے سماجی برابری کا دعوی ٰ کرنے والے دلتوں کے حوالے سے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ کیونکہ بائیں بازو کے پولٹ بیورو پر بھی اونچی ذات کے افراد کا قبضہ ہے۔
و ہ اکثر سوال کرتے تھے کہ عالمی برادری چھوت چھات کو نسلی منافرت کے ساتھ کیوں نہیں دیکھتی ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری ہندوستان کے اس سماجی تانے بانے سے لا علم ہے۔
امریکہ اور جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کے خلاف نفرت کی وجہ معاشی رہی ہے، مگر بقول معروف دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر بھارت میں چھوت چھات کو مذہبی توثیق حاصل ہے۔ آج بھی دیہاتوں میں دلت دولہا بارات میں گھوڑے پر نہیں چڑھ سکتا ہے۔ وہ گاؤں کا کنواں استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔ مندروں میں ان کا داخلہ بند ہے۔چونکہ ہندو قوم پرستوں ان کو ہندو دائرے سے باہر نہیں جانے دینا چاہتے ہیں اس لیے ان کے لیے علیحدہ مندر بنائے گئے ہیں۔
غالباً 2003 میں ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے دلت پرنسپل سکریٹری اعلیٰ سول سروس افسر پی ایل پونیا نے جب اپنے آبائی گاوں میں مکان بنانے کی کوشش کی، تو ان کو بتایا گیا کہ وہ صرف دلت ٹولے یعنی محلے میں ہی مکان بنا سکتے ہیں۔
دلت لیڈرجگجیون رام شاید ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ دیر تک مختلف وزارتی عہدوں پر فائر رہے۔ 1971کی ہندوستان پاکستان جنگ کے وقت وہی وزیر دفاع تھے۔ وہ نہرو اور اندرا گاندھی حکومت میں وزیر کے علاوہ 1977سے 1979تک نائب وزیر اعظم بھی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ کابینہ کی میٹنگوں میں شرکت کے لیے وہ اپنے بیگ میں اپنا گلاس ساتھ لے جاتے تھے، کیونکہ چھوت چھات کی وجہ سے ان کو چائے پیالی میں نہیں دی جاتی تھی۔
کئی جگہوں پر پولیس لائنز میں دو کچن اور ڈائننگ ہال ہوتے ہیں، کیونکہ اونچی ذات کا کانسٹبل یا حوالدار، نچلی ذات کے اپنے سینئر چائے وہ ایس پی یا اس سے بھی اوپر کا افسر کیوں نہ ہو، اس کے ساتھ کھانا نہیں کھاتا ہے۔
راج شیکھر کا کہنا ہے کہ اس چھوت چھات اور دلتوں پر مظالم کے لیے مذہبی منظور ی اس قدر ہے کہ دیوداسی رسم کے تحت جب دلت لڑکیوں کو مندر کی بھینٹ کر دیا جاتا ہے، تو اس پر کوئی خواتین انجمن آواز نہیں اٹھاتی ہے۔ ان لڑکیوں کا کام ناچنا اور مندروں میں بھجن گانا ہوتا ہے۔
اپنی کتاب میں وہ رقم طراز ہیں کہ یہ لڑکیاں عمر بھر غیر شادی شدہ پجاریوں کا دل بہلانے کا کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سیاہ فام خاتون کسی سفید فام گھر میں بچوں کی نگہداشت یا کھانا بنانے کا کام کرسکتی ہے، مگر کسی دلت خاتون کا کسی برہمن یا دیگر اونچی ذات کے افراد کے گھر پر اس کے کچن میں کام کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔
حیر ت ہے کہ 800 سال برصغیر پر حکومت کرنے کے باوجود مسلمانوں نے اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کا پیغام دوسرے مذاہب کے اہل وطن خصوصاً دلتوں تک نہیں پہنچایا بلکہ الٹا چھوت چھات کو ہی برقرار رکھا۔ جس کی وجہ سے دلت لیڈران اکثر طعنے دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کیا، جو اونچی ذات کے ہندوؤں نے کیا۔ مغلوں نے راجپوتوں کو فوج میں بھرتی کیا، ان کے ساتھ شادیاں رچائیں، مگر دلتوں کو کنارے ہی رکھا۔
مئی 1936ء کوا مبیڈکر نے ممبئی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں جو تحریری تقریر پیش کی، اس میں کہاتھا؛’ہندو دھرم ہمارے آباؤاجداد کا مذہب نہیں ہے۔ وہ تو غلامی ہے جومسلط کردی گئی تھی۔ ہمارا نصب العین آزادی کا حصول ہے اور تبدیلی مذہب کے بغیر آزادی کا حصول ممکن نہیں۔’
ان کی دھرم تبدیلی کے رجحان سے گاندھی جی اور کانگریس آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوں نے اسلام قبول کرلیا تو ہندوستان میں مسلمان غالب آ جائیں گے اور مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ اس صورت میں نہ ہندو بچیں اورنہ ہندودھرم۔ لہٰذا انہیں تبدیلی مذہب سے روکنے کے لیے کئی جتن کیے گئے۔
جب حد سے زیادہ کوشش کی گئی تو امبیڈکر نے گاندھی جی اورکانگریس کو جواب دیتے ہوئے کہا؛’کوئی انسان صرف آسانیوں کے لئے اپنا دین نہیں چھوڑتا۔ آدمی جس مذہب میں پیدا ہوتا ہے اسے بڑی تکلیف کے ساتھ چھوڑنے کافیصلہ کرتاہے۔ میں نے ہندو مذہب کو اپنے اور اپنے سماج کے لیے بے حسی کے رویہ کی وجہ سے چھوڑنے کا فیصلہ کیاہے۔ گاندھی اور کانگریس کے کچھ نیتا مجھ سے کہتے ہیں کہ میں دھرم کوکیوں چھوڑ رہا ہوں۔ میں گاندھی سے پوچھتا ہوں تمہاری چھوا چھوت مٹانے کی منشا تم سے ایک ہاتھ آگے بڑھ سکتی ہے کیا؟ گاندھی اورکانگریس نے اچھوتوں کے لیے کیا کیا ہے؟ تبدیلی مذہب ایسے ہے جیسے اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے کیا گیاکوئی قدم۔ کیا ڈوبنے سے بچنے کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھانا چاہیے؟ تبدیلی مذہب مادی لالچ نہیں،اخلاقی بہادری کا کام ہے۔’
امبیڈکر اسلام کے پیغام مساوات اور اخوتِ اسلامی سے خاصے متاثر تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک ملاقات میں انہوں نے ایک جید عالم دین مولانا حفظ الرحمن کوکہا؛’میں سمجھتا ہوں کہ اصولی طور پر اسلام سماجی جمہوریت اور انسانی مساوات کاداعی و نقیب ہے، لیکن ہندوستان میں آپ لوگ منوکے ورن آشرم پر عمل پیرا ہیں اور آپ نے اپنے سماج کو بھی برادریوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ میں اسلام قبول کر لیتا ہوں تو آپ مجھے کس خانے میں رکھیں گے؟’
اس تلخ سماجی حقیقت کا مولاناؒ کے پاس کوئی جواب نہ تھا اوراس طرح 1956ء کو وجئے دشمی کے دن انھوں نے اپنے چھ لاکھ ہمنواؤں کے ساتھ بدھ مذہب اختیارکرلیا۔’
کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں نے اسلام کے حقیقی پیغام کو عملاً اپنایا ہوتا۔ ہندوستان میں فرقہ پرستی کے ساتھ مقابلہ کرنے کا بھی ایک ہی راستہ ہے کہ مظلوموں کا ایک اتحاد ترتیب دیا جائے اور دیگر طبقات کے ساتھ مل کر اس عفریت کا مقابلہ کیا جائے۔ چونکہ دلت اب پڑھ لکھ کر کئی میدانوں میں آگے آرہے ہیں، ان تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس کےلیے پہلے خود ان کے لیے رول ماڈل بننے کی ضرورت ہے۔