ادبستان

شیام بینگل: جنہوں نے سنیما کی نئی زبان خلق کی

شیام بینگل ہر بار ایک نیا موضوع لے کر آتے تھے۔ ‘جنون’ (1979) جیسی تاریخی پس منظر والی فلم کے فوراً بعد انہوں نے ‘کلیگ’ (1981) میں مہابھارت کو بنیاد بنا کر جدید دنیا میں رشتوں کی کھوج بین کی اور پھر ‘منڈی’ (1983) میں کوٹھے کی حقیقی زندگی کی عکاسی کی۔

شیام بینگل (تصویر بہ شکریہ: X@ShabnamHashmi)

شیام بینگل (تصویر بہ شکریہ: X@ShabnamHashmi)

شیام بینگل کاجانا ہندوستان میں متوازی سنیما کے ایک پورے ادارے کے خاتمے کے مترادف ہے۔ ہندی میں سنیما کا ایک متوازی سلسلہ شروع کرنے کا سہرا مرنال سین اور ان کی فلم ‘بھوون شوم’ (1969) کو جاتا ہے، لیکن اگر کسی ہدایت کار نے اس بیج کو سینچا اور اسے ہرے بھرے درخت میں تبدیل کیا ہے تو وہ شیام بابو  ہی تھے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سینما کی دنیا میں ایسےہی نہیں آئے تھے بلکہ پوری تیاری اور واضح فکرونظر کے ساتھ آئے تھے۔ اس لیے ان کا کام اپنے زمانے کے بعض  دیگر ہدایت کاروں کی طرح ‘تخلیقی خبط’ نہیں لگتا، اورنہ صرف ایک باغیانہ تیور تک محدود رہتا ہے، بلکہ ان کی فلموں  میں ایک مکمل سوچ کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ جبکہ اسی زمانے میں متوازی سنیما تحریک سے وابستہ اور پونےفلم انسٹی ٹیوٹ سے آنے والے بہت سے ہدایت کاروں نے یا تو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے سمجھوتہ کیا یا ایک دو فلموں کے بعد حاشیہ پر چلے گئے۔

یہ ایک جائز سوال ہے کہ نئے دھارے کے دیگر ہدایت کاروں کے مقابلے شیام بینگل میں ایسا کیا تھا کہ ان کی اننگز اتنی لمبی چلی۔ ستر اور اسی کی دہائی میں سرگرم کیتن مہتہ، پرکاش جھا یہاں تک کہ نصف آخر میں گووند نہلانی کے یہاں  کافی انحراف نظر آتاہے، تینوں ہدایت کاروں نے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود ایک وقت ایسا آیا جب وہ اوسط درجے کی  کمرشیل فلم بنانے لگے۔ لیکن شیام نہ صرف سینما کے مختلف ادوار میں سرگرم  رہے بلکہ اپنی فلموں کے ذریعے دنیا بھر کے شائقین، ناقدین اور سنیما سے محبت کرنے والوں کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کراتے رہے۔

حیدر آباد میں پلے بڑھے شیام کا خاندان سیاسی طور پر بہت بیدار تھا۔ انہیں بچپن سے ہی فلموں میں دلچسپی تھی۔ لِنٹاس کے ساتھ اشتہاری فلمیں بنانے، اپٹا میں اپنی سرگرمی اور ستیہ جیت رے اور ریتوک گھٹک سے تحریک حاصل کرتے رہے شیام نے بغیر کسی عجلت کے سینما کی دنیا میں قدم رکھا۔

تقریباً 40 سال کی عمر میں وہ مکمل فیچر فلم ‘انکور’ (1974) ناظرین کے سامنے لائے۔ اس وقت ہندوستان اور دنیا کے بیشتر فلم مبصرین نے شیام بینگل کے انداز کو حقیقت پسندانہ سنیما کا نام  دیا۔

‘انکور’ کا دنیا بھر کے فلم مبصرین نے کھلے دل سے استقبال کیا۔  چدانند داس گپتا نے اسے آرٹ اور حقیقت پسندی کا امتزاج قرار دیا۔ ان کے الفاظ میں، ‘یہ فلم سنیما کی نئی زبان کی شروعات ہے، جو ناظرین کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔’ دی گارڈین کے مبصر ڈیرک میلکم کے مطابق، ‘انکور’ نہ صرف ہندوستانی معاشرے میں  ذات  پات کے پیچیدہ نظام اور معاشی تقسیم کو گہرائی سے تلاش کرتا ہے، بلکہ یہ عالمی سطح پر حقیقت پسندانہ سنیما کے رجحان کو بھی تقویت دیتا ہے۔

‘انکور’ ہندی سنیما کی دنیا میں ایک تاریخی واقعہ کی طرح تھا۔ اپنی پہلی فلم کے ساتھ ہی  شیام بینگل نے  اپنی زندگی کے اس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کیا، جو آج بھی مین اسٹریم سے ہٹ کر سینما بنانے والوں کے سامنے بناہواہے۔ شیام اس دور کے واحد فلمساز تھے جنہوں نے این ایف ڈی سی کے پاس جاکر مالی امداد لینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے پرائیویٹ کمپنیوں کی مدد سے اپنی فلموں کے لیے فنانس اکٹھا کیا۔ ہر فلم کے لیے مناسب فنڈز اکٹھا کرنا ہمیشہ ان کی ترجیحات کا حصہ رہی۔

اس طرح ایک طرف شیام بینگل سنیما میں ایسے موضوعات کو اٹھا رہے تھے جن کے بارے میں ہندوستانی سنیما انڈسٹری سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ ہندی سنیما کو ایک نئی حقیقت پسندانہ زبان دے رہے تھے، تحقیق پر مبنی اسکرپٹ تیار کر رہے تھے، اور ان کے اداکار اداکاری میں نئے ریکارڈ بنا رہے تھے۔ دوسری طرف انہوں نے زندگی بھر کام کے تسلسل  کوبھی برقرار رکھا۔ انہوں نے 1972 سے 1987 تک تقریباً ہر سال ایک فلم بنائی۔ صرف 80، 84 اور 86 میں ان کی کوئی فلم ریلیز نہیں ہوئی۔ وہ اپنی فلموں کے لیے اسپانسرز تلاش کرتے تھے اور ان کی کئی فلمیں مالی طور پر بھی کامیاب رہیں۔

اس لحاظ سے ‘منتھن’ (1976) سب سے دلچسپ مثال ہے۔ یہ فلم نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ نے تیار کی تھی اور اس کی کہانی ہندوستان میں سفید انقلاب اور ورگیز کورین کی کوآپریٹو تحریک پر مبنی تھی۔ تقریباً پانچ لاکھ کسانوں نے فلم کی تیاری میں دو دو  روپے کا تعاون دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی تو کسان اسے ‘اپنی فلم’ سمجھ کر ٹرکوں اور ٹرالیوں میں بھر کردیکھنے آتے تھے۔ یہ فلم تجارتی لحاظ سے بہت کامیاب رہی۔

اس کے بعد شیام بینگل نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہر بار وہ ایک نیا موضوع لے کر آتے تھے۔ وہ آخری دم تک کسی موضوع کو دہراتے ہوئے نہیں پائے گئے۔ ‘جنون’ (1979) جیسی تاریخی پس منظر کی فلم کے فوراً بعد وہ مہابھارت پر مبنی ‘کلیگ’ (1981) میں جدید کاروباری دنیا میں رشتوں کی کھوج کرتے نظر آئے۔ ‘منڈی’ (1983) میں کوٹھے کی زندگی کی یادگار اور حقیقی عکاسی کے بعد انہوں نے ‘تری کال’ (1985) میں گوا کے تاریخی پس منظر کا انتخاب کیا۔ ‘سورج کا ساتواں گھوڑا’ (1993) جیسی پیچیدہ کہانی پر کام کرنے کے بعد انھوں نے ‘ممو’ (1994) میں نہایت سادہ انداز میں اپنے خیالات کا اظہارکرنے کا حوصلہ دکھایا۔

یہی نہیں، نوے کی دہائی میں جب متوازی سنیما تحریک کے زیادہ تر ہدایت کار اپنی چمک کھو چکے تھے، شیام بینگل نے اپنی اہمیت برقرار رکھی۔ انہوں نے ‘سرداری بیگم’ (1996)، ‘سمر’ (1999)، ‘ہری بھری’ (2000)، ‘زبیدہ’ (2001) اور ‘دی فاراگاٹن ہیرو’ (2005) جیسی فلمیں بنائیں  اور سرخیوں میں بنےمیں رہے۔

اپنے کریئر کے آخری حصے میں انہوں نے اپنے معروف انداز میں ‘ویلکم ٹو سجن پور’ (2008) اور ‘ویل ڈن ابا’ (2010) جیسی فلمیں بنائیں اور اس نسل سے بہت آسانی سے جڑ گئے جو ستر کی دہائی میں ‘انکور’ اور ‘نشانت’ کے بینگل کو نہیں جانتی  تھی۔

شیام بینگل کی سب سے بڑی دین موضوع کو اس کی صداقت کے ساتھ پیش کرنا سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کی فلمیں ایک دستاویزی فلم کی حد تک مستند ہوتی تھیں۔ وہ جس بھی موضوع کا انتخاب کریں، ان کی فلموں میں ملبوسات، ماحول، بول چال – ہر چیز پر گہری تحقیق ملتی ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ جس چیز کے لیے شیام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہ حقیقت کو اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے ساتھ  پیش کرنا ہے۔

‘جنون’ جیسی فلم بنانا آسان نہیں تھا، جو 1857 کے بغاوت کے پس منظر میں محبت کی کہانی بنانے کی جسارت کرتی ہے۔ اس بہانے بینگل اس دور کو بالکل ویسا ہی دیکھتے ہیں، فلیٹ ریئلزم سے الگ، کسی بھی دور یا ماحول کو مختلف پہلوؤں سے دیکھنا اور اس طرح سے حقیقت کو اس کی تینوں جہتوں کے ساتھ سامنے لانا۔

حقیقت کو اکہرے ڈھنگ سے نہ دیکھ کراس کے  تمام پہلوؤں کی پڑتال کی یہی بے تابی انہیں دھرم ویر بھارتی کے ناول ‘سورج کا ساتواں گھوڑا’ تک لے آتی ہے۔ ‘سمر’ (1999) پیچیدہ حقیقت کو سمجھنے کے اس انداز کی انتہا ہے، جہاں سنیما کے اندر سینما بنایا جا رہا ہے اور اس میں سچائی کے بہت سے پہلو سامنے آ رہے ہیں۔

رائٹنگ کے معاملے میں بھی ان کا سینما بہت مضبوط تھا۔ خاص طور پر اپنی ابتدائی فلموں میں جس طرح سے انہیں مراٹھی کے بہترین ڈرامہ نگاروں کا تعاون حاصل ہوا، اس نے ان کے سنیما کو ایک نئی بلندی دی۔ پہلی ہی فلم ‘انکور’ کے مکالمے ڈرامہ نگار ستیہ دیو دوبے نے لکھے تھے، ‘نشانت’ اور’منتھن’ کا اسکرین پلےمعروف مراٹھی ڈرامہ نگار وجے ٹنڈولکر نے لکھا تھا، اور ‘بھومیکا’ کا اسکرین پلے گریش کرناڈ نے لکھا تھا۔ ’جنون‘ کے مکالمے اردو کی کی نامور افسانہ نگار عصمت چغتائی نے لکھے، ’منڈی‘ اور ’ممو‘ میں شمع زیدی کی تحریرسامنے آئی۔ دوردرشن کے ذریعے انہوں نے ‘بھارت ایک کھوج’ جیسے بڑے پروجیکٹ  پر کام کیا، جس نے اب ایک دستاویز کی شکل اختیار کر لی ہے۔

ایک حقیقت پسندانہ دھارا سے  ہونے کے باوجود شیام بینگل چیتن آنند، بمل رائے، گرو دت اور راج کپور جیسے پرانے ہدایت کاروں کی روایت سے جڑے ہوئے نظر آتے تھے، جنہوں نے اپنے کام کو ہی اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا۔ اپنی ابتدائی فلموں میں سماجی عدم مساوات اور ذات پات کے نظام سے شروع کرتے ہوئے، وہ مزدوروں کے استحصال، کوآپریٹو تحریک، صنفی امتیاز اور اقتدار کے ناجائز استعمال جیسے موضوعات کی طرف بڑھے اور بعد میں نہرو، بوس اورمجیب کے بہانے بڑے سیاسی منظر نامے کو سنیما کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی۔

سنیما کے علاوہ بھی  شیام لگاتارسینسر شپ، اظہار رائے کی آزادی اور سنیما کے لیے مالی وسائل جمع کرنے کے بارے میں آواز اٹھاتے رہے۔ انہوں نے سماجی و سیاسی مسائل، سینما کی بدلتی ہوئی نوعیت اور ثقافت کی اہمیت پر کئی قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں  میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ مختلف فلم فیسٹیولز، لٹریچر فیسٹیولز اور عوامی فورمز کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ وہ اکثر آئی ایف ایف آئی اورمامی جیسے بڑے فیسٹیول میں بطور پینلسٹ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےپائے گئے۔؎

(دنیش شرینیت ‘دی اکانومک ٹائمز’ کے ہندوستانی زبان کے ایڈیشن کے ایڈیٹر ہیں، سنیما اور پاپولر کلچر پر لکھتے ہیں۔)