آپ ہی سوچیے جس قوم نے وقت کی اہمیت کو ہمیشہ بعد از وقت محسوس کیا اس کے لیے کیلنڈروں کے تکلف کی کیا ضرورت ہے۔
مجتبیٰ حسین کا یادگار مزاحیہ مضمون
حضرات!نیا سال آگیا ہے لہذا پرانے سال کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیجیے کہ اس نے آپ کو اپنے چنگل سے بچ نکلنے کی اجازت دے دی ورنہ عین ممکن تھا کہ پرانے سال کے گزرنے کی بجائے آپ گزر جاتے اور اپنے پیچھے تھوڑے سے رشتہ داروں اور بہت سے قرض خواہوں کو نئے سال میں رونے دھونے کے لیے چھوڑ جاتے۔ ہم ذاتی طو پر نئے سال کی خوشی اس لیے نہیں مناتے کہ نیا سال آگیا ہے بلکہ خوشی اس بات کی مناتے ہیں کہ پرانا سال گزر گیا اور ہم نہیں گزرے ۔ تب ہم پرانے سال کی طرف یوں حقارت کی نظر ڈالتے ہیں جیسے کشتیوں کے دنگل میں فتح پانے کے بعد کوئی پہلوان ہارے ہوئے پہلوان کی طرف فا تحانہ نظر ڈالتا ہے۔ سچ پوچھیے تو پرانا سال بھی ایک پہلوان ہی ہوتا ہے جسں سے آپ مسلسل 365 دن فری اسٹائل کشتی لڑتے ہیں ۔ وہ آپ کو گھو نسے رسید کرتا ہے کبھی دھوبی پٹخنی دے ڈالتا ہے، کبھی آپ اس کے سینہ پر سوار ہو جاتے ہیں اور وہ کبھی آپ کے سینہ پر مونگ دلنے لگتا ہے ۔ اس لگا تار پٹخم پٹخی کے دوران بسا اوقات آپ پر نیم بے ہوشی کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔
مگر آپ بڑی بے شرمی کے ساتھ اس حالت نیم بے ہوشی سے باہر نکل آتے ہیں اورپھر پرانے سال سے نبرد آزما ہو جاتے ہیں ۔ اب اسی پرانے سال کو لیجیے کہ اس نے آپ کا کیا حشر بنا رکھا تھا۔ آپ پیوستہ سال کے گھونسوں اور طمانچوں سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ اس نے قیمتوں میں اضافہ کا ایک ایسا زور دار طمانچہ آپ کے رخسار مبارک پر جڑ دیا کہ آپ کی آنکھوں کے آگے ساتوں طبق روشن ہو گئے ۔ آپ چکرا کر گر پڑے، اٹھنے کی کوشش کی تو پرانے سال نے محاصل کی ایک ایسی زبردست ڈراپ کک آپ کے سینے پر جما دی کہ کئی مہینوں تک آپ کو یہ گمان ہوتا رہا جیسے آپ کے جسم میں سینہ ہی باقی نہ رہا ہو۔ مگروہ جو کسی نے کہا ہے کہ ظالم کو بالآخر ایک دن شکست ہو جاتی ہے تو کل رات جب قدرت کے ریفری نے سیٹی بجائی تو پتہ چلا کہ ان 365 دن کے مقابلہ کے بعد آپ میں ابھی تھوڑی سی جان باقی ہے اور پرانا سال ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا ہے۔ مگر آپ اپنی اس کامیابی پر زیادہ خوش ہونے کی حماقت نہ کیجیےکہ ایک اور موٹا تازہ لمبا تڑنگا سال آپ کے مقابل آگیا ہے اور یا درکھیے کہ ہر نیا سال ایذا رسانی کے معاملہ میں پرانے سال سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور ہمیں اس وقت اس دانا کا قول یاد آرہا ہے جس نے 1969ء کی آمد کے موقع پر نئے سال کا پیغام روانہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 1969ء 1968ء سے بُرا اور 1970ء سے اچھا ہوگا۔
ہم فطری طور پر لاپر واہ واقع ہوئے ہیں اسی لیے ہمیں بر وقت نئے سال کی آمد کی خبر نہیں ہوتی ۔ ہم تو کیلنڈر کی طرف دیکھے بغیر ہی اپنی زندگی گزار لیتے ہیں۔ گھڑی دیکھنے کی بات تو بہت بڑی ہے یقین مانیے کہ ہر نئے سال کی آمد کی اطلاع ہمیں اپنی بیوی سے اس وقت ملتی ہے جب وہ ہر نئے سال میں ہمیں ایک نئے بچے کا باپ بنا دیتی ہے ۔جب اس کی گود میں ایک چاند سا بچہ ہمکنے لگتا ہے تو ہم اچانک خواب غفلت سے جاگ پڑتے ہیں اور اپنی آنکھیں ملتے ہوئے پوچھتے ہیں، کیا نیا سال آگیا ؟ اس پر ہماری بیوی مسکراتی ہوئی ہمارے ہاتھوں میں نئے سال کو تھما دیتی ہے اور کہتی ہے’ اگر یقین نہیں آتا تو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو کہ نیا سال آگیا ہے ، کتنا خوبصورت ہے، کتنا موٹا تازہ ہے ۔’اس پر ہم رونی صورت بناکر کہتے ہیں’ ہاں ہاں ! خوبصورت تو ہے مگر اب میں نئے سال کے لیے کپڑے کہاں سے لاؤں، دودھ کہاں سے لاؤں، پھر جو پرانے سال بڑے ہو رہے ہیں تو ان کی تعلیم و تربیت کا کیسے بندو بست کروں ؟’
تب ہماری بیوی ہماری پریشانی سے بے نیاز ہو کر نئے سال کو لوری دینے لگتی ہے اور جوں جوں لوری کی آواز بڑھتی جاتی ہے ہماری نیند اُ چٹنے لگتی ہے ۔
یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اور ہم دعویٰ کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ کسی سال نیا سال نہیں آسکتا مگر ہمارے گھر نئے بچے کا آنا نہایت ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا قانون قدرت ہے جس سے انحراف ممکن ہی نہیں ہے ۔ البتہ 1965ء ہمارے لیے ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے کہ اس سال ہمارے گھر میں نیا سال نہیں آیا ۔ چنانچہ آج تک یہ سال بقائے میں چل رہا ہے اور مسٹر 1964ء کے بعد ہم نے دوسرے بچے کا نام مسٹر1966ء ہی رکھا ۔ کبھی ہم مذاق مذاق میں اپنی شریک حیات سے پوچھتے ہیں 1965ء کا حساب کب بے باق ہونے والا ہے ؟ تو وہ دھمکی کی آواز میں کہتی ہے’اجی آپ قدرت کا مذاق نہ اڑائیے کسے معلوم کہ کسی سال آپ کے گھر جڑواں سال پیدا ہو جائیں اور یوں سارا حساب بے باق ہو جائے ۔’
نئے سال کی آمد کی خبر تو ہمیں بالآ خر ہو ہی جاتی ہے لیکن اس کی آمد کا یقین اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ ہمارے پڑوسی اور پڑوسن میں لڑائی جھگڑ ا شروع نہ ہو جائے۔
یہ جھگڑا ہمیشہ نئے سال کے کیلنڈروں کے مسئلہ پر ہوتا ہے اور اتفاق سے یہ نئے سال کا آدھا حصہ گزرنے تک جاری رہتا ہے۔ یوں بھی نیا سال شروع ہو جاتا ہے تو آدمی خود کیلنڈروں کا کیلنڈر بن جاتا ہے۔
ہم نے ایک صاحب سے پوچھا تھا کہ بتاؤ ہر سال نیا سال کیوں آتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا’نیا سال اس لیے آتا ہے کہ ہم پرانے کیلنڈروں کی جگہ نئے کیلنڈر لگا سکیں ورنہ اور تو کوئی وجہ نئے سال کے آنے کی نظر نہیں آتی ۔ لوگ نئے نئے کیلنڈر حاصل کر کے یوں سمجھتے ہیں جیسے ان کے سماجی رتبے میں بڑا اضافہ ہو گیا ہے ۔
ایک نوجوان کی شادی کی بات چل رہی تھی جو چلتے چلتے اچانک اس مسئلہ پر رُک گئی کہ لڑکے کے پاس جائیداد ہے موٹر ہے مکان ہے تعلیم کی سند ہے مگر افسوس کہ ایر انڈیا کا کیلنڈر نہیں ہے۔ جس لڑکے کے پاس ایرانڈیا کا کیلنڈر نہ ہوا سے شادی کرنے کا کیا ادھیکار ہے؟
ہم نے کہا بھی لڑکی کی شادی تو لڑکے سے ہوگی ، پھر کیلنڈر کو کیوں رقیب بنایا جارہاہے، ارشاد ہوا ‘حضور والا ہماری لڑکی اپنے سسرال میں پہاڑ جیسے دن آخر کس طرح ایر انڈیا کے کیلنڈر کے بغیر کاٹ سکے گی ۔ کیلنڈرہی کے سہارے تو اسے اپنی بقیہ زندگی گزارنی ہے ورنہ لڑ کے میں کیا دھرا ہے ۔’
ہم نے ایک دوشیزہ کے بارے میں یہاں تک سُن رکھا ہے کہ اس کے محبوب نے ایک بار جذبہ عشق سے مغلوب ہو کر کہا ، جان عزیز آج تم جو مانگنا چاہتی ہو مجھ سے مانگ لو میں دنیا کی ساری نعمتیں تمہارے قدموں میں ڈال دینا چاہتا ہوں’ میں آج تمہاری ہر تمنا پوری کر دوں گا’بولو تمہیں کیا چاہیے؟ اس پر دو شیزہ نے اپنے محبوب کی امڈتی ہوئی محبت سےمسرور ہو کر قدرے شرماتے ہوئے کہا ‘میرے دیوتا ہو سکے تو میرے لیے دلیپ کمار کی تصویر والا کوئی خوبصورت کیلنڈر لا دو۔ میں تمہارا احسان زندگی بھر نہ بھلا سکوں گی۔’
اور راوی کا بیان ہے کہ اس جملہ کوسن کر محبوب کے دل میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا محبت کا سمندر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور اس کے بعد اسے جہاں کہیں بھی دلیپ کمار کی تصویر والا کوئی کیلنڈر نظر آتا تو وہ اس کیلنڈر سے فورا نظریں ہٹا لیتا۔
نیا سال آتا ہے تو یقین مانیے سماج میں کیلنڈروں کا ایک سیلاب امڈ آتا ہے ۔
سگریٹ خریدیے اور کیلنڈر لیجیے ۔ پان خریدیے اور کیلنڈر لیجیے اور ہم نے ایسے اصحاب بھی دیکھے ہیں جو اپنا تن ڈھانکنے کے لیے تو کپڑا خرید لیتے ہیں لیکن اس کے معاوضہ میں کیلنڈرضرور ایسی حسینہ کا منتخب کرتے ہیں جس کے بدن پر دور دور تک کوئی کپڑا نہیں ہوتا بلکہ ہم نے کپڑوں کی دکانوں پر ملنے والے کیلنڈروں پر ایسی حسیناؤں کی تصویریں بھی دیکھی ہیں جن کے بدن پر گھڑی کے سوائے کوئی اور لباس نہیں ہوتا۔ گزشتہ سال ایک صاحب نے ایک کلاتھ مرچنٹ کی دکان سے کپڑا خریدنے کے بعد اسی قسم کا ایک برہنہ کیلنڈر حاصل کیا تھا،اس پر ہم نے موصوف سے دست بستہ یہ پوچھا تھا کہ ‘قبلہ یہ کپڑا آپ نے اپنے لیے خریدا ہے یا کیلنڈر کے لیے۔ اگر ہو سکے تو اس کپڑے کا ایک غلاف کیلنڈر کے لیے بھی سلوا دیجیے ۔’
ہمارے استفسار کو سن کر یہ صاحب کچھ ایسے شرمندہ ہو گئے جیسے ہم نے انھیں سر بازار ننگا کر دیا ہو ۔
آپ بڑی آسانی سے کسی گھر میں یہ پتہ چلا سکتے ہیں کہ شوہر کا کمرہ کو ن سا ہے اور بیوی کاکمرہ کون سا ؟ اگرکسی کمرہ میں دلیپ کمار، راج کمار، پر دیپ کمار یا اس قسم کے کسی کمارکے کیلنڈر جا بجا نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ صاحبزادی کا کمرہ ہے ۔ سائرہ بانو، مینا کماری، مالا سنہا کے کیلنڈر نظر آئیں تو جان لیجیے کہ یہ صاحب کا کمرہ ہے ۔ ایک گھر کے ایک کمرے میں ہم نے نسیم بانو کا کیلنڈربھی دیکھا تھا ، ہم نے بڑے اشتیاق سے اہل خانہ سے پوچھا کہ جناب والا یہ کس کا کمرہ ہے تو اہل خانہ نے کسی قدر جھینپ کر جواب دیا ‘جی یہ ہمارے دادا جان کا کمرہ ہے اور ہم صرف یہ کہ کر رہ گئے؛
ہمہ خاندان آفتاب است
ہم نے ایک دن ایک کیلنڈر باز شخص سے پوچھا تھا کہ بھئی نیا سال آتے ہی تم اتنے سارے خوبصورت کیلنڈر کیوں جمع کرتے ہو ؟ وہ بولا ہر آنے والا سال اتنا کٹھن ہوتا ہے کہ جب تک اسے کیلنڈروں کے ذریعہ نہ بہلایا جائے اس وقت تک نہ تو کسی دن کا سورج غروب ہوتا ہے اور نہ ہی کسی رات کی سحر ہوتی ہے۔ لہذا میں ان کیلنڈروں کو دیکھ دیکھ کر سال کا ایک ایک دن گزارتا ہوں مگر کبھی تاریخ دیکھنے کی نوبت نہیں آتی۔ یہ شخص ہر نئے سال کے آغاز پر 365 کیلنڈر کہیں سے حاصل کر لیتا ہے اور پھر ہر روز ایک نیا کیلنڈر اپنے دیوان خانہ میں آویزاں کرتا ہے کہ ہر روز ایک ہی قسم کا کیلنڈر دیکھنے سے بھی تو آدمی بور ہو جاتا ہے ۔
ہم اپنے ایک دوست سے واقف ہیں جو نیا سال آتے ہی اپنے گھر کی دیواروں پر کیلنڈروں کا پلاسٹر چڑھا دیتے ہیں اور یوں سفیدی کے اخراجات سے بچ جاتے ہیں۔
کیلنڈروں کے حصول کے لیے یہ دیوانگی سمجھ میں نہیں آتی ۔ آپ ہی سوچیے جس قوم نے وقت کی اہمیت کو ہمیشہ بعد از وقت محسوس کیا اس کے لیے کیلنڈروں کے تکلف کی کیا ضرورت ہے ۔ پھر جس قوم نے تضیع اوقات کے لیے کلچرل پروگراموں سے لے کرمشاعروں تک ہزاروں طریقے ایجاد کر رکھے ہوں اس کے لیے نئے سال اور پرانے سال کی تخصیص کچھ اچھی نہیں معلوم ہوتی ۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آنے والے سال میں بھی وہی کچھ ہونے والا ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے ہو رہا ہے ۔ حد ہوگئی کہ ایک لیڈر صاحب ہر نئے سال کے موقع پر ہو بہو وہی پیغام عوام کو دیتے ہیں جو وہ گزشتہ دس برسوں سے دیتے آرہے ہیں ۔ ہمیشہ ان کی یہی رٹ ہوتی ہے کہ ‘نیا سال خوشیوں اور مسرتوں کا سال ہوگا ۔’ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ جب تک یہ لیڈر صاحب میدان سیاست میں موجود رہیں گے اس وقت تک کوئی سال خوشیوں اور مسرتوں کا سال نہیں بن سکتا ۔
ہم بڑے اعتماد اور وثوق کے ساتھ آنے والے سال کے بارے میں ایسی پیشین گوئیاں کر سکتے ہیں جو اگر پوری نہ ہوں تو سمجھ لیجیے کہ نیا سال آیا ہی نہیں ۔
اب ہماری چند فری اسٹائل پیشین گوئیاں بھی سن لیجیے:
نئے سال میں ملک میں کوئی نہ کوئی ریلیف فنڈ ضرور قائم ہوگا، ہوسکتاہے۔یہ قحط ریلیف فنڈ ہو یا سیلاب ریلیف فنڈ۔
سیاست دانوں پر جملہ دولا کھ گندے انڈے عوام کی جانب سے پھینکے جائیں گے۔
طلباء کے احتجاجی مظاہروں میں کم از کم دو سو بسیں ضرور جلائی جائیں گی ۔
اگر نئے سال میں ایک ہزار ریلوے حادثات نہ ہوں تو جانیے کہ ہمارا ریلوے نظم ونسق ناکارہ ہو گیا ہے اور وہ اس سال کا کام دوسرے سال پر ٹالنے لگا ہے ۔
ہماری سڑکوں پر نئے سال کی پہلی تاریخ کو جو کوڑا کرکٹ پھینکا جائے گا وہ اگلے سال کی پہلی تاریخ کو صاف کیا جائے گا۔
شعراء مشاعروں میں وہی غزلیں سنائیں گے جنھیں وہ اپنی تاریخ پیدائش سے سناتے آرہے ہیں۔
امن کے قیام کے لیے جا بجا جنگیں لڑی جائیں گی اور اب تو ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ جنگوں نے دنیا کو اتنا تباہ نہیں کیا جتنا کہ امن نے تباہ کیا ہے ۔
اشیاء کی قیمتیں مہنگی اور انسان کی قیمت سستی ہو جائے گی۔
حب عمل در آمد قدیم اس سال بھی بدقسمتی سے ملک غذائی اعتبار سے خود مکتقی نہ ہو سکے گا ۔
یہ چند پیشین گوئیاں تھیں جو ہم نے یوں چٹکی بجاتے میں کر دیں ۔ اب سب سے آخر میں ہم نئے سال کے آغاز کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ کام کا آغاز اچھا ہو تو سمجھیے کہ نصف کام مکمل ہو گیا۔ مگر افسوں کہ نئے سال کا آغاز ہمارے حق میں کچھ اچھے شگون کے ساتھ نہیں ہوا ہے ۔ وہ اس طرح کہ آج جب ہم ابھی اپنے بستر میں پڑے جاگ رہے تھے کہ اچانک دروازے پر کسی نے دستک دی ۔ ہم نے آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھولا تو اپنے ایک عزیز کو پا یا جو اپنے گیارہ بچوں اور دو بیولوں سمیت ہمارے مکان کے سامنے بارات کی شکل میں ایستادہ تھے ۔ بمبئی سےآنے والی گاڑی نے انہیں ہمارے درغربت پر پہنچا دیا تھا۔ ہم اتنے طویل سفرکے بعدان کی اچانک آمد کی وجہ پوچھنا ہی چاہتے تھے کہ انھوں نے فورا آگے بڑھ کر ہمیں اپنے گلے سے لگا لیا اور بولے؛’نیا سال مبارک۔’
پھر بچوں کو ہدایت دینے لگے کہ بچو اب تم سب باری باری سے اپنے انکل کو نئے سال کی مبارکباد دو۔’ ہم حیران ہیں کہ اگر موصوف کی آمد کا مقصد صرف نئے سال کی مبارکباد دینا تھا تو ہمیں سیدھے سیدھے کارڈ بھیج دیتے، اتنے سارے اہل و عیال کے ساتھ ہمارے گھر پر بمباری کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ ہم صبح سے لگا تار اس کوشش میں ہیں کہ ان سے ان کی آمد کی اصل وجہ پوچھیں لیکن وہ صبح ہی سے اپنے بچوں سمیت کھانا کھانے میں کچھ اس قدر مصروف ہیں کہ انھیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا۔ پتہ نہیں یہ کب واپس جائیں، ہمیں تو یہ اندیشہ بھی ہے کہ کہیں وہ ہمیں اگلے سال کی مبارکباد دے کر ہی واپس نہ ہوں ۔ اور اپنے ساتھ گیارہ بچوں کی بجائے بارہ بچوں کو لے جائیں تاکہ اتنے لمبے سفر کا کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہونا ہی چاہیے ۔
اب آپ ہی بتائیے کہ ہم نئے سال کی خوشیاں کیوں کر منائیں ۔
بہ شکریہ: قطع کلام