جسٹس بی آر گوئی نے حال ہی میں ایک سماعت کے دوران دہلی میں بے گھر افراد کے لیے لفظ ‘پرجیوی’ (پیراسائٹس) کا استعمال کیا تھا۔ ہرش مندر نے خط میں لکھا ہے کہ حقیقی انصاف ہمیشہ ہمدردی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور بے گھر لوگوں کو باوقار زندگی کا حق حاصل ہے۔

جسٹس گوئی کےبے گھر لوگوں کو ‘پرجیوی’ (پیراسائٹس)کہنے پر ہرش مندر کا خط۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)
انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر نے 15 فروری کو سپریم کورٹ کے جسٹس بی آر گوئی کو کھلا خط لکھا ہے۔ یہ خط جسٹس گوئی کے 12 فروری کو کیے گئے اس تبصرے سے متعلق ہے، جس میں انہوں نے ایک سماعت کے دوران دہلی میں بے گھر لوگوں کے لیے پناہ گاہوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ‘پرجیوی’ (پیرا سائٹس) کا لفظ استعمال کیا تھا ۔ ہرش مندر کے مطابق جسٹس گوئی کے ذریعے استعمال کیے گئے دو الفاظ ‘پرجیوی’ اور ‘مفت خوری’ نے انہیں یہ خط لکھنے پر مجبور کیا ہے۔
ہرش مندر کا مکمل خط ملاحظہ کریں…
عزت مآب جسٹس بی آر گوئی،
بے گھر افراد کو پناہ دینے سے متعلق سول رٹ درخواستوں کی سماعت کے دوران 12 فروری 2025 کو آپ کی طرف سے کیے گئے تبصروں کا احترام لیکن انتہائی مایوسی کے ساتھ جواب دینے کے لیے خود کو پابند محسوس کرتا ہوں ۔
اور چونکہ یہ ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں رہنے والے ہمارے سب سے زیادہ کمزور اور پسماندہ شہریوں کی زندگی (اور ممکنہ موت) سے متعلق ہے، میں اس خط کو عوامی طور پر لکھنے اور شیئر کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔
میرا خط آپ کے ان الفاظ سے متعلق ہے، جب آپ نے کہا تھا؛ ‘مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا، لیکن ان لوگوں کو مرکزی دھارے کا حصہ نہ بنا کر، کیا ہم پیراسائٹس کا ایک طبقہ نہیں تیار کررہے ہیں؟ ریوڑی بانٹنے کی وجہ سے، جب انتخابات کا اعلان ہوتا ہے… لوگ کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ بغیر کوئی کام کیےانہیں مفت راشن مل رہا ہے! کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ انہیں مرکزی دھارے کا حصہ بنایا جائے تاکہ وہ قوم کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکیں؟’ (جیسا کہ پورٹل لائیو لاءنے رپورٹ کیا ہے )۔
میں آپ کے تبصروں میں استعمال ہونے والے دو الفاظ کا خصوصی طور پر جواب دوں گا۔ ایک ‘پیراسائٹس’ اور دوسرا ‘مفت خوری’۔
سپریم کورٹ آف انڈیا اعلیٰ ترین فورم ہے، جہاں شہری انصاف اور اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے جا سکتے ہیں
میں اس لیے خط لکھ رہا ہوں کہ سپریم کورٹ آف انڈیااعلیٰ ترین فورم ہے، جہاں ہندوستان کے شہری انصاف اور اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے آخری متبادل کے طور پر جا سکتے ہیں۔ ایسے شہری،جنہیں آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت عزت اور وقار کے ساتھ جینے کے حق سے مسلسل محروم کیا جا رہا ہے، سپریم کورٹ ان کی زندگیوں میں حقیقی معنوں میں تبدیلی لا سکتی ہے۔ اور ہم جن شہروں میں رہتے ہیں وہاں کے بے گھر لوگوں کے جینے کے حق کی خلاف ورزی ملک کے دوسرے حصوں میں رہنے والے بے گھر شہریوں کی نسبت زیادہ سفاکی سے کی جاتی ہے۔
میں آپ کو یہ خط کیوں لکھ رہا ہوں تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے ،آپ نے جس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا ہےمیں اس میں ایک درخواست گزار ہوں۔ میں تاریخی رٹ پٹیشن 196/2001 پی یو سی ایل بنام یونین آف انڈیا (جسے خوراک کے حق کا مقدمہ کہا جاتا ہے) کے لیے میں 12 سال تک سپریم کورٹ کا خصوصی کمشنر رہا ہوں، جس کےکمشنر این سی سکسینہ تھے، جس نے بے گھر لوگوں کے لیے پناہ کا سوال اٹھایا تھا۔ میں اس ملک کا شہری ہوں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے جب سے میں مدھیہ پردیش سے واپس آیا ہوں اور دہلی میں رہنے لگا ہوں، تب سے میں نے دہلی اور ملک کے کئی شہروں میں بے گھر عورتوں، مردوں اور بچوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ میں انہیں بہت قریب سے جانتا ہوں اور انہیں اپنی بہن، بھائی اور بچہ مانتا ہوں۔
سب سے پہلی بات، بے گھر لوگ کون ہیں؟ پرجیوی (پیراسائٹس) ہونا تو دور کی بات ہے، وہ شہر کے سب سے زیادہ بے سہارا اور محروم محنت کش لوگ ہیں۔ انہیں حکومت یا لیبر قوانین سے کوئی تحفظ نہیں ملتا اور نہ ہی کوئی یونین ان کی مدد کو آتی ہے۔ وہ ہر صبح کچھ مخصوص چوراہوں یا کونوں پر جمع ہوتے ہیں، جنہیں ہم ‘لیبر چوک’ کہتے ہیں۔ ان کے لیے نہ تو سردی ہوتی ہے نہ گرمی اور نہ بارش۔ یہاں وہ اپنی محنت کو بیچنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، جس کی قیمت وہ خود طے نہیں کر سکتے، جو آئے، جتنا دام لگا جائے۔ ‘لیبر چوک’تاریخ کے غلام بازاروں کی طرح ہی ہیں۔ انہیں بہت کم مزدوری پر بہت مشکل کام کے لیے لے جایا جاتا ہے۔کچھ لوگوں نے بتایا کہ انہیں دور دراز کے کھیتوں میں لے جایا جاتا ہےاور سچ مچ زنجیروں میں جکڑ کر کام کرنے کے لیےمجبور کیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بھاری بوجھ ڈھوتے ہیں، ہماری سڑکیں صاف کرتے ہیں، ہمارے گھر اور دفتر بناتے ہیں اور ہماری شادیوں کی تقریبات میں کھانا پکاتے ہیں۔ وہ پرجیوی (پیراسائٹس) تو بالکل نہیں ہیں۔
بے گھر لوگ یقینی طور پر پرجیوی نہیں ہیں
بے گھر مرد اکثر خاندانی اور نفسیاتی الجھن کے باعث اپنے خاندانوں اور برادریوں سے ہمیشہ کے لیے الگ ہو جاتے ہیں ، اور ناامیدی کے اس احساس سے دوچار ہو جاتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کبھی بہتری نہیں آئے گی۔ تقریباً تمام معاملات میں بے گھر خواتین کے خلاف مسلسل وحشیانہ گھریلو تشدد نے انہیں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسی محفوظ جگہ نہیں ہے جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ واپس جا سکیں ، ایس میں ان کے پاس واحد آپشن سڑکوں کو اپنا گھر بنانا ہوتا ہے۔ اکیلے بے گھر بچے اپنے خاندانوں کے اندر ہونے والی سفاکی ، بدسلوکی اور غیر مہذب فعل کے علاوہ اکثر شرابی باپ یا سوتیلے باپ کے تشدد کی وجہ سے گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ سڑکوں پر اپنی ماؤں کے ساتھ رہنے والے زیادہ تر بچے وہ ہیں جو سڑکوں پر اکیلی عورتوں کی بار بار کی عصمت دری سے پیدا ہوئے ہیں۔ جناب، وہ یقیناً پیراسائٹس نہیں ہیں۔
اب میں اس الزام کی جانب آتا ہوں کہ ہم عدالت میں اپنی درخواستوں میں بے گھر افراد کے لیے جو چاہتے ہیں وہ ‘ریوڑی’ہے۔ 2010-11 کے موسم سرما میں صحت مند بے گھر افراد کے مرنے کی عام لیکن افسوسناک خبریں ہی تھیں، جس نےپی یو سی ایل کیس میں سپریم کورٹ کے کمشنر کے طور پر ڈاکٹر سکسینہ اور مجھےان کی زندگی کے حق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر مجبور کیا ۔
جسٹس دلویر بھنڈاری اور جسٹس دیپک گپتا نے جنوری 2012 کو کئی فیصلوں میں جنہیں اب عالمی سطح پر غیرمعمولی کہا جاتا ہے ، کہا،’ریاست کے لیے سب سے زیادہ کمزور ، غریب اور لاچار لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں ہے۔بے گھر لوگ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی ہر وقت خطرے میں گھری رہتی ہے اور خاص طور پر شمالی ہندوستان میں شدید سردی میں ان کی زندگی زیادہ خطرناک ہوتی ہے (ان سطور کو میرا بیان سمجھنا چاہیے)۔’ انہوں نےفیصلہ سنایاکہ ‘ریاست کو کمزور اور بے گھر لوگوں کے لیے رات کی پناہ گاہیں فراہم کر کے آئین کے آرٹیکل 21 کی تعمیل کرنے کے لیے اپنی بنیادی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہیے۔’
یہ فیصلہ، جو اخلاقی اور آئینی طور پر بہت اہمیت کا حامل تھا، اس کے نتیجے میں ملک بھر میں 2000 سے زیادہ شیلٹر ہوم بنائے گئے۔ اگرچہ یہ تعداد سپریم کورٹ کے حکم سے کئی گنا کم تھی ، لیکن اس نے ہمیں امید دلائی کہ بے گھر لوگوں کے لیے باوقار زندگی کو یقینی بنانے کے لیے، بہت تاخیر کے باوجود، ملک کی طرف سے اٹھایا جانے والا یہ پہلا قدم ہے۔
تاہم ، ملک کے بیشتر حصوں میں اس فیصلہ کے بعد بننے والے شیلٹر ہوم حفظان صحت اور وقار کی بنیادی شرائط پر عمل نہیں کرتے تھے اور یہ ٹین کے شیڈاور عارضی ڈھانچے کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے اکثر وکٹورین انگلینڈ کے ‘غریبوں کے گھروں’ کی یاد آتی تھی ، جہاں رات کو زندہ لاشیں ٹھونس دی جاتی تھیں اور دن میں نکال لی جاتی تھیں ، صرف اس لیے کہ سردی کی وجہ سے ان کی موت نہ ہوجائے۔
باوقار زندگی کے لیے پناہ گاہ کافی نہیں ہے
یقیناً جمہوری ہندوستان بہتر کام کر سکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد برسوں تک ، پہلے پی یو سی ایل کیس میں ایک کمشنر کی حیثیت سے ، اور پھر آپ کے سامنے زیر سماعت کیس میں درخواست گزار کے طور پر ، ہم نے یہ دلیل دینے کی کوشش کی کہ بے گھر لوگوں کے لیے عزت کے ساتھ رہنے کے لیے صرف پناہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں مزید پناہ گاہوں کی ضرورت ہے ، انہیں انسانی وقار کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے ، بے گھر افراد کو ووٹر شناختی کارڈ اور راشن کارڈ ملنا چاہیے ، خواتین کے لیے محفوظ مقامات اور کام کرنے والی خواتین کے لیے ہاسٹل کی ضرورت ہے ، مردوں اور عورتوں کے لیےمہذب کام کے مواقع کی ضرورت ہے ،کفایتی غذائیت سے بھرپور خوراک ضروری ہے ، اور چونکہ ہمارے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بے گھر افرادکو ہر طرح کی صحت خدمات سے محروم رکھا جاتاہے، کیاہر بے گھرشیلٹر ہوم کو سب ہیلتھ سینٹر کے طور پر تیار کیا جاسکتا ہےجہاں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اپنی خدمات دیں ۔
جناب، یہ وہ ‘ریوڑی’ ہے جن کی ہم برسوں سے سپریم کورٹ آف انڈیا سے مطالبہ کر رہے ہیں ، پہلے پی یو سی ایل کیس میں کمشنر کے طور پر ، اور پھر موجودہ معاملے میں اس معاملہ کے بند ہونے کے بعد ۔ افسوس کی بات ہے کہ ان برسوں میں ہماری کوششوں کو زیادہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ وقتاً فوقتاً ریاستی حکومتوں کو نوٹس بھیجے جاتے ہیں ، وہ عدالتوں میں جاتی ہیں اور زمینی سطح پر بے گھر لوگوں کے لیے اپنی حکومتوں کی طرف سے کیے گئے تمام کاموں کی انتہائی تعریفی تفصیلات دیتی ہیں ، لیکن زیادہ تر معاملات میں یہ حقائق سے بہت دور ہیں۔ ہمارے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بے گھر افراد کے مرنے کے امکانات ان لوگوں کے مقابلے میں پانچ سے دس گنا زیادہ ہوتے ہیں جن کے پاس گھر ہے ، اور یہ خطرہ گرمی اور مانسون اور خاص طور پر سردیوں کے دوران اور بڑھ جاتا ہے۔ ہم نے یونیورسٹی کالج آف لندن کے تعاون سے پتہ لگایا ہے کہ دہلی میں یمنا کے کنارے رہنے والے اکیلے بے گھر مردوں میں علاج نہ ہونے والی ٹی بی کی سب سے زیادہ سطح ہے جو یونیورسٹی کالج آف لندن نے دنیا میں کہیں بھی پائی ہے۔
معاملہ اس وقت اور بھی سنگین ہو گیا جب دہلی حکومت نے فروری اور مارچ 2023 میں سرائے کالے خان اور یمنا پشتہ میں نو بے گھر پناہ گاہوں کو منہدم کر دیا ۔ یہ پی یو سی ایل کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کے لیے بنائے گئے شیلٹر ہوم تھے۔ ایک دہائی بعد بے گھروں کو مطلع کیے بغیر ،جب لوگ رات کو سو رہے تھے، ، ان پناہ گاہوں کو مسمار کر دیا گیا، اور انہیں دوبارہ بے گھر کر دیا گیا۔ ان پناہ گاہوں کو جی20 سربراہی اجلاس کے مندوبین کے لیےندی کے کنارے ریور فرنٹ بانس کے باغیچہ کی تعمیر کے لیے مسمار کیا گیا تھا ، جس کو ممکنہ طور پر ہانگ کانگ کے واٹر فرنٹ پرومینیڈ کی طرز پر بنایاجانا تھا۔ ہم انہدام پر فوری روک لگانے کے لیے سپریم کورٹ گئے ؛ ہم مزید انہدام پر روک لگانے میں کامیاب رہے ، لیکن دہلی حکومت نے مزید پناہ گاہیں خالی کرا دیں۔ کہاں تو ہم ‘ریوڑی’ کا مطالبہ کر رہے تھے، جسے میں نے پہلے درج کیا تھا ، ہماری عرضی اب دہلی میں رہ جانے والے ان چند شیلٹر ہوم کی حفاظت اور اس تقریباً ہاری ہوئی جنگ سے لڑنے تک محدود ہو گئی ہے۔
بے گھر لوگ مظلوم اورمحنت کش ہم وطن ہیں
میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ ہماری بے گھر بہنیں ، بھائی اور بچے بالکل بھی ‘پیراسائٹس’ نہیں ہیں۔ وہ ہمارے سب سے زیادہ ستائے ہوئے محنت کش ہم وطن ہیں –ریاست اور معاشرے کے ہاتھوں بے گھر اور بے آسرا لوگ جن کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ ہر روز بے گھر لوگوں سے گزرے بغیر کسی بھی ہندوستانی شہر میں رہنا ، کام کرنا اور سفر کرنا ناممکن ہے۔ اس کے باوجود ہمارے پاس ان بے گھر رہائشیوں کے لیے پناہ ، خوراک ، کام اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی قومی پروگرام نہیں ہے۔ سینکڑوں سال سے جاری ذات پات اور صنفی جبر نے ہمیں اجتماعی طور پر بے حس بنا دیا ہے۔ ہمارے شہروں اور قصبوں میں بے گھر افراد کے ساتھ ریاست اور عوام کا سلوک ہماری غیر معمولی ثقافتی بے حسی کی سب سے طاقتور علامت ہے ۔ ہم شدید مصائب اور ناانصافی دیکھتے ہیں، لیکن آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
جناب ، مجھے یقین ہے کہ حقیقی انصاف ہمیشہ عوامی ہمدردی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہم نے بے گھر لوگوں کے باوقار زندگی کے حق کے لیےاپنی جمہوریہ میں انصاف کو یقینی بنانے والے اعلیٰ ترین ادارہ ، یعنی آپ سےرجوع کیا ۔ مجھے آج بھی امید ہے کہ آزادی کے 78 سال بعد، سپریم کورٹ آف انڈیا عاجزی اور ذمہ داری کے ساتھ ہر اس بچے، عورت اور مرد کے حقوق کا تحفظ کرے گی جو پتھریلی سڑک پر کھلے آسمان کے نیچے اپنی راتیں گزارنے کو مجبور ہیں۔
نیک خواہشات کے ساتھ ،
ہرش مندر