خاص خبر

آر بی آئی کے سابق گورنر شکتی کانت داس کی پی ایم او میں تقرری کئی معنوں میں غیر معمولی واقعہ کیوں ہے

ہندوستان کی تاریخ میں کبھی کسی سابق آر بی آئی گورنر کو شکتی کانت داس کی طرح اس قدراعلیٰ عہدے پر فائز نہیں کیا گیا۔ ان کی تقرری کو محض ‘بے مثال’ کہنا مودی حکومت کے پیمانوں اور روایات کو ختم کرنے کے غیر معمولی جوش و خروش کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔

ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر شکتی کانت داس۔ (تصویر بہ شکریہ: وکی کامنز)

ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر شکتی کانت داس۔ (تصویر بہ شکریہ: وکی کامنز)

نئی دہلی: ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق گورنر شکتی کانت داس کی وزیر اعظم نریندر مودی کے پرنسپل سکریٹری کے طور پر تقرری ان کی ترقی ہے یا تنزلی؟

شاید بہت سے لوگوں کے پاس اس سوال کا سیدھا جواب نہیں ہوگا، لیکن کوئی آسانی سے یہ ضرور کہہ سکتا ہے کہ شکتی کانت داس یقینی طور پر وزیر اعظم کے چند پسندیدہ نوکرشاہوں میں شامل ہیں۔

ہندوستان کی تاریخ میں کبھی کسی  سابق آر بی آئی گورنر کو ایگزیکٹو میں اتنے اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن داس کی تقرری کو محض ‘بے مثال’ کہنا مودی حکومت کے پیمانوں اور روایات  کو ختم  کرنے کے غیر معمولی جوش  وخروش کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔

معلوم ہو کہ جب شکتی کانت داس کو آر بی آئی کا گورنربنایا گیا تھا، تو زیادہ تر مبصرین کا خیال تھا کہ اس اقدام سے سینٹرل بینک پر حکومت کا کنٹرول بڑھنے کا امکان ہے، اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ داس گزشتہ چند سالوں میں کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ 15 ویں مالیاتی کمیشن کے رکن، ریونیو سکریٹری، اقتصادی امور کے سکریٹری (جب انہوں نے جی ایس ٹی کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا) تھے، اور یہاں تک کہ جی20 میں ہندوستان کے شیرپا کے طور پر بھی  خدمات انجام دے چکے ہیں۔

شکتی کانت داس دسمبر 2018 سے دسمبر 2024 تک آر بی آئی کے گورنر تھے۔ یہ اس وقت ہوا جب مرکزی حکومت نے 2016 میں آر بی آئی ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے کابینہ سکریٹری کو اس کمیٹی کے سربراہ کے طور پر بااختیار بنایا، جو اہم مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے ارکان کا انتخاب کرتی ہے۔

حکومت کے اس اقدام نے آر بی آئی گورنر کی پوزیشن کو کمزور کیا اور انہیں حکومت کے ماتحت کردیا۔

داس کا دور اتار چڑھاؤ سے بھرا ہوا تھا، کیونکہ انہوں نے کووڈ وبائی امراض کے دوران افراط زر کے چکروں کے درمیان ملک کے مالیاتی امور کو سنبھالا۔ تاہم، ان کے دور کی آخری سہ ماہی میں جب  حکومت معاشی سست روی کی طرف بڑھ رہی تھی، انہوں نے قرض کی شرحوں میں کمی کے لیے بھاری وزارتی دباؤ کا سامنا کیا، جس کی وجہ سے مارکیٹ کے مبصرین یہ ماننے کو مجبور ہوئے کہ داس کہیں زیادہ انفرادیت پسند ہوسکتے ہیں۔

داس نے آر بی آئی کمیٹی کے ارکان کی رائے کی تائید کی کہ شرحوں میں کسی بھی قسم کی کمی مہنگائی میں اضافہ کرے گی۔ ان کے جانشین سنجے ملہوترا نے آر بی آئی کے نئے گورنر کے طور پر اپنی تقرری کے فوراً بعد شرحوں میں کمی کی، جس سے اس تصورکو اور تقویت ملی۔

تاہم، اس طرح کی تمام قیاس آرائیاں اس وقت بے معنی ہو گئیں جب پی کے مشرا کی جگہ داس کو وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری کے طور پر حکومت میں لایا گیا۔ پی کے مشرا مودی کے دوسرے دور کے سب سے بااثر نوکرشاہوں میں ہیں۔

داس کی تقرری نے مودی حکومت کے دوراقتدار میں آر بی آئی کی خود مختاری میں کمی کے بارے میں ایک بار پھر بحث کو ہوا دی ہے، خاص طور پر جب سے  آر بی آئی نے تاریخی طور پر دوراندیشی  کے ساتھ  سرمایہ لگانے والے ادارے کے طور پر کام کیا ہے اور اس کا مقصد حکومت کے دباؤ کے خلاف جانا ہے جو بحران کے وقت زیادہ خرچ کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔

اگرچہ مودی حکومت کے ذریعہ لیے گئے زیادہ تر مالیاتی فیصلے- چاہے وہ جی ایس ٹی ہو، نوٹ بندی ہو یا سرمایہ کاری کے اخراجات – اس کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن آر بی آئی کم و بیش غیر جانبدار رہا ہے۔ حتیٰ کہ اقتدار کے چہیتے افسر داس بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں لا سکے۔

اپوزیشن اور ناقدین پہلے ہی مودی حکومت پر ہماری جمہوریت کے تاریخی طور پر خود مختار اداروں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ دریں اثنا، داس کی تقرری نے اور بھی  سوال پیدا کر دیے ہیں۔

داس ممکنہ طور پر مالی اور مالیاتی امور میں مہارت رکھنے والے وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کے پہلے پرنسپل سکریٹری ہیں، اور حکومت کے اعلیٰ سطح پر بحال ہونے والے پہلے آر بی آئی گورنر ہیں۔ ان کی تقرری کا موازنہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ سے کیا جا سکتا ہے۔

آر بی آئی کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد سنگھ مرکزی وزیر خزانہ بنے۔ تاہم، ایک نمایاں فرق ہے کہ  منموہن سنگھ نے کابینہ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے باضابطہ طور پر کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن داس کو ایک افسر کے طور پر لایا گیا ہے۔

ہندوستان کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی نے راجیہ سبھا کے رکن کے طور پر نامزد ہونے سے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کھل کر حمایت کرتے ہوئے ایک مثال قائم کی تھی۔ لیکن داس ایگزیکٹو میں گہرائی سے جڑے ہونے کے بعد بھی ایک آزاد عہدے پر بنے ہوئے ہیں، انہوں نے آر بی آئی کے سربراہ کے طور پر چھ سال خدمات انجام دینے کے بعد حکومت میں شامل ہونے کا انتخاب کیا ہے۔

غورطلب  ہے کہ ہندوستانی جمہوریت میں اختیارات کو الگ کرنے والی لکیریں دھندلی ہوتی جارہی ہیں۔ ایسے میں دو خاص معاملے ذہن میں آتے ہیں۔ پہلا سابق سی اے جی جی سی مرمو کا ہے۔ جب مودی  گجرات کے چیف منسٹر تھے تب مرموان  کے سابق پرنسپل سکریٹری تھے، پی ایم مودی کےنوکرشاہوں  کے گروپ کا اٹوٹ انگ بن گئے اور  سی اے جی کے طور پر تقرری سے قبل2019 میں یونین ٹیریٹری جموں و کشمیر کے پہلے لیفٹیننٹ گورنر بھی بنائے گئے، یہ باوقار عہدہ آڈٹنگ اور حکومت میں کرپشن کو بے نقاب کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔

سی اے جی کے طور پر ان کا دور، حیرت کی بات نہیں، شاید سب سے زیادہ سرخیوں والا تھا۔

اسی طرح چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کے بارے میں بھی کوئی سوچ سکتا ہے، جن کی آدھی رات کی تقرری قائد حزب اختلاف (ایل او پی) راہل گاندھی سے اختلاف کے درمیان سوالوں کی زد میں تھی۔ مرمو کی طرح کمار نے بھی مودی حکومت کے بیشتر سیاسی فیصلوں میں اہم  کردار ادا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس بل کا مسودہ تیار کیا تھا جس کی وجہ سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا گیا تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں رام جنم بھومی-بابری مسجد ملکیت کیس کی سماعت کے دوران قانونی اور انتظامی معاملات میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا اور انہوں نے شری رام جنم بھومی تیرتھ  ٹرسٹ کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا جو مندر کی تعمیر کی نگرانی کرتا تھا۔

داس، مرمو اور کمار، ان تمام نوکرشاہوں نے حکومت کی نوکری کے دوران  شاید وہی کیا جس کی ان سے توقع تھی۔ تاہم، اب ان کے بلند مرتبے کو بی جے پی کے سیاسی اور اکثر پولرائزنگ فیصلوں کو نافذ کرنے میں ان کی کارکردگی کے انعام کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی حکومت کے لیے اچھا نظر یہ نہیں ہوسکتا ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح، ہندوستانی وزیر اعظم اس کی  پرواہ نہیں ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)