خبریں

دہلی فسادات:پانچ سال بعد بھی متاثرین معاوضے سے محروم، رپورٹ میں حکومت کی ناکامی اجاگر

دہلی فسادات کی پانچویں برسی پر کاروانِ محبت کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے ایک کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا، لیکن اس کے معیارات نا معلوم تھے۔ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد معاوضے کی ادائیگی کی یہ ممکنہ طور پر بدترین صورتحال ہے۔

شمال -مشرقی دہلی میں تشدد کے فوراً بعد مصطفی آباد میں ایک گیراج۔ یہ تصویر 6 مارچ 2020 کو لی گئی تھی۔ (فوٹو: سوم شری سرکار/ دی وائر)

شمال -مشرقی دہلی میں تشدد کے فوراً بعد مصطفی آباد میں ایک گیراج۔ یہ تصویر 6 مارچ 2020 کو لی گئی تھی۔ (فوٹو: سوم شری سرکار/ دی وائر)

کولکاتہ: 2020 کے تشدد کے بعد صرف ایک ہفتے کے اندر، میں اور میرے ایک ساتھی شمال- مشرقی دہلی کے مصطفیٰ آباد علاقے میں ایک پناہ گاہ  پہنچے تھے۔ ہمیں وہاں لمبی قطاریں نظر آئیں۔ یہ قطاریں ایک لمبی میز کے پاس ختم ہو رہی تھیں، جہاں چار نوجوان خواتین بیٹھی تھیں۔ وہ  وکیل تھیں اور ان لوگوں کی تفصیلات درج کر رہی تھیں، جنہیں شدید نقصان ہوا تھا۔ کچھ لوگوں نے ہم سے بات کی اور بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد لاپتہ ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی دکانیں جلا دی گئیں۔ ان کے لیے جلد از جلد معاوضے کا عمل شروع ہونا بہت ضروری تھا۔

پانچ سال بعد، کاروانِ محبت    کی ایک رپورٹ، ‘دی ایبسنٹ اسٹیٹ:کامپریہنسیو اسٹیٹ ڈینائل آف رپریشن اینڈ ری کمپینسٹ آف دی  2020 دلی پوگرم’ بتاتی ہے کہ نصف دہائی بعد بھی متاثرین  کو کوئی ٹھوس معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔ فوری امداد اور موت کے معاوضے کے علاوہ متاثرین کو درحقیقت کوئی مدد نہیں ملی۔ یہ مختلف سرکاری اہلکاروں کی اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے کی حیران کن کہانی ہے۔

رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ،’یہ ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد معاوضے کی ادائیگی کی ممکنہ طور پر بدترین صورتحال ہے۔’

انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر کی قیادت  والے کاروانِ محبت اور قانونی امدادی گروپ امن برادری ٹرسٹ ان تنظیموں میں شامل ہیں جو اب بھی تشدد کے متاثرین کی نمائندگی، تعاون اور ان کے ساتھ منسلک ہو کر کام کر رہی ہیں۔

تشدد کی پانچویں برسی پر شائع ہونے والی 117 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے  مصنفین وکیل سرور مندر اور سواتی ڈریک ہیں، جبکہ محققین میں آکانکشا راؤ، آیوشی اروڑہ  اور سید روبیل حیدر زید شامل ہیں۔ ہرش مندر نے بھی رپورٹ میں تعاون کیا ہے۔

رپورٹ میں مرکزی حکومت اور عام آدمی پارٹی کی قیادت والی  ریاستی حکومت کی ناکامی کو اجاگر کیا گیا ہے، جو تشدد کے دوران اور بعد میں بچاؤ، راحت، بحالی، معاوضہ اور سماجی دوری  کو ختم کرنے میں ناکام نظر آئی ۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ تشدد کے دوران دہلی پولیس نے مداخلت کے لیے کیے گئے  ہنگامی فون کال کو نظر انداز کیا۔ صورتحال اتنی سنگین تھی کہ ریٹائرڈ جج جسٹس ایس مرلی دھر کو آدھی رات کو مداخلت کرنا پڑی اور اس دوران رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک سرور مندر نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔ اس حکم کی وجہ سے درجنوں جانیں بچائی جا سکیں۔

رپورٹ کے مطابق، جب تشدد اپنے عروج پر تھا، تب ریاستی حکومت کے اعلیٰ عہدے دار مندروں میں پوجا کر رہے تھے۔ شروعات میں حکومت نے ریلیف کیمپ بھی نہیں لگائے۔ بعد میں، پہلے سے موجود اورمکمل طور پر بھرے ہوئے بے گھر پناہ گاہوں کوہی  ریلیف کیمپوں میں تبدیل کر دیا گیا، جسے رپورٹ نے ‘سفاکانہ  مذاق’ قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، دہلی حکومت نے معاوضے کی رقم کو 1984 کے دہلی فسادات کے متاثرین کو دیے گئے معاوضے سے بہت کم  رکھا۔ اس کے علاوہ دہلی حکومت نے خود ہی معاوضہ طے کرنے کی اپنی ذمہ داری کوہائی کورٹ کے ذریعے نارتھ ایسٹ دہلی رائٹ کلیمز کمیشن کو سونپ دی۔ یہ کمیشن بنیادی طور پر املاک کے نقصان کا اندازہ لگانے اور فسادیوں سے اس کی وصولی کے لیے بنایا گیا تھا۔ اگرچہ عدالتوں اور کمیشنوں نے املاک کے نقصان کا اندازہ  تولگایا لیکن اس کے مطابق کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔

نارتھ ایسٹ دہلی رائٹ کلیمز کمیشن نے پرائیویٹ ایویلیویٹر مقرر کیے، جن کے معیار متاثرین کو معلوم نہیں ہیں۔ متاثرین کو نہ تو اس بارے میں کوئی اطلاع دی گئی اور نہ ہی انہیں ایک بار بھی عوامی سماعت کے لیے بلایا گیا۔

کاروان محبت نے  ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی جس میں تشخیص کاروں کی اہلیت اور نقصانات کا اندازہ لگانے کے رہنما خطوط کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں، لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملا۔

رپورٹ میں ایک متاثرہ نے بتایا،’میں نے اکثر دن بھر دفتر میں انتظار کیاتاکہ یہاں کے سکریٹری سے اپنے دستاویزات کی تصدیق کروا سکوں۔ کئی بار وہ ہم سے  ملتے ہی نہیں یا دستیاب نہیں ہوتے۔’

اس متاثرہ کو نارتھ ایسٹ دہلی رائٹس کلیمز کمیشن کے دفتر سے دعویٰ کی درخواست اور مطلوبہ دستاویزات جمع کرانے کے لیے کال موصول ہوئی۔ لیکن جب انہوں نے دستاویزات جمع کرائے تو انہیں نہ تو کوئی رسید ملی اور نہ ہی کوئی ثبوت ملا کہ اس کی فائل کمیشن میں جمع کرائی گئی ہے، جس سے غیر یقینی صورتحال برقرار رہی۔

رپورٹ میں معاوضے کے 146 معاملوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں سے 81 فیصد جائیداد کے نقصان سے متعلق ہیں، جس میں رہائشی اور تجارتی املاک یا دونوں شامل ہیں۔ جسمانی چوٹوں سے معاملے متعلق کل  معاملوں کا 18فیصد ہیں۔ کسی بھی معاملے میں ابھی تک کوئی رقم ادا نہیں کی گئی ہے۔

دہلی حکومت کا کل بجٹ 75000 کروڑ روپے سے زیادہ ہے (حالیہ بجٹ کے مطابق)، لیکن ریلیف کے لیے صرف 153 کروڑ روپے مانگے گئے، جس میں سے صرف 21 کروڑ روپے ہی منظور کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق، مسلمانوں سے متعلق کل 139 مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے 114 املاک کو نقصان پہنچانے کے اور 25 جسمانی چوٹ کے کیس تھے۔ اس کے برعکس، دیگر کمیونٹیز سے صرف 5 کیس رپورٹ ہوئے، جن میں سے 3 املاک کو نقصان اور 2 جسمانی چوٹ کے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ اس تشدد کی دہلی پولیس کی تحقیقات کے نتیجے میں مسلم کارکنوں اور دانشوروں کو جیل بھیجا، جبکہ نفرت انگیز تقاریر کرتے ہوئے ریکارڈ پر پکڑے گئے ہندو رہنماؤں کے خلاف ابھی تک مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔

بتادیں کہ کئی نچلی عدالتوں نے پولیس کی جانچ پر تنقید کی ہے۔

رپورٹ میں معاوضے کے عمل میں حائل رکاوٹوں اور انتظامی تاخیر کی تفصیلی وضاحت کی گئی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ طویل انتظار نے تشدد کے زخم مزید گہرے کر دیے ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)