خاص خبر

بہار: بودھ گیا میں بودھ راہب بھوک ہڑتال پر، مندر ایکٹ کو واپس لینے کا مطالبہ

بودھ گیا میں 12 فروری سے بودھ راہب احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بودھ گیا مندر ایکٹ 1949 کو ختم کیا جائے۔ اس ایکٹ کے تحت بننے والی کمیٹی میں بودھ کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کو بھی ممبر بنانے کا اہتمام ہے، جس کی مخالفت بودھ راہب ایک عرصے سے کر رہے ہیں۔

بہار کے بودھ گیا میں بودھ راہب  بی ٹی ایم سی کے دفتر کے باہر غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال پر۔ (تمام تصویریں: اودھا راہا)

بہار کے بودھ گیا میں بودھ راہب  بی ٹی ایم سی کے دفتر کے باہر غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال پر۔ (تمام تصویریں: اودھا راہا)

دنیا بھر سے بودھ مت کے پیروکار آل انڈیا بدھسٹ فورم (اے آئی بی ایف ) کی قیادت میں بودھ مت کے مرکز بودھ گیا میں احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں، جہاں گوتم بدھ کو نروان حاصل ہوا تھا۔

بہار کے اس مذہبی قصبے میں گزشتہ ماہ  12 فروری سے غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال جاری ہے۔ یہاں ڈاکٹر، زائرین اور سیاح آتے جاتے رہے، لیکن مہابودھی مہاوہار کے گیٹ کے باہر بدھ راہبوں اور راہباؤں کا اپنے حقوق کے لیے یہ مظاہرہ خاموشی سے جاری رہا۔

حال ہی میں بہار پولیس نے آدھی رات کو 25 راہبوں کو حراست میں لیا، جن میں سے زیادہ تر اپواس (روزہ) کر رہے تھے۔ نتیجے کے طور پر، احتجاج کی جگہ کو اب مہابودھی مہاوہار سے دو کلومیٹر آگے دوموہان روڈ پر منتقل کرنا پڑا، جو پٹنہ کو ہائی وے سے جوڑتا ہے۔

اس حوالے سے دنیا بھر میں شدید غصہ دیکھنے کو مل رہاہے، کیوں کہ یہ  پیش رفت  اچانک   لوگوں کے سامنے آئی۔ اس سے قبل احتجاج کرنے والے بدھ راہب اور اعلیٰ عہدے داروں کے درمیان بات چیت جاری تھی،جس سے مظاہرین کو امید تھی کہ شاید سب کچھ صحیح سمت میں جا رہا ہے۔

اس حوالے سے اے آئی بی ایف کے جنرل سکریٹری آکاش لاما نے کہا، ‘ہمیں اپنے احتجاج کا 17 واں دن میڈیکل کالج میں گزارنا پڑا۔’

وہیں، اے آئی بی ایف کے صدر جمبو لاما نے کہا، ‘ہم دراصل امن پسند لوگ ہیں، لیکن اب ہم سڑکوں پر نکل کر یہ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں!’

واضح ہوکہ مہابودھی مہاویر کمپلیکس ، جس کے باہر راہب اور راہبائیں احتجاج کر رہے ہیں، وہاں ایک بودھی درخت ہے۔ یہ نہ صرف ایک تاریخی یا مذہبی یادگار ہے بلکہ بودھ مت کے ماننے والوں کے لیے سب سے زیادہ قابل احترام جگہ بھی ہے۔

مہابودھی کمپلیکس کے اندر موجودہ بودھی درخت چوتھی نسل کا درخت ہے۔ بودھی درخت کو تباہ کرنے کی ماضی میں بہت سی کوششیں کی گئی تھیں،تاکہ  اس کی روحانی اہمیت کو ختم کیا جاسکے۔یہ حملے خاص طور پر برہمنوں یا اعلیٰ ذات کے حکمرانوں کی طرف سے کیے گئے۔

مہابودھی مکتی موومنٹ کا بنیادی مقصد بودھ مت کے تقدس کے تحفظ کے لیے بودھ گیا مندر ایکٹ 1949 کو منسوخ کرانا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مہابودھی مہاوہار کے مقدس احاطے صرف بودھ مت کے اختیارمیں رہیں۔

بودھ گیا مندر ایکٹ اور اس کے نتائج

بودھ گیا مندر ایکٹ 1949 ایک ایسا قانون ہے جو غیر بودھوں کو مہابودھی مہاویرمندر کا کنٹرول سنبھالنے کی اجازت دیتا ہے، جو بودھ مت کا سب سے مقدس مقام ہے جہاں سال بھر ہزاروں بین الاقوامی زائرین اورسیاح آتے ہیں۔

اس ایکٹ کے بعد تشکیل دی گئی بودھ گیا مندر مینجمنٹ کمیٹی (بی ٹی ایم سی) میں ہندو اور بودھ دونوں برادریوں کے ارکان شامل تھے، جن میں سے زیادہ تر اعلی ذات کے  برہمن تھے۔ کمیٹی کے نو ارکان میں سے صرف چار بودھ ہیں، چار ہندو ہیں، جبکہ چیئرمین، جو گیا ضلع مجسٹریٹ ہیں، وہ بھی ہندو ہیں۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے جمبو لاما نے کہا، ‘پہلے ایک شق تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈی ایم کو ہمیشہ ہندو ہونا چاہیے، لیکن بعد میں 2012 میں اس شق کو ہٹا دیا گیا۔ اس کے باوجود بی ٹی ایم سی میں کمیٹی کے زیادہ تر ارکان غیر بودھ مت کےہیں اور باقی چار بودھ اختیارات کے بغیر محض خانہ پُری  کے لیے ہیں۔’

اے آئی بی ایف کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی ‘برہمنی نظام کے اثر  ہے’۔ اسے بودھ کی تعلیمات کو زیادہ وسیع اور قابل رسائی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، بجائے اس کےکہ مہاویر کمپلیکس کے اندر غیر بودھ مت کے طریقوں اور رسومات کو مسلط کیا جائے۔ اس سے اس جگہ کے تقدس کی توہین ہوتی ہے اور بودھ مت کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

بدھ راہبوں کی غیرمعینہ بھوک ہڑتال۔

بدھ راہبوں کی غیرمعینہ بھوک ہڑتال۔

کمیٹی کے مطابق، ان میں سے زیادہ تر رسومات خود بدھا کی تعلیمات سے متصادم ہیں – جیسے متنازعہ شیو لنگم علامتوں کی تنصیب، منتروں کے ساتھ ہندو رسومات ادا کرنا، ہندو دیوتاؤں کی طرح بودھ کی مورتیوں کی پوجا کرنا، ریشمی لباس اور چمکدار رنگوں سے سجانا، مہاتما بدھ کو ایک معلم کے بجائے اوتار کے طور پر پوجا کرنا۔

جمبو لاما کہتے ہیں،’کمیٹی کے اراکین سب کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مہابودھی کمپلیکس کے اندر ہمیشہ سے ایک شیولنگ موجود  رہاہے، لیکن یہ سچ نہیں ہے! 30 سال پہلے بھی ایسی کوئی علامت نہیں تھی، جب 1996 میں جاپانی بدھ راہب سورائی ساسائی یہاں تشریف لائے تھے اور وہ مہابودھی مہاوہار کے بتدریج برہمنائزیشن کی نشاندہی کرنے والے پہلے لوگوں میں شامل تھے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘تاریخی درستگی کے لیے ہم ہندوستان کے بارے میں چینی سیاح اور عالم ہیوین سانگ کی تحریریں بھی پڑھ سکتے ہیں، جب وہ 629 عیسوی میں ہندوستان آئے تھے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ مہابودھی کمپلیکس کے اندر اولوکیتیشورا کی پتھر کی مورتی کے علاوہ کسی اور مذہب کا کوئی نشان نہیں تھا۔’

بودھ کے بارے میں پہلے ہی بہت سے متھ موجود ہیں، جن میں سے ایک مشہور یہ ہے کہ وہ وشنو کے اوتار ہیں، جو بودھ مت کی منفرد شناخت کو چھین لیتا ہے۔ بودھ مت کے ساتھ ہندو نظریات کا یہ اختلاط اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ بودھ کی اصل تعلیمات کو تقریباً فراموش کر دیا گیا ہے۔ اور یہ اتفاقی طور پر نہیں ہوا، یہ کئی دہائیوں سے ہو رہا ہے۔

بودھ گیا مندر ایکٹ، 1949 کے نفاذ سے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 25، 26، 29 اور 30 ، جو مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں، کی مزید خلاف ورزی ہوئی ہے ۔ہندوستان  میں اقلیت ہونے کے باوجود بودھ مت کے پیروکار اپنے مقدس مقامات کے مینجمنٹ کے حق سے محروم ہیں۔

واضح ہو کہ اس تناظر میں قانونی کنٹرول کا مطلب پیسے کا کنٹرول بھی ہے۔

جمبو لاما بتاتے ہیں، ‘یہ کسی فلسفیانہ یا روحانی چیز کے بارے میں نہیں ہے، یہ سب پیسے کے بارے میں ہے۔ اتنے پیسے چندہ خانے میں آتے ہیں اور وہ سب اس سے چپکے رہتے ہیں، کوئی سکیورٹی نہیں، کوئی آڈٹ نہیں ہوتا۔ اگر پیسہ شامل نہ ہوتا تو یہ لوگ بہت پہلے چلے جاتے۔’

تیس ہزار سے زیادہ بودھ مت کے پیروکاروں نے پٹیشن پر دستخط کیے

تیس ہزار  سے زیادہ دستخط اور 500 سے زیادہ عالمی بودھ تنظیموں کی حمایت کے ساتھ اے آئی بی ایف  نے پہلے ہی بہار حکومت کو ایک میمورنڈم پیش کیاتھا،  جس میں بودھ گیا مندر ایکٹ 1949 کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک اس پر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

بی ٹی ایم سی ملازمین نے بھی اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

مہابودھی مندر پر بودھ مت کے کنٹرول کا مطالبہ کرنے والی یکجہتی کی ایک بین الاقوامی پٹیشن پر 5000 سے زیادہ دستخط ہو چکے ہیں، جس سے یہ عالمی تشویش کا موضوع بن گیا ہے۔

آکاش لاما کہتے ہیں، ‘کچھ لوگ آتے ہیں اور ہماری تصویریں  اور انٹرویو لیتے ہیں، لیکن مرکزی دھارے کے میڈیا سے زیادہ نہیں، شاید اس لیے کہ ان سب میں برہمن یا اعلیٰ ذات کے ہندو بڑے عہدوں پر ہیں۔ ابھی تک بہت کم علاقائی بہوجن میڈیا نے ہمیں کور کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ سامعین تک پہنچیں گے اور بودھ گیا میں کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں مزید بیداری پھیلائیں گے۔’

آکاش لاما پوچھتے ہیں، ‘ہر مذہب کی اپنی جگہ ہوتی  ہے اور اس کے اپنے لوگ اس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں، کیا ہم کچھ  زیادہ مانگ رہے ہیں؟’

اے آئی بی ایف کے مطالبات کے ساتھ انہوں نے بودھ گیا مہابودھی مہاوہار چیتیہ ٹرسٹ بنانے کی تجویز پیش کی ہے، جس کا مقصد بودھ گیا کے مقدس ورثے کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔

ان کے مطابق، ٹرسٹ کا مینجمنٹ مکمل طور پر بودھ مت کے ماننے والوں کے پاس ہونا چاہیے۔ انتظامیہ، سیکورٹی اور دھمم کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے وہاں صرف بودھ عملے کو ہی تعینات کیا جائے، سخت نظم و ضبط اور بودھ اقدار کی پابندی کو یقینی بنایا جائے اور مہابودھی کے تقدس  کا احترام کیا جائے۔

کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر نیا ٹرسٹ قائم ہوتا ہے، تو یہ صرف بودھ کی تعلیمات کے لیے وقف مرکز بنائے گا،جس میں راہب  کی تربیت، سماجی بہبود کی خدمات، دھمم کی تعلیم اور مراقبہ کے پروگرام شامل ہوں گے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)