خاص خبر

سنبھل: جامع مسجد میں رنگائی-پتائی کی منظوری، عدالت نے اے ایس آئی کی رکاوٹ ڈالنے کی کوششوں کو مسترد کیا

اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو سفیدی کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم، اب ہائی کورٹ میں اس نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا کہ وہ مسجد کے بیرونی حصے کی سفیدی سے انکار کیوں کر رہا ہے، جبکہ تصویروں سے واضح ہے کہ اسے سفیدی کی ضرورت ہے۔

شاہی جامع مسجد کی طرف جانے والا راستہ (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

شاہی جامع مسجد کی طرف جانے والا راستہ (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے بدھ (12 مارچ) کو آخر کار آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو ہدایت دی کہ رمضان کے مہینے میں سنبھل میں واقع مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد کی سفیدی کروائی جائے، جیسا کہ  پہلے سے ہی روایت چلی آ رہی ہے۔

قبل ازیں، اے ایس آئی نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مسجد کو سفیدی کی ضرورت نہیں ہے، لیکن وہ عدالت میں اس کی کوئی معقول وجہ بتانے میں ناکام رہا۔ ایسے میں عدالت کی ہدایت کے بعدسنبھل مسجد کی منتظمہ کمیٹی کو راحت ملی ہے، جو 2 مارچ سے شروع ہونے والے رمضان کے لیے عمارت کے بیرونی حصے کی سفیدی کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔

معلوم ہو کہ اس نئے رنگ و روغن کے اخراجات مسجد کی منتظمہ کمیٹی برداشت کرے گی۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس روہت رنجن اگروال نے کہا، ‘یہ عدالت محسوس کرتی ہے کہ اے ایس آئی کی جانب سے رمضان کے مقدس مہینے میں مسجد کے باہر سفیدی کرنے سے انکار کرنے پر کوئی مناسب جواب نہیں دیا گیا ہے۔ یہ عدالت اے ایس آئی کو یادگار کے ان تمام حصوں کو سفیدی کرنے کی ہدایت کرتی ہے جن میں دراڑیں دکھائی دے رہی ہیں اور انہیں سفیدی کی ضرورت ہے۔’

واضح ہو کہ اے ایس آئی نے معائنہ رپورٹ اور حلف نامے کے توسط سے کہا تھا کہ مسجد کو سفیدی کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے تازہ حلف نامے میں اے ایس آئی نے کہا کہ مسجد کی منتظمہ کمیٹی کئی سالوں سے یادگار کے بیرونی حصے کی سفیدی اور پینٹنگ کر رہی تھی، جس کے نتیجے میں اس پر پینٹ کی کئی تہیں پڑ گئی ہیں۔’

اس کے ساتھ ہی اے ایس آئی نے یہ بھی کہا کہ مسجد کی دیواروں کو پہلے ہی آرائشی لائٹس لٹکانے کے لیے استعمال ہونے والے بھاری کیلوں سے نقصان پہنچا ہے۔

تاہم، اے ایس آئی نے ان باتوں سے پہلو تہی کرلیاجن میں  اسے یہ بتانا  تھا کہ وہ مسجد کے بیرونی حصے کی سفیدی سے انکار کیوں کر رہا ہے، جبکہ تصویروں سے واضح ہے کہ اسے دوبارہ سفیدی کی ضرورت ہے۔

اس جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے جسٹس اگروال نے کہا، ‘اے ایس آئی کو مسجد کمیٹی کی جانب سے دائر کردہ ملحقہ پر جواب داخل کرنا تھا جس میں متنازعہ عمارت کے بیرونی حصے کی تصویریں دکھائی گئی تھیں، جس کو سفید کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن اب داخل کردہ حلف نامہ میں مذکورہ حقائق کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے کہ اے ایس آئی اس سے انکار کیوں کر رہا ہے۔’

عدالت نے اے ایس آئی کو سفیدی کا کام شروع کرنے اور ایک ہفتے میں مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

جسٹس اگروال نے مزید کہا کہ دیواروں پر اضافی لائٹس لگانے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ اس سے عمارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، مسجد کے بیرونی حصے کو روشن کرنے کے لیے فوکس لائٹس یا ایل ای ڈی لائٹس کی شکل میں بیرونی لائٹس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

قبل ازیں، 27 فروری کو عدالت میں پیش کی گئی اپنی ابتدائی رپورٹ میں اے ایس آئی نے کہا تھا کہ مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد مجموعی طور پر ‘اچھی حالت’ میں ہے اور اسے نئے رنگ و روغن  کی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ عمارت کے بیرونی حصے کا پینٹ اکھڑ گیا ہے اور کچھ جگہوں پر ‘نقصان کے کچھ نشانات’ بھی نظر آتے ہیں۔

معلوم ہو کہ ہائی کورٹ نے اس معاملے میں معائنہ کا حکم اس وقت دیا تھا جب مرکزی طور پر محفوظ مسجد کی انتظامی کمیٹی نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ رمضان کے دوران مسجد میں دیکھ بھال، صفائی، سفیدی اور روشنی کے انتظامات سے متعلق کام کی اجازت دی جائے۔

اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں، جس کی ایک کاپی دی وائر کے پاس ہے، کہا تھا کہ مسجد کی انتظامی کمیٹی نے ماضی میں کئی مرمت اور بحالی کے کام کیے ہیں، جس کے نتیجے میں تاریخی عمارت میں ‘ تبدیلیاں’ ہوئی ہیں۔ مسجد کا فرش مکمل طور پر ٹائلوں اور پتھروں سے بدل دیا گیا ہے۔ اے ایس آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسجد کے اندرونی حصوں کو سنہرے، سرخ، سبز اور پیلے رنگ جیسے جلی رنگوں میں تامچینی پینٹ کی موٹی تہوں سے پینٹ کیا گیا ہے، جس سے عمارت کی اصل سطح چھپ گئی ہے۔

اے ایس آئی کی رپورٹ کے جواب میں مسجد کمیٹی نے کہا کہ اس نے اپنی پہلے کی درخواست میں مرمت کے کام کی کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ مسجد کمیٹی کی طرف سے صرف آرائشی لائٹس اور سفیدی کی درخواست تھی۔

جامع مسجد جسے اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں 'اچھی حالت' میں بتایا ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

جامع مسجد جسے اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں ‘اچھی حالت’ میں بتایا ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

مسجد کمیٹی نے کہا، ‘اے ایس آئی کی رپورٹ نے ایک سادہ مسئلے کو مرمت کے کام کی طرف موڑ کر پیچیدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ‘بیرونی لوگوں کے اثر میں کیا گیا ہے’، جس میں  ضلع انتظامیہ کے اہلکار  بھی شامل ہیں ، جو 27 فروری کو اے ایس آئی کے معائنہ کے دوران غیر مجاز طور پر موجود تھے۔

اے ایس آئی کی رپورٹ میں سفیدی، روشنی اور آرائشی لائٹس کی تنصیب کے مسائل کا ذکر نہیں کیا گیا۔ کمیٹی نے کہا کہ پوری رپورٹ بنیادی طور پر مرمت کے کام کے بارے میں ہے اور کچھ بیرونی وجوہات کی بناء پر وہائٹ واشنگ اور لائٹنگ کے معاملے کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے۔

مسجد کمیٹی نے صرف یہ مطالبہ کیا تھا کہ مسجد کے تمام کونوں سے بیرونی دیواروں، گنبدوں اور میناروں پر وہائٹ واش اور صاف صفائی کاکام کیا جائے جیسا کہ گزشتہ برسوں میں رمضان سے پہلے کیا جاتا رہا ہے۔

مسجد کمیٹی نے کہا کہ مسجد کے اندرونی حصوں میں تامچینی پینٹنگز اور فرش کی مرمت اسے آنے والے سالوں تک محفوظ رکھنے کے لیے کی گئی تھی۔ اصل عمارت میں کسی بھی جگہ پر ‘کسی قسم کی کوئی تبدیلی’ نہیں کی گئی تھی۔ مسجد کی انتظامی کمیٹی نے اے ایس آئی کی رپورٹ پر کئی اعتراضات اٹھائے۔

عدالت میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں مسجد کمیٹی نے کہا کہ رپورٹ میں مذکور متعدد تبدیلیوں اور اضافے کے الزامات مکمل طور پر من گھڑت ہیں۔

مسجد کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ اے ایس آئی نے جان بوجھ کر مسجد کے اہم اور ضروری خدشات کو نظر انداز کیا، جن میں سفیدی، اضافی لائٹس کی تنصیب اور آرائشی لائٹس شامل تھیں۔ ایسے میں رمضان المبارک کا ایک تہائی مہینہ گزر چکا ہے۔

مسجد کمیٹی نے کہا، ‘یہ واضح طور پر ایک اہم اور فوری مسئلہ کو کمزور کرنے کے لیے جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔’

اس سلسلے میں 10 مارچ کو اے ایس آئی نے عدالت کو مطلع کیا تھا کہ اگرچہ عمارت کے بیرونی حصے پر کچھ کرسٹ نظر آرہی ہے، لیکن حتمی فیصلہ اے ایس آئی  کے تحفظ اور سائنس ونگ کی مدد سے مناسب سروے کے بعد ہی لیا جاسکتا ہے۔ اے ایس آئی نے اپنی سابقہ پوزیشن کو دہرایا اور کہا کہ اسے کسی سفیدی کی ضرورت نہیں ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )