جس وقت ہولی کے بہانے رمضان کو لے کر تنازعہ پیدا کرکے حملہ کیا جا رہا ہے، دہشت پیدا کی جا رہی ہے، اسی وقت دہشت کے دباؤ میں مسلم کمیونٹی اپنے پہناوے میں کھلے پن کو بڑھاوا دے رہی ہے، انہیں انسٹا پر درج کر رہی ہے۔ کہیں گھر گرایا جا رہا ہے تو کہیں مسجد خطرے میں ہے، روز ایسی خبروں کے درمیان انسٹا کے یہ ریل ایک تخلیقی بغاوت کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا
فرشی شلوار اور فرشی پاجامے کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ انسٹاگرام پر رمضان کے حوالے سے بنائے گئے بے شمار ریلوں سے گزرتے ہوئے محسوس ہوا کہ مسجدوں پر ترپال ٹانگنے کے اس دور میں فرشی نے زمین پر ہی آسمان کا گھیرا بنانا شروع کر دیا ہے۔ نفرت انگیز اور پرتشدد دور میں فیشن پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کا مطالعہ کرنے والے بہتر انداز میں اس کا تجزیہ کریں گے، لیکن کسی ٹرینڈ پر تبصرہ کرنے کے لیے کسی کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔
جو لوگ انسٹاگرام پر ریل اسکرول کرتے ہیں، ان کی نظر رمضان کے موقع پر بنائے جانے والے بے شمار ریلوں پر ضرور پڑی ہوگی۔ جس طرح سے فرشی پاجامہ اور شلوار کا جنون طاری ہے، لگتا ہے گھر اور دکان کے سارے کپڑے فرشی میں کھپ جائیں گے۔ شاید ٹوپی کے لیے بھی کچھ نہیں بچے گا، جو بھی ہوگا فرشی میں لگ جائے گا۔ ویڈیو سے پتہ چل رہا ہے کہ فرشی کی آندھی پاکستان سےچلی آ رہی ہے۔ ہندوستان میں بھی فرشی فرشی ہونے لگاہے۔
ایک ریل میں خاتون کہتی ہیں کہ فرشی شلوار کورونا کی طرح پھیل گئی ہے۔ فرشی شلوار کے ڈونٹ اور ڈوزپر ویڈیو ہیں، یعنی کیسے پہنا جائے بتایا جا رہا ہے۔ خبردار کیا جا رہا ہے کہ ٹخنوں کے اوپر فرشی کبھی نہ پہنیں ۔ درزیوں کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ پٹیالہ اور فرشی کا گھال میل نہ کریں۔ فرشی کا زمین پر ہونا ضرور ی ہے، اسے ٹخنے پر نہ ٹانگیں۔ فرشی کا پائنچہ کیسے بناتے ہیں، اس کے بھی ویڈیو ہیں۔
ایک ریل میں محترمہ بتا رہی ہیں کہ فرشی کو دیکھ کر امی نے کیا کہا، پھوپھی نے کیا کیا اور پھر ایک ریل میں نظر آتا ہے کہ امی سے لے کر پھوپھی تک فرشی شلوار کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ کیا محترمہ، کیا میاں، ہر کوئی فرشی پہنے رقص کر رہا ہے۔ شلوار کے نچلے حصے یعنی مہری کے پاس فنکاری کا سیلاب سا آگیا ہے۔ لکیروں سے لے کر چوکور خانے تک بنائے گئے ہیں تو کسی فرشی کی مہری کو کپڑوں کی دو تین تہوں سے بھاری کیا گیا ہے تاکہ مہنگی جوتی کی نوک تو کم از کم نظر آ ہی جائے، ورنہ کئی فرشی میں جوتی کے دیدار ندارد ہیں۔
ذرا سی تشویش ہے کہ اگر فرشی کا طوفان زور پکڑتا ہے تو جوتی کے فیشن کا کیا ہو گا، تو اس لیے اس کی تگ و دو بھی ریل میں نظر آتی ہے ۔کچھ فرشی میں مہری کو پتلا رکھا گیا ہے کہ وہ جھولتی ہوئی زمین پر لسراتی رہے۔
گودی میڈیا اور فرقہ وارانہ سیاست
اگر یہ فیشن واقعی زور پکڑ لیتا ہے تو بحران کا سامنا کر رہی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے ہندوستان کی مارکیٹ پہلے سے بڑی ہو جائے گی اور سڑکوں کی صفائی کے کام میں ہونے والے حکومت کے اخراجات بچ جائیں گے۔ جہاں جہاں سے فرشی والے اور فرشی والیاں گزریں گے، سڑک صاف ہوتی جائے گی۔ سڑک سے پہلےآنگن اور برآمدہ کی صفائی ہو چکی ہوگی۔ خبردار جو آپ نے فرشی کو پوچھا اور جھاڑوکا نام دے کربھڑاس نکالنے کی کوشش کی تو۔
میری رائے میں اپنی توانائی یہ سمجھنے میں صرف کیجیے کہ دس سالوں میں گودی میڈیا اور فرقہ پرست سیاست پوری طاقت لگا کر ترپال ٹانگنے پہنچے، انسٹاگرام کے ذریعے دو چار سو لوگوں نے فرشی شلوار اور پاجامہ کے فیشن کو تحریک میں تبدیل کر دیا ہے۔
روزہ دار لڑکے فرشی شلوار پہن کر اترا رہے ہیں۔ گھوم پھر کر دکھا رہے ہیں کہ کیسا لگ رہا ہے۔ روزے دار لڑکیاں چل چل کر، سیڑھیوں سے اتر کر دکھا رہی ہیں کہ فرشی کا فال کتنا پرفیکٹ ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک لڑکی کو چھیڑا جا رہا ہے عید پر ابو کی شلوار پہن لینا وہ بھی فرشی لگے گی۔
ایک پاکستانی لڑکا تنگ آگیا ہے، کھوج رہا ہے ان لوگوں کو جنہوں نے فرشی بنائی ہے۔ کہہ رہا ہے کہ فرشی شلوار نہیں، دھوتی ہے۔ واقعی کچھ کی سلائی ایسی ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ٹیلر ماسٹرعید کے موقع پر سلائی کے آرڈر پورے نہیں کر پا رہے ہیں۔ بس کسی طرح کپڑا کاٹ کر سل دے رہے ہیں اور روزے دار کو تھما دے رہے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کہ جتنی سلی ہےاتنی پہن لو، باقی اگلے سال عید میں اسے ٹھیک کر دیں گے۔ مجبوری میں روزہ دار بھی کیا کرے۔ فرشی فرشی کرنے لگا ہے تاکہ بتا سکے کہ جو پہنا ہے آج کے زمانے کا فیشن ہے۔
ریل میں بتایا جا رہا ہے کہ فرشی کا زمانہ پردادی اور پرنانی کے دور کا ہے جو اس سال لوٹ کر آرہا ہے۔ جین زی کے زمانے میں اس دور کی واپسی ہو رہی ہے جب نسلوں کی گنتی ایکس وائی اور زیڈ سے نہیں ہوا کرتی تھی۔ لگتا ہے جین زی بھائی لوگ تھک گئے۔ دوچار دس الفاظ گڑھ کر ہیرو بننےمیں ہی ان کا پسینہ نکل گیا ہے۔بلکہ ایک ریل میں پردادی لوٹ آئی ہے اور اپنی جین زی پوتی کا مذاق اڑا رہی ہے کہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ 2025 میں فرشی کم بیک مارے گی۔ کم بیک مارے گی۔
فرشی نہیں سلوائی تو رشتے نہیں بنیں گے۔ عیدی نہیں ملے گی۔ اس کی قیمت اوقات سے باہر ہوگی تو بھی پہننا فرشی ہی ہے۔ تو اس طرح سے فرشی کا ماحول بنا دیا گیا ہے۔ لیکن اس فیشن کو آج کے سیاسی تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔
آمریت کے دور میں ہنسنا بھی احتجاج ہے
فرشی ایک جواب کی طرح ہے کہ ہم نے آپ کی نفرت کی انتہا دیکھ لی۔ ہم اپنی دھڑکنوں پرآپ کو پتھر بن کر بھاری نہیں ہونے دیں گے۔ اگر حکومت اور سیاست باہر نہیں جینے دے گی تو ہم اندر سے جینے کا نیا گھیرا بنالیں گے۔ آمریت کے دور میں ہنسنا بھی ایک طاقتور احتجاج ہے۔ کیا اسی تناظر میں فرشی کی اس تحریک کو دیکھا جا سکتا ہے؟ یہ اس تصور پر بھی چوٹ کر رہا ہے جو مسلمان لڑکیوں کے پہناوے کو منظم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لڑکیاں اپنا فیشن چن رہی ہیں۔ دنیا کو دکھا رہی ہیں کہ عید کے تہوار میں ان کے خواب میں فرشی شلوار کی تمنا رقص کررہی ہے۔
صارف ہونے کی حرکیات سیاست سے مختلف ہیں۔ ورنہ نہرو جیکٹ یا صدری کو مودی جیکٹ کے نام سے چلانے کی کوششیں کم نہیں ہوئیں۔ ہوائی اڈے پر مودی جیکٹ کی دکانیں کھولی گئیں جو اب نظر نہیں آتیں۔ لوگوں نے جیکٹ کو جلد ہی مودی نام کے بغیرپہننا شروع کر دیا۔ جس ہاف بازو والے کرتے کو ہمارے گاؤں کے لوگ پہناکرتے تھے تاکہ گائے کو چارہ کھلاتے وقت کرتے کی آستینوں میں چارہ نہ لگ جائے، اس کرتے کو مودی کے نام سے برانڈ کرنے کی کوشش کی گئی جو دس سال کی آندھی میں کہیں اڑ کر کہیں لا پتہ ہو چکی ہے۔
جس وقت میں ہولی کے بہانے رمضان کو لے کر تنازعہ پیدا کرکے باہر سے حملہ کیا جا رہا ہے، دہشت پیدا کی جا رہی ہے، اسی وقت دہشت کے دباؤ میں مسلم کمیونٹی اپنے لباس میں کھلے پن کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ فرشی سے چیلنج کر رہی ہے کہ ہمیں ماضی کی عینک سے دیکھنے اور اس کی طرف موڑنے کی کوشش فضول ہے۔ ہم صرف اس دور کی سیاست کے آئینے میں خود کو نہیں دیکھیں گے، آئینے پر ان کا بھی حق ہے۔جی کر دکھا دینا بھی جواب ہے۔کہیں گھر گرایا جا رہا ہے، کہیں مسجد خطرے میں ہے، روزایسی خبروں کے درمیان انسٹا کے یہ ریل ایک تخلیقی بغاوت کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ فرقہ وارانہ سیاست نے سماج کو مایوس کرنے کی کم کوشش نہیں کی۔ ناامیدی کے کنویں میں دھکیل دیا جائے جہاں اس کے پاس کوئی خواب نہ رہے۔ یہاں معاشرہ اپنے اندر سے فرشی کاجشن برپا کر رہا ہے۔
یہی نہیں رمضان کے حوالے سے بنائے جانے والے ویڈیو میں مذہبی اداروں میں بھی پابندیوں کا آئین بنانے والوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ رمضان کے بارے میں کتنے لطیفے بنائے گئے ہیں۔ صرف مسلمان لڑکے اور لڑکیاں ہی نہیں بلکہ مولوی بھی دوسرے مولوی کو تراویح پڑھانے کو لے کرطنز کر رہے ہیں۔ سحری کے اعلان کے حوالے سے بہت زیادہ تخلیقی اظہار نظر آ رہاہے۔ بسترسے دو لڑکے اٹھ نہیں رہے، تبھی اعلان ہوتا ہے کہ جو سحری کے لیے اٹھے گا اس کی شادی اس کی محبوبہ سے ہوگی۔ لڑکے بھاگ کر تیار ہونے لگ جاتے ہیں۔ ایک سے ایک گانے بنائے گئے ہیں جو روزہ داروں کی کلاس لے رہے ہیں۔ روزہ رکھنے والوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے کہ نام کا روزہ رکھا ہے۔
ہندو سماج اندر سے بند اس لیےہوگیا کیوں کہ وہ ڈرپوک ہوگیا
روزہ کتنا بدل گیا ہے ، صرف سحری اور افطار کی باتوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اس پر تشویش کا اظہار کرنے کےبجائے مذاق کی زبان کا استعمال کیا جا رہاہے۔ سینکڑوں ویڈیو ایسے بنے ہیں جن میں مذہب کی پابندیوں پر تبصرے اور لطیفے بنے ہیں۔ ممکن ہے سماجی زندگی کے قریب رہنے والوں کے لیے اس ریل میں کچھ خاص نہ ہو، کوئی نئی با ت نہ ہو کیونکہ رمضان کے لطیفے توصدیوں پرانے ہیں۔ ہر دور میں رہے ہیں۔ لیکن اس وقت مسلم سماج کے اندر کی زندہ دلی یقین دلاتی ہے کہ انہیں ہر طرح سے مایوس کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
اسی وقت ہندو سنت نفرت انگیز باتیں کر رہے ہیں اور ہندو سماج ان کی مخالفت تک نہیں کر پا رہا ہے، آج اگر کوئی ان کی باتوں کا مذاق اڑاتے ہوئے انسٹا پر ریل بنا دے تو اسے سیدھا جیل رسید کیا جائے گا۔ آپ ہندودھرم پر بن رہے ریل کو دیکھیے، صرف احساس تفخر ہے اور مسلمانوں کو للکارنے کا لب و لہجہ ہے۔ اپنے اندر غدار ڈھونڈنے کی دوڑ ہے۔ نریندر مودی کے دور میں ہندو سماج اندر سے بند اس لیےہو گیا کیونکہ وہ بزدل ہو گیا۔ اس کی بہادری کسی مسلمان کو للکارنے میں نظر آتی ہے، کسی مسلمان کی دکان کو جلا دینے میں نظر آتی ہے، لیکن اپنے معاشرے میں ہونے والے غلط کو غلط کہنے میں نظر نہیں آتی۔ کوئی بھی معاشرہ جب اپنے اندر کے خرافات اور تشدد کی مخالفت کرنے کی ہمت کھو دیتا ہے، تو وہ زندہ تو رہتا ہے مگر زندہ دل نہیں رہ جاتا۔ رمضان کے موقع پر اپلوڈ ہونے والے ریل کو دیکھیے۔پتہ چلےگا کہ مسلم معاشرے کے اندرکی پابندیوں کا کس طرح مذاق اڑایا جارہا ہے۔
رمضان میں مسلم خواتین
انسٹا کے ریل میں رمضان میں مسلمان خواتین کو اظہار خیال کی آزادی دی گئی ہے۔ ایسے ریل ہیں جن میں کپڑے کا دکاندار خواتین کے وزن کا مذاق اڑا رہا ہے۔ کسی ریل میں اس بات پر تبصرہ کیا جا رہا ہے کہ روزے کے نام پر خواتین کام نہیں کر رہی ہیں اور دن بھر انڈیا اور پاکستان کے سیریل دیکھ رہی ہیں۔
لیکن ایک ریل میں ایک عورت چار سوٹ لے کر آتی ہے۔ شوہر پوچھتا ہے کہ اپنے لیے اتنی خریداری، تو کہتی ہے کہ نہیں؟ اس نے ایک سوٹ رسوئی والی کے لیےلیا ہے، ایک سوٹ پوچھا لگانے والی کے لیے لیا ہے، ایک سوٹ برتن دھونے والی کے لیے لیا ہےاور ایک سوٹ بچوں کو سنبھالنے والی کے لیے لیا ہے۔ اس پر شوہر پوچھتا ہے کہ گھر میں تو تم ہی ہو۔ کام کرنے تو کوئی نہیں آتی، اس پر بیوی کہتی ہے اس لیے میں نے اپنے لیے چار سوٹ خریدے ہیں۔ اس واقعہ کو کتنے طریقے سے پڑھاجا سکتا ہے۔ ساحل ڈانسر کا ایک ویڈیو ہے جو اس نے لڑکیوں کے لیے بنایا ہے۔ اس پیروڈی میں ساحل گا رہے ہیں کہ کبھی سحری کے برتن اوہو، کبھی افطاری کے برتن آہا، کبھی بڑے پتیلے اوہو، کبھی چھوٹے برتن آہا، یہاں قدم قدم پر ہم نے برتن پائے ہیں۔ اس طرح سے رمضان میں خواتین پر جو بوجھ پڑاہے اس کے بارے میں بھی خوب باتیں ہو رہی ہیں۔
ایسے درجنوں ویڈیو دیکھنے کے بعد یہی لگا کہ ان کا ڈھنگ سے مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ ایک سمجھ تو یہ بنتی ہے کہ معاشرہ اپنے اندر مختلف چیزیں تخلیق کرتا ہے۔ رمضان کا سفر انسٹا پر دلچسپ ہوچلاہے۔ ہنستے ہنساتے مہینہ کٹ رہا ہے۔ گودی میڈیا کے چینلوں پر و ہی ترپال اور ٹوپی کی بحث ہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ نیوز چینلوں کو نہ دیکھنے کی مشق مسلسل کیجیے، اگر آپ انہیں دیکھیں گے تو بہت کچھ دیکھنے سے رہ جائیں گے۔ ہندوستانی سیاست نے ترپال اوڑھ لیا ہے اور سماج فرشی کے خواب میں اپنے قدموں کو بڑھائے جا رہا ہے۔