خاص خبر

اتر پردیش: اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کے لیےمختص ہوئے 425 کروڑ، خرچ چونی بھی نہیں

اتر پردیش میں اَن آرگنائزڈ  مزدوروں  کے لیے گزشتہ چار سالوں میں مختلف اسکیموں کے لیےتقریباً 425 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ لیکن اس پیسے کوخرچ نہیں کیا گیا کیونکہ ان مزدوروں کے لیے کوئی  بھی اسکیم چلائی ہی نہیں جا رہی تھی۔

الہ آباد: اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ریاست کی ہمہ جہت ترقی کے دعووں کے باوجود حکومت نے پچھلے سالوں میں ریاست کے ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔

ریاست کا بجٹ 8 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ یوگی حکومت نے گزشتہ چار سالوں میں اَن آرگنائزڈ سیکٹرکے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی رقم خرچ نہیں کی۔

دی وائر نے 17 فروری کو معلومات کے حق کے قانون کے تحت ریاستی حکومت کی طرف سے اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدورں کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں کے بارے میں ایک درخواست  داخل کی تھی۔ اس درخواست کے ذریعے ریاست کے سوشل سکیورٹی بورڈ سے اَن آرگنائزڈ مزدروں کے لیے اسکیموں اور ان پر پچھلے چار سالوں میں کیے گئے اخراجات کی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔

اتر پردیش کے اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کا رجسٹریشن اور ان کے لیے سماجی تحفظ کی اسکیموں کے نفاذ کی ذمہ داری سوشل سکیورٹی بورڈ کی ہے۔

درخواست  میں سوال پوچھا گیا  تھاکہ مالی سال 2021-22، 2022-23، 2023-24 اور 2024-25 میں ریاستی حکومت نے اَن آرگنائزڈ سیکٹرکے مزدوروں کے لیے کس اسکیم کے تحت کتنا بجٹ منظور کیا اور اس بجٹ کا کتنا حصہ خرچ کیا گیا؟

اس کے جواب میں بورڈ نے بتایا کہ؛


‘پہلے تین مالی سالوں میں 112 کروڑ روپے’ ​​اور ‘2024-25 میں 92 کروڑ روپے’ ​​مختلف اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے ۔ لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہو سکی کیونکہ اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے کوئی اسکیم نہیں چلائی جا رہی تھی۔’


اس کا مطلب ہے کہ پچھلے چار سالوں میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے نہ تو کوئی اسکیم نافذ کی اور نہ ہی ریاست کے اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے ایک پیسہ خرچ کیا۔

اگلا سوال یہ تھا کہ کیا اتر پردیش کے اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے اعلان کردہ اسکیموں کی تشہیر کا کوئی نظام ہے؟ اگر ہاں تو اس کے لیے مذکورہ چار سالوں میں کتنا بجٹ مختص کیا گیا اور  کتنا خرچ کیا گیا۔

سوشل سکیورٹی بورڈ نے جواب دیا کہ مالی سال 2021-22 میں پانچ لاکھ روپے اور سال 2022-23، 2023-24 اور 2024-25 میں سات لاکھ اسی ہزار روپے ان سکیموں کی تشہیر کے لیے مختص کیے گئے تھے، لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہو سکی کیونکہ کوئی اسکیم نہیں چل رہی تھی۔

ظاہر ہے کہ جب محکمہ کوئی اسکیم نہیں چلا رہا تھا تو ان کی تشہیر کا کوئی مطلب نہیں تھا۔

سوشل سیکورٹی بورڈ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ان مالی سالوں میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں سے لیبر ڈپارٹمنٹ کو مالی مدد کے لیے کتنی درخواستیں موصول ہوئیں اور کتنے مزدوروں کی مدد کی گئی۔ جواب میں بورڈ نے کہا کہ اسے ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔


‘حکومت ہند کے پورٹل ای شرم کے مطابق، ملک میں 30.68 کروڑ سے زیادہ اَن آرگنائزڈ مزدرو ہیں، جن میں نصف سے زیادہ خواتین (53.68 فیصد) ہیں۔ اس میں سے تقریباً 8 کروڑ 38 لاکھ مزدور اتر پردیش سے رجسٹرڈ ہیں ۔ یہ ملک میں رجسٹرڈ مزدوروں کا تقریباً 27.5 فیصد ہے۔ اَن آرگنائزڈ مزدوروں  کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ریاستی حکومت کے پاس ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔


ریاست میں کانٹریکٹ ورکرز کو ہراساں کرنا عام ہے اور بازار میں مزدوروں کی دستیابی ان کی اجرت کی شرح کو کم کرتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کا کہنا ہے کہ اسے پچھلے چار سالوں میں ان مزدوروں  کی مدد کے حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ستمبر 2022 میں جہاں غیر ہنر مند مزدورکی کم از کم اجرت 367 روپے، نیم ہنر مند مزدور 403 روپے اور ہنر مندمزدور کی 452 روپے یومیہ تھی، وہیں یہ 31 مارچ تک بالترتیب 412 روپے، 463 روپے اور 503 روپے یومیہ مقرر کی گئی ہے۔ بے قابو مہنگائی کے مدنظریہ اضافہ انتہائی ناکافی اور ایک عام مزدور کی روزمرہ  کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔

خواتین مزدوروں کی حالت کہیں بدتر

چونکہ ملک میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والے کل مزدوروں میں سے 53 فیصد سے زیادہ خواتین ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتر پردیش میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں چار کروڑ سے زیادہ خواتین کام کرتی ہیں۔ انہیں یہ روزگار زراعت، تعمیرات اور گھریلو کام کی صورت میں ملتا ہے۔ ریاست میں زراعت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو اوسطاً 200 روپے یومیہ اجرت ملتی ہے۔ یعنی اتر پردیش کی خواتین مزدور چھ سے آٹھ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے کو مجبور ہیں۔

وہیں، مردوں کی اوسط ماہانہ تنخواہ دس سے گیارہ ہزار کے قریب پہنچتی ہے۔ ریاستی حکومت کے پاس اس بڑی آبادی کو کم از کم اجرت یقینی بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والوں کا تعلق ریاست کے دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات سے ہے۔ یہ کمیونٹی اپنی بنیادی ضروریات کے لیے روزانہ جدوجہد کرتی ہے۔

جب دی وائر نے ریاست کے محنت اور روزگار کے وزیر منوہر لال سے پوچھا کہ حکومت نے ان مزدوروں کی بہبود کے لیے مختص رقم کیوں خرچ نہیں کی، تو انھوں نے جواب دیا، ‘اس موضوع پر انھیں کوئی معلومات نہیں ہے۔’

جب ہم نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی ترجمان راکیش ترپاٹھی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی کہا، ‘میرے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے۔’

(ہرے رام مشر آزاد صحافی ہیں۔)