جنوبی چھتیس گڑھ کے بیجاپورضلع میں 31 مارچ کو پولیس فائرنگ میں رینوکا کی موت ہوگئی۔ دنتے واڑہ پولیس نے اسے ‘انکاؤنٹر’ بتایا ہے، حالانکہ اس علاقے میں اس طرح کے دعووں کی سچائی ہمیشہ سے مشکوک رہی ہے۔
ممبئی: 80 کی دہائی میں آندھرا پردیش کے ضلع ورنگل کے نوجوانوں کے لیے اسکول-کالج کی پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑکر مسلح جدوجہد میں شامل ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں تھی، ، خاص طور پر کڈاوینڈی گاؤں میں۔ ہر گھرمیں اس طرح کی ایک داستان ہے۔
اِسی دہائی کے اوائل میں تلنگانہ جدوجہد کا دوسرا مرحلہ اپنے عروج پر تھا، اورکڈاوینڈی الگ تلنگانہ اور ماؤنواز تحریکیں دونوں کا مرکز بن چکا تھا۔ لیکن یہ وہ راستہ نہیں تھا، جو رینوکا نے اپنے لیےمنتخب کیا تھا۔
رینوکابس کالج میں پہنچی ہی تھیں، جب والدین نے ان کی شادی کا فیصلہ کیا – ممکنہ طور پر اس ڈر سے کہ وہ اپنے بھائی جی وی کے پرساد کی طرح مسلح جدوجہد کا رخ کر لیں گی۔
لیکن یہ شادی جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی، کیوں کہ رینوکا نے اپنے شوہر کے تشدد سے تنگ آکر رشتہ ختم کردیا۔ پرساد کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا جب رینوکا نے پدرانہ نظام پر سوال اٹھائے تھے۔
تقریباً دس سال قبل مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کرنے والے پرسادسرینڈر کر چکے ہیں اور اب وہ ایک تیلگو چینل میں صحافی کے طور پر کام کرتے ہیں۔
گزشتہ 31 مارچ کو جنوبی چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع میں پولیس فائرنگ میں رینوکا کی موت ہوگئی۔ آپریشن کی قیادت کرنے والی دنتے واڑہ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک’انکاؤنٹر’ میں ماری گئیں- اس علاقے میں اس طرح کی تمام ہلاکتوں میں اکثر یہی دعویٰ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی سچائی مشکوک ہی رہتی ہے۔
پرساد کا کہنا ہے کہ 54 سالہ رینوکا، جنہوں نے تقریباً تین دہائی نکسل تحریک میں ایک اوور گراؤنڈ ورکر اور ایک انڈرگراؤنڈ گوریلا کے طور پر کام کیا، وہ ایک ‘ممتاز افسانہ نگار’ اور ‘بہت اچھی صحافی’ بھی تھیں۔
جس وقت ان کی موت ہوئی، اس وقت رینوکا ڈنڈکارنیہ اسپیشل زونل کمیٹی کی رکن تھیں اور ان پر تقریباً 45 لاکھ روپے کا انعام رکھا گیاتھا – چھتیس گڑھ حکومت کی طرف سے 25 لاکھ روپے اور تلنگانہ حکومت کی طرف سے 20 لاکھ روپے۔
گمڈاویلی لوگ پدمشالی یا بنکر برادری سے آتے ہیں، جنہیں تلنگانہ اور آندھرا پردیش دونوں میں ایک پسماندہ کمیونٹی کادرجہ حاصل ہے۔ کڈاوینڈی گاؤں میں مخلوط آبادی ہے، جہاں زیادہ تر خاندانو ں کے پاس زمین نہیں تھی، اگر کسی کے پاس زمین تھی تو وہ بھی بہت کم تھی۔ پرساد کہتے ہیں،’یہاں تک کہ گاؤں میں ریڈی (عام طور پر ایک زمیندار برادری) کے پاس بھی زمین نہیں تھی۔’
پرساد نے 1980 کی دہائی کے وسط میں نکسل تحریک میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس وقت وہ اسکول میں ہی پڑھ رہے تھے۔ ان سے دو سال چھوٹی رینوکا کا اس وقت تحریک کی طرف کوئی جھکاؤ نہیں تھا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے پرساد نے کہا، ‘لیکن شادی ٹوٹنے کے بعد انہوں نے خاندانی ڈھانچے پر سوال اٹھانا شروع کر دیا۔ انہوں نے ایک بار مجھے طول طویل خط بھیجا، جس میں مجھ سے پوچھا کہ مارکسسٹ پدرانہ نظام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ پدرانہ نظام میں خواتین کی روزمرہ کی جدوجہد کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ ان کے اندر منتھن شروع ہو گیا تھا۔ ٹوٹی ہوئی شادی نے انہیں ایک طرح سے آزاد کر دیا۔’
اس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جلد ہی دور افتادہ ضلع چتور چلی گئیں۔ قانون کی تعلیم کے دوران رینوکا خواتین کے ایک گروپ – مہیلا شکتی کا حصہ بن گئیں، جو جہیز کی وجہ سے ہونے والی اموات، خواتین کو ہراساں کرنے اور صفائی ستھرائی جیسے مسائل پر کام کرتا تھا۔ جلد ہی انہوں نے انقلابی ماہانہ میگزین ‘مہیلا مارگم’ کے لیے لکھنا شروع کر دیا۔ قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ وشاکھاپٹنم چلی گئیں، جہاں انہوں نے وکیل کے طور پر کام کیا۔
سال 1996 تک، رینوکا نے ایک اوور گراؤنڈ نکسلائٹ کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا، وہ افسانے لکھا کرتی تھیں، میٹنگ کرتی تھیں اور انڈرگراؤنڈ نکسلائٹس کے خاندانوں کو قانونی امداد فراہم کرتی تھیں۔
رینوکا کئی ناموں سے کہانیاں، مضامین اور رپورتاژ وغیرہ لکھا کرتی تھیں۔ یہ سال 2003 کا آغاز تھا، جب ان کے چھوٹے بھائی،اپنے والدین کے ساتھ پرساد سے ملنے جنگل میں جا رہے تھے۔ پرساد کو اس وقت بھگوڑا قرار دیا گیا تھا۔ تب پولیس نے ان سب کو پکڑ لیا اور رینوکا کے چھوٹے بھائی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس وقت رینوکا نے اپنی قانونی تعلیم کا استعمال کیا اور اپنے بھائی کو غیر قانونی حراست سے رہا کروایا۔ اس واقعے میں دمیانتی نامی ایک نوجوان لڑکی پولیس کی فائرنگ میں ماری گئی تھی۔ اس کے بعد رینوکا نے بی ڈی دمیانتی کے نام سے بھی لکھنا شروع کر دیا۔
پرساد کہتے ہیں،’ان کا زیادہ تر صحافتی کام (پارٹی کے ماؤتھ پیس میں شائع ہوا) اسی نام سے شائع ہوتا تھا۔’
پرساد کا کہنا ہے کہ ان کی کچھ بہترین تحریروں میں وہ سب کچھ ہے جو انہوں نے حکومت اسپانسرڈ ملیشیا گروپ سلوا جڈوم کے ذریعے بستر کے قبائلیوں کے خلاف کیے گئے تشددپر لکھا تھا۔ انہوں نے قبائلی برادریوں کی نقل مکانی اور کم ہوتے وسائل کے بارے میں بھی لکھا۔ بعد میں انہوں نے مڈکو کے نام سے مختصر کہانیاں لکھیں۔ گونڈی زبان میں اس لفظ کا مطلب ‘جگنو’ ہوتاہے۔ بعد میں پارٹی میں وہ بھانو یا چیتے کے نام سے جانی جاتی تھیں۔
سال 2003 کے اواخر میں آندھرا پردیش کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ این چندربابو نائیڈو کے ‘قتل’ کی کوشش کے بعد ریاست میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔ اسی وقت ان کے چھوٹے بھائی کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ حراست میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن آخرکار تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے بھائی وکیل بنے اور علاقے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے لگے۔ وہیں رینوکا نے انڈرگراؤنڈ ہونے کا فیصلہ کیا۔ 2004 میں انہوں نے گوریلا تحریک میں شمولیت اختیار کی۔
دبلی پتلی رینوکا نے جلد ہی ہتھیاروں کی تربیت حاصل کر لی۔ پرساد کے مطابق، جب وہ دونوں انڈرگراؤنڈ تھے تو ان کی ملاقات بہ مشکل ہوتی تھی۔ ‘ہم مختلف اکائیوں میں تھے اور بہت مختلف علاقوں میں بھی چلےگئے تھے،’وہ یاد کرتے ہیں۔
تحریک میں شامل ہونے کے بعد بھی رینوکا کی محبت کی تلاش ختم نہیں ہوئی۔ 1997 کے آس پاس جب وہ شہری تحریک میں ہی تھیں، پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے انہیں سنتوش ریڈی (مہیش) سے شادی کرنے کا مشورہ دیا۔ سنتوش اس وقت پارٹی کی آندھرا پردیش ریاستی کمیٹی کے سکریٹری اور مرکزی کمیٹی کے رکن تھے ،اور یہی مشورہ ان تک بھی پہنچا تھا۔ سنتوش کا تعلق بھی کڈاوینڈی گاؤں سے تھا، لیکن تحریک میں شامل ہونے کے لیے بہت پہلے گاؤں چھوڑ چکے تھے۔ ان کے درمیان شاید ہی کوئی شناسائی تھی۔ 1997 میں ایک موقع پر، رینوکا آندھرا پردیش کے نلا مالا جنگلات میں سنتوش سے ملنے گئیں۔ انہیں پارٹی کی تروپتی یونٹ کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے ان کے مشورے لینے تھے۔ یہیں سے دونوں کے درمیان محبت شروع ہوئی۔
چونکہ سنتوش پارٹی کے سینئر لیڈر تھے اور رینوکا شہروں میں کھلے طور پرکام کرنے والی کارکن تھیں، اس لیے انہیں اپنی شادی کو سب سے خفیہ رکھنا پڑا۔ 2 دسمبر 1999 کو سنتوش ایک مبینہ پولیس’انکاؤنٹر’ میں مارے گئے۔ پرساد نے بتایا، ‘رینوکا اپنی شادی کے بارے میں سب کے سامنے کھل کر بول بھی نہیں پائی اور نہ ہی جی بھر کر رو سکی۔ ان کی محبت کی کہانی کا ہمیشہ ایک المناک انجام ہوا۔ وہ سنتوش کوبہت پیار کرتی تھیں۔’
سال 2005 میں رینوکا نے پارٹی کے ایک اور رہنما سے شادی کی، لیکن وہ بھی 2010 میں ایک اور مبینہ ‘انکاؤنٹر’ میں مارے گئے۔ پرساد کا کہنا ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ میری وجہ سے مسلح تحریک میں شامل ہوئیں، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ وہ اس کی وجہ خطے کے سیاسی ماحول اور رینوکا کی بتدریج بڑھتی ہوئی بیداری اور سوال کرنے کی صلاحیت کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’وہ ایک آزاد سوچ رکھنے والی خاتون تھیں، جو اپنے اردگرد ہونے والے واقعات سے بہت پریشان ہو جاتی تھیں اور سوالات اٹھاتی تھیں۔’
اس ماہ کے شروع میں پرساد اپنے دفتر میں کام کر رہے تھے، جب تلنگانہ کے ایک پولیس افسر نے انہیں ان کی موت کی اطلاع دینے کے لیے فون کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خبر نے انہیں ہلا کر رکھ دیا، لیکن وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ انہیں اندیشہ تھاکہ ان کی موت اسی طرح ہوگی۔
پرساد کہتے ہیں،’ہر صبح میری بیوی (جنہوں نے پرساد کے ساتھ 2014 میں سرینڈر کیا تھا) تمام اخبارات اور چینل کھنگالتی رہتی تھیں ، یہ دیکھنے کے لیے کہ کہیں (بستر) کے علاقے میں کوئی نئی موت تو نہیں ہوئی۔ میری والدہ بھی حیدرآباد میں ایسا ہی کرتی تھیں۔ پچھلے ایک سال میں حکومت نے ماؤنواز تحریک سے لڑنے کے نام پر سینکڑوں لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا ہے۔ کوئی بات چیت نہیں، صرف سفاکانہ قتل۔’
پرساد رینوکا کی لاش لینے دنتے واڑہ گئے تھے، جہاں پولیس نے ان کی لاش کو پولی تھین بیگ میں باندھ کر نمائش کے لیے رکھا تھا۔ پرساد کے مطابق، ‘اس وقت تک، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ رینوکا کی موت دیگر کامریڈوں کے ساتھ ہوئی ہے۔ ایک دن پہلےہی پڑوسی ضلع سکما میں 17 نکسلیوں کے مارے جانے کی خبر آئی تھی۔ لیکن پھر مجھے شک ہونے لگا۔’
ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘رینوکا نے کبھی کان کی بالیاں، انگوٹھی وغیرہ نہیں پہنی اور نہ ہی انہوں نے بندی لگائی، لیکن اب اچانک انہوں نےیہ سب پہنا ہوا تھا۔ اس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ وہ گاؤں میں رہ رہی تھیں اور گاؤں والوں کے درمیان عام زندگی گزار رہی تھیں۔ پھر پولیس نے انہیں پکڑا کیوں نہیں؟’
پولیس کا دعویٰ ہے کہ رینوکا اندراوتی ندی کے کنارے دانتے واڑہ-بیجاپور سرحد پر ‘فائرنگ’ میں ماری گئی۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس کے ہاتھ مسخ کیے گئے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا یا پھر اسے قتل کرنے کے بعد کسی فرانزک شواہد کو ختم کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ پولیس نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ اس کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ پولیس نے پوسٹ مارٹم کرانے کی اجازت بھی دی، لیکن اہل خانہ کو رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔
اس کے بعد 2 اپریل کو ممنوعہ سی پی آئی (ماؤنواز) تنظیم کی ڈنڈکارنیہ اسپیشل زونل کمیٹی نے ایک پریس نوٹ جاری کیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ رینوکا کو بیجاپور ضلع کے بھیرم گڑھ بلاک کے بیلنار گاؤں کے ایک چھوٹے سے گھرسے پکڑا گیا تھا۔ پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ جب سے رینوکا کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی تب سے وہ وہاں تھیں۔
نوٹ میں، ماؤنوازوں نے کہا ہے، ’31 مارچ کو صبح تقریباً 4 بجے پولیس نے ان کے گھر کو گھیر لیا۔ صبح تقریباً 9-10 بجے، وہ چیتے (پارٹی میں انہیں اسی نام سےجانا جاتا تھا) کو اندراوتی ندی پر لے گئے اور ان کا قتل کر دیا۔’
پریس نوٹ میں کالعدم ماؤ نواز تنظیم نے کہا کہ خطے میں 400 سے زائد قتل ہو چکے ہیں جن میں مسلح تحریکیں اور بہت سے عام شہری شامل ہیں۔ اب وہ حکومت سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
جب پرساد اور ان کی بیوی رینوکا کی لاش کو ان کے آبائی گاؤں کڈاوینڈی لے کر آئے تو پورے علاقے سے ہزاروں لوگ وہاں جمع ہو گئے تھے۔ پرساد نے بتایا کہ انہیں ایک شہید کی طرح رخصت کیا گیا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)