عدالت نے زی نیوز، نیوز 18 اور دیگر نیوز چینلوں کے ادارتی عملے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کو کہا ہے، جنہوں نے مقامی مدرسے کے استاد کو غلط طریقے سے ‘پاکستانی دہشت گرد’ قرار تھا ۔ عدالت نے اسے صحافت کی معمولی غلطی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے ہوئی گولہ باری کے بعد جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں ایک گھر کا منظر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
سری نگر: ایک عدالت نے جموں و کشمیر پولیس کو زی نیوز، نیوز 18 اور دیگر نامعلوم ٹی وی نیوز چینلوں کے مدیران اور اینکروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ان چینلوں نے گزشتہ ماہ ہندوپاک فوجی تنازعہ کے دوران ایک مدرسے کے استاد کو غلط طور پر ‘پاکستانی دہشت گرد’ قرار دیا تھا، جبکہ ایک المناک واقعے میں ان کی موت ہوئی تھی۔
سنیچر (28 جون) کو سب-جج شفیق احمد کی عدالت نے کہا کہ ملزمان کی جانب سے مانگی گئی معافی ‘ان کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں کر سکتی۔’ یہ رپورٹنگ ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب ہندوستان نے پاکستان اور پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف ‘آپریشن سیندور’ شروع کیا تھا اور ریاست میں کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔
عدالت نے جموں و کشمیر پولیس کو بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 353(2) (عوامی انتشار)، 356 (ہتک عزت) اور 196(1) (مذہبی گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت اورساتھ ہی انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ، 2000 کی دفعہ 66 (کمپیوٹر کے ذریعے بے ایمانی یا دھوکے سے کی گئی حرکت ) کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کو کہا ہے۔
ایف آئی آر درج کرنے کا حکم ‘کچھ نیوز اینکروں اور قومی ٹی وی میڈیا چینلوں زی نیوز، نیوز 18 وغیرہ کے ادارتی عملے کے خلاف دیا گیا ہے، جنہوں نے پونچھ ضلع کے جامعہ ضیاء العلوم میں استاد کے طور پر کام کرنے والے قاری محمد اقبال کی موت کے بعد گمراہ کن رپورٹنگ کی تھی ۔
اقبال 7 مئی کی صبح اس وقت ہلاک ہو گئے جب وہ طلباء کے کھانے کے لیے کریانہ کی خریداری کر رہے تھے اوراسی دوروان پاکستان کی جانب سے کی گئی توپوں کی گولہ باری میں مارے گئے۔
ٹی وی چینلوں نے کیا دکھایا تھا؟
دی وائر قاری محمد اقبال کی موت کی اطلاع دینے والے پہلے میڈیا اداروں میں شامل تھا ، جو آپریشن سیندور کے بعد لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر پاکستان کی طرف سے کی گئی شدید گولہ باری میں پونچھ ضلع میں مارے گئے 12 افراد میں شامل تھے۔
کچھ قومی میڈیا چینلوں نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ اقبال ایک ‘پاکستانی دہشت گرد’ تھا جس کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ سے تھا، اور ان کی موت کو سکیورٹی فورسز کی ‘کامیابی’ کے طور پر پیش کیا۔
ریپبلک ورلڈ نے اقبال کو ‘اعلیٰ لشکر کمانڈر’ قرار دیا جو ‘پلوامہ سمیت کئی بڑے دہشت گرد حملوں میں ملوث تھا۔’ سی این این نیوز 18نے انہیں ‘لشکر کا دہشت گرد’ قرار دیا جبکہ زی نیوزنے انہیں ‘آپریشن سیندور’ میں مارا گیا ‘دہشت گرد’ بتایا۔
تاہم، پونچھ کے مقامی باشندوں نے، جو اقبال کو ذاتی طور پر جانتے تھے، ان جھوٹے الزامات کے خلاف احتجاج کیا۔ اس کے بعد، جموں و کشمیر پولیس نے ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے ‘معزز مذہبی شخصیت’ کے بارے میں غلط بیانی کرنے کے خلاف قانونی کارروائی کی وارننگ دی۔
پولیس ایڈوائزری میں کہا گیا ،’اس طرح کے حساس واقعات کی غلط رپورٹنگ نہ صرف غیر ضروری خوف و ہراس پھیلاتی ہے بلکہ اس سے متوفی کے وقار اور سوگوار خاندان کے جذبات کی بھی توہین ہوتی ہے۔’ جس کی وجہ سے متعلقہ میڈیا چینلوں کو معافی مانگنی پڑی۔
عدالت نے پونچھ پولیس کو آرڈر دیا
عدالت نے سنیچر کو پونچھ پولیس کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے میں ‘منصفانہ اورآزاد تفتیش’ کرے۔ اس کے ساتھ ہی پونچھ تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کو بھی سات دنوں کے اندر تعمیل رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت کی گئی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ پریس کی آزادی ‘جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہے اور آئین کے آرٹیکل 19(1)(اے) کے تحت محفوظ ہے’، لیکن یہ آزادی آرٹیکل 19(2) کے تحت ہتک عزت، امن عامہ، شائستگی یا اخلاقیات کی بنیاد پر معقول پابندیوں کے تابع بھی ہے۔’
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ‘اس معاملے میں مقامی مذہبی ادارے کے مقتول استاد کو ‘پاکستانی دہشت گرد’ کہنا، وہ بھی بغیر کسی تصدیق کے اور ہندوپاک جنگ جیسی حساس صورتحال میں – اسےصرف صحافت کی معمولی غلطی کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا۔’ عدالت نے کہا کہ یہ میڈیا اداروں کی ‘اخلاقی اور آئینی ذمہ داری’ ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگ کو ‘درست، غیر جانبدارانہ اور صداقت پر مبنی ‘ رکھیں۔
‘آزادی صحافت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی ہتک آمیز یا گمراہ کن مواد شائع کرنے کا لائسنس مل گیا ہے۔ جب ایسی رپورٹنگ کسی فرد یا معاشرے کو شدید نقصان پہنچاتی ہے تو اس سے قانون کے مطابق نمٹا جانا چاہیے۔’ عدالت نے ریمارکس دئیے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ملزمین کی گمراہ کن رپورٹنگ نے متوفی کے خاندان کو ذہنی اذیت دی ہے، مدرسے کی شبیہ کو داغدار کیا ہے اور جموں و کشمیر کی اکثریتی مسلم کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
قبل ازیں، پونچھ سے تعلق رکھنے والے ایڈوکیٹ شیخ محمد سلیم نے بھارتیہ نیائےسنہتا کی دفعہ 175(3) کے تحت عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس میں پونچھ کے ایس ایچ او کو ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دینےکی درخواست کی گئی تھی۔
( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)