خاص خبر

ممبئی ٹرین دھماکہ: 19 سال کی قید کے بعد تمام ملزم بری، کہا – اقبال جرم کے لیے ٹارچر کیا گیا تھا

بامبے ہائی کورٹ نے 21 جولائی کو ان تمام 12 لوگوں کو بری کر دیا، جنہیں 11 جولائی 2006 کے سلسلہ وار ٹرین دھماکوں کے لیے پہلے مجرم ٹھہرایا گیا تھا اور سزائے موت (ان میں سے پانچ کو) اور عمر قید (سات کو) کی سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے کہا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف معاملہ ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ملزمین نے جرم کیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف معاملہ ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ملزمان نے جرم کیا ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: وکی میڈیا/منوج نائر اور دی وائر)

ممبئی: ایک اہم فیصلے میں بامبے ہائی کورٹ نے 21 جولائی کو ان تمام 12 لوگوں کو بری کر دیا، جنہیں 11 جولائی 2006 کے مہلک سلسلہ وار ٹرین دھماکوں کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا اور سزائے موت (ان میں سے پانچ کو) اور عمر قید (سات کو) کی سزا سنائی گئی تھی ۔

سال2015 میں صرف واحد شیخ کو بری کیا گیا تھا، کیونکہ نچلی عدالت کو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ تاہم ،وہ بھی نو سال تک جیل میں رہے تھے۔

واحد نے دی وائر کو بتایا کہ جسٹس انل کلور اور شیام چانڈک کی خصوصی عدالت نے دفاع کی اس دلیل کو پوری طرح سے قبول کر لیا کہ ان پر بے رحمی سے تشدد کیا گیا اور ان سے زبردستی بیان دلوائے گئے۔

جذباتی ہوتے ہوئےواحد نے فون پر کہا،’ ہم ہمیشہ سے یہی کہتے رہے ہیں کہ نہ صرف مجھے بلکہ باقی تمام 12 لوگوں کو بھی اس کیس میں جھوٹا پھنسایا گیا ہے، آج ہم بے گناہ ثابت ہوئے ۔’

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق ، ہائی کورٹ نے کہا، ‘استغاثہ ملزمان کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ملزمان نے جرم کیا ہے۔ اس لیے ان کی سزا کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔’

بنچ نے کہا کہ وہ پانچ مجرموں کو سنائی گئی سزائے موت اور باقی سات کو عمر قید کی سزا کی توثیق کرنے سے انکار کرتا ہے اور انہیں بری کیا جاتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اگر ملزم کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں ہے تو انہیں فوراً جیل سے رہا کر دیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق، بنچ نے کہا کہ ملزمان یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ انہیں اعتراف جرم وغیرہ کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

انہوں نے پایا کہ اقبالیہ بیان کئی بنیادوں پر درست اور مکمل نہیں پائے گئے، جن میں سے کچھ حصے ایک جیسے اور نقل کیے گئے پائے گئے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ‘کچھ اقبالیہ بیانات کے حصہ اول اور حصہ دوم ایک جیسے ہیں’ اور یہ دفاع کی دلیل کو قبول کرنے کے لیے دس نکات میں سے ایک ہے کہ مدعا علیہان کو جسمانی اور ذہنی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہائی کورٹ نے حکومت اور قصوروار ٹھہرائے گئے افراد، دونوں کی جانب سے دائر اپیلوں کی سماعت کی۔ بری ہونے کے اس فیصلے سے ریاست کی تفتیشی ایجنسی، اس معاملے میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کی تحقیقات میں نبھائے گئے کردار پر سنگین سوال اٹھتے ہیں۔

ایک ساتھ ہوئے تھے سات بم دھماکے

گیارہ جولائی،  2006 کو ممبئی ریلوے کی ویسٹرن لائن پر الگ الگ  لوکل ٹرینوں میں سات بم دھماکے ہوئے تھے۔ اس واقعے میں کل 189 افراد ہلاک اور 820 سے زائد شدید زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے الزام لگایا تھاکہ ملزمان نے پریشر کُکر میں بم بنا ئے تھے اور شام کے وقت، جو شہر میں آنے جانے کا انتہائی مصروف وقت ہوتا ہے، اسےٹرین میں رکھ دیا تھا۔

اس وقت کی برسراقتدار کانگریس حکومت نے فوراً ریاستی اے ٹی ایس کو جانچ کی ذمہ داری  سونپ دی تھی۔ اس وقت کانگریس کی قیادت  میں اے ٹی ایس کے ذریعہ سنبھالے گئے کئی معاملات، جن میں 2006 کے مالیگاؤں دھماکہ کیس بھی شامل ہے، نے پولیس میں فرقہ وارانہ تعصب اور دہشت گردی کے معاملوں میں مسلم نوجوانوں کو غلط طریقے سے پھنسائے جانے کے بارے میں سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔

مالیگاؤں 2006 کے دھماکہ کیس میں قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے ذریعے  تحقیقات کی ذمہ داری سنبھالنے اور نئی جانچ سے یہ پتہ چلنے کے بعد کہ یہ دہشت گردانہ  دھماکہ ہندو کمیونٹی کے ملزموں کاکام تھا، بالآخر مسلمانوں کو بری کر دیا گیا ۔

ممبئی ٹرین دھماکوں کے معاملے میں مہاراشٹرکنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا) کی خصوصی عدالت نے پانچ مجرموں – کمال انصاری، محمد فیصل عطاء الرحمان شیخ، احتشام قطب الدین صدیقی، نوید حسین خان اور آصف خان کو –’بم پلانٹ’ کرنے کے ساتھ ساتھ ‘ دہشت گردی کی سرگرمیوں کی تربیت لینے، سازش کرنے اوردیگر الزامات میں قصوروار ٹھہرانے کے بعد سزائے موت سنائی۔

جن سات دیگر افراد کو عمر قید (موت تک) کی سزا سنائی گئی، ان میں تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری، محمد ماجد محمد شفیع، شیخ محمد علی عالم شیخ، محمد ساجد مرغوب انصاری، مزمل عطا الرحمن شیخ، سہیل محمود شیخ اور ضمیر احمد لطی الرحمن شیخ شامل ہیں۔

ان  لوگوں کبھی ضمانت نہیں دی گئی ۔ یہاں تک کہ کووڈ19 وبائی امراض کے قہر، خاندان کے افراد کی موت جیسےسنگین حالات میں بھی، عدلیہ نے ان قیدیوں کو کسی بھی قسم کی رہائی سے محروم رکھا ۔ آج، ہائی کورٹ نے ان سب کو بغیر کسی مالی ادائیگی کے ایک سادہ ‘شخصی ضمانت (پی آر)’ بانڈ پر رہا کر دیا ہے۔

شیخ محمد علی عالم شیخ کے بیٹے نے دی وائر کو بتایا کہ خاندان کے تمام افراد فیصلے کی کاپی حاصل کرنے اور ان تمام جیلوں میں جانے کے منتظر ہیں جہاں اس وقت 12 افراد بند ہیں۔ سہیل نے کہا کہ ‘میرے والد ناگپور جیل میں ہیں، چونکہ رہائی کے لیے کوئی شرائط نہیں ہیں، مجھے امید ہے کہ وہ آج ہی گھر واپس آجائیں گے۔’

پچھلے مہینے دی وائر نے علی سمیت ان کے خاندان کے ذریعے جیل میں رہنے کے باوجود مسلسل اذیت پر ایک مفصل مضمون شائع کیا تھا۔ علی کے اہل خانہ نے الزام لگایا تھا کہ ممبئی پولیس کے مختلف محکمے ان کے گھروں میں بار بار آتے ہیں اور علی کے بارے میں پوچھتے  ہیں، یہاں تک کہ جب  وہ ان کی حراست میں ہیں۔ یہ ریاستی حکومتوں کی طرف سے خاندانوں کو ڈرانے اور ان کے خلاف شکایت درج نہ کرنے کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کیے جانے والے عام حربوں میں سے ایک ہے۔

واحد، جو اپنی گرفتاری کے وقت اسکول ٹیچر تھے، 2015 میں اپنی رہائی کے بعد ایک سماجی کارکن بن گئے۔ انہوں نے 12 دیگر افراد کی رہائی کے لیے ایک مہم، انوسینس نیٹ ورک ‘کا آغاز کیا۔

انہوں نے جیل میں اپنی زندگی پر کتابیں لکھی ہیں، ہندوستانی جیلوں کے نظام پر تحقیق کی ہے اور حال ہی میں انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے جمعیۃ علماءہند کے ساتھ ، جو کبھی محض ایک سماجی مذہبی تنظیم تھی اور اب ایک مکمل قانونی امدادی تنظیم ہے، اس معاملےپر گہرائی سےکام کیا ۔

وہاب شیخ، شریف شیخ، یگ چودھری، پایوشی رائے، سینئر وکیل اور اڑیسہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایس مرلی دھر، نتیہ رام کرشنن اور کئی دیگر وکلاء نے اس کیس پر کام کیا۔

اے ٹی ایس نے ممنوعہ دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کا حصہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا

اے ٹی ایس نے دعویٰ کیا تھا کہ بری کیے گئے افراد ممنوعہ دہشت گرد گروپ لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کا حصہ تھے اور یہ سازش پاکستان میں رچی گئی تھی۔ دھماکے کے دو ماہ بعد 29 ستمبر 2006 کو ممبئی کے اس وقت کے پولیس کمشنر اے این رائے نے دعویٰ کیا تھا کہ دو کشمیری لوگ مقامی بازار گئے تھے اور دو دکانوں سے پریشر کُکر خریدے تھے۔

رائے نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ پریشر کُکر انتہائی دھماکہ خیز بم بنانے کے لیے استعمال کیےگئے تھے۔ یہ دھماکہ ‘پریشر کُکر بم’ کے نام سے جانا گیا۔ اس وقت کی میڈیا رپورٹنگ مکمل طور پر پولیس کی پریس کانفرنس میں کہی گئی باتوں پر مبنی تھی اور تمام لوگوں کے خلاف مختلف قسم کے الزامات لگائے گئے تھے، جن میں ہتھیاروں کی تربیت کے لیے پاکستان جانے سے لے کر اپنے گھروں میں ریسرچ ڈیولپمنٹ ایکسپلوسیوز (آر ڈی ایکس)، امونیم نائٹریٹ، نائٹریٹ اور پیٹرولیم ہائیڈرو کاربن آئل جمع کرنا شامل تھا۔

پریشر کُکر کا معاملہ جلد ہی غائب ہو گیا اور چارج شیٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ آٹھ سال بعد، اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجہ ٹھاکرے نے مکوکا عدالت میں اپنے حتمی دلائل کے دوران دوبارہ یہ دلیل پیش کی۔

وکیل رام کرشنن اور ان کی معاون رائے نے ہائی کورٹ میں اپنے حتمی دلائل میں تحقیقات میں ان بے ضابطگیوں کو بے نقاب کیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ سلسلہ وار دھماکوں کے دو ماہ بعد دو افراد سامنے آئے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ دو ‘کشمیری نظر آنے والے نوجوانوں’ نے مئی 2006 میں بڑی مقدار میں پریشر کُکر خریدے تھے۔ ان دونوں کے بیانات قلمبند کیے گئے تھے۔ ان دونوں کو اہم گواہ تصور کیا جانا  چاہیےتھا ،لیکن تفتیشی ایجنسی نے مقدمے کے دوران ان کے بیانات کو ‘ناقابل اعتماد’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

رام کرشنن اور رائے نے اپنی تحریری شکایت میں دلیل دی،’اس سراغ کا تعاقب کرنے یادکانداروں کی جانب سے موجودہ ملزمان کی شناخت ظاہر کرنے کے بجائے، جو کسی بھی دیانتدارانہ تفتیش میں کی جاسکتی تھی، ان دکانداروں کو ‘ناقابل اعتماد’ کہہ کر چھوڑ دیا گیا۔ وہ کیوں ناقابل اعتبار تھے،یہ واضح نہیں ہے کہ پریشر کُکر کا پہلو کیوں اٹھایا گیا اور موجودہ ملزمان / اپیل کرنے والوں کے خلاف معاملہ  درج کیا گیا۔اے -6 ()علی اور اے -3 (محمد فیصل عطا الرحمان شیخ) کی گرفتاری کے ڈھائی مہینے بعد، اب اچانک جانچ کرنے والوں کی جانب سے پریشر کُکر (29.09.2006 کو) اور ان کے پرزوں (08.10.2006 کو) کی دریافت اور انکشاف کیے گئے  ۔’

وکیلوں نے مزید دلیل دی ‘گواہوں کے اس بیان پر یقین کرنا محال ہے کہ ملزم نے ستمبر میں پوچھ گچھ کے دوران پریشر کُکر کا ذکر کیا تھا، کیونکہ اے ٹی ایس کو پریشر کُکر کے بارے میں 28 ستمبر 2006 کے بعد ہی پتہ چلا، جب دکانداروں کے بیانات درج کیے گئے کہ کشمیری نوجوانوں نے بڑی تعداد میں پریشر کُکر خریدے تھے۔ اس پوری مدت کے دوران اے ٹی ایس یہ کہتی رہی کہ ملزمان انہیں کوئی سراغ نہیں دے رہے ہیں۔درحقیقت ایک بھی ریمانڈ کی درخواست اس بنیاد پر نہیں لی گئی کہ انہیں پریشر کُکر کی شناخت کرنی تھی یا ملزمان نے پریشر کُکر کی بات کی تھی۔’

وکلاء نے کیس میں مکوکا کے سخت قانون کے استعمال پر بھی سوال اٹھایا۔ مکوکا کی دفعہ 23(1) کے تحت، کسی بھی جرم کے بارے میں کوئی بھی معلومات درج کرنے سے پہلے، ایڈیشنل کمشنر آف پولیس (اے سی پی) سے نیچے کے عہدے کے کسی پولیس افسر کی پیشگی اجازت ضروری ہے۔ ممبئی کے انسداد دہشت گردی دستہ کے اس وقت کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس/ایڈیشنل کمشنر آف پولیس، ایس کے جیسوال، جنہوں نے مبینہ طور پر ضروری اجازت دی تھی، سے کبھی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )