بامبے ہائی کورٹ نے 2006 کے ٹرین دھماکہ کیس میں 12 ملزمان کو 19 سال بعد بری کر دیا۔ فیصلے نے دکھایا کہ کس طرح پولیس نے تشدد کے سہارے اقبال جرم کروائے، جانچ میں خامیاں رہیں اور ٹرائل کورٹ نے اسے نظر انداز کیا۔ ہائی کورٹ نے سخت تبصرے کیے، لیکن تشدد کے لیے قصوروار اہلکاروں کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا۔

ممبئی (مہاراشٹر)میں سوموار، 21 جولائی 2025 کو 7/11 ممبئی ٹرین بلاسٹ معاملے میں بامبے ہائی کورٹ سےبری ہونے والے 12 ملزمان کے اہل خانہ جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا حلیم اللہ قاسمی کو مٹھائی کھلاتے ہوئے، جنہوں نے متاثرین کی قانونی مدد کی۔(فوٹو: پی ٹی آئی)
ممبئی: 21 جولائی کو عدالتوں نے حراستی تشدد سے متعلق دو اہم مقدمات میں الگ الگ فیصلے سنائے۔ ایک معاملے میں سپریم کورٹ نے تشدد کے مرتکب پولیس اہلکاروں کی فوری گرفتاری، کشمیری پولیس کانسٹبل (جو تشدد کا شکار ہوا) کو معاوضہ دینے اور معاملے کی سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا ۔
دوسرے معاملے میں بامبے ہائی کورٹ نے 2006 کے ممبئی سیریل ٹرین بلاسٹ کیس میں 12 لوگوں کو بری کر دیا – جن میں سے پانچ کو پہلے پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی اور سات عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ ان سب کو 19 سال جیل میں گزارنے پڑے۔ ہائی کورٹ نے حراستی تشدد کا باریک بینی سے جائزہ لیا، طبی شواہد اور جبر اور غیر انسانی سلوک کی تفصیلات کو نوٹس میں لیا۔
جن پانچ افراد کو پہلے سزائے موت سنائی گئی تھی، وہ ہیں؛ کمال انصاری، محمد فیصل عطا الرحمان شیخ، احتشام قطب الدین صدیقی، نوید حسین خان اور آصف خان۔ انہیں مکوکا کی خصوصی عدالت نے 2015 میں بم نصب کرنے، دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے اور سازش کرنے کے الزام میں مجرم قرار دیا تھا۔
باقی جن 7 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کے نام یہ ہیں؛ تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری، محمد ماجد محمد شفیع، شیخ محمد علی عالم شیخ، محمد ساجد مرغوب انصاری، مزمل عطاء الرحمن شیخ، سہیل محمود شیخ اور ضمیر احمد لطیع الرحمن شیخ۔ ان میں سے کمال انصاری کا انتقال 2021 میں ہو گیا تھا۔
اگرچہ ہائی کورٹ نے اپنے 667 صفحات پر مشتمل فیصلے میں بتایا کہ تشدد کیسے ہوا، لیکن اس نے اس بات کو واضح طور پر نظر انداز کر دیا کہ یہ ظلم کس نے کیا۔ یعنی تشدد کے ذمہ دار افراد کی شناخت نہیں کی گئی – یہ ایک اہم سوال ہے، جس کا جواب نہیں دیا گیا ۔
پوچھ گچھ کا عام ‘ہتھیار’ ہےتشدد
تشدد (ٹارچر)ایک عام طریقہ ہے جسے پولیس تفتیش کے دوران استعمال کرتی ہے، اور اکثر یہ کہہ کر جواز پیش کیا جاتا ہے کہ جب کوئی مشتبہ ضدی ہو اور تفتیش میں تعاون نہ کر رہا ہو تو یہی واحد آپشن رہ جاتا ہے۔ چونکہ ریاستی حکومت اور پولیس پہلے ہی اس معاملے میں اپنے اقدامات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہائی کورٹ نے اس فیصلے کی حدود پر بحث کرنے سے پہلے 12 زیر حراست افراد کے معاملات کو کس طرح دیکھا۔
گیارہ جولائی 2006 کو ممبئی سلسلہ وار ٹرین دھماکہ کیس میں جسٹس شیام سی چانڈک اور جسٹس انل ایس کلور کے مشترکہ طور پر لکھے گئے فیصلے میں شروع سے ہی واضح پیغام دیا گیا؛
اصل مجرم کو سزا دینا جرائم کی روک تھام، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک ٹھوس اور ضروری قدم ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی کیس کو سلجھا ہوا دکھانے کے لیے صرف دکھاوے کے طور پرکچھ لوگوں کو مجرم ٹھہرا کر پیش کیا جائے، تو یہ ایک خیالی حل ہوتاہے۔ ایسا کرنے سے معاشرے کو جھوٹی تسلی ملتی ہے اور عوامی بھروسہ مجروح ہوتا ہے، جبکہ حقیقت میں اصل خطرہ اب بھی آزاد گھوم رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہی بات اس کیس سے ظاہر ہوتی ہے۔
اگرچہ ہائی کورٹ نے تمام 12 ملزمان کو براہ راست’بے گناہ’ قرار نہیں دیا، لیکن فیصلے کے ابتدائی ریمارکس ان کی بے گناہی کی بہت سختی سے نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ استغاثہ کے کیس کو ایک ایک کر کے خارج کرتا ہے اور خاص طور پر ان 12 افراد سے قبولنامے حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے تشدد کے طریقوں کو بھی نمایاں کرتا ہے۔
استغاثہ نے دعویٰ کیا کہ ملزم ایران کے راستے پاکستان گئے تھے، وہاں اسلحہ اور بم بنانے کی تربیت حاصل کی تھی، ان کے پاس پاکستانی ‘ہینڈلر’ تھے، انہوں نے ممبئی کے لوکل ٹرین نیٹ ورک کی ریکی کی تھی اور پھر ویسٹرن لائن پر سات لوکل ٹرینوں پر منصوبہ بند حملہ کیا تھا۔
یہ پورا کیس بنیادی طور پر گرفتاری کے فوراً بعد پولیس کی طرف سے لیے گئے قبولنامے پر مبنی تھا۔
پوری پیش رفت کے دوران، ملزمان، ان کے وکلاء اور طبی شواہد نے مسلسل بتایا کہ انہیں طویل عرصے تک پولیس کی حراست میں اور بعد میں جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان شکایات اور شواہد کو طویل عرصے تک نہ تو ٹرائل کورٹ اور نہ ہی ریاستی مشینری نے سنجیدگی سے لیا۔
جب معاملہ بالآخر ہائی کورٹ پہنچا، تو اس کے پاس موقع تھا کہ وہ تشدد کے اس معاملے کو سامنے لائے اور قصوروار اہلکاروں کو جوابدہ ٹھہرائے – صرف نچلی سطح کے پولیس اہلکاروں کو ہی نہیں، بلکہ ان سینئر افسران کوبھی، جن میں کچھ آئی پی ایس افسران سمیت اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔
سال 2015 میں بری ہونے والے شخص نے تقریباً 100 پولیس اہلکاروں اور میڈیکل افسران کے نام لیے
عبدالواحد شیخ، جو 2015 میں مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا) کی عدالت سے بری ہونے والے اولین افراد میں سے ایک تھے، انہوں نے تقریباً 100 پولیس اہلکاروں اور میڈیکل افسران کے نام لیے ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ اور 12 دیگر زیر حراست افراد کے ساتھ نا انصافی کی۔ اپنی کتاب ‘بے گناہ قیدی’ میں انہوں نے اس بربریت کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس بات کا پردہ فاش کیا ہے کہ کس طرح اکثر اذیت دے کر اقبال جرم لیے جاتے رہے ہیں۔
مکوکا، جسے ایک جابرانہ قانون سمجھا جاتا ہے، میں 30 دن تک پولیس کی تحویل اور 180 دنوں میں چارج شیٹ داخل کرنے کی چھوٹ شامل ہے۔ اس قانون کے تحت ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) کے سامنے دیے گئے بیان عدالت میں قابل قبول سمجھے جاتے ہیں۔
قانون یہ بھی لازمی قرار دیتا ہے کہ بیان ریکارڈ کرنے والا ڈی سی پی اس بات کو یقینی بنائے کہ بیان رضاکارانہ طور پر اوربغیر کسی دباؤ یا جبر کے دیا گیا ہے۔ لیکن ٹرین دھماکہ کیس میں ہراس ڈی سی پی جس نے بیان ریکارڈ کیا، کسی نے تصدیق نہیں کی کہ قبولنامہ رضاکارانہ طور پر دیا گیا تھا یا نہیں۔
ججوں نے دفاع کے دلائل کو قبول کرتے ہوئے کہا؛
یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ اس کیس میں کولنگ آف پیریڈ(سوچنے کے لیےضروری وقت) کتنا ہونا چاہیے، ملزمان میں جو خوف پیدا ہو چکا تھا اس پر قابو پانے کے لیے کتنی کوشش کی ضرورت تھی، بیانات رضاکارانہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، اور کیا ملزمان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اگر یہ معلومات اکٹھی نہیں کی گئیں تو ڈی سی پی یہ نتیجہ کیسے اخذ کر سکتا ہے کہ بیانات رضاکارانہ تھے؟
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ملزمان کے اعترافی بیانات ریکارڈ کرتے وقت ان کے جسموں پر نظر آنے والے زخموں کو متعلقہ ڈی سی پی نے نظر انداز کر دیا۔ انہوں نے ان سے متعلق میڈیکل رپورٹس کا بھی جائزہ نہیں لیا۔
عدالت کے فیصلے میں ان پولیس افسران کے نام درج ہیں جنہوں نے بیانات ریکارڈ کرنے کے دوران مقررہ اصولوں پر عمل نہیں کیا۔ ان میں ڈی سی پی برجیش سنگھ، نیول بجاج اور ڈی ایم پھڈترے، پولیس سپرنٹنڈنٹ سنجے ولاس راؤ موہتے اور دتاتریہ راجا رام کرالے جیسے افسران شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ ڈی سی پی، جو کہ آئی پی ایس افسران تھے، نے ٹرائل کورٹ میں ایک جیسے ٹائپ شدہ قبولنامے جمع کرائے جو مقدمے کی سماعت کے دوران قبول کیے گئے۔
فیصلے میں آرتھر روڈ جیل کی اس وقت کی سپرنٹنڈنٹ سواتی ساٹھے کے کردار پر بھی غور کیا گیا، جن پر الزام تھا کہ انہوں نے ملزمان کو سرکاری گواہ بننے کے لیے لالچ دینے کی کوشش کی، اور جب انہوں نے انکار کیا تو 28 جون 2008 کو انہیں زدوکوب کیا گیا۔
ممبئی کے اس وقت کے پولیس کمشنر اے این رائے اور اے ٹی ایس کے سربراہ کے پی رگھوونشی پر بھی تشدد کا الزام تھا۔ یہ الزامات من گھڑت یا کسی مقدمے کی حکمت عملی کا حصہ نہیں تھے بلکہ طبی شواہد سے ان کی تائید کی گئی تھی۔
فیصلے میں دفاع کی طرف سے اپنی اپیل میں جمع کرائے گئے کئی چارٹ بھی شامل ہیں، جن میں زیر حراست افراد کے قبولنامے واپس لینے کی ٹائم لائن بھی شامل ہے۔ 12 میں سے 11 ملزمان نے اسی دن اپنے بیانات واپس لے لیے جب انہیں پولیس حراست سے عدالتی حراست میں بھیجا گیا تھا، جبکہ 12 ویں نے بھی چند دنوں میں اپنا بیان واپس لے لیا تھا۔
ہائی کورٹ نے تبصرہ کیا؛
اگر جلد سے جلد دستیاب موقع پر کوئی قبولنامہ واپس لے لیا جاتا ہے، تو اس پر اس سے زیادہ بھروسہ کیا جا سکتا ہے جب ملزم سیشن ٹرائل تک انتظار کرے… عدالتیں ایسے قبولنامے پر تب تک بھروسہ نہیں کرتی جب تک کہ دوسرے ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہ ہو جائے کہ ملزم مجرم ہے۔ یہ کوئی قانونی قاعدہ نہیں بلکہ صوابدید کا اصول ہے۔
یہاں جس ‘صوابدید’ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ان ملزم کی طرف سے لگائے گئے تشدد کے متعدد الزامات سے منسلک ہے۔
عدالت نے یہ بھی بتایا کہ ٹرائل جج وائی ڈی شندے کو تشدد کے بارے میں بار بار مطلع کیا گیا، لیکن انہوں نے ان سنگین الزامات پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ تاہم، ہائی کورٹ کے فیصلے میں ٹرائل کورٹ کی اس بے عملی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
تشدد کی نوعیت پورے مقدمے کے دوران واضح طور پر سامنے آتی رہی،جس میں ‘313 بیان’ کی ریکارڈنگ کے دوران بھی یہی ظاہر ہوا — یہ وہ عمل ہوتا ہےجس میں مقدمے کے اختتام پر ملزم کا بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، مکوکا عدالت کے جج نے شکایات یا ان کی حمایت کرنے والے طبی ثبوت پر کوئی توجہ نہیں دی۔
ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی اس کوتاہی پر کوئی بحث نہیں کی گئی ہے۔
عدالتی ناکامی کے باعث انصاف کی شدید خلاف ورزی ہوئی
پولیس اور جیل کی حراست دونوں میں تشددہندوستان کے فوجداری نظام انصاف کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ جہاں حراست میں موت واقع ہونے پر عدالتی تحقیقات لازمی ہوتی ہیں، لیکن غیر مہلک تشدد کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
حراستی تشدد کے حوالے سے ہندوستان کا ریکارڈ انتہائی خراب رہاہے۔ ہندوستان نے طویل عرصے سے اپنی ذمہ داری سے کنارہ کشی کی ہوئی ہے اور ابھی تک اقوام متحدہ کے کنونشن اگینسٹ ٹارچر (یو این سی اے ٹی) کی توثیق نہیں کی ہے۔
دفاعی وکلاء نے بار بار تفتیش میں متعدد خامیوں کی طرف اشارہ کیا، اس بات پر اصرار کیا کہ قید کیے گئے 12 افراد کی زندگی کے سب سے قیمتی سال ضائع ہو گئے، انہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا – جن میں خاندان کے افراد کی موت بھی شامل ہے – اور جیل میں رہتے ہوئے ان کے تعلقات بھی شدید طور پر متاثر ہوئے۔
لیکن ان دلائل کے باوجود ہائی کورٹ نے کسی قسم کے احتساب کو یقینی نہیں بنایا۔ جبکہ عدالت کو قصوروار پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت ریمارکس دینے، انہیں سزا دینے اور ان متاثرین کو تشدد اور وقت کے ضائع ہونے پر مناسب معاوضہ دینے کا پورا اختیار تھا، لیکن فیصلے میں ان اہم پہلوؤں کو نظر انداز کیا گیا۔
اپنے 2015 کے فیصلے میں، مکوکا عدالت نے نہ صرف تفتیش میں کئی سنگین بے ضابطگیوں اور تشدد اور ناروا سلوک کے سنگین الزامات کو نظر انداز کیا، بلکہ ایک اہم گواہ، صادق اسرار شیخ کے دھماکہ خیز دعووں کو بھی نظر انداز کر دیا۔
صادق اسرار شیخ، جنہیں انڈین مجاہدین ماڈیول سے متعلق ایک الگ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، نے 2008 میں اسی مکوکا جج کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اور اس کی کالعدم تنظیم نے شہر میں دہشت گردانہ دھماکوں کو انجام دینے کی سازش کی تھی۔ یہ دعویٰ ان 12 افراد کی سزاؤں پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے جنہیں سزا سنائی گئی تھی۔
اسی طرح اے ٹی ایس کی ’پریشر ککر تھیوری‘ – جس میں کہا گیا تھا کہ پریشر ککر میں بم نصب کیے گئے تھے – اب مکمل طور پر منہدم ہو چکا ہے، اور دھماکے کی اصل نوعیت دو دہائیوں کے بعد بھی واضح نہیں ہے۔
مکوکا عدالت نے اس وقت اس اہم معلومات پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی اور اب ہائی کورٹ نے حملے کی دوبارہ تحقیقات کا حکم نہ دے کر وہی غلطی دہرائی ہے۔
اس عدالتی ناکامی کے نتیجے میں ایک گہری اور سنگین عدالتی ناانصافی ہوئی ہے – نہ صرف عبدالواحد سمیت 13 قید کیے لوگوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے، جنہوں نے برسوں تک درد و غم برداشر کیا، بلکہ ان 189 خاندانوں کے لیے بھی جنہوں نے اس گھناؤنے حملے میں اپنے عزیزوں کو کھو دیا ہے اور آج تک حقیقی مجرموں کو سزا ملنے کی امید کر رہے ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )
Categories: حقوق انسانی, خبریں