مغربی بنگال کے بانکڑا ضلع میں 6 ستمبر کو ایک 60 سالہ مسلمان پھیری والے پر تین افراد نے حملہ کیا۔ انہوں نے ان کی گردن اور پیٹ میں چاقو مارا اور مبینہ طور پر ان سے ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگوانے کی کوشش کی۔ تاہم، پولیس نے کہا کہ معاملے کو فرقہ وارانہ قرار دینا ‘حقائق کی رو سے غلط’ ہے۔

مغربی بنگال کے بانکڑا ضلع کے پنیسول گاؤں میں اپنے گھر پر میمور علی منڈل اپنے خاندان کے ساتھ ۔ (تصویر: مدھو سودن چٹرجی)
پنیسول (مغربی بنگال): 6 ستمبر کو مغربی بنگال کے بانکڑا ضلع میں ایک 60 سالہ مسلمان پھیری والے پر تین افراد نے حملہ کیا۔ انہوں نے ان کی گردن اور پیٹ میں چاقو مارا اور مبینہ طور پر ان سے ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگوانے کی کوشش کی۔
متاثرہ کی پہچان میمور علی منڈل کے طور پر کی گئی ہے، جو بانکڑا ضلع کے اونڈا تھانے کے تحت پنیسول گاؤں کا باشندہ ہے۔ حملہ آور مبینہ طور پر بانکڑا کے لوک پور کے قریب کدمپارہ کے رہنے والے ہیں۔
حملے کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی اتنا ہی پریشان کن تھا۔ دراصل جب منڈل درد سے تڑپ رہا تھا اور خون بہہ رہا تھا، تو حملہ آوروں نے مبینہ طور پر انہیں دھمکی دی کہ اگر وہ علاج کے لیے بانکڑا میڈیکل کالج اور اسپتال گئے تو وہ انہیں جان سے مار دیں گے۔
منڈل کا کہنا ہے کہ ملزمین نے ان کی کمیونٹی کو نشانہ بنایا اور گالیاں بھی دیی۔بھیڑ بھاڑ والی سڑک پر دن کے اجالے میں یہ واقعہ پیش آنے کے باوجود کسی نے مداخلت نہیں کی۔
منڈل نے کراہتے ہوئے دی وائر کو بتایا،’کچھ دیر تک خون میں لت پت پڑے رہنے کے بعد آخر کار ایک اور پھیری والے نے مجھے سڑک سے اٹھایا۔ میرا سارا سامان ادھر ادھر بکھرا پڑا تھا۔ ان کی دھمکیاں سن کر، میں ڈر گیا اور اپنی سائیکل سے اپنے گاؤں کی طرف چل پڑا۔’
اس واقعہ نے سنگین سوالات کو جنم دیا ہے؛ بانکڑا میں اس طرح کا پرتشددواقعہ کیوں پیش آیا – ایک ایسی جگہ جہاں اس طرح کے فرقہ وارانہ واقعات کی کوئی تاریخ نہیں ہے؟ ماحول کو زہر یلا بنانے کا ذمہ دار کون ہے؟
‘گردن اور پیٹ میں چاقو مارا، جئے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہا‘
جب دی وائر نے منڈل کے مکتاپارہ (جسے ریا پارہ بھی کہا جاتا ہے) واقع گھر کا دورہ کیا تو ماحول کشیدہ اور ڈراونا تھا۔ منڈل، جو اپنی گردن اور پیٹ پر پٹیوں کے ساتھ چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے، درد سے کراہ رہے تھے۔
وہ گزشتہ رات بانکڑا میڈیکل کالج اور ہاسپٹل سے زخموں پر ٹانکے لگوانے کے بعد واپس لوٹے تھے۔
منڈل نے کہا، ‘میں دن بھر کا سامان لے کر لوک پور سے سائیکل پر واپس آ رہا تھا۔ کنکٹہ میں بنرجی ڈائیگنوسٹک سینٹر کے قریب ایک ای رکشہ نے میری سائیکل کو ٹکر مار دی اور مجھے نیچے گرا دیا۔ اس میں سوار ایک نوجوان نے مجھ سے 200 روپے مانگے۔ جب میں نے انکار کیا تو اس نے میری گردن پر بھوجلی (دھار دار ہتھیار)سے حملہ کر دیا اور مجھے ‘جئےشری رام’ کا نعرہ لگانے کو کہا۔جب میں نے پھر سے منع کیا تو اس نے میرے پیٹ میں چاقو مار دیا۔ وہ مجھے مارنا چاہتے تھے۔ میں ان میں سے کسی کو نہیں جانتا۔’

حملے میں میمور علی منڈل کے پیٹ اور گردن پر چاقو سے وار کیا گیا۔ (تصویر: مدھو سودن چٹرجی)
منڈل نے زور دے کر کہا کہ انہوں نے 32 سالوں تک بانکڑا شہر میں کام کیا ہے اور لوگوں نے ہمیشہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘بانکڑا کے لوگوں نے ہمیشہ ہمیں خاندان کی طرح پیار کیا ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اب ہم بہت ڈرے ہوئے ہیں۔’
ان کے بیٹے نجیب الدین منڈل نے کہا کہ خاندان کو دوپہر کو یہ خبر ملی۔ انہوں نے کہا، ‘ہم اپنے والد کو بنجیرا گاؤں سے واپس لائے تھے، جو پنیسول سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ان کا پورا جسم خون میں لت پت تھا، پھر بھی وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بانکڑا سے سائیکل پر گھر واپس آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بعد میں ہم نے انہیں بانکڑا میڈیکل کالج میں داخل کرایا، جہاں ڈاکٹروں نے ان کے زخموں پر ٹانکے لگائے اور انہیں گھر بھیج دیا۔’
منڈل پر حملے کے بعد خاندان ایک غیر یقینی مستقبل کی جانب دیکھ رہا ہے۔
منڈل کی بیوی نے کہا، ‘میرے شوہر خاندان کا واحد کمانے والا تھا۔ اب وہ کام نہیں کر سکتے۔ ہم کیسے زندہ رہیں گے؟ ہم ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوائیں کیسے خریدیں گے؟’
‘کیا ہم دوبارہ کام کر پائیں گے؟ کیا انتظامیہ ہمیں سیکورٹی فراہم کرے گی؟‘
پنیسول گاؤں، جھارگرام ریاستی شاہراہ پر بانکڑا سے تقریباً 12 کلومیٹر دور واقع ہے، اونڈا بلاک کے پنیسول گرام پنچایت کے تحت آتا ہے۔
یہ ضلع کی سب سے بڑی اقلیتی بستیوں میں سے ایک ہے، جس کی مسلم آبادی 100,000 سے زیادہ ہے۔ چند پرائمری سکولوں کے اساتذہ کے علاوہ یہاں پر تقریباً کوئی سرکاری ملازم نہیں ہے۔
زیادہ ترلوگوں کے پاس زمین نہیں ہے۔ وہ سخت اور جوکھم بھرے کام کرکے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں اور پتھر توڑنے، درختوں کو کاٹنے، کنویں کی کھدائی اور مرمت اور دیگر کام کرتےہیں۔
چونکہ ہر روز ایسا کام دستیاب نہیں ہوتا ہے، اس لیے ہزاروں لوگ، جوان اور بوڑھے، سورج نکلنے سے پہلے سائیکلوں پر بانکڑا، تلڈنگرا، اونڈا اور اندپور کی طرف نکل جاتے ہیں۔
وہ گھروں سے بیکار چیزیں – ٹوٹا ہوا فرنیچر، پرانی ٹین شیٹس، لوہا، ایلومینیم، اسٹیل کے برتن، اخبارات اور پلاسٹک – سستے داموں پر اکٹھا کر کے اسکریپ ڈیلروں کو بیچتے ہیں۔ مقامی طور پر انہیں ‘ٹن بھنگا’ یا ‘لوہا بھنگا’پھیری والا کہا جاتا ہے۔

(تصویر: مدھو سودن چٹرجی)
پنیسول کے ایک ایسے ہی پھیری والے اکتن علی خان نے کہا، ‘ہمیں ہر روز کام نہیں ملتا۔ صبح سے دوپہر تک کام کرنے کے بعد ہم روزانہ اوسطاً 100 روپے کما لیتے ہیں۔’
ہفتہ (6 ستمبر) کی شام جب یہ رپورٹر پنیسول گیا تو پورا گاؤں دہشت میں مبتلا تھا۔ بس یہی سوال پوچھے جا رہے تھے، ‘کیا ہم پھر سے کام کر سکیں گے؟ کیا انتظامیہ ہمیں سیکورٹی فراہم کرے گی؟’
بانکڑا پولس اسٹیشن کے انچارج انسپکٹر سوجوائے تنگا نے تصدیق کی کہ متاثرہ کی شکایت کی بنیاد پر سمیر ساہس نامی نوجوان کو گرفتار کیا گیا ہے جو کہ لوک پور کدم پارہ کا رہنے والا ہے۔
پولیس نے کہا واقعہ کو فرقہ وارانہ قرار دینا ‘حقائق کی رو سے غلط’ ہے، متاثرہ اپنے بیان پر قائم
اتوار (7 ستمبر) کی شام، ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، بانکڑا (ہیڈ کوارٹر)، سدھارتھ دورجی نے منڈل پر حملے کے حوالے سے میڈیا کو ایک پریس بیان جاری کیا۔
بیان میں کہا گیا، ‘یہ ہمارے نوٹس میں آیا ہے کہ کچھ سوشل میڈیا ہینڈل اس واقعے کو فرقہ وارانہ قرار دے رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ متاثرہ کو مذہبی نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ حقیقت میں غلط اور گمراہ کن ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے تصدیق ہوتی ہے کہ واقعہ مجرمانہ نوعیت کا تھا، فرقہ وارانہ نہیں۔ متاثرہ کو مذہبی نعرے لگانے پر مجبور کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ شہریوں سے درخواست ہے کہ وہ غلط معلومات پر یقین نہ کریں اور نہ ہی پھیلائیں۔’
تاہم، منڈل اپنے بیان پر قائم ہیں۔
منڈل نے کہا، ‘میں نے پولیس کو واضح طور پر بتایا کہ مجھے چاقو مارا گیا کیونکہ میں نے ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے سے انکار کر دیا تھا۔’
مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا جھوٹ پھیلانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن وہ اس کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ایک شخص نے کہا،’جب تک پولیس اچھی طرح سے تفتیش نہیں کرے گی، اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ بنگال میں اس سے پہلے بھی کئی مقامات پر ایسے واقعات دیکھے جا چکے ہیں۔’
حال ہی میں سیالدہ کے کارمائیکل ہاسٹل میں رہنے والے کلکتہ یونیورسٹی کے طلباء کے ایک گروپ کو ‘بنگلہ دیشی’ قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح کولکاتہ کے ٹالی گنج میٹرو اسٹیشن پر ایک عطر فروش کو بھی صرف عطر بیچنے کے لیے ‘بنگلہ دیشی’قرار دیا گیاتھا۔
گزشتہ ماہ درگا پور میں مسلمانوں کے ایک گروپ پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ کھیتی کے کام کے لیے مویشی لے جا رہے تھے۔ اس طرح کے واقعات ایک پریشان کن رجحان کی عکاسی کرتے ہیں، اور بی جے پی کے ذریعہ فروغ پانے والے ہندوتوا کےنظریے کے بڑھتے ہوئے اثر کو ظاہر کرتے ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)