بہار اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 20 اضلاع کی 122 سیٹوں کے لیے ووٹنگ جاری ہے۔ دریں اثنا، الیکشن کمیشن کو انتخابی اعداد و شمار میں مبینہ ہیرا پھیری اور سیاسی تعصب کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ اس نے ابھی تک پہلے مرحلے میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد اور جنس کے لحاظ سے ووٹرز کی تفصیلات جاری نہیں کی ہے۔

بہار اسمبلی انتخابات کے دوسرے اور آخری مرحلے کے دوران جہان آباد کے ایک پولنگ اسٹیشن پر قطار میں کھڑے لوگ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: بہار اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 20 اضلاع کی 122 سیٹوں کے لیے ووٹنگ جاری ہے۔ دریں اثنا، الیکشن کمیشن آف انڈیا کو انتخابی ڈیٹا میں مبینہ ہیرا پھیری اور سیاسی تعصب کے الزامات سامنا کرنا پڑ رہاہے۔
غور طلب ہے کہ بہار میں الیکشن کمیشن نے پہلے مرحلے میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد اور جنس کے لحاظ سے ووٹروں کی تفصیلات کے اعداد و شمار جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور انتخابات سے عین قبل ہریانہ اور بہار کے درمیان ریلوے کی جانب سے خصوصی ٹرین سروس کو لے کربھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ حکمراں جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ تنازعہ پہلے مرحلے کے لیے ووٹروں کی مکمل گنتی اور صنف کی بنیاد پر ووٹنگ فیصد شائع کرنے میں الیکشن کمیشن کی ناکامی پر مرکوز ہے۔
تیجسوی یادو کی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی قیادت میں بہار میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ڈیٹا کی اس رازداری کو ہیرا پھیری کا امکان قرار دیتے ہوئے اس اقدام پر تنقید کی۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا کہ اس کا معیاری طریقہ کار یہ ہے کہ تمام ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد ہی ایسے اعداد و شمار جاری کیے جائیں۔ تاہم، یہ دعویٰ 2024 کے عام انتخابات کے دوران کمیشن کے اپنے اقدامات سے غلط ثابت ہوتا ہے، جہاں پانچویں مرحلے کے لیے ایک پریس نوٹ میں صنفی لحاظ سے ووٹنگ کی تفصیلات فراہم کی گئی تھی۔
قابل غور ہے کہ ڈیٹا کی شفافیت پر یہ تنازعہ نیا نہیں ہے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی الیکشن کمیشن نے حتمی ووٹر ٹرن آؤٹ کو شائع کرنے میں تاخیر کی تھی، جس کی وجہ سے عوام میں تشویش پیدا ہوئی تھی اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔
تاہم، عدالت نے اس وقت انتخابات میں مداخلت سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنے عمل کو ‘سخت، شفاف اور شراکت دار’ قرار دیتے ہوئے مکمل اعداد و شمار جاری کیے تھے۔
اسپیشل ٹرینیں‘
دریں اثنا، پولنگ کی تاریخوں سے عین قبل ہریانہ سے بہار کے لیے خصوصی ٹرینیں چلانے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ہریانہ میں بی جے پی کے مقامی یونٹس ٹرینوں کو جھنڈی دکھاتے ہوئے اور بہار جانے والے مزدوروں کے درمیان کھانا تقسیم کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
آر جے ڈی کے رکن پارلیامنٹ اے ڈی سنگھ اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے اندازے کے مطابق 6,000 مسافروں کو لے جانے والی چار ٹرینوں کے چلانے کے وقت پر سوال اٹھایا اور اسے’ووٹر موبلائزیشن’ اور انتخابی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔
تاہم، ان دعووں کو حکومت اور ریلوے حکام دونوں نے مسترد کر دیا ہے۔
امبالہ ڈویژن کے ایک سینئر منیجر نوین کمار نے کہا کہ ویڈیو گمراہ کن تھے اور یہ ٹرینیں ہر سال چھٹھ پوجا کے لیے چلتی ہیں۔ دریں اثنا، ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج نے بھی ان الزامات کو ‘بے بنیاد انتخابی پروپیگنڈہ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
غور طلب ہے کہ یہ واقعات کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی جانب سے منظم طریقے سے ووٹ چوری کا الزام لگانے والی مہم کے پس منظر میں سامنے آئے ہیں۔
حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں گاندھی نے اپنی’ایچ فائلز‘ پیش کی تھی، جس میں ہریانہ میں 25 لاکھ فرضی ووٹروں کا الزام لگایا گیا تھا۔ انہوں نے اسے ایک ‘سینٹرلائزڈ آپریشن’بتایا، جس میں متعدد ریاستوں میں ووٹر لسٹوں میں ڈپلیکیٹ تصاویر اور ناموں کا حوالہ دیا گیا۔
راہل گاندھی نے دلیل دی تھی کہ ہیر پھیراتنا بڑا تھا کہ ان کی پارٹی کو 2024 کے ہریانہ اسمبلی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے ہریانہ دفتر نے جواب دیا تھا کہ ووٹر لسٹ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کی گئی تھیں اور تمام دعوے اور اعتراضات کا انتخابات سے قبل ازالہ کر دیا گیا تھا۔
غورطلب ہے کہ بہار کے رائے دہندگان جیسے جیسےووٹنگ کے آخری مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں، الیکشن کمیشن سخت جانچ کے دائرے میں ہے۔ ڈیٹا سے متعلق ان سلجھے سوال، ووٹروں کی جانبدارانہ منتقلی کے الزامات اور منظم دھاندلی کے دعووں نے کمیشن کی غیر جانبداری کو سیاسی بحث کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔
Categories: خبریں
