خاص خبر

لکھنؤ کےکھانوں کو یونیسکو کا تاج

یونیسکو کا یہ اعزاز صرف لکھنؤ نہیں، پورے جنوبی ایشیا کے ذائقوں کا اعزاز ہے۔ یہ اس خطے کی ذائقہ سفارت کاری کا اعتراف ہے، جو کبھی موسیقی،کبھی زبان اور کبھی کھانے کی صورت دنیا کے سامنے آتی ہے۔

فوٹو بہ شکریہ: @UNinIndia

نظاموں کے شہر حیدر آباد کے بعد اب نوابوں کا شہر لکھنؤ بھی عالمی ذائقہ کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ دراصل، یونیسکو کے تخلیقی شہروں کے نیٹ ورک (کری ایٹو سٹی آف گیسٹرونومی)میں لکھنؤکی شمولیت نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں ایک بار پھر وہی پرانی بحث چھیڑ دی ہے کہ برصغیر کا اصل ذائقہ کہاں پروان چڑھا؛ لکھنؤمیں، حیدرآباد میں یا کراچی میں؟

یہ چولہے کڑاہی کی بحث نہیں۔ یہ یادداشت کی تہیں ہیں، ہجرت کے وہ قصے ہیں جو صرف سات دہائیوں پر پھیلے ہوئے ہیں، اور تہذیب کی وہ نرم مگر مضبوط ڈوریاں ہیں جو آج بھی پاکستان، ہندوستان اور ان کی وسیع ڈائسپورا کو آپس میں  جوڑے رکھتی ہیں۔

کراچی کی گلیوں میں ملنے والے کباب، نہاری اور سالن کی اصل جڑیں متحدہ  صوبہ اتر پردیش میں تھیں۔ 1947 کے بعد جب لاکھوں لوگ خالی ہاتھ ہجرت کرآئے، تو سامان کی جگہ وہ اپنے چولہے کی یادیں ساتھ لائے۔ وہی ذائقے کراچی کے فوڈ کلچر کی بنیاد بن گئے۔

کراچی کے شیف  علی  عباس یاد کرتے ہیں،’ ہماری ہجرت کے بعد کراچی کا ذائقہ بدل گیا۔جو کھانا آج کراچی کا اسٹریٹ فوڈ کہلاتا ہے، وہ دراصل لکھنؤ، کانپور اوررام پور سے آنے والی نسلوں کی وراثت ہے۔’

اسی طرح شیف زیبا نعیم، جن کا خاندان رام پور سے کراچی آیا، افسوس کے ساتھ کہتی ہیں،’کراچی کے اسٹریٹ فوڈ سے آج اصلی اودھی ذائقے کی روح رخصت ہوتی جا رہی ہے۔اصل پکوان اب صرف چند گھروں تک محدود رہ گئے ہیں۔’

لکھنؤ کا باورچی خانہ: جہاں کھانا علم بھی تھا اور فن بھی

اودھ کے نوابوں کے باورچی خانے میں کھانا پکانا ایک اعلیٰ فن سمجھا جاتا تھا۔ گوشت کو نرم کرنے سے لے کر مصالحے کی آمیزش تک ہر عمل تجربہ گاہ کی سائنسی باریکیوں سے کم نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ کے پکوان کو نزاکت،تہذیب اور خوشبو کی روایت کہا جاتا ہے۔

داستان گو ہمانشو باجپئی اس روایت کا یوں احاطہ کرتے ہیں، ‘غیر منقسم ہندوستان میں اگر کہیں کھانوں پر سب سے زیادہ باریک بینی سے کام ہوا  تووہ لکھنؤ تھا۔’

کھانا: سرحدوں کو جوڑنے والا مضبوط دھاگا

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بہت کچھ بدل گیا ہے۔ مشترکہ قدریں، رشتے اور روایتیں سب نے نئے موڑ لیے ہیں۔ مگر کھانا وہ واحد پل ہےجو نہ کبھی ٹوٹا، نہ بوسیدہ ہوا۔ یہی ذائقے آج بھی دونوں ملکوں کوخاموشی سے جوڑے رکھتے ہیں۔

کرکٹر ایم ایس دھونی پاکستانی نہاری اور بریانی کے دیوانے رہے ہیں، جبکہ سوروگنگولی کراچی کے اسٹریٹ فوڈ کے لیے راتوں کو ہوٹل سے نکلتے  دیکھے  جاتے رہے ہیں۔اسی طرح وسیم اکرم حیدر آبادی  کھانوں کے مداح ہیں۔

سینئر پاکستانی صحافی مزار عباس 2005ء میں بھارتی نائب وزیراعظم ایل کے اڈوانی کے دورۂ پاکستان کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وفد کی گفتگو میں سندھی کھانے سب سے دلچسپ موضوع تھے۔ ان کے مطابق کھانا سب سے مؤثر ثقافتی سفارت کاری ہے، جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

اصل بریانی کس کی؟

ہندوستان میں یہ بحث فوراً سبزی خور اور نان ویجیٹرین کھانوں کی طرف مڑ جاتی ہے، مگر یہی تقسیم اصل ذائقوں کو مجروح کرتی ہے۔ پروفیسر وویک کمار ٹھیک کہتے ہیں، ‘جو کھانا تہذیب کا حصہ ہے، اسے جغرافیائی خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ کھانا دراصل نرم طاقت ہے، مشترکہ شناخت کی علامت ہے۔’

یونیسکو کا یہ اعزاز صرف لکھنؤ نہیں، پورے جنوبی ایشیا کے ذائقوں کااعزاز ہے۔ یہ اس خطے کی ذائقہ سفارت کاری کا اعتراف ہے، جو کبھی موسیقی،کبھی زبان اور کبھی کھانے کی صورت دنیا کے سامنے آتی ہے۔

شیف علی کی امید بھی یہی ہے،’جس طرح ہمارے ہاں موسیقی کے میل جول ہوتےہیں، کھانوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے۔ دبئی یا لندن میں نہیں، لاہور یا دہلی میں۔ تاکہ ہم اپنی اصل جڑوں سے دوبارہ جڑ سکیں۔’

برصغیر کا سوالِ ذائقہ: محض بریانی کا نہیں، شناخت کا ہے

آخر میں سوال صرف یہ نہیں رہ جاتا کہ اصل بریانی کس کی ہے؟اصل سوال یہ ہے کہ جنوب ایشیا اپنے کھانوں کے ذریعے دنیا میں کیسا بیانیہ بنا رہا ہے۔یونیسکو کا اعزاز ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس خطے کی باورچی خانے صرف کھانانہیں پکاتے، یہ تاریخ، تہذیب، محبت اور ہجرت کی کہانیاں بھی پکا کر نسلوں تک پہنچاتے ہیں۔

مگر کیا کریں اس اعزاز کو پا کر بھی سیاستدان اس کو اپنے چولہے میں پکانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئے۔

جہاں لوگ لکھنؤ کے اعزاز پر خاصے مسرور ہیں،  وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے بیان میں دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کا کام کرکے اس کو اتر پردیش کی ویجی ٹیرین ڈشوں سے جوڑا۔

اسی دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی سوشل میڈیا پر مبارکباد کے ساتھ

ایک سبزی خور تھالی کی تصویر شیئر کی۔ یہ تصویر لکھنؤ کےشہریوں کو حیران کر گئی، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یونیسکو کا اعزاز لکھنؤکو اس کی اودھی اور مغلائی غیر سبزی خور روایت پر خاص طور پر نہاری، کباب،کوُرما اور بریانی کی بنا پر ملا ہے، نہ کہ اس تھالی کی وجہ سے جسے پوسٹ کیا گیا۔

یہ چھوٹا سا واقعہ بھی بتاتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کھانا محض کھانانہیں، شناخت کا سیاسی بیانیہ بھی ہے۔

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)