دنیا بھر کی حکومتیں اور نجی کمپنیاں مقامی لوگوں کو ان کے جل- جنگل – زمین سے بے دخل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ اور انہی مقامی آدی-واسیوں کو سیاحوں کی تفریح کا سامان بنا دیا جا رہا ہے۔

فلپائن کے پلاون میں بستر کے عام قبائلیوں جیسی زندگی بسر کرنے والے لوگ بھی آباد ہیں۔ (تصویر: سنتوشی مرکام)
فلپائن کا پلاون دنیا کے خوبصورت ترین مقامات میں سےایک ہے۔ بے پناہ قدرتی حسن، قدیم ساحلوں اور فیروزی پانیوں کے باعث پلاون کو دیکھنے دنیا بھر سے لاکھوں فطرت کے پرستار آتے ہیں۔
فلپائن کا سب سے بڑا صوبہ پلاون گھنے جنگلات اور اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہ دراصل ایک جزیرہ نما ہے، جس میں 1,780 چھوٹے اور بڑے جزائر اور ٹاپو شامل ہیں۔ ہر جزیرہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کا دارالحکومت پورٹو پرنسسا ہے۔
لیکن میں وہاں سیاحت کے لیے نہیں گئی تھی۔ بستر کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی اس رہائشی کو فلپائن کے دورے کا غیر متوقع دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ مجھے وہاں ایشیا انڈیجینس پیپلز نیٹ ورک آن ایکسٹریکٹیو انڈسٹریز اینڈ انرجی (اے آئی پی این ای ای) کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا، جو وہاں کے قبائلیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہے۔

فلپائن کا پلاون دنیا کے خوبصورت ترین مقامات میں ایک سمجھا جاتا ہے۔ (تصویر بہ شکریہ؛ آئی سی میگزین ڈاٹ او آر جی
پہلےبستر سے دہلی، پھر دہلی سے منیلا ہوتے ہوئے 2 نومبر 2025 کو جب میں پورٹو پرنسسا شہر پہنچی تو صبح کے سات بج رہے تھے۔ دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ آسمان نیلا تھا اور ہلکی سی سردی تھی۔ موسم خوشگوار تھا۔ لینڈنگ سے پہلے ہوائی جہاز کی کھڑکی سے جب میں نے دیکھا تو یہ نظارہ جنت سے کم نہیں تھا۔ نیلے سمندر کے درمیان کسی سبز فرش سا بچھا یہ شہر۔ ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں سے زیادہ غیر ملکی نظر آ رہےتھے، ان میں سے زیادہ تر سیاح رہے ہوں گے۔
باہر سڑکیں صاف ستھری اور کشادہ تھیں اور ٹریفک نہ ہونے کے برابرتھی۔ چھوٹی گاڑیاں اور ٹرائی سائیکلیں سب سے زیادہ نظر آ رہی تھیں۔ پورا شہر ہریالی سے لبریز تھا۔ عمارتیں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔
میں دیوالی کے بعد دہلی کی جس دھند زدہ زہریلی ہوا سے پرواز کرکے اس شہر میں آئی تھی، میرے لیے اس اجلی ہوا میں سانس لینا گہرا سکون تھا۔
پورٹو پرنسسا شہر سب -ٹیریٹرین ریورنیشنل پارک کے لیے بھی مشہور ہے، جو 22,202 ہیکٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہ جنگلات اور جنگلی حیاتیات کا مسکن ہے۔ 1999 میں، یونیسکو نے اس پارک کو عالمی ثقافتی ورثہ اور فطرت کے نئے عجائبات میں سے ایک قرار دیا۔ دیگر پرکشش مقامات میں قدیم ساحل، چونا پتھر کے غار اور متنوع جنگلی حیاتیات شامل ہیں۔ اس شہر میں ایک بھرپور ثقافتی ورثہ ہے، جس میں مقامی کمیونٹی اور تاریخی مقامات شامل ہیں۔
اس جنت جیسی سرزمین پربستر کے عام قبائلی جیسی زندگی بسر کرنے والے لوگ بھی آباد ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں کی کہانی تقریباً ہمارے جیسی ہی ہے۔ ہماری طرح ان کی زندگی بھی جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ ہماری طرح وہ بھی اپنے پانی، جنگل اور زمین کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ یہاں بھی کارپوریٹ کمپنیوں نے کان کنی اور سیاحت کے نام پر لوگوں کی زمینیں ہڑپ کر رکھی ہیں۔

ورکشاپ میں شامل مختلف ممالک کے نمائندے مقامی لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے۔ تصویر: اے آئی پی این ای ای
ہماری ورکشاپ میں ایشیا کے مختلف ممالک سے لوگ آئے تھے۔ کچھ نے بتایا کہ وہ اپنی شناخت کو بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی حکومتیں انہیں مقامی لوگوں کے طور پر تسلیم نہیں کر رہی ہیں۔ ہر ایک کی کہانی جل، جنگل اور زمین سے جڑی ہوئی تھی۔
ہم نے پورٹو پرنسسا سے 162 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع برنگائے کے پاس ماسن گاؤں کا دورہ کیا، جہاں پلاون آدی واسی کمیونٹی کی آبادی ہے۔ اس جگہ نکل کان کنی کی جا رہی ہے ، جو لیتھیم آئن بیٹریوں کی تیاری میں ایک لازمی جز ہے۔ ہم نے اس کان کنی سے متاثر لوگوں سے ملاقات کی۔
شہر سے اس گاؤں تک پہنچنے کے لیے ہمیں گھنے جنگلوں، پہاڑوں اور ندیوں کو عبور کرنا پڑا۔ ہم کئی چھوٹے گاؤں سے گزرے۔ ان جگہوں سے گزرتے ہوئے مجھے بستر میں ابوجھاماڑ اور آندھرا کی وادی اراکو کی یاد آ گئیں۔ پلاون کے باشندوں کے گھر بھی چھوٹے چھوٹے تھے۔ زیادہ تر کی چھتیں ٹن یا گھاس پھوس کی تھیں، اور لکڑی اور بانس سے بنے گھر ہی زیادہ تھے۔ وہ بھی وسطی ہندوستان کے قبائلی لوگوں کی طرح ہی تھے۔

پلاون کا ایک گاؤں۔ (تصویر: اے آئی پی این ای ای)
یہاں کے کھان-پان میں بھی کافی مماثلت نظر آئی۔ بستر کے قبائلی لوگ، خاص طور پر جس برادری سے میرا تعلق ہے، اپنے کھانے میں بہت کم تیل استعمال کرتے ہیں۔ وہاں بھی تیل کااستعمال نہیں ہوتا۔ سبزیوں کو ابال کر کھایا جاتا ہے۔ چاول ان کی خوراک کا ایک اہم حصہ ہے۔ وہاں، میں نے ہمارے علاقے میں پائی جانے والی چھوٹی مرچی (چاول کے ایک دانے کے برابر، جسے گونڈی میں ‘چیچو میریا’ اور چھتیس گڑھی میں ‘دھان میری’ کہا جاتا ہے) دیکھا۔
ہم ماسن گاؤں کے کمیونٹی ہال میں ٹھہرے تھے۔ یہ ہندوستان کے قبائلی علاقوں میں پائے جانے والے روایتی کمیونٹی رہائش گاہوں سے مشابہت رکھتا ہے، جیسے کہ بستر کے گوٹول یا جھارکھنڈ کے دھومکوڑیا۔ یہ بانس اور لکڑی سے بنا ہوا ایک بڑا ہال تھا، جس کی چھت گھاس کی بجائے ٹن سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اسے لکڑی کے کھمبوں کے سہارے زمین سے دس بارہ فٹ اونچا کیا گیا تھا۔ اس کوچاروں طرف سےبانس کی کھپچیوں سے ڈھکا گیا تھا۔ اوپر چڑھنے کے لیے لکڑی کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔
ان کے روایتی آلات موسیقی — جنہیں ہم یہاں بستر میں ڈھول (نگاڑا)، پررائی اور ڈھپلی کہتے ہیں — اندر لٹکائے گئے تھے، بالکل ایسے جیسے گوٹول میں ٹنگے ہوتے ہیں۔ خواتین نے گروپ ڈانس کے ساتھ ہمارا استقبال کیا، جس میں ہم بھی شامل ہوئے۔ یہ دیکھ کر مجھے لگا کہ میں بس بستر کے ہی کسی گاؤں کے گو ٹول میں آئی تھی۔

ماسن گاؤں کاکمیونٹی ہال ہندوستان کے قبائلی علاقوں میں پائے جانے والے گوٹول یا دھومکوڑیا کے روایتی کمیونٹی ہال کی طرح ہی ہے۔ (تصویر: اے آئی پی این ای ای)
اس گاؤں سے تھوڑے ہی فاصلے پر نکل کی کان کنی جاری ہے۔ ریو ٹوبا نکل مائننگ کارپوریشن (آر ٹی این ایم سی) کان صوبہ پلاون کے جنوبی سرے پر واقع بترازا کی میونسپلٹی کے برنگائے ریو ٹوبا میں واقع ہے۔ کان کی جگہ کے آس پاس 48 مقامی کمیونٹی ہیں جن میں سے 11 متاثرہ علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا بنیادی پیشہ کاشتکاری اور ماہی گیری ہے۔
مقامی پلاون قبائل اور دیگر کمیونٹی اس کان کنی کے منفی اثرات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ان کے جنگلات تباہ ہو رہے ہیں، ان کی روزی روٹی ختم ہو رہی ہے، ان کے دریا آلودہ ہو رہے ہیں، اور کان سے نکلنے والا زہریلا گندا پانی سمندر کو بھی آلودہ کر رہا ہے۔ کان کنی اور جنگلات کی کٹائی خطے کی حیاتیاتی تنوع کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور ماحولیاتی نقصان کا باعث بنتی جا رہی ہے۔

پلاون کے ماسن گاؤں کے قریب ایک پہاڑ پر نکل کی کان۔ (تصویر: اے آئی پی این ای ای)
لوگوں کا کہنا تھا کہ کان کنی کی وجہ سے صحت کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ پانی کا معیار خراب ہو گیا ہے – بہت سے میٹھے پانی کے ذرائع اب سرخی مائل بھورے رنگ میں تبدیل ہو چکے تھے، جس سے ماہی گیروں کی روزی روٹی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور فصلوں کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ جہاں کان سے نکلنے والا پانی سمندر میں بہہ رہا تھا وہاں سمندری پانی بھی سرخ اور بھورا ہو گیا تھا۔ جنت جیسی اس سرزمین کاگندہ پہلو بھی ہمیں دیکھنے کو ملا۔
یہاں کے لوگ ایک عرصے سے کان کے خلاف لڑ رہے ہیں، لیکن کوئی سننے والا نہیں، جیسا کہ ہندوستان بھی ہوتا ہے اور شاید دنیا میں ہر جگہ ہوتاہوگا۔

پلاون کی ساحلی پٹی، جہاں کان کا پانی ملتا ہے، مٹ میلا ہو گیا ہے۔ (تصویر: سنتوشی مرکام)
فلپائن دنیا کا دوسرا سب سے بڑا نکل پروڈیوسر اور سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اسے الکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جو اب ایک عالمی رجحان ہے۔ پلاون میں گیارہ فعال کانیں ہیں ، جن میں سے تین بڑے پیمانے پر نکل کی کانیں ہیں جو چار شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مزید کئی کھولنے کے منصوبے ہیں، لیکن کمپنیاں مقامی حکومتوں سے ضروری منظوری حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
پلاون جزیرے پر بروکس پوائنٹ کی منتخب میئر میری جین فیلیسیانو نے مقامی مقامی لوگوں کی حمایت کرنے کی پاداش میں اپنا عہدہ کھو دیا۔ میری جین وہاں آئی تھیں انہوں نے ہمیں بتایا کہ مئی 2017 میں، جب وہ میئر تھیں، ان کی سربراہی میں بروکس پوائنٹ میونسپل حکومت نے ایک کان کنی کمپنی کو وہاں کان کنی روکنے کا حکم جاری کیا تھا۔ اس کے بعد ان سے میئر کی مراعات واپس لے لی گئیں۔ میری جین کے مطابق، انہوں نے یہ حکم مقامی باشندوں کی شکایت کے بعد جاری کیا تھاکہ کیوں کہ کمپنی نے تقریباً 7000 درختوں کو کاٹ دیا تھا۔ انہوں نے لوگوں کے ساتھ تین بار کان مائننگ سائٹ پر جانے کی کوشش کی لیکن انہیں روک دیا گیا۔

بروکس پوائنٹ کی میئر میری جین فیلیسیانو نے مقامی کمیونٹی کے ساتھ تعاون کرنے پر اپنا عہدہ کھو دیا۔ (تصویر: اے آئی پی این ای ای)
اور تو اور، کمپنی کی جانب سے فیلیسیانو پر اپنے عہدے کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا ، جس کی وجہ سے انہیں 2021 میں معطل کر دیا گیا۔
انہوں نے ہمیں بتایا کہ بغیر تنخواہ کے ایک سال کی معطلی کے بعد بھی انہوں نے ہار نہیں مانی۔’اپنی معطلی کے دوران وکیل کے طور پر میں نے اپنا کام دوبارہ شروع کیا اور کان کنی کے خلاف لوگوں کے ساتھ مل کر لڑتی رہی۔’ اور آج بھی وہ جل، جنگل اور زمین کی لڑائی میں لوگوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔
ورکشاپ کے بعد جس دن مجھے واپس آنا تھا، میرے پاس چند گھنٹے باقی تھے۔ میں نے سوچا، کیوں نہ پورٹو پرنسسا سٹی ہی گھوم لیا جائے؟ میں نے ایک ٹرائی سائیکل ڈرائیور سے بات کی۔ انہوں نے سب سے پہلے مجھے بٹر فلائی ایکو گارڈن-ٹرائبل ولیج دکھایا۔ میں نے 60 پیسو (فلپائن کی کرنسی) ادا کی اور داخل ہوئی۔ غیر ملکی سیاحوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ اندر داخل ہونے پر سب سے پہلے جو چیز میں نے دیکھی وہ قبائلی ثقافت سے متعلق متعدد نمائشیں تھیں۔ ایک تنگ گلی سے ہوتے ہوئے ہمیں ایک کھلے ہال میں لے جایا گیا، جہاں بہت سے غیر ملکی سیاح پہلے سے ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے مقامی پلاون قبائل کے گھر تھے، جو نمائش کے لیے تھے۔ ان کے سامنے قبائلی ملبوسات میں ملبوس کچھ بچے، عورتیں اور مرد سیاحوں کا دل بہلا رہے تھے۔

پورٹو پرنسسا میں بٹر فلائی ایکو گارڈن-ٹرائبل ولیج میں نمائشیں۔ (تصویر: سنتوشی مرکام)
ایک آدمی انگریزی میں غیر ملکی سیاحوں کو ان کی تاریخ، رہن سہن اور رسم و رواج کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ان کے ساتھ قبائلی لباس میں ملبوس مرد و خواتین روایتی سرگرمیوں کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر، جب وہ ان کے شکار کے بارے میں بتاتے، تو وہ روایتی نیزوں اور کمانوں اور تیروں سے شکار کرنے کی اداکاری کرتے۔ جب وہ ان کے مواصلاتی نظام کے بارے میں بتاتے تو وہ مختلف جانوروں اور پرندوں کی آوازوں کی نقل کرتے۔ جب آگ جلانے کا ذکر کرتے تو وہ آگ جلانے کے لیے پتھروں اور بانس کی پٹیوں کو رگڑ کر آگ جلاتے۔ جب ان کے ناچ گانے کے بارے میں بتاتے تو وہ اپنے رقص کا مظاہرہ کرتے اور بانس اور لکڑی سے بنے مختلف آلات بجاتے۔ آخر میں، غیر ملکی سیاح ان کے ساتھ نمائشی گھروں کے سامنے تصویریں کھنچواتے، جیسے وہ انسان نہیں بلکہ جنگلی عجوبے ہوں۔

قبائلی لباس میں ملبوس مرد سیاحوں کی تفریح کرتے ہوئے۔ (تصویر: سنتوشی مرکام)
اس سے مجھے حیرت نہیں ہوئی، کیونکہ ہندوستان میں بھی قبائلی لوگ اور ان کی ثقافت طویل عرصے سے محض نمائش تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ دو سال پہلے میں نے اراکو، آندھرا پردیش میں قبائلی عجائب گھر کا دورہ کیا تھا۔ وہاں بھی قبائلی لوگوں کو شو پیس کی طرح دکھایا جاتا ہے۔ سیاح کچھ پیسے دے کر وہاں کی قبائلی خواتین کے ساتھ ڈھیمسا رقص کرتے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے بھوپال میں تقریباً 250 ایکڑ پر پھیلا ایک میوزیم ملک بھر میں قبائلی برادریوں کی ثقافت کی نمائش کرتا ہے۔ رائے پور ہوائی اڈے میں بستر کے قبائلی برادریوں کی ایک نمائش کی میزبانی کرتا ہے۔ جب کوئی رہنما قبائلی علاقوں کا دورہ کرتے ہیں تو ان کے استقبال میں ان کو روایتی لباس میں نچوایا جاتا ہے۔

اراکو، آندھرا پردیش (بائیں) اور بھوپال کے قبائلی عجائب گھر میں لگی نمائش۔ (تصویر: سنتوشی مرکام)
میں سوچ میں پڑ گئی کہ دنیا بھر کی حکومتیں اور کارپوریٹ کمپنیاں قبائلی یا مقامی برادریوں کو ان کے جل، جنگ اور زمینوں سے بے دخل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ ایک طرح سے وہ اپنے وجود کو ہی مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی زبان، ثقافت اور رسم و رواج کو خطرہ لاحق ہے۔ دریں اثنا، عوامی تفریح کے نام پر، انہی مقامی لوگوں کی زندگیوں کے ٹکڑوں کو نمائشوں میں تبدیل کرنے اور انہیں شہری عجائب گھروں میں دکھانے کا دنیا بھر میں ایک جیسا ہی رجحان ہے!
اس بٹر فلائی ایکو گارڈن-ٹرائبل گاؤں سے صرف 162 کلومیٹر کے فاصلے پر ماسن کے پلاون گاؤں اور آس پاس کے کئی گاؤں میں لوگ اپنی زمین، پانی اور کھیتوں کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہاں، اس جگہ پر، غیر ملکی سیاح، ان کی حقیقی جدوجہد سے بے خبر یا ان سے بے پرواہ، مقامی لوگوں کے فرضی گھروں، ان کے رقص اور گانوں کی پرفارمنس سے لطف اندوز ہو رہے تھے، اور ان کے ساتھ سیلفیاں لے رہے تھے!
(مصنف ایشیا انڈیجینس پیپلز نیٹ ورک آن ایکسٹریکٹیو انڈسٹریز اینڈ انرجی کی دعوت پر فلپائن کے دورے پر تھیں۔)
