مدھیہ پردیش کے میڈیا میں سردار سروور باندھکے ڈوب علاقے میں آئے نثرپور کی نقل مکانی کا شور 2004 کے ہرسود جیسا نہیں ہے، جبکہ چینل اور اخبار پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔
سیاست میں اپنی قطعی دلچسپی نہیں ہے۔ سنا ہی ہے کہ امت شاہ تھوڑے دن بعد بھوپال آ رہے ہیں۔ وہ تین دن راجدھانی کی زینت بڑھائیںگے۔ وہ کئی ریاستوں میں پارٹی اور حکومتوں کی حالت پر بات کرنے کے بعد اب مدھیہ پردیش کا رخ کر رہے ہیں۔ وہ پارٹی دفتر میں ہی رہیںگے۔
کسی نے بتایا کہ ایک ریاست کے وزیراعلی کو ان کے افسروں نے تین دن پریزینٹیشن دینا سکھایا تاکہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی کو شاہ کے سامنے اسکرین پر اعداد و شمار، گراف اور چارٹ کے ذریعے سمجھا سکیں۔ ان کے افسروں نے اپنے باس کی بہتر کارکردگی کے لئے خاصی مشقت کی۔
امت شاہ جب بھوپال آئیںگے تو شاید ان کو یاد آئے کہ یہاں گزشتہ دنوں کسان تحریک کا جان لیوا شور کتنا سخت تھا۔ لاکھوں ٹن پیاز انتظامیہ کے افسروں کے لئے منافع دار ماڈل بھی دوسروں کو بتانے کیلئے ایک مثال ہو سکتاہے۔
ان کے علاوہ کچھ تازہ ہیڈلائن بھی ہوںگی۔ جیسے- پولیس نے میدھا پاٹکر کو بھوک ہڑتال سے اٹھایا۔ ان کے آنے میں دس دن باقی ہے۔ تب تک سردار سروور کے گاؤوں میں کیا ہوگا، آج کہنا مشکل ہے۔
ان حالات میں،میں کہنا چاہوںگا کہ مدھیہ پردیش کے افسروں نے یہاں کے بچّوں کے مقبول عام ماما کی اچھی کارکردگی کے لئے کچھ الگ طریقے کی تیاری کی ہوئی ہے۔ اپنے قابل افسروں کے متعلق شیوراج کے بھروسے کی داد دینی ہوگی۔
31 سال بعدمیدھا پاٹکر کو گرفتار کرنے کی خبر جب ملی، تب میں پچھلے تیرہ سال بعد ہوئے مدھیہ پردیش کے دوسرے بڑے نقل مکانی کے علاقے سے لوٹا ہی ہوں۔ قریب ایک ہفتہ وہاں بتایا۔ مجھے 2004 کا ہرسودیاد آ گیا۔ جیسا ہرسود، ویسا نسرپور۔
ہرسود اندرا ساگر ڈیم کی ڈوب میں سب سے آخر میں آیا اکلوتا شہر تھا۔ نثرپور سردار سروور باندھ کی ڈوب میں اور آخری کونے میں بسا سب سے بڑا قصبہ ہے۔ ٹی وی چینل کے وقت سال بھر تک ہم ہرسود کو لگاتار کور کئے تھے۔ ایک کتاب بھی آئی تھی۔
تب بھی حکومت بی جے پی کی ہی تھی۔ نئی حکومت کی وزیراعلی اما بھارتی تھیں۔ ان کے دم سے بنی حکومت کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ اندرا ساگر باندھ کی لہریں ہرسود سے ٹکرانے لگیں۔
اوماجی کے چہرے سے جیت کی خوشی کے رنگ پھیکے بھی نہیں پڑے تھے کہ سامنے لمبا چوڑا باندھ تھا۔ ہرسود ختم ہو گیا۔ اس کے ختم ہوتے ہوتے ترنگے میں طوفان آیا۔ اما بھارتی بہہ گئیں۔ اقتدار سے بھی، تنظیم سے بھی۔
اب نسرپور میں کھڑے ہوکر دیکھیں تو اس پار گجرات میں ‘سردار ’سامنے ہے سردار سروور۔
سترہ میٹر کے گیٹ اس جل سنگھ کی پیشانی کا چمچماتا تاج ہیں۔ یہاں تک پانی آنے کا مطلب نسرپور تک ڈوب۔
نرمدا بچاو تحریک کا کہنا ہے کہ 40 ہزار متاثرہ فیملی ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ بھول جاو، آپ 38 ہزار تھے۔ پھر نئے سروے میں 23 ہزار ہی رہ گئے تھے۔ اب ہمارے پاس صرف 7 ہزار ایسے ہیں، جن کی بازآبادی کرنی ہے۔
یہ اعداد و شمار کا چکر دلچسپ ہے۔ 1992 میں پہلی بار سروے ہوا کہ سردار سروور میں کتنے گاوں اور لوگ ڈوبیں گے؟ تب نہ سردار سروور باندھ تھا اور نہ اس کا پیٹ بھرنے والا اندرا ساگر باندھ تھا۔
جب دونوں بن چکے تب 2008 میں ایک نیا سروے نرمدا کنٹرول اتھارٹی نے کرایا۔ پہلے سروے میں 193 گاوں کی 38 ہزار فیملیاں ڈوب علاقے میں تھیں۔ دوسرے میں 23 ہزار بچے تو باقی 15 ہزار کو نمسکار کرتے ہوئے خوشخبری دی گئی- محترم آپ یہی رہئے۔ آپ نہیں ڈوب رہے۔ مبارک ہو۔
گاوں والوں کےلئے نہیں ڈوبنے کی یہ خبر گڈ نیوز کیوں نہیں تھی، یہ جاننے کےلئے نسرپور میں ہی آئیے۔ 28 فیملی ہیں۔ پہلے پورے ڈوب میں تھے۔ پھر 365 فیملیز کو ڈوب میں نہیں مانا گیا۔
اب ڈوب سے باہر ہوئے یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چاروں طرف سے پانی سے گھرکر کیسے کام چلائیں گے۔ افسروں نے خوش ہوکر بتایا کہ کشتی سے آ جا سکتے ہیں۔
مزے دار بات یہ کہ بچے ہوئے 15 ہزار لوگ بھی معاوضہ پا چکے ہیں۔ کوئی بات نہیں پیسا تو ہاتھ کا میل ہے۔ عوام کا ہی ہے۔ یہ رقم اپنے پاس رکھئے۔ بس شکر منائیے کہ آپ ڈوبنے سے بچ گئے! اب ان کی لڑائی یہ ہے کہ ہمیں ڈوب میں مانئے۔
معاوضے سے زیادہ اہم بازآبادی کا معاملہ ہے۔ معاوضہ تو اس کا ایک معمولی حصہ ہے۔ تو ڈیڑھ دہائی پہلے ملا معاوضہ یہاںوہاں خرچ ہو گیا۔ کچھ لوگوں نے ہی دوسرے کاروبار میں لگایا۔ کم لوگ ہی ان 2500 پلاٹوں پر رہنے گئے، جو ان کی بازآبادی کے لئے حکومت نے دئے تھے۔
کپاس کےلئے مٹی کی موٹی پرت والے کھیتوں کو اکتساب کر مکان بنانے کےلئے حصے دے دئے۔ کھیتوں سے تین فٹ اونچی رابطہ سڑکیں نکال دیں، جو اب خستہ ہو چکی ہیں۔ کئی جگہ خالی کھمبے تھے، جہاں سے بجلی آنی تھی۔
نہ لوگ آئے، نہ یہ بازآبادکاری جیسامقام بن سکا۔ ایسے 88 ٹھکانوں کو بنانے میں سرکاری کارندوں نے 1500 کروڑ روپیے خرچ کئے۔ ان جگہوں کو دور سے دیکھ کر بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پیسے کی کس طرح بندربانٹ ہوئی ہوگی۔
معاوضہ سمیت ساری ادائیگی 3600 کروڑ روپیے کی ہیں۔ گجرات کو پانی اور مدھیہ پردیش کو بجلی کا بڑا حصہ دینے کو تیار سردار سروور باندھ کو سرحد مانیں تو سرحد کے دونوں طرف بی جے پی کا ڈنکا بج رہا ہے۔
یہاں کی بی جے پی کی حکومت میں نسرپور ہرسود پارٹ-2 ہی ہے۔ امت شاہ کی آمد کے پہلے بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت نے 13 سال میں کیا سبق سیکھا؟ دوسری بڑی نقل مکانی ہرسود سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر اسی نرمدا کے ایک سرے پر ہونے والی تھی۔
تو افسروں نے کیا سبق لیا تھا؟ وہ ایک بار پھر بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور یہ جھمیلا حکومت کی جھولی میں ڈال کر موج میں ہیں۔
ہرسود میں جون 2004 میں میدھا صرف دورے پر ہی آئی تھیں۔ دھرنا نہیں دیا تھا۔ آلوک اگروال جو مورچہ سنبھالے تھے۔ اس نقل مکانی میں عوامی جدو جہد کے اس آئی آئی ٹی پاس ضدی سپاہی کا کردار بھی بدلا ہوا ہے۔ وہ اب عام آدمی پارٹی کے رہنما ہیں۔
اس بیچ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ زمین پر لامتناہی جدو جہد کرکے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ سیدھے سیاست میں آکر ہی کچھ تبدیلی کی جا سکتی ہیں۔ اب وہ دلّی کے چکرویو میں پھنسے جوشیلے کیجریوال کی فوج کے ایک زمینی صوبےدار ہیں۔
اجڑے لوگوں کے پرانے جوڑی دار آلوک سردار سروور کے متاثر علاقے میں دورہ کرنے گئے۔ دھرنے پر میدھا تھیں یہاں۔
2017 کے مدھیہ پردیش کے میڈیا میں اس نقل مکانی کا شور 2004 کے ہرسود جیسا نہیں ہے۔ حالانکہ چینل اور اخبار پہلے سے زیادہ ہیں۔‘ سہارا پرنام’ کہتے ہوئے بتانا چاہوںگا کہ تب میں نے سہارا سمئے ٹی وی چینل کےلئے ہرسود کور کیا تھا۔
تین کیمرا یونٹوں میں دلّی سے بھونیش سینگر اور کھنڈوا سے پرمود سنہا کے ساتھ میں بھی تھا۔ وہ ملک کا ایک مشہور کوریج تھا۔ ٹی وی کے لائیو نشریات سے ہرسود ایک ڈزاسٹر ٹورزم ڈیسٹی نیشن بن گیا تھا۔ تین وزیر اور چھے پی ایس اوما بھارتی نے وہاں تعینات کر دئے تھے۔ تابڑ توڑ انتظاموں نے کچھ معمولی سی راحت ہرسود کو ڈوبنے کے پہلے دے دی تھی۔
شیوراج نے تین ہزار پولیس والوں کے ساتھ کلکٹر ایس پی کو بھیج کر معاملہ نپٹانے کی کوشش کی۔ وہ کافی ٹیکنو فرینڈلی ہیں سو ٹویٹ پر میدھا کے متعلق ہمدردی ظاہر کرتے رہے۔
میدھا نے ان کے دونوں کارندوں کو یہ کہہ کر وداع کیا کہ ٹوئٹ سے پیغام ایسے سنگین مسئلے پر سمجھ کے پرے ہے۔ سامنے آکر بات چیت کیجئے۔ اس کےلئے دھرنا ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بات چیت ہو سکتی ہے۔ ایک ہائی پاور کمیٹی بنا دیجئے۔ شرطیں طئے کیجئے۔
میدھا کا ملک کے نام پیغام بھوپال آیا۔ ادھر شیاملا ہلس کی بھووں پر بل پڑے اور ادھر کلکٹر ایس پی کو تاؤآ گیا۔ گاوں والوں سے ایک زور دار تصادم کے بعد ہی وہ میدھا کو اٹھا سکے۔
رات کے سوا دس بجے واٹس ایپ سے مجھے پتہ چلا کہ میدھا کو اندور کے بامبے ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔ کل 12 لوگ اسٹیج سے اٹھائے تھے۔ کچھ بڑوانی اور دھار بھیج دئے گئے۔ ایک کا پتہ نہیں۔ پولیس والے چھے کو پہلے ہی گاوں میں ٹپکاتے ہوئے نکلے تھے، جنہیں بعد میں اٹھا لیا گیا۔
میدھا کے جاتے ہی چکھلدا (احتجاجی مقام) کی بجلی گم ہے۔ انٹرنیٹ بھی کام نہیں کر رہا۔ ہرسود اپنے سامنے بیتی ہر گھڑی کے ساتھ بکھرتا گیا تھا۔ مگر جب ہم وہاں گئے تھے تب وہاں زندگی روز جیسی عام چہل پہل سے بھری تھی۔ صرف تین ہفتوں کے اندر یہ شہر اجڑنا شروع ہو گیا تھا۔
2004 کی وہ بھاری اتھل پتھل اور پریشانی سے بھرپور مانسون تھا۔ ہرسود وقت کی ایک کڑوی یاد بن کر میری کتاب میں سمٹ گیا۔ میں اب رپورٹنگ سے آزادہوں۔ ہندوستان کے سفر کے نذرنیاز کاعمل کئے ڈھائی سال گزر گئے۔ مگر تقدیر مجھے ایک بار پھر انسانی بے دخلی کے دوسرے ٹھکانے پرلے کر گئی۔
میں دو دن پہلے نسرپور میں ہرسود جیسی ہی رونق دیکھ کر آیا ہوں۔ ویسا ہی ہرا بھرا بازار۔ دن میں بھوک لگی، ہوٹل ڈھابہ ہیں نہیں، سو ایک پاٹی دار کے یہاں کھانا کھایا۔ ان کی پندرہ سال کی مشکلیں ہر نوالے کے ساتھ سنیں۔
کچھ کہہ نہیں سکتے، شاید ان پاٹی دار کے پشتینی گھر کے ٹوٹ کر ڈوبنے کے پہلے ہم ان کے آخری مہمان ثابت نہ ہوں!
میں نے وہاں کھاپرکھیڑا کے ٹیلوں میں تانک جھانک کی، جہاں دو ڈھائی ہزار سال پرانے ایک سلیقے سے بسے شہر کے باقیات ابھی پوری طرح سامنے آ ہی نہیں پائے تھے۔ یہ جگہ نرمدا کی روانی والی جگہ پر سوچ سمجھ کر بسائی گئی تھی۔
یہاں سے ہر موسم میں ندی کے دونوں کناروں سے کاروبار ممکن تھا۔ شمال سے جنوب کے ایک راستے میں یہ ایک اہم کاروباری شہر تھا۔ کھدائی میں ایسے ثبوت ملے، جس سے پتہ چلا کہ یہاں کا سیویج سیدھی ندی میں نہیں جاتا تھا۔ انہوں نے شہر کے چاروں کونوں پر بڑے بڑے کنویں کھدوائے تھے۔ سارا سیویج ان میں فلٹر ہوکر ہی ندی کی طرف جاتا تھا۔
جانکاروں کا کہنا ہے کہ اس کام کو کرنے کےلئے وہاں کے راجاوں نے تب کوئی ندی کی یاترا وغیرہ نکالے بغیر یہ سب کر دکھایا تھا۔ یہاں مٹی کے برتنوں، کھلونوں اور سجاوٹ کے سامانوں کا بڑا کاروبار تھا۔
ایسا اندازہ ہے کہ مٹی کی بڑی صنعت یہاں تھی اور یہ سامان یہاں سے بن کر سب طرف جاتے تھے۔ کھاپر یہاں پکی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں۔ ماضی میں ایک بار نہ جانے کیوں اجڑکر ٹیلوں میں دفن ہونے کے بعد بچا کھچا یہ پرانا گاوں کھاپرکھیڑا ایک بار پھر آخری سانسیں لے رہا ہے۔ 1200کی آبادی کے جس چکھلدا گاوں میں میدھا دھرنا پر رہیں،وہ ریاست کے دور میں چار ریاستوں کی سرحدی چوکی تھی۔ ہولکر،سندھیا،پوار اور مقامی بڑوانی ریاست۔ تحصیل کے کھنڈر سب سے پہلے پانی میں آئیںگے۔ بغل میں رنگاپتا نیل کنٹھیشور مہادیو کا مندر احاطہ بھی جل سمادھی لے گا۔
گاوں گاوں میں غصہ ہے۔ 2007 تک باندھ بن کر تیار تھا۔ یو پی اے حکومت کے وقت باندھ پر گیٹ لگنے کا مسئلہ ٹھنڈے بستے میں رہا۔ ان کو کیا پڑی تھی کہ مودی کے گجرات کی پیاس بجھائیں اور شیوراج کے مدھیہ پردیش کو روشن کریں۔
2014میں مودی نے گاندھی نگر سے آکر دلّی میں اپنا سامان کھولنے کے پہلے نرمدا کنٹرول اتھارٹی کو کنٹرول میں کیا۔ باندھ پر دھوم دھام سے گیٹ لگے۔ جب لگ چکے تو مودی کے گجرات سے الارم بج گیا۔ یہ وہاں کے انتخابات کا بگل تھا۔
ادھر چمچماتی نرمدا سیوا یاترا کی نیکی نفع دینے کےلئے تیار نرمدا میّا کی پکار بڑوانی میں سنائی دی۔ سفر اور نقل مکانی کے درمیان مندسور میں کسانوں کی ارتھیاں اٹھ چکی ہیں۔
سفر کا پھل دینے کےلئے نرمدا شیوراج حکومت کو بڑوانی بلائیںگی، یہ سفر کےتصورکاروں نے خواب میں بھی سوچا ہوتا تو وہ اپنے وژنری باس کو نرمدا کے آس پاس کبھی نہ پھٹکنے کو کہتے۔
کئی ریاستوں میں بی جے پی اور ان کی حکومتوں کی خیر خبر لیتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں امت شاہ۔ وہ بہار میں بے حساب سیاسی طاقت کی علامت رہے لالو یادو کو زندگی کا سب سے یادگار جھٹکا دیتے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔
ساتھ میں گجرات سے راجیہ سبھا کی طرف دیکھ رہے احمد پٹیل کا مقدمہ بھی ان کی عدالت میں پورے دم خم سے چلا۔ بنگلورو میں گجرات کے یرغمال ممبران اسمبلی کو پناہ دینے والے طاقتور وزیر کے یہاں چھاپوں کی سرخیاں بتا رہی ہیں کہ شاہوں سے پنگا لینا کمزوروں کا کام نہیں۔
سوشل میڈیا پر قصّہ یہاں تک چلاکہ اسلام آباد میں عدالت سے فیصلہ آنے کے بعد نواز شریف کے الوداع کہتے ہی شاہ اپنے سپہ سالاروں کولے کر پاکستان کا رخ کر چکے ہیں تاکہ سرحد پار بی جے پی کی حکومت کے امکان تلاش سکیں۔
ایسے جوک(مذاق) آسانی سے پیدا نہیں ہوتے۔ یہ شاہ کی زبردست طاقت کا ہی احساس کراتے ہیں۔ جوک مدھیہ پردیش میں بھی خوب چلے۔
سی ایم شیوراج سنگھ چوہان نے ایک میٹنگ میں ناراض ہوکر کلکٹروں کو پھٹکارا کہ کام نہیں کروگے تو الٹا ٹانگ دوں گا۔ جوک آیا کہ بھوپال میں کملا پارک کے پرانے درخت سے لٹکے ایک چمگادڑ نے دوسرے سے کہا اب کلکٹر جیسا فیل کر رہا ہوں!
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔ مدھیہ پردیش کی اندرا ساگر باندھ منصوبہ میں ڈوبے ہرسود سمیت ڈھائی سو گاوں کی نقل مکانی پر‘ہرسود 30 جون ’ نام کی کتاب لکھ چکے ہیں۔)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر