ہندوستان چھوڑو تحریک کے ڈیڑھ سال بعد برٹش راج کی بمبئی حکومت نے ایک میمو میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سنگھ نے پوری ایمانداری سے خود کو قانون کے دائرے میں رکھا۔ خاص طور پر اگست 1942 میں بھڑکی بدامنی میں وہ شامل نہیں ہوا۔
معاملہ چاہے دلی یونیورسٹی کے رامجس کالج میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پرشد کے حالیہ حملے کا ہو، یا گزشتہ سال فروری میں ہوئی جے این یو کی واردات کا، یا مودی حکومت کے دور اقتدار میں ‘ باغی’ فنکاروں، صحافیوں پر ہوئے حملوں کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کئی ادارے خوشی خوشی ان جدو جہد کو ‘ اظہار رائے کی آزادی بنام قوم پرستی’ کی لڑائی کے جھوٹھی ئی جوڑی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے دکھے ہیں۔
سنگھ پریوار نے بڑی چالاکی سے اپنے اور اپنے کاموں پر‘ وطن پرست ’ ہونے کا جو لیبل چپکا لیا ہے، اس کو بغیر سوچے سمجھے ان میڈیا اداروں نے قبول کر لیا ہے۔یہ منظوری دراصل ہمارے کئی سینئر صحافیوں کی تاریخ کی کم علمی کی گواہی دیتی ہے۔ آزادی کی قومی جدو جہد کے ساتھ ہندتووادی طاقتوں کے ذریعہ کیا گیا دھوکہ، ان کے سینے پر تاریخی شرم کی گٹھری کی طرح رہنا چاہئے تھا، لیکن تاریخ کو لے کر صحافیوں کی لاعلمی ہندتووادی طاقتوں کی طاقت بن گئی ہے اور وہ اس کا استعمال اس بوجھ کو اتار پھینکنے کےلئے کر رہے ہیں۔ جھوٹھی ذاتی تشہیر کو مل رہی منظوری کا استعمال راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کٹر وطن پرست کے طور پر اپنی نئی جھوٹی مورتی گڑھنے کےلئے کر رہا ہے۔ وہ خود کو ایک ایسی تنظیم کے طور پر پیش کر رہا ہے، جس کےلئے ملک کی فکر سرفہرست ہے۔
ہندوستان میں قوم پرستی اور قومی آزادی کےلئے جدو جہد کے درمیان اٹوٹ تعلق ہے۔ اپنے منھ میاں مٹھو بنتے ان خود ساختہ وطن پرستوں کے دعووں کی حقیقت جانچنے کےلئے استعماریت سے آزادی کی لڑائی کے دور میں آر ایس ایس کے کردار کو پھر سے یاد کرنا مناسب ہوگا۔
دانڈی مارچ میں آر ایس ایس کا کردار
18 مارچ 1999 کو اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے سنگھ کے کارکنوں سے بھرے ایک جلسہ میں آر ایس ایس کے بانی کے بی ہیڈگیوار کو عظیم مجاہد آزادی کا درجہ دیتے ہوئے ان کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔ اس پر شمس الاسلام نے لکھا تھا کہ یہ چال ‘ آزادی سے پہلے آر ایس ایس کی سیاسی لائن کو نوآبادی مخالف جدو جہد کی وراثت کے طور پر قائم کرنے کی کوشش تھی جبکہ حقیقت میں آر ایس ایس کبھی بھی استعماریت کی مخالف جدو جہد کا حصہ نہیں رہا تھا۔ اس کے برعکس 1925 میں اپنے قیام کے بعد سے آر ایس ایس نے صرف انگریزی حکومت کے خلاف ہندوستانی عوام کے عظیم نوآبادی مخالف جدو جہد میں اڑچنین ڈالنے کا کام کیا’۔’
‘مجاہد آزادی’ ہیڈگیوار آر ایس ایس کے قیام سے پہلے کانگریس کے ممبر ہوا کرتے تھے۔ خلافت تحریک (1919-24) میں ان کے کردار کی وجہ سے ان کو گرفتار کیا گیا اور ان کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ آزادی کی لڑائی میں یہ ان کی آخری شراکت داری تھی۔ رہا ہونے کے ٹھیک بعدساورکر کے ہندو مذہب کے خیال سے متاثر ہوکر ہیڈگیوار نے ستمبر 1925 میں آر ایس ایس کی تشکیل کی۔اپنے کے بعد برٹش حکومت کے پورے دور میں یہ تنظیم نہ صرف استعاری طاقتوں کی فرمانبردار بنی رہی،بلکہ اس نے ہندوستان کی آزادی کےلئے کی جانے والی عوامی جدو جہد کی ہر دور میں مخالفت کی۔
آر ایس ایس کے ذریعہ شائع کی گئی ہیڈگیوار کی سوانح عمری کے مطابق جب گاندھی نے 1930 میں اپنا نمک ستیہ گرہ شروع کیا، تب انہوں نے (ہیڈگیوار نے) ‘ہرجگہ یہ اطلاع بھیجی کہ سنگھ اس ستیہ گرہ میں شامل نہیں ہوگا۔ حالانکہ جو لوگ ذاتی طور پر اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں، ان کےلئے ایسا کرنے سے کوئی روک نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سنگھ کا کوئی بھی ذمہ دار کارکن اس ستیہ گرہ میں شامل نہیں ہو سکتا تھا ’۔
ویسے تو سنگھ کے کارکنوں میں اس تاریخی واقعہ میں شامل ہونے کےلئے جوش کی کمی نہیں تھی، لیکن ہیڈگیوار نے فعال طور پر اس جوش پر پانی ڈالنے کا کام کیا۔ ہیڈگیوار کے بعد سنگھ کی باگ ڈور سنبھالنے والے ایم ایس گولولکر نے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے، جو آر ایس ایس رہنماءکے کردار کے بارے میں کافی کچھ بتاتا ہے : ۔
‘ 1930-31 میں ایک آندولن ہوا تھا۔ اس وقت کئی لوگ ڈاکٹرجی (ہیڈگیوار)کے پاس گئے تھے۔ اس نمائندہ وفد نے ڈاکٹرجی سے التجا کی تھی کہ یہ تحریک ملک کو آزادی دلانے والی ہے،اس لئے سنگھ کو اس میں پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔اس وقت ایک شریف آدمی نے ڈاکٹرجی سے کہا تھا کہ وہ جیل جانے کےلئے تیار ہیں۔ اس پر ڈاکٹرجی کا جواب تھا :ضرور جائیے،مگر آپ کی فیملی کا تب خیال کون رکھے گا؟ ’
اس شریف آدمی نے جواب دیا : ‘میں نے نہ صرف دو سالوں تک فیملی چلانے کےلئے ضروری وسائل جٹا لئے ہیں، بلکہ میں نے اتنا پیسا بھی جمع کر لیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر جرمانہ بھرا جا سکے’۔
اس پر ڈاکٹرجی نے اس آدمی سے کہا :‘ اگر تم نے وسائل جٹا لئے ہیں تو آوسنگھ کےلئے دو سالوں تک کام کرو’۔ گھر لوٹ کر آنے پر وہ شریف آدمی نہ تو جیل گیا، نہ ہی وہ سنگھ کےلئے کام کرنے کےلئے ہی آیا’۔
حالانکہ ہیڈگیوار نے ذاتی صلاحیت میں اس تحریک میں حصہ لیا اور جیل گئے۔ لیکن جیل جانے کا ان کا مقصد مجاہدین آزادی کے مقصد سے بالکل الگ تھا۔ آر ایس ایس کے ذریعے شائع ان کی سوانح عمری کے مطابق وہ‘اس یقین کے ساتھ جیل گئے کہ وہ آزادی سے محبت کرنے والے، اپنی قربانی دینے کو تیار، نام ور لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے، ان کے ساتھ سنگھ کے بارے میں صلاح مشورہ کریںگے اور ان کو سنگھ کےلئے کام کرنے کےلئے تیار کریںگے’۔
ہندو اور مسلم فرقہ پرست گروہوں کی اس منشاءکو بھانپ کر کہ وہ کانگریس کے کارکنوں کا استعمال اپنے وحشی مقاصد کےلئے کرنا چاہتے ہیں، اکھل بھارتیہ کانگریس کمیٹی نے 1934 میں ایک تجویز منظور کرکے اپنے ممبروں کے آ ایس ایس، ہندو مہاسبھا یا مسلم لیگ کی رکنیت لینے پر روک لگا دی۔
دسمبر 1940 میں جب مہاتما گاندھی انگریزوں کے خلاف (ذاتی) ستیہ گرہ چلا رہے تھے، تب جیسا کہ محکمہ داخلہ کی طرف سے استعاری حکومت کو بھیجے گئے ایک نوٹ سے پتہ چلتا ہے، آر ایس ایس رہنماوں نے محکمہ داخلہ کے معتمد سے ملاقات کی تھی اور‘معتمد حضورسے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ سنگھ کے ممبروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں سول گارڈ کے طور پر بھرتی ہونے کےلئے ترغیب دیںگے’۔ غور طلب ہے کہ نو آبادکار حکومت نے سول گارڈ کاقیام‘ ملک کی اندرونی حفاظت کےلئے ایک خاص پہل ’ کے طور پر کی تھی۔
ہندوستان چھوڑو تحریک کی آر ایس ایس کے ذریعہ مخالفت
ہندوستان چھوڑو تحریک شروع ہونے کے ڈیڑھ سال بعد برٹش راج کی بمبئی حکومت نے ایک میمو میں بےحد اطمینان کے ساتھ نوٹ کیا کہ ‘ سنگھ نے پوری ایمانداری کے ساتھ خود کو قانون کے دائرے میں رکھا ہے۔ خاص طور پر اگست 1942 میں بھڑکی بدامنی میں یہ شامل نہیں ہوا ہے’۔
لیکن دانڈی مارچ کی ہی طرح آر ایس ایس کے کارکن تحریک میں شامل ہونے سے روکنے کے اپنے رہنماوں کی کوششوں سے کافی مایوس تھے۔ ‘ 1942 میں بھی’ جیسا کہ گولولکر نے خود لکھا ہے‘ کارکنوں کے دلوں میں تحریک کے متعلق گہرا جذبہ تھا نہ صرف باہری لوگ، بلکہ ہمارے کئی سویم سیوکوں نے بھی ایسی باتیں شروع کر دی تھیں کہ سنگھ نکمّے لوگوں کی تنظیم ہے، ان کی باتیں کسی کام کی نہیں ہیں۔ وہ کافی مایوس بھی ہو گئے تھے’۔
لیکن آر ایس ایس رہنما کے پاس آزادی کی لڑائی میں شامل نہ ہونے کی ایک عجیب و غریب وجہ تھی۔ جون 1942 میں بنگال میں انگریزوں کے ذریعے برپا قحط، جس میں کم از کم 30 لاکھ لوگ مارے گئے، سے کئی مہینے پہلے کی گئی اپنی ایک تقریر میں گولولکر نے کہا تھا : ۔
‘‘سنگھ سماج کی موجودہ بدحالی کےلئے کسی پربھی الزام نہیں لگانا چاہتا۔ جب لوگ دوسروں پر الزام لگانا شروع کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ کمزوری بنیادی طور پر ان میں ہی ہے۔ کمزور کے ساتھ کئے گئے ظلم کےلئے طاقتور پر جرم مڑھنا بےکار ہے اپنا قیمتی وقت دوسروں کی تنقید کرنے یا ان کی برائی کرنے میں برباد نہیں کرنا چاہتا۔ اگر ہمیں پتہ ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہے،تو اس کےلئے بڑی مچھلی پر الزام لگانا پوری طرح پاگل پن ہے۔ قدرت کا اصول،بھلے ہی وہ اچھا ہو یا خراب،ہمیشہ سچ ہوتا ہے۔ اس اصول کو غیر منصفانہ قرار دینے سے اصول نہیں بدل جاتا”۔
یہاں تک کہ مارچ 1947 میں جب انگریزوں نے آخرکار ایک سال پہلے ہوئی بحری بغاوت کے بعد ہندوستان چھوڑکر جانے کا فیصلہ کر لیا تھا، گولولکر نے آر ایس ایس کے ان کارکنوں کی تنقید جاری رکھی، جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کی جدو جہد میں حصہ لیا تھا۔ آر ایس ایس کے اینوئیل ڈے پر منعقد ایک پروگرام میں انہوں نے ایک واقعہ سنایا :۔
“ایک بار ایک عزت دار سینئر شریف آدمی ہماری شاخ میں آئے۔ وہ اپنے ساتھ آر ایس ایس کے سویم سیوک کےلئے ایک نیا پیغام لے کر آئے تھے۔ جب ان کو شاکھا کے سویم سیوکوں کو خطاب کرنے کا موقع دیا گیا، تب انہوں نے کافی موثر لہجے میں اپنی بات رکھی‘ اب صرف ایک کام کریں۔ برٹشوں کی گریبان کو پکڑیں، ان کی لعنت ملامت کریں اور ان کو باہر پھینک دیں۔ اس کا جو بھی نتیجہ ہوگا،اس سے ہم بعد میں نپٹ لیںگے’۔ اتنا کہہ کر وہ صاحب بیٹھ گئے۔ اس نظریہ کے پیچھے ریاستی طاقت کے خلاف غصہ اور نفرت پر ٹکے رجحان کا ہاتھ ہے۔ آج کی سیاسی حساسیت کی برائی یہ ہے کہ یہ رد عمل، غصہ اور دوستی کو بھولتے ہوئے فاتحین کی مخالفت پر منحصر ہے”۔
آزادی کے بعد کی ‘ قومی بغاوت ‘
ہندوستان کی آزادی کی شان میں آر ایس ایس کے ترجمان اخبار‘ دی آرگینائزر’ میں شائع اداریہ میں سنگھ نے ہندوستان کے ترنگے پرچم کی مخالفت کی تھی، اور یہ اعلان کیا تھا کہ‘ ہندو اس پرچم کو نہ کبھی اپنائیں گے، نہ کبھی اس کی عزت کریںگے’۔ بات کو واضح کرتے ہوئے اداریہ میں کہا گیا کہ‘ یہ ‘ تین ’ لفظ ہی اپنے آپ میں نقصان دہ ہیں اور تین رنگوں والا پرچم یقینی طور پر خراب نفسیاتی اثر ڈالے گا اور یہ ملک کےلئے نقصان دہ ثابت ہوگا’۔
آزادی کے کچھ مہینوں کے بعد 30 جنوری 1948 کو ناتھو رام گوڈسے نے جو کہ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس دونوں کا ممبر تھا مہاتما گاندھی پر نزدیک سے گولیاں داغیں۔ اے جی نورانی نے اس وقت گاندھی جی کے ذاتی معتمد پیارے لال نیّر کے رکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے : ۔
‘‘اس افسوس ناک جمعہ کو کچھ جگہوں پر آر ایس ایس کے ممبروں کو پہلے سے ہی‘ اچّھی خبر’ کیلئے اپنے ریڈیو سیٹ چالو رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی”۔
سردار پٹیل کو ایک جوان‘ جسے اس کے خود کے بیان کے مطابق، دھوکہ دےکر آر ایس ایس میں شامل کیا گیا تھا، لیکن جوکہ بعد میں مایوس(تائب) ہو گیا، سے ملے ایک خط کے مطابق ‘ اس خبر کے آنے کے بعد کئی جگہوں پر آر ایس ایس سے جڑے حلقوں میں مٹھائیاں بانٹی گئی تھیں”۔
کچھ دنوں کے بعد آر ایس ایس کے رہنماوں کی گرفتاریاں ہوئی تھیں اور تنظیم پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ 4 فروری کے ایک سرکاری خط وکتابت میں حکومت نے یہ وضاحت کی تھی : ۔
‘‘ملک میں سرگرم نفرت اور تشدد کی طاقتوں کو، جو ملک کی آزادی کو خطرہ میں ڈالنے کا کام کر رہی ہیں،جڑ سے اکھاڑنے کےلئے حکومت ہند نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے غیر قانونی ہونے کا اعلان کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے جڑے کئی شخص تشدد،آگ زنی،لوٹ پاٹ،ڈکیتی،قتل وغیرہ کی واردات میں شامل رہے ہیں اور انہوں نے غیر قانونی ہتھیار اور گولہ بارود جمع کر رکھا ہے۔ وہ ایسے پرچے بانٹتے پکڑے گئے ہیں،جن میں لوگوں کو خوف زدہ طریقے سے بندوق وغیرہ جمع کرنے کو کہا جا رہا ہے….سنگھ کی سرگرمیوں سے متاثر اور اسپانسر ہونے والے تشدد آمیز راستے نے کئی لوگوں کو اپنا شکار بنایا ہے۔ انہوں نے گاندھی جی جن کی زندگی ہمارے لئے بیش قیمتی تھی،کو اپنا سب سے نیا شکار بنایا ہے۔ ان حالات میں حکومت اس ذمہ داری سے بندھ گئی ہے کہ وہ تشدد کو پھر سے اتنی زہریلی شکل میں ظاہر ہونے سے روکے۔ اس سمت میں پہلے قدم کے طور پر حکومت نے سنگھ کو ایک غیر قانونی تنظیم اعلان کرنے کا فیصلہ کیا ہے”۔
سردار پٹیل، جن پر آج آر ایس ایس اپنا دعویٰ کرتا ہے، نے گولولکر کو ستمبر میں آر ایس ایس پر پابندی لگانے کی وجوہات کو واضح کرتے ہوئے خط لکھا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ آر ایس ایس کی تقریریں“ فرقہ وارانہ اشتعال سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ملک کو اس زہر کا آخری نتیجہ مہاتما گاندھی کی بیش قیمتی زندگی کی شہادت کے طور پر بھگتنا پڑا ہے۔ اس ملک کی حکومت اور یہاں کے لوگوں کے دل میں آر ایس ایس کے متعلق رتی بھر بھی ہمدردی نہیں بچی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی مخالفت بڑھتی گئی۔ جب آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی جی کے قتل پر خوشی کا اظہار کیا اور مٹھائیاں بانٹیں، تو یہ مخالفت اور تیز ہو گئی۔ ان ماحول میں حکومت کے پاس آر ایس ایس پر کارروائی کرنے کے علاوہ اور کوئی چارا نہیں تھا”۔
18جولائی1948 کو لکھے ایک اور خط میں پٹیل نے ہندو مہاسبھا کے رہنما شیاما پرساد مکھرجی کو کہا“ ہماری رپورٹوں سے یہ بات پکّی ہوتی ہے کہ ان دونوں ادارہ (آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا)خاص کر آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے نتیجہ کے طور پر ملک میں ایک ایسے ماحول کی تشکیل ہوئی جس میں اتنا ڈراونا حادثہ ممکن ہو سکا”۔
عدالت میں گوڈسے نے دعویٰ کیا کہ اس نے گاندھی جی کے قتل سے پہلے آر ایس ایس چھوڑ دیا تھا۔ یہی دعویٰ آر ایس ایس نے بھی کیا تھا۔ لیکن اس دعویٰ کی تصدیق نہیں کی جا سکی، کیونکہ جیسا کہ راجیندر پرساد نے پٹیل کو لکھے خط میں دھیان دلایا تھا“ آر ایس ایس اپنی کاروائیوں کا کوئی رکارڈ نہیں رکھتا نہ ہی اس میں رکنیت کا ہی کوئی رجسٹر رکھا جاتا ہے”۔ ان ماحول میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا کہ گاندھی کے قتل کے وقت گوڈسے آر ایس ایس کا ممبر تھا”۔
لیکن ناتھو رام گوڈسے کے بھائی گوپال گوڈسے، جس کو گاندھی کے قتل کےلئے ناتھو رام گوڈسے کے ساتھ ہی شریک سازشی کے طور پر گرفتار کیا گیا تھا اور جس کو جیل کی سزا ہوئی تھی، نے جیل سے چھوٹنے کے 30 سالوں کے بعد فرنٹ لائن میگزین کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ناتھو رام گوڈسے نے کبھی بھی آر ایس ایس نہیں چھوڑیتھی اور اس تعلق سے اس نے عدالت کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔ اس نے کہا“ہم تمام بھائی آر ایس ایس میں تھے۔ ناتھو رام، دتّاترئے، میں اور گووند۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری پرورش گھر پر نہ ہوکر آر ایس ایس میں ہوئی۔ یہ ہمارے لئے فیملی کی طرح تھا۔ ناتھو رام نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے آر ایس ایس چھوڑ دیا تھا۔ اس نے ایسا اس لئے کہا تھا کیونکہ گاندھی کے قتل کے بعد گولولکر اور آر ایس ایس بڑی مصیبت میں تھے۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ اس نے آر ایس ایس نہیں چھوڑا تھا”۔ اس کی فیملی کے ایک ممبر کے ذریعہ اکنامک ٹائمز کو دئے گئے ایک حالیہ انٹرویو سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔
فرنٹ لائن کو دئے گئے انٹرویو میں گوپال گوڈسے نے اور آگے بڑھتے ہوئے ناتھو رام گوڈسے سے پلّا جھاڑ لینے کےلئے لال کرشن آڈوانی پر’بز دلی’ کا الزام لگایا تھا۔ گوپال گوڈسے نے شکایت کی تھی‘ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آر ایس ایس نے یہ تجویز منظور نہیں کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ‘ جاوگاندھی کا قتل کر دو ’ لیکن آپ اس کو بےدخل نہیں کر سکتے۔
لیکن گاندھی کے قتل کے وقت ناتھو رام گوڈسے کے آر ایس ایس کے ممبر ہونے کے بارے میں گوپال گوڈسے کے قبول نامے سے کافی پہلے جولائی 1949 میں حکومت نے ثبوتوں کے فقدان میں آر ایس ایس پر لگائی گئی پابندی ہٹا دی تھی۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے پٹیل کے سخت دباومیں آر ایس ایس نے اپنے لئے ایک آئین تیار کیا جس میں یہ واضح طور سے لکھا گیا تھا کہ “ آر ایس ایس پوری طرح سے تہذیبی سرگرمیوں کےلئےوقف رہے گا” اور کسی طرح کی سیاست میں شامل نہیں ہوگا۔
چار مہینے بعد، جبکہ آئین ساز کمیٹی نے آئین لکھنے کا عمل مکمّل کر لیا تھا، آر ایس ایس نے اپنے ترجمان اخبار دی آرگینائزر میں 30 نومبر 1949 کو چھپے ایک مضمون میں آئین کے کی ایک دفعہ کولے کر اپنی مخالفت ظاہر کی : ۔
‘‘لیکن ہمارے آئین میں قدیم ہندوستان میں ہوئے انوکھی آئینی ترقی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ آج کی تاریخ میں بھی منوسمرتی میں لکھے گئے قانون دنیابھر کو دلچسپی فراہم کرتے ہیں اور ان میں خودبخود ایک اطاعت وفرمانبرداری اور رضامندی کے تاثرات جگاتے ہیں۔ لیکن آئین کے پنڈتوں کے لئے اس کا کوئی مول نہیں ہے”۔
یہاں آر ایس ایس آئین کے مقابلے میں منوسمرتی کو بہترین بتاکر شاید اپنی یا کم از کم اپنے رہنماوں کی رجعتی ذہنیت کو سمجھنے کا موقع دے رہا تھا۔ وہ اسی منوسمرتی جو کہ ایک قانونی ضابطہ ہے، کو اتنا عظیم درجہ دے رہا تھا جس کے مطابق“شودروں کےلئے براہمنوں کی خدمت سے بڑھ کر کوئی اور دوسرا روزگار نہیں ہے ؛ اس کے علاوہ وہ چاہے جو کام کر لے، اس کا اس کو کوئی پھل نہیں ملے گا ؛ یہ وہی استحصالی منوسمرتی ہے، جو شودروں کو دولت کمانے سے روکتی ہے” وہ بھلے لائق ہو، لیکن دولت جمع کرنے والا شودر براہمنوں کو تکلیف پہنچاتا ہے”۔
آئین کی جگہ منوسمرتی کو نافذ کرانے کی مہم آئین کو سرکاری طور پر منظور کرلئے جانے کے باوجود اگلے سال تک چلتی رہی۔ ‘ منو ہمارے دلوں پر حکومت کرتے ہیں’ عنوان سے لکھے گئے اداریہ میں آر ایس ایس نے چنوتی کے لہجے میں لکھا : ۔
‘‘ڈاکٹر امبیڈکر نے حال ہی میں بمبئی میں مبینہ طور پر بھلے ہی یہ کہا ہو کہ منوسمرتی کے دن لد گئے ہیں،لیکن اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ آج بھی ہندووں کی روز مرہ کی زندگی منوسمرتی اور دوسری یادوں میں بیان شدہ اصولوں اور احکام کی بنیاد پر زیادہ چلتی ہے۔ یہاں تک کہ جدید ہندو بھی کسی نہ کسی معاملے میں خود کو یادوں میں بیان شدہ قوانین سے بندھا ہوا پاتا ہے اور ان کو پوری طرح سے نکارنے کے معاملے میں خود کو کمزور محسوس کرتا ہے”۔
لیکن اب وہ وطن پرست ہیں!
اس لئے آخر میں میں یہ سوال کرنا چاہوںگا کہ آخر کون سا لفظ اس راستے کےلئے صحیح بیٹھے گا جو نو آبادیاتی حکومت کے سامنے گھٹنوں کے بل پر بیٹھ گیا اور جس نے ملک کو آزاد کرانے کےلئے چلائی جا رہی عوامی تحریک کی مخالفت کی ؛ وہ راستہ جس نے ملک کے قومی پرچم اور آئین کی مخالفت کی اور جس کے لوگوں نے ملک کی عوام کے ذریعے راشٹرپتا کہہ کر پکارے جانے والے مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد“ خوشیاں منائیں اور مٹھائیاں بانٹیں”؟ کیا ان کو غدار کا درجہ دیا جائے؟ نہیں۔ ہمارے وقت میں جب سیاسی بحثوں کےلئے تاریخ ایک بے معنی چیز ہو گئی ہے، وہ “ وطن پرست” ہیں اور باقی سب “باغی”
(پون کلکرنی آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر