یہ ہیں آنند مٹھ کے اقتباسات ‘ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ بندے ماترم میں ہندوستان کتنا ہے ؟خیراس کتاب کو ہندو مذہب کے لحاظ سے صحیح مان بھی لیا جائے تو ہندوؤں کی مذہبی عقیدت میں دوسرے مذہب کے لوگ کیوں شریک ہوں‘اور کیا اس ستیہ سناتن دھرم میں دلتوں کے لیے کوئی جگہ ہے؟
اس وقت ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں‘خاص طور سے مسلمانوں کی دل آزاری عام سی بات ہے۔تقریباً ہر مسئلے کو مسلمانوں سے جوڑ کردیکھنے کی روش کے پس پردہ اپنی اپنی بدنیتی کے مظاہرے سے کہیں آگے بڑھ کرمطلق العنانیت کا کھلا اعلان بھی کیا جارہا ہے۔یہ باتیں اب خبر کے زمرے میں بھی نہیں آتیں۔دراصل ایک خاص طرح کی سوچ نے سیاسی اشتہار کی نمائش میں ان باتوں کو اپنا عقیدہ بنا لیا ہے ۔
یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کو دیکھنے کاتسلیم شدہ نظریہ پوری طرح سے اقتداری ہے۔ زبان ہو یا کھان پان، رہن سہن ہو یاحب الوطنی، الف(ا) سے لے کر یے(ے) تک کسی بھی زاویے سے بات کیجئے مسلمانوں کے نام کی تختی‘سیاسی اشتہار کی طرح چوک چوراہے پر لٹکی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس سیاسی نظریے میں مسلمانوں کے اپنے فتوے اور مذہب کا معاملہ اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ بنیادی مسائل کا پتہ ہی نہیں چلتا۔کہیں نہ کہیں ان نکتہ دانوں کی نکتہ دانی بھی سیاسی اشتہار کو نمایاں کرنے میں بخوبی اپنا کردار نبھا رہی ہے ۔
مسلمانوں کے دکھ اور مسائل کو عام ہندوستانی معاشرے سے الگ کر دیا گیا ہے ۔خاص طرح کی زبان بلکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس والی سرکار سطحی ہندی فلموں کے ہیروکی طرح گولی سے نہ گالی سے جیسے ڈائیلاگ وقتاً فوقتاً بولتی رہتی ہے ۔کچھ نکتہ دانوں کا خیال ہے کہ اس وقت ہندوستان میں سب سے بڑا سوال مشترکہ کلچر کی حفاظت کاہے ‘یوں بات تو صحیح ہے لیکن شدت پسندوں کی شدت کے آگے یہ محض خیال ہی تو ہے۔ آسیب زدہ سائبان کے سائے میں سیاسی اور سماجی تبدیلی کا خواب اس وقت تک نہیں دیکھا جاسکتا جب تک کہ عام لوگوں کی آوازیں پابند سلاسل ہیں۔
حکومت کا ایجنڈہ بہت واضح ہے ۔ اس لیے وہ ان تمام حربوں کا استعمال کر رہی ہے جن سے ان کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔ وندے ماترم بھی اسی طرح کا ایک حربہ ہے ۔یوں بھی وندے ماترم والے معاملے میں مسلمان ہمیشہ سے سرخ رو رہے ہیں۔ وندے ماترم سے دوسری مذہبی اقلیتوں کو بھی پریشانی ہےلیکن ایسا سمجھا جاتا ہے کہ صرف مسلمان اس کے حق میں نہیں ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے کو لے کر جب بھی کوئی بات ہوتی ہے‘ چینلوں کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔ اس لیے یہ پہلی فرصت میں کہیں سے بھی مسلمانوں کے نمائندوں کو اسٹوڈیو لے آتے ہیں اور سَنگھ مفکروں کے آگے پروس دیتے ہیں۔
عام طور سے بحث میں دو ہی پارٹی ہوتی ہے۔ پھر کھیل شروع ہوتا ہے اور جم کر کلاس لگائی جاتی ہے۔ جنّاح اور مولانا محمد علی جوہر کے حوالے دیے جاتے ہیں۔ بولتے بولتے یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ جیسے لوگ جو مسلمانوں کے ٹھیکےدار بنے ہیں، اسلام کے نام پرکلنک ہیں۔ مسلم نوجوان توکچھ اور سوچتا ہے۔ کچھ مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔ حد تب ہو جاتی ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کوئی اسٹیٹ نہیں اسٹیٹ آف مائنڈ ہے اور آپ لوگ اسی اسٹیٹ آف مائنڈ کے باشندے ہیں۔
اس طرح کی بحث میں ہر بار میڈیا کا اسپانسر رویّہ یہی ہوتا ہے۔ اینکر پوری آواز سے ڈانٹتے ہوئے دیش بھکتی کا راگ الاپتا ہے۔سَنگھ مفکروں کی اچھا… اچھا… کے طنز میں آوازیں بند کر دی جاتی ہیں۔ بیچارے داڑھی ٹوپی والے مولوی صاحب بھی بغیر کچھ پڑھے لکھے اس طرح کی بحث میں حصہ لینے پہنچ جاتے ہیں اور جی بھرکر اپنی فضیحت کرواتے ہیں۔ یہ بیچارے کئی بار ایسا کچھ بول جاتے ہیں جس کا سیاق و سباق بھی نہیں ہوتا؟ کل ملاکر بحث یک طرفہ ہوتی ہے۔ جانے کیوں مولوی صاحبان اس طرح کی بحث میں ایک طرح کی مذہبی عقیدت کے ساتھ شرکت فرماتے ہیں اور اپنے آخری لفظ کے طور پر کہتے ہیں کہ صاحب ہمارے مذہب میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
تازہ ترین تنازعہ
ابھی یوم آزادی کے موقع پر اترپردیش میں مدارس کو جس طرح سے سرکلر جاری کیاگیا اور ویڈیو ریکارڈنگ کی ہدایت دی گئی۔اس کو بھی آپ اسی اسپانسر رویے کا اشتہار کہہ سکتے ہیں۔حالاں کہ سرکلر میں براہ راست وندے ماترم کا ذکر نہیں کیا گیا‘ لیکن قومی گیت کی بات کہی گئی ہے ۔اس سر کلر کی بد نیتی جگ ظاہر ہے کہ کوئی حکومت کسی ایک مذہبی اقلیت کو کس نظریے سے دیکھتی ہے۔یہاں سوال کسی کی دیش بھکتی پر شک کیے جانے کا نہیں ہے ۔بات اقتدار اوراقتداری میڈیا کے سلوک کا ہے۔اسی طرح مہاراشٹر میں دیکھیے کہ کس طرح وندے ماترم کو لے کر قراد داد منظور کی گئی ہے اور حکومت کے پاس تجویز بھیجی گئی ۔ان سب میں تھوپی ہوئی دیش بھکتی اور سرکاری دیش پریم کی آواز ایک خاص طرح کی سوچ کو مستحکم کرتی نظر آتی ہے ۔ ابھی پچھلے دنوں ایک چینل پر یوگی سرکار کے منتری وندے ماترم والی دیش بھکتی کا پر زور مظاہرہ کررہے تھے لیکن اس کا ایک بند بھی انہیں یاد نہیں تھا۔سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل بھی ہوا تھا ۔اس سے بھی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ موجودہ اقتدار کی سوچ کیا ہے ۔ایک طرح کی مطلق العنانیت ہے جو ہر کسی کی حب الوطنی کو سند دینا چاہتی ہے۔حال کے دنوں میں بنکم چندر چٹرجی کے گیت وندے ماترم پر اس وقت بحث چھڑ گئی تھی جب مدراس ہائی کورٹ کے جج ایم وی مرلی دھرن کاآرڈرسامنے آیاتھا۔ آرڈر کے مطابق وندے ماترم کو سرکاری اور غیر سرکاری دفتروں/ اداروں میں ہر مہینے کم از کم ایک بار گانا ہوگا۔ توقع کے عین مطابق اس بار بھی اس تنازعے کی ٹانگ اس بات پر ٹوٹی کہ مسلمان حب الوطنی کے اس ترانے کو گانا نہیں چاہتا اس لئے ان کی وطن دوستی اور حب الوطنی مشکوک ہے۔
بنکم چندر چٹرجی اور وندے ماترم
کہا جاتا ہے کہ رائے بہادر بنکم چندر چٹرجی (1838-1894) انگریزی حکومت کے محبوب نظر تھے، اس لیے 1858 میں ڈپٹی کلکٹر بھی بنائے گئے۔ بنکم صاحب نے حب الوطنی کا یہ ترانہ 76 – 1875 میں لکھا ‘جس کو بعد میں اپنے ناول’ آنند مٹھ‘ میں بھی شامل کر لیا۔ شاید آپ جانتے ہوں کہ مؤرخ اس باب میں لکھ گئے ہیں کہ بنکم صاحب بنگلہ راشٹر واد سے اتنے متاثر تھے کہ ان کو ہندوستان اور ہندوستانی راشٹر واد کا مطلق خیال نہیں تھا۔
وندے ماترم یا بندے ماترم
وندے ماترم کے سلسلے میں ایک وضاحت یہ ہے کہ وندے ماترم جیسا کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔ اصل میں بنگلہ میں ’و‘کی آواز نہیں ہے ‘ اس لیے یہ لفظ بندے ماترم ہے۔ ہندی میں جانے کیوں وندے ماترم لکھا جاتا ہے۔ اردو کی پرانی کتابوں میں بھی بندے ماترم ہی لکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ وندے ماترم کے بارے میں ایک بڑی بات ہم یہ جانتے ہیں کہ رابندرناتھ ٹیگور نے اس کی خوبصورت دھن بنائی تھی۔
مسلمانوں کا اعتراض اور ان کی دلیل
عام طور سے مسلمانوں کا اعتراض یہ ہے کہ یہ نغمہ / ترانہ راشٹر واد کو ہندو مذہب کے لحاظ سے پیش کرتا ہے۔اس لیے وہ اپنی مذہبی روایات کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنی شریعت کے پابند مسلمان ہیں؟ حالاں کہ اس کی مخالفت مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے ہی نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہئے۔ واضح لفظوں میں کہیں تو یہ ہمارے ملک کے آئین کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ اور مسلمانوں کا ہی کیوں یہ ہر اس شہری کا معاملہ ہے جو ہندوستان کو ہندو راشٹر نہیں مانتا۔
حب وطن یا حب الوطنی کا سیاسی اشتہار
یہ تھیں وہ باتیں جس کی وجہ سے مجھے کچھ لکھنے کی خواہش ہوئی۔ ہاں اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن مجھے پھر بھی کچھ باتیں کہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ضرورت شاید اس لیے بھی ہے کہ نئی نسل اس کولے کر اگریسو (Aggressive) ہے کہ آخر وندے ماترم کہنے میں کیا حرج ہے۔اس لیے میں اس موضوع پر ذرا وضاحت سے بات کرنا چاہتا ہوں۔
پہلا سوال یہی ہے کہ مسلمانوں کووندے ماترم کہنا چاہئے یا نہیں؟ اس سوال کو ایک بڑے سیاق و سباق میں پوچھنا ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ وندے ماترم کو قومی ترانہ ہونا چاہئے یا نہیں؟ شاید یہ سوال عجیب لگے کہ پہلے ہی ہمارے رہبروں نے اس کو اضافی قومی ترانہ کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ اس وقت کے تنازعے کی وجہ سے وندے ماترم کے کچھ حصے بھی ہٹا دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ اس محذوف وندے ماترم کے بارے میں اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ بھگت سنگھ اور اشفاق اللہ خاں جیسے عظیم شہیدوں نے وندے ماترم کو انگریزوں کے خلاف نعرے کے طور پر استعمال کیا تھا۔ ان سب باتوں کی روشنی میں تو یہی لگتا ہے کہ اس عظیم ترین گیت /نعرے کو اپنا لینے میں کیا برائی ہے؟
ایک شدّت پسند رائے یہ بھی ہے کہ جنگ آزادی میں بھارت ماتا کی جئے، جئے بھوانی، ہرہرمہادیو اور نعرہ تکبیر جیسے نعرے بھی لگے تھے۔ ہماری پارلیامنٹ تک میں جئے شری رام کا نعرہ لگ چکا ہے پھر تو ان سب کو بھی ایک نعرے کے طور پر قبول کر لینا چاہیے۔یہ اور بات ہے کہ بھگت سنگھ اور ان کے دوستوں نے انقلاب زندہ باد اور ہندوستان زندہ باد کے نعرے سب سے زیادہ لگائے تھے۔
بات وہی ہے کہ آپ اپنی مذہبی روایات کے ساتھ اپنے ملک سے محبت کریں‘ اپنے مذہبی نعروں کو حب الوطنی کے طور پر استعمال کریں،کسی کو کوئی دقت نہیں ہے۔ لیکن آپ کا مذہبی نعرہ سارے ہندوستانیوں کا نعرہ بھی ہو یہ تو زیادتی ہے۔
اسی طرح آپ اپنے ملک کا تصور ایک ماں کی صورت میں بھی کریں، کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ویسے کتابوں میں لکھا ہے کہ پہلے پہل بھارت ماتا کے تصور میں جو عکس بنایا گیا اس کا نام’ بنگ ماتا‘ رکھا گیا تھا۔ بعد میں اسی عکس کو بھارت ماتا کا نام دیا گیا۔ بھارت ماتاکے اس پیکر میں بھی ایک خاص طرح کے نظریے کی تبلیغ کی گئی ہے ۔ اس نظریے سے بھی کسی کو مسئلہ نہیں ہے لیکن ہرکوئی اس کو ماننے کےلئے پابند نہیں ہو سکتا۔ بنگ ماتا کا پیکر بہتوں کے لیے بھارت ماتا کا پیکر ہو سکتا ہے، ہندوستان کے مشترکہ کلچر کا ترجمان ہرگز نہیں۔
آنند مٹھ کا اُردو ترجمہ
وندے ماترم کے سلسلے میں ہی آنند مٹھ کا نام لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ آنند مٹھ کے مصنف مشہور فکشن نویس بنکم چندر چٹو پا دھیا ئے ہیں۔ یہ کتاب 1857 کے بعد 1882 میں شائع ہوئی۔اس سے پہلے آنند مٹھ، بنکم صاحب کے اپنے رسالہ ’بنگا درشن‘ میں قسط وار چھپا۔ اس کا ترجمہ بہت ساری زبانوں کے ساتھ اردو میں بھی ہوا۔ گیان پرکاش مندر کے مالک چودھری شیوناتھ سنگھ شانڈلیہ اس کتاب کے پبلشر ہیں۔ شانڈلیہ نے’ نویدن‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ” گیان پرکاش مندر کا اصول اردو زبان میں کتاب چھاپنا نہیں ہے بلکہ ہندی زبان کی ترقی کرنا ہے۔ آج بھارت سنتان کو قدرتی پریرناہوئی ہے کہ اس بوڑھی بھارت ماتا کو غیروں کی حکومت سے آزاد کرو۔ ….لیکن اس کو اردو میں اس لئے چھاپا جا رہا ہے کہ اردو جاننے والے لوگ بہت زیادہ ہیں۔ “
خیر یہ کتاب اس نویدن کے ساتھ 1923 میں شائع ہوئی۔ ہو سکتا ہے پہلے بھی آنند مٹھ کا اردو ترجمہ کیا گیا ہو، لیکن میرے سامنے کوئی اور اردو ترجمہ نہیں ہے۔ اس کے مترجم ڈاکٹر گوکلچند نارنگ ایم اے پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا پنجاب ہائی کورٹ ہیں۔ نارنگ صاحب کے بارے میں ایک ضروری وضاحت یہ کہ وہ بے حدمقبول آریہ سماجی رہنما تھے۔ہندو مہاسبھا میں بھی فعال رہے اور اس کے اکھل بھارتیہ نائب صدر بنائے گئے۔ ایک زمانے میں جب اُردو ہندی کو لے کر تنازعہ کھڑا ہوا اور اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ دیوناگری میں اردو الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے بندی لگانی چاہئے یا نہیں تو پہلے وہ (نقطہ) بندی کے حق میں تھے بعد میں ان کو اس بات کے لئے راضی کر لیا گیا کہ دیوناگری میں بندی کا استعمال نہیں ہوگا۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندی میں بندی کی مخالفت ہندوتووادی نظریہ ہے تو صحیح سمجھ رہے ہیں‘اور بات وہی ہے کہ یہ شدت پسند نظریہ ہر اس چیز کے خلاف ہے جس میں کثرت کے باوجود میل جول یا وحدت کی صورت پیدا ہوتی ہے ۔
ترجمے کا تذکرہ کیوں؟
ان باتوں کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ سند رہے کہ اردو میں آنند مٹھ کو کسی مسلمان نے ترجمہ نہیں کیا۔ اس لئے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ شاید مسلمان ہونے کے ناطے جان بوجھ کر ترجمے میں کمی بیشی کی گئی ہے۔ اس طرح اس قضیے میں مسلمانوں کو ایک مترجم کے طور پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔یوں تو ضروری نہیں تھا لیکن احتیاط کے طور پر میں نے اس کو دوسری زبانوں کے ترجمے کے سامنے رکھ کر دیکھا تو احساس ہوا کہ ترجمہ علمی ہے۔ زبان اور بھاشا کے لحاظ سے بھی نارنگ صاحب کی اردو کا جواب نہیں ہے۔کل ملاکر بہت عمدہ ترجمہ ہے۔ اتفاق سے اردو پڑھنے والوں میں کم لوگ اس ترجمہ کے بارے میں جانتے ہیں اس لئے بھی اس کتاب کا تذکرہ ضروری تھا۔
آنند مٹھ کا مقدمہ
کتاب کے مقدمہ میں مترجم نے لکھا ہے کہ” بچوں اور الف لیلہ کے عاشقوں کو اس میں کوئی آنند نہ آئے مگر ذرا عقلمند لوگوں کے لئے ناول میں جو کچھ موجود ہونا چاہئے ‘آنند مٹھ میں سب کچھ ہے اور مزید برآں لطف یہ ہے کہ اس کو پڑھ کر دل و دماغ کی آنکھیں کھل جاتی ہیں“۔ مترجم نے اس کتاب کی وکالت اپنے انداز میں کی ہے اور کتاب کے ماحصل کو بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی کوشش میں وہ لکھتے ہیں کہ’ زندہ شہادت جنگ کی شہادت سے افضل ہے‘۔ اب یہ زندہ شہادت کیا چیز ہے تو اس کو ترتیب وار اس طرح ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ ؛ 1) گھر بار اور عیش و عشرت کی قربانی۔ 2) نفس امارہ کو روکنا ۔3) عورت سے دور رہنا۔ 4) اپنے لیے کچھ بھی نہیں
کمانا 5) سب کچھ مادرِ وطن کی نذر کر دینا ۔6) ذات پات کا امتیاز بالا ئے طاق رکھنا۔ 7) تمام خادمان ملک کو بھائی سمجھنا۔
اس طرح کی وضاحت کے ساتھ ماحصل کے حاصل میں لکھا گیا ہے کہ” زندہ شہادت سچی حب الوطنی کی شرط ہے“۔ مترجم کے خیال میں ؛ ’اس کتاب میں اہل اسلام کو بری طرح سے یاد کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق اتنا عرض کر دینا کافی سمجھتا ہوں کہ جو کچھ برا بھلا مسلمانوں کو اس کتاب میں کہا گیا ہے وہ اس وقت کے مسلمان ظالم بادشاہوں کو کہا گیا نہ کہ ہر خاص و عام مسلمان کو“۔
کتاب کے براہ راست مطالعے سے پہلے ناشر کی ایک بات کو یہاں درج کرنا شاید ضروری ہے کہ” [آنند مٹھ] پالیٹکل لٹریچر میں سب سے پہلا اور بے نظیر ناول ہے“۔ اب آپ پر ہے کہ اس کتاب کو کیسے دیکھتے ہیں کہ اسی کتاب کے بارے میں مقدمہ کے تحت یہ بھی لکھا گیا ہے کہ” آنند مٹھ ہندوؤں کی بلکہ سنیاسیوں کی کہانی ہے اور کوئی عشقیہ داستان نہیں بلکہ اہل ہنود کے ایک مذہبی اور قومی کام کی تاریخ ہے“۔ گویا یہ کتاب پالیٹیکل لٹریچر بھی ہے، مذہبی اور قومی کام کی تاریخ بھی۔ اس طرح یہ مان لینا چاہیےکہ ہندوستان میں پالیٹیکل لٹریچر اور مذہبی و قومی تاریخ میں کوئی فرق نہیں؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتاب کو اس طرح کی وضاحت کے ساتھ کیوں پیش کیا گیا؟ جواب بہت سارے ہیں لیکن سامنے کا جواب یہی ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر مسلمان بد گمان ہو سکتے ہیں، لیکن تضاد یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کو احساس بھی دلا دیا گیا کہ یہ صرف ناول نہیں ہے ہندوؤں کی مذہبی اور قومی تاریخ بھی ہے۔ قومی تاریخ جو مذہبی بھی ہو اس سے قومیت کے معنی کیانکلتے ہیں۔ اس پر زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔جن باتوں کو یہاں مترجم اور پبلشر کی طرف سے پیش کیا گیا ہے اس پر کچھ بھی کہنے سے بہتر ہے کہ آنند مٹھ کا بھی ایک مطالعہ پیش کر دیا جائے۔ اس کے بعد بھی ضرورت رہی تو ایک دو باتیں کہی جا سکتی ہیں۔
آنند مٹھ کی کہانی
ناول کی شروعات عالم گیر قحط سے پیدا ہونے والی صورت حال سے ہوتی ہے۔ حالات اتنے بدتر ہیں کہ آٹھ آٹھ وقتوں میں ایک وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ اس طرح کی بدحالی میں محمد رضا خاں نامی مشیر مال، مال گزاری میں دس فیصد کا اضافہ کر دیتا ہے تاکہ حکومت کی خوشنودی حاصل کر سکے۔ عوام یعنی ہندو عوام بھیک مانگنے کو مجبور ہیں لیکن وہاں بھیک دینے والا بھی کوئی نہیں۔ لوگوں نے اپنا سب کچھ بیچ دیا ‘یہاں تک کہ بیوی بچے بھی۔ لوگ گھاس اور پتے کھانے کو مجبور ہیں۔ نیچ ذات کے لوگوں اور جنگلی قوموں نے کتوں، چوہوں، اور بلیوں کو کھانا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح کے حالات میں مہیندرسنگھ اور اس کی بیوی بیٹی کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ قحط میں اس زمین دار کے پاس بھی کچھ نہیں بچتا۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ گاؤں چھوڑ دیتے ہیں۔ جاتے وقت مہیندرسنگھ ہتھیار کے طور پر بندوق لیتا ہے جبکہ اس کی بیوی زہر کی ڈبیا تاکہ جب ضرورت پڑے وہ اس کو کھاکر اپنی لاج بچا لے۔ مہیندرسنگھ کا تذکرہ یہاں اس لئے ضروری تھا کہ اسی کردار کے توسط سے ناول اپنے اصل موضوع میں داخل ہوتا ہے۔ راستے میں ایک جگہ اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کرمہیندر گائے کے دودھ کی تلاش میں نکلتا ہے۔ ادھر لٹیرے اس کی بیوی بیٹی کا اغوا کرکے جنگل لے جاتے ہیں۔ پھر وہ آپس میں گہنے کے لیے لڑتے ہیں اور کہتے ہیں اس سے تو بھوک نہیں مٹے گی۔ پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ پیٹ کی بھوک مٹانے کےلیے وہ انسان کا جسم پکاکر کھائیں۔ ان کی رائے بنتی ہے کہ جب انسان کو ہی کھانا ہے تو ماں بیٹی کا تندرست جسم پکاکر کھایا جائے، لیکن جب یہ لڑ رہے ہوتے ہیں تب ماں بیٹی وہاں سے نظر بچاکر بھاگ جاتی ہیں۔ اس طرح وہ اذیتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آنند مٹھ پہنچ جاتی ہیں۔
آنند مٹھ گیروا(زعفرانی) لباس اختیار کئے ہوئے سادھووؤں کا مٹھ ہے۔ یہاں ماں بیٹی کو دودھ پینے کے لیے دیا جاتا ہے،لیکن ماں صرف اپنی بیٹی کو دودھ پلاتی ہے۔ ایسا وہ ہندو مذہبی رسوم کی وجہ سے کرتی ہے اور خاوندپرستی کے فرض کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے شوہر کا نام بھی نہیں لیتی۔ لیکن اس کی باتوں سے اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ وہ مہیندر کی بیوی ہے۔ بہت اصرار کرنے پر صرف پانی پیتی ہے اور یہاں بھی مذہب کی تعمیل کرتے ہوئے سادھو کے پیر سے پانی کو پاک کیا جاتا ہے۔
ناول کے مطابق جس وقت کی یہ کہانی ہے اس وقت وہاں عوام کی حفاظت کا کام بے رحم اور محسن کش میر جعفر کے ہاتھوں میں تھا جو افیون کھاکر پڑا رہتا ہے۔ یہ وہی جعفر ہے جو تاریخ میں اپنی غداری کے لیے مشہور ہے۔ اس کو رابرٹ کلائیو کا گدھا بھی کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر بھی اس سلسلے میں بہت مشہور ہے کہ ؛
جعفر از بنگال، صادق از دکن
ننگ دین، ننگ ملّت، ننگ وطن
خیر یہ اضافی بات تھی ۔ لیکن اس کا تذکرہ یوں لازم تھا کہ ناول میں تمام مسلمانوں کو میر جعفر ہی سمجھا گیا ہے۔
کہانی آگے بڑھتی ہے اور مہیندر کو تلاش کیا جاتا ہے‘ جہاں پہلی بار بھوانند بندے ماترم گاتا ہے۔
بعد میں مہیندر کے پوچھنے پر بندے ماترم کا مطلب بھی سمجھایا جاتا ہے کہ’ماتا‘ کون ہیں؟ کالی ماں کے سامنے بھی اس گیت کو گایا جاتا ہے اور اس کا مطلب الگ سے سمجھایا جاتا ہے کہ یہ کالی کیوں ہے؟ آگے کی کہانی میں مٹھ کا اصل مطلب سامنے آتا ہے کہ یہاں وہ لوگ ہیں جو زندہ شہادت پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ گھر سنسار تیاگ کر بھکتی میں لین ہیںٗ اور یہ بھکتی ایک طرح کی جنگ بھی ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہے۔ ناول میں بندے ماترم کو منترکی طرح الگ الگ موقعوں پر گایا جاتا ہے اور جنگ کے دوران اس کو نعرے کے طور پر بھی بلند کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آخری رسومات کی ادائیگی میں بھی بندے ماترم کا جاپ کیا جاتا ہے۔ آنند مٹھ میں اس بات کی بھی تمنا کی جاتی ہے کہ کب وہ دن آئیں گے جب مسجدیں گریں گی اور مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگی۔
مہیندر کو بھی اس مٹھ میں شامل کیا جاتا ہے‘ جس کی کہانی میں مذہبی معجزوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ جیسے مہیندر کی بیوی مہیندر کے لیے مر جاتی ہے لیکن وہ مرتی نہیں ہے۔ جگہ جگہ معجزہ اور مذہبی کتابوں کی طرح واردات واقع ہوتے ہیں۔ اس طرح کہانی مذہبی سیاق و سباق کو پیش کرنے لگتی ہے۔ اس کتاب میں جیوانند اور شانتی کی کہانی بھی ہے۔ یہ کہانی اصل میں ایک عورت کی بہادری اور میاں بیوی کے ایک ساتھ رہنے کے باوجود قربانی کے جذبے کی ناقابل یقین روداد ہے۔ یہاں ان کاعشق اوران کی محبت ایک دوسری سطح پر ہے۔ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آنند مٹھ اپنے کچھ حصوں میں عشقیہ داستان بھی ہے۔
اب ہم الف لیلہ کے عاشق ہوں یا ہماری سمجھ بچوں جیسی ہوبات یہ ہے کہ اس طرح کی الگ الگ کہانیوں میں جگہ جگہ بندے ماترم کا مذہبی سیاق و سباق خوب روشن نظر آتا ہے۔ آنند مٹھ کو پورا پڑھ جائیے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کس نظریے کے لوگوں کی قومی کتاب ہے۔ اب کچھ سوال کہ یہ کتاب 1857 کے بعد لکھی گئی اور اس وقت تک یہ سب کو معلوم تھا کہ مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف کس طرح کا کام کیا۔ اس وقت انگریزوں کا ساتھ دینے والے کون تھے۔ اگر یہ کتاب ظالم مسلمان بادشاہ کے خلاف ہے تو اس میں عام مسلمانوں کو کیوں لوٹا گیا ہے۔ کیوں ان کے گھر جلائے گئے ہیں۔ انگریزوں کی کھلی حمایت کیوں کی گئی۔ سب سے اہم سوال اس کتاب کو پڑھ کر نہیں لگتا کہ اس میں ملک کو صرف ماں کا درجہ دیا گیا ہے کتاب کے حساب سے ایسا کوئی رشتہ نہیں جس کو ملک کے ساتھ نہیں جوڑا گیا۔ پھر صرف ماں کا تصور ہی کیوں؟
جانے کیا سمجھ کر اس ملک میں بندے ماترم کو قبول کیا گیا جبکہ ناول میں جگہ جگہ اس کو مذہبی آستھا کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ اس مبینہ قومی گیت سے کچھ بند ہٹانے کے بعد بھی اس بات کا کیا جواز ہے کہ ناول میں صرف بندے ماترم لفظ کو الگ الگ وقتوں میں مذہبی احساس کی شکل میں استعمال کیا گیا ہے۔ کسی خاص زمانے کی تاریخ میں کچھ ہوتا ہے توبھی اس بات کا کیا جواز ہے کہ مسلمان بھگوان کو نہیں مانتے؟ ہندوستان کو ہمیشہ سے علم و ادب کا گہوارہ کہا گیا لیکن اس کتاب کے مطابق صرف انگریز اور ان کی انگریزی تعلیم ہی سچے سناتن مذہب کی تبلیغ و اشاعت میں کردار ادا کر سکتی ہے۔
آنند مٹھ کے کچھ خاص حصے جو موجودہ ہندوستان کی تصویر بھی ہیں :-
یہاں آنند مٹھ سے کچھ خاص حصے نقل کیے جارہے ہیں ‘آپ ان حصوں کو غور سے پڑھیے ۔ان میں آج کی سیاسی تمثیل موجود ہے ۔ شاید ان اقتباسات کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہو کہ ہندوستان کو آنند مٹھ بنانے کی تگ ودو میں مسلمانوں کے چہرے پر کبھی دہشت گرد لکھ دیا جاتا ہے کبھی موب لنچنگ کی جاتی ہے اور کبھی وندے ماترم جیسے ہندوتووادی منتر کے پس پردہ ان کی حب الوطنی کو نشانہ بنایا جاتا ہے :
- ”[آنند مٹھ کے برہمچاریوں] کو جہاں کہیں بیس پچیس ہندو بھی نظر آتے ان سے مل کر گاؤں پر حملہ کرتے اور مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا دیتے۔ مسلمانوں کو جان کی پڑ جاتی اور ادھر ادھر بھاگ جاتے۔ برہمچاری ان کا مال و متاع لوٹ لیتے اور ہندوؤں میں تقسیم کر دیتے۔ جب گاؤں والوں کو لوٹ کی چاٹ پڑ جاتی تو وہ آنند مٹھ میں آ جاتے اور وشنو کے چرن سپرش کرکے بچّوں میں شامل ہو جاتے۔“
- ”کئی سنیاسی دیہات میں اور کئی شہروں میں گھس گئے تھے اور جو کوئی ملتا تھا یا تو اس سے بندے ماترم کہلواتے تھے نہیں تو تہہ تیغ کر دیتے تھے۔ “
- ”کئی مسلمانوں نے تو ڈاڑھیاں منڈوا دیں جسم پر بھبھوت رما لی اور ہری نام گانا شروع کر دیا۔ جب کبھی کوئی ہندو اُن کے پیچھے پڑتا تو وہ اُردو میں کہہ دیتے ہم ہندو ہیں۔ مارے ڈرکر جوق در جوق مسلمان کلکتہ کی طرف بھاگ گئے۔“
- ”ہندو لوگ سنیاسیوں کے آنے پر خوش تھے اور کہہ رہے تھے ’ہے درگا ماتا! ہندوؤں کا راج ہو جائے“۔ مسلمان اللہ اکبر اللہ اکبر کہہ رہے تھے کہ یا اللہ کیا قرآن شریف اتنی مدت کے بعد جھوٹا ہونے لگا ہے؟ ہم پانچ وقت نماز پڑھتے رہے اور پھر بھی ان تلک والے ہندو۔۔۔۔۔۔کو فتح نہ کر سکے۔ حیف یہ دنیا محض دھوکا ہے!“
- ”میں تمہیں رشی منیوں کا مذہب بتاتا ہوں۔ 33 کروڑ دیوتاؤں کی عبادت ستیہ سناتن دھرم نہیں۔ یہ صرف نچلے درجے کے عام لوگوں کا دھرم ہے۔ اصلی ستیہ سناتن دھرم جس کو ملیچھوں نے ہندو دھرم کا نام دے رکھا ہے اس کے نیچے آکر دب گیا ہے۔ اصلی ہندو دھرم گیاناتمک(تعلیمی) ہے کرماتمک (عملی) نہیں۔ گیان دو قسم کا ہوتا ہے۔ بیرونی اور اندرونی۔ اندرونی گیان ہندو دھرم کا بڑا حصہ ہے مگر جب تک بیرونی گیان نہ ہو اندرونی گیان حاصل نہیں ہو سکتا۔“
- ”اس دھرم کا اُدھار کرنے کے لیے بیرونی گیان کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں یہ گیان موجود نہیں۔ نہ ہی ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جو لوکک ودیاکا پرچار کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ اس لئے ضروری ہے کہ باہر سے لاکر اس ودیا کو ملک میں پھیلایا جاوے۔ انگریز لوگ دنیاوی علوم کے ماہر ہیں اور ان کے سکھانے کی قابلیت رکھتے ہیں اسی لئے بھگوان کو یہی منظور ہے کہ انگریز ہمارے راجا بنیں۔ انگریزی تعلیم کے ذریعے دنیاوی علوم حاصل کرکے ہم لوگ روحانی مسائل کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ پھر ستیہ سناتن دھرم پھیلانے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔“
- ”تمہارا مقصد اب پورا ہو گیا ہے۔ تم نے ماتا کی کیا یہ کم سیواکی ہے کہ انگریز راج جاری کر دیا ہے؟ اب لڑنا بھڑنا بند کر دو لوگوں کو کھیتی باڑی کرنے دو تاکہ ملک میں رونق اور آبادی ہو۔“
- ”اور چتربھجی مورتی نے مجھ سے کہا اپنے خاوند کو چھوڑ دو اور میرے پاس آ جاؤ اور اس عورت کی طرف ہاتھ کرکے کہا یہ تم سب کی ماں ہے۔ تمہارا خاوند اس کی خدمت کرے گا۔ ……… یہ سن کر میں رو پڑی کہ میں شوہر کو کس طرح چھوڑ سکتی ہوں؟ پھر وہی صاف اور شیریں مُرلی کی سی آواز آئی میں ہی پتی ہوں میں ہی ماتا ہوں میں ہی پتا ہوں میں ہی بیٹا ہوں میں ہی بیٹی ہوں میرے پاس آ جاؤ۔“
- ”پھر مسلمانوں اور انگریزوں میں فرق کس بات کا ہے؟ فرق یہ ہے کہ انگریز مر جائے گا مگر میدان جنگ سے نہیں بھاگے گا۔ مسلمان بندوق چلتے ہی بھاگ جاتا ہے اور شربت مانگنے لگ جاتا ہے۔“
- ”گھروں میں عورتوں کو امان نہیں۔ بچوں کو ماں کے پیٹ میں پناہ نہیں۔ کیونکہ ماؤں کے پیٹ چاک کروا کر بھی بچّے نکال لیے جاتے ہیں۔ ہرایک ملک میں بادشاہ کا رشتہ رعایا سے یہ ہوتا ہے کہ وہ رعایا کی حفاظت کرے۔ لیکن ہمارا مسلمان بادشاہ کیا وہ ہماری حفاظت کرتا ہے؟ دھرم ہمارا ناش ہو گیا ہے۔ ذات پات ہماری اڑ گئی ہے۔ ننگ و ناموس ہمارے پر پانی پھر گیا ہے۔ اور اب ہماری جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ “
- بے شک ہمارا مقصد راج حاصل کرنے کا نہیں۔ ہم صرف مسلمانوں کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان بھگوان کے دشمن ہیں۔“
- ”کپتان صاحب ہم تم کو جان سے نہیں ماریں گے۔ انگریز ہمارے دشمن نہیں مگر یہ تو بتاؤ کہ تم مسلمانوں کے دوست بن کر ہم پر کیوں حملہ آور ہوئے؟ میں تمہاری جان بچا دوں گا مگر تمہیں میری قید میں رہنا ہوگا۔ انگریز ہمارے دوست ہیں اور ہم ان کے خیر خواہ ہیں۔“
یہ ہیں آنند مٹھ کے اقتباسات ‘ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ بندے ماترم میں ہندوستان کتنا ہے ؟خیراس کتاب کو ہندو مذہب کے لحاظ سے صحیح مان بھی لیا جائے تو ہندوؤں کی مذہبی عقیدت میں دوسرے مذہب کے لوگ کیوں شریک ہوں‘اور کیا اس ستیہ سناتن دھرم میں دلتوں کے لیے کوئی جگہ ہے؟
عدالت کو اسٹرانگ ریزن چاہئے تو میرے خیال میں اس کتاب کی تشریح ہی ایک بڑی وجہ ہے۔ مترجم اور پبلشر کی بے جا وضاحت کی پول کئی جگہ کھلتی نظر آتی ہے۔ سیاسی بیان کی طرح جیسے مبارک موقعوں پر دلتوں کو’ ہندو‘اور پسماندہ مسلمان کوبھی ’مسلمان‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ناول میں بھی منھ میں رام بغل میں چھری کی طرح ذات پات کا فریب کھل جاتا ہے۔یہ سب جانتے ہیں کہ دلت اور پسماندہ لوگوں کو ایک ہی مذہبی فریم میں رکھنے کا مقصد سیاسی ہے۔ان باتوں سے قطع نظر حد تو یہ ہے کہ میر جعفر کی عیب جوئی کے نام پر تمام مسلمانوں کو ایک خاص نظریے سے دیکھنے والے اس ناول کا اپنا ہندوتووادی نظریہ میر جعفر سے الگ نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں آخرمیں کیا یہ نہیں کہنا چاہئے کہ یہ ہندوستان ہے صاحب آنند مٹھ نہیں۔
ہمیں آنند مٹھ سے دقت ہے کیونکہ اس میں بھی بندے ماترم نہیں کہنے والوں کو تلوار کی دھار پر حلال کیا گیا ہے۔
ہمیں آنند مٹھ سے دقت ہے کیونکہ اس میں انگریزوں کی حمایت کی گئی ہے۔
ہمیں آنند مٹھ سے دقت ہے کیونکہ اس میں کسی بھی مسلمان کے لئے ایک اچھا لفظ نہیں ہے۔
ہمیں آنند مٹھ سے دقت ہے کیونکہ اس کتاب سے کچھ خاص لوگوں کے اغراض و مقاصد پورے ہوتے ہیں۔
ہمیں آنند مٹھ سے دقت ہے کیونکہ اس میں خاص طرح کے ہندوؤں کے علاوہ کسی کے لیے جگہ نہیں ہے۔
اتنی ساری باتوں کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو بھی بندے ماترم کہنا چاہئے۔
اس لیے انقلاب زندہ باد، ہندوستان زندہ باد!
(مضمون نگار اُردو میں نوجوان فکشن نویس ‘نقاد اور مترجم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ہندی میں’خیال بستی‘ ان کا بلاگ ہے)