دہشت گردی کی کاروائی میں دوہرا پیمانہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے جرم میں ملوث ہندو شدت پسند وں کو اکثربے قصور مانا جارہا ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اکثریتی طبقہ سے متعلق لوگ قطعی اس طرح کی کاروائی انجام نہیں دےسکتے ۔ وہیں دوسری جانب ان معاملوں میں بات جب کسی اقلیتی اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کی آجائے تو انھیں فوراً ہی قصوروار مان لیا جاتا ہے۔
مالیگاؤں بم دھماکے کے لیفٹیننٹ کرنل شری کانت پروہت کو عدالت عظمیٰ نے ضمانت دے دی ہے ۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ پروہت کو ایک” ہیرو”اور “دیش بھکت” کے طورپر پیش کیا جا رہا ہے۔ بھگوا شدت پسندوں کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ پروہت جیل میں اس لیے تھے کہ سابقہ نام نہاد سیکولر حکومت مسلمانوں کو خوش کرنا چاہتی تھی۔سوشل میڈیا پر چل رہی بحث کو دیکھا جائے تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھگوا شدت پسند وں نے معاملے کی سماعت ختم ہونے سے قبل ہی پروہت کو “بے قصور” مان لیاہے اور بہتیروں نے ان کو گرفتار کرنے والے پولیس افسران کے خلاف تادیبی کاروائی تک کرنے کا مطالبہ تک کردیا ہے۔
قانون کے مطابق جب تک کسی پر عدالت کی جانب سے جرم ثابت نہیں ہو جاتا تب تک ہر کسی کو اسے بے قصور سمجھنا چاہیے۔ اگر یہی منطق آج بھگوا شدت پسند کرنل پروہت کے معاملے میں استعمال کر رہے ہیں تو ان کو ان تمام قیدیوں کو بھی بے قصور ماننا چاہیے جو برسوں سےدہشت گردی کے کسی نہ کسی جرم میں ملزم بنا کر جیل میں بند کیے گئے ہیں۔ معتبر اعداد و شمار کو مانیں تو جیل میں قید زیرسماعت ملزموں کی تعداد مسلمان، دلت، آدی واسی اور دیگر پسماندہ طبقات سے ان کی آبادی کے تناسب کہیں زیادہ ہیں۔ جرم ثابت نہیں ہونے کی وجہ سے کرنل پروہت بے قصور ہیں تو کیا لاکھوں کی تعداد میں مقید ملزمین کو بھی بے قصور اور معصوم سمجھا جائے؟ کیا ان کے خلاف جھوٹے مقدمے دائر کرنے والے پولیس انتظامیہ کو بھی سزا نہیں ملنی چاہیے؟
حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کی کاروائی میں دوہرا پیمانہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے جرم میں ملوث ہندو شدت پسند وں کو اکثربے قصور مانا جارہا ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اکثریتی طبقہ سے متعلق لوگ قطعی اس طرح کی کاروائی انجام نہیں دےسکتے ۔ وہیں دوسری جانب ان معاملوں میں بات جب کسی اقلیتی اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کی آجائے تو انھیں فوراً ہی قصوروار مان لیا جاتا ہے۔ مسلمان اور دیگر کمزور طبقات کو گرفتار کرنے والے پولیس افسران کی تعریف کی جاتی ہے اور ان پر تمغوں کی بارش کی جاتی ہے، وہیں ہندودہشت گرد عناصرپر کاروائی کرنے والے پولیس افسران کو ایک خاص سیاست سے متعصب سمجھا جاتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے بستر کے آئی جی پی کلوری کو آدی واسیوں کے خلاف زیادتی کرنے اور اپنی طاقت اور اختیار کا بیجا استعمال کرنے کے لیے سمن بھیجا تھا۔ آج کرنل پروہت کو گرفتار کرنے والے پولیس افسران کے خلاف تادیبی کاروائی کا مطالبہ کرنے والے یہی شدت پسند عناصر کلوری کو سچا دیش بھکت مان رہے ہیں۔
کرنل پروہت گزشتہ نو سالوں سے جیل میں تھے اور اس کی ضمانت کی عرضی کو بمبئی ہائی کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔ اس کے بعد پروہت نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پروہت پر الزام ہے کہ سال 2008 میں مہاراشٹر کے ناسک ضلع کے مالیگاؤں میں بم دھماکے میں اس کا رول تھا۔ اس دھماکے میں7 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جب پولیس نے چارج شیٹ داخل کی تو اس نے کرنل پروہت کو آر ڈی ایکس مہیا کرانے کا قصوروار پایا۔اس کی ساتھی پرگیہ ٹھاکر نے اپنی موٹر سائیکل کا استعمال دھماکہ کو انجام دینے کے لیے کیا تھا۔ نامور صحافی دھیریندر جھا نے اپنی حالیہ مطبوعہ کتاب “شیڈو آرمیز” (Shadow Armies) میں لکھا ہے کہ کرنل پروہت کا تعلق ساورکر کے نظریات پر مبنی تنظیم ابھنو بھارت سے ہے، جس سے منسلک اہم منتظم سمیر کلکرنی کا نام بھی مالیگاؤں بم دھماکے میں شامل ہے۔ کلکرنی آر ایس ایس سے تعلق رکھتا ہے اور اس طرح کرنل پروہت، ابھنوبھارت اور آر ایس ایس کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں؟
مالیگاؤں بم دھماکے کو لے کر جب اے ٹی ایس نے چارج شیٹ داخل کیا تو اس نے ایک بڑے تعصب کو اجاگر کیا۔ یہ تعصب کسی خاص مذہب اور کسی خاص مذہبی طبقے کے خلاف جڑا ہوا ہے جو دہشت گردی سے جڑے ہوئے تمام واقعات کو اسی طبقے کے سر پھوڑ دیتا ہے۔ اے ٹی ایس کے ذریعے مالیگاؤں معاملے میں داخل شدہ چارج شیٹ نے اس بات کا انکشاف کیا کہ دہشت گردی کے تار کہیں نہ کہیں بھگوا شدت پسند عناصرسے بھی جڑے ہوئے ہیں جو حکومت، پولیس اور فوج کی مدد سےتشدد اور غیر قانونی کاروائیوں کو ایک لمبے وقت سے انجام دے رہے ہیں۔ اس طرح کچھ لوگوں نے بھگوا دہشت گردی (SaffronTerror) کی اصطلاح رائج کی، جس کے بعد آر ایس ایس، بی جے پی اور ان کے نظریے کے حامل میڈیا اور پولیس سے وابستہ افراد واویلا مچانے لگے ۔ اکثریتی طبقے کا تعلق دہشت گردی کی کسی بھی کاروائی سے ہوسکتا ہے یہ بات ان کے حلق کے نیچے نہیں اتر رہی تھی۔
دہشت گردی کے الزامات میں بے قصور قیدیوں کے انسانی حقوق کی لڑائی لڑ رہی منیشا سیٹھی سے کرنل پروہت کی ضمانت سے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ کسی بھی ملزم کو ضمانت دیے جانے کے خلاف نہیں ہے۔ انھوں نے افسوس ظاہر کیا کہ ایک بار کسی کا نام دہشت گردی سے جڑ جائے تو اسے عدالت ضمانت دینے سے کتراتی ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں ملزمین سال در سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کرنل پروہت نے عدالت میں یہ بیان دیا ہے کہ وہ فوج کے لیے جاسوسی کر رہا تھا اور اسی وجہ سے وہ کچھ خاص تنظیموں سے وابستہ تھا، منیشا سیٹھی نے کہا کہ پروہت کی یہ دلیل غیر منطقی ہے۔ کیوں کہ اگر ان تنظیموں کا پروہت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو پھر یہ تنظیمیں کرنل پروہت کو ہر طرح کی قانونی مدد کیوں دے رہی ہیں؟
مالیگاؤں بم دھماکے کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے مگر انسانی حقوق سے وابستہ کارکنان اور ماہرین کا ماننا ہے کہ کرنل پروہت کو ملی ضمانت سے بھگوا شدت پسند تنظیموں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ سیاست میں بھگوا نظریے کے تسلط کا اثر دیگر ادارے پر بھی دکھتا ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تنظیمیں حکومت پر مزید دباؤ ڈالیں گی کہ وہ دہشت گردی کے الزام میں ملوث دیگر بھگوا شدت پسندوں کی رہائی کی راہ ہموار کریں گی۔
(مضمون نگار جے این یو کے شعبہ تاریخ سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر