اگر حکومتیں ناسمجھ نہیں تو پھر شاید بےحد شاطر ہو گئی ہیں۔ وہ یہ سوال بحث میں نہیں آنے دینا چاہتی ہیں کہ آخر اب ہرسال سوکھا، سیلاب اور ژالہ باری کیوں ہونے لگی ہے؟
ہماری زندگی کاسب سے بڑا حصہ اب سیلاب، سوکھا، طوفان، سنامی، گردباد، ژالہ باری سے جوجھنے میں جانے لگا ہے۔ موسم تو خوشی کا لمحہ لاتا رہتا رہا ہے۔ ساون، سردی اور موسم گرما؛ ان موسموں کے درمیان کتنے موسم پوشیدہ ہیں ان موسموں سے سائنس بھی جڑی ہوئی ہے اور ہماری زندگی بھی ؛ لیکن ہر موسم آج کل کوئی نہ کوئی پیغام غم لےکر آتا ہے۔انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس اینڈ ریڈ کریسینٹ سوسائٹیز نے 18 اگست 2017 کو بتایاکہ ، ‘ جنوبی ایشیا میں غیر معمولی مانسون کی وجہ سے انسانی زندگی میں بحران پیدا ہوگیا ہے۔ تقریباً 1.6 کروڑ لوگ اس مصیبت کی زد میں ہیں۔ سینکڑوں لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ یہ اب تک کی سب سے بڑی مصیبت بنتی جا رہی ہے۔ ‘بحران در اصل مانسون کے بگڑجانے کا نہیں ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ تباہی کے بعد سب کچھ کھوکر ہم اگلی تباہی کی تیاری میں جٹ جاتے ہیں۔
کیا ہم مصیبتوں سے عادی ہونے کی ترکیب کی تلاش میں ہیں؟ کچھ خبروں کے مطابق بہار کی 1.38 کروڑ آبادی سیلاب کی زد میں ہے۔ بہار میں تقریبا ًہرسال سیلاب آتا ہے۔ سال 2009 میں وہاں 434 لوگ مرے تھے۔سال 2013-14 میں بہار سوکھے کی زد میں تھا اور تب 12564.04 کروڑ روپے کی مدد مانگی گئی تھی۔ سال 2014-15 میں بہار میں ژالہ باری ہوئی، تب 2041.10 کروڑ روپے کی مدد مانگی گئی۔ اس سال بہار میں سیلاب کی وجہ سے صورت حال سنگین ہے۔
اسی طرح کرناٹک میں 2013-14 میں سوکھا اور ژالہ باری ہوئی۔ 878 کروڑ روپے کی ‘ راحت ‘ مانگی گئی۔ اگلےسال وہاں پھر یہی حال ہوا اور 930 کروڑ روپے کی مدد مانگی گئی۔ 2015-16 میں کرناٹک سوکھے کی زد میں آ گیا اور 5248 کروڑ روپے کی راحت کی ضرورت پڑی۔سال 2013-14 میں مدھیہ پردیش ژالہ باری کی زدمیں تھا۔ پھر اگلےسال سیلاب کی زد میں آیا۔ سال 2015-16 میں سوکھے کی زدمیں آ گیا۔ ان سالوں میں 11500 کروڑ روپے کی راحت مانگی گئی۔آندھر پردیش، اتّر پردیش، تمل ناڈو اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں کی حالت بھی یہی تھی۔ اس بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کہ سال 2013-14 میں مصیبتوں سے راحت کے لئے 24838.96 کروڑ روپے، پھر سال 2014-15 میں 42021.71 کروڑ روپے اور سال 2015-16 میں 52765.22 کروڑ روپے کی رقم مانگی گئی۔ہماری حکومتیں ‘ راحت کے بجٹ ‘ کے ذریعے مصیبتوں سے نپٹنا چاہتی ہیں۔ حکومتیں اس حد تک ناسمجھ ہو گئی ہیں کہ بارش کی کثرت اتنی نہیں ہے کہ سیلاب آئے، اصل میں پانی کے بہنے کے راستے بند ہو جانے کی وجہ سے اس طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔جب پہاڑ اور جنگل نہ ہوںگے تو بارش کس کے گھر آئےگی۔ ہمارے گھر تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ اگر ناسمجھ نہیں تو پھر شاید حکومتیں بےحد شاطر ہو گئی ہیں۔ وہ یہ سوال بحث میں نہیں آنے دینا چاہتی ہیں کہ آخر اب ہرسال سوکھا، سیلاب،ژالہ باری کیوں ہونے لگے ہیں؟اگر یہ سوال معاشرہ کے سامنے آ گیا تو ہمیں اپنی ترقی کی اس تعریف کو بدلنا پڑےگا، جو قدرت کی آٹھوں پہر قطع وبرید میں مصروف ہے۔
ہماری تعلیم نے ہمیں اپنے ماحول اور اپنے ارد گرد سے بہت دور کر دیا ہے۔ جنگل، پہاڑ اور آبشار ہمیں تصوف کا موضوع لگتے ہیں، لیکن اس سے پہلے کہ یہ جغرافیائی موضوعات ہیں اور روحانیت جغرافیہ کا موضوع بھی ہے۔جب ان مناظر کو میں نے جغرافیہ کے ساتھ جوڑا تو ان پہاڑوں کی اونچائی سے زیادہ،گہرائی کا اندازہ ہوا۔ اصل میں آج ہندوستان، زمین کے جس حصے پر ہے (یعنی ایشیا میں) بہت سال پہلے یہ یہاں نہیں تھا۔22.5ملین سال پہلے یہ آسٹریلیا کے ساحل کے ارد گرد تیرتا ایک جزیرہ تھا۔ ٹیتھیس مہاساگراسے ایشیا سے الگ کرتا تھا۔ یہ ایشیا سے منسلک نہیں تھا۔ میں نے دھولاگیری انچل میں جن اونچے پہاڑوں کو دیکھا تھا، وہ لاکھوں سال پہلے کہیں وجود میں تھے ہی نہیں۔
ہندوستان تب گونڈوانا یا گونڈوانابھومی کا حصہ تھا۔ گونڈوانا زبھومی میں شامل تھے، جنوب کے دو بڑے براعظم اور آج کے انٹارکٹکا، میڈاگاسکر، ہندوستان، افریقہ اور جنوبی امریکہ جیسے ملکوں سے ملکر بنی ہوئی زمین ہے۔گونڈوانا انچل کا وجود 51 سے57 کروڑ سال پہلے مانا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کے سائنس داں ایڈورڈ سوئیس نے یہ نام دیا تھا، جس کا مطلب ہوتا ہے گونڈوں کا جنگل۔ایک بات اور جاننے لائق ہے کہ آج جس زمین، جس سر حدی لکیر اور سیاسی نقشے کے لئے لوگ لڑ رہے ہیں، وہ پہلے ایسا نہیں تھا اور آگے بھی ایسا نہیں ہوگا۔ زمینی خطہ بدلتے رہے ہیں اور آگے بھی بدلتے رہیںگے۔پھر یہ تبدیلی چاہے ایک یا دو کروڑ سالوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ یہ کیسا راشٹر واد، جبکہ ملک کی کوئی مستقل سر حدی لکیر ہی نہیں ہے۔ بس جنگل، پہاڑ، ہوا، بوند کی بات کیجئے، وہی ہمارے وجود کو زندہ رکھیںگے ؛ ہمارے نہ ہونے کے بعد بھی۔
اپنی اس زمین کی اوپری سطح کو زمینی سطح کہتے ہیں۔ اس میں الیومینیم، سلیکان، لوہا، کیلشیم، سوڈیم، پوٹاشیم اور آکسیجن جیسے عناصر ہوتے ہیں۔ زمینی سطح کے نیچے کی سطح کو قشر ارض(Lithosphere) کہتے ہیں۔ یہی براعظموں اور سمندروں کوبنیاد عطاکرتا ہے۔ اس کی موٹائی عموما 100 کلومیٹر یا اس سے کچھ زیادہ ہو سکتی ہے۔اس سطح میں مضبوط چٹانیں ہوتی ہیں۔ زمین میں قشر ارض(Lithosphere) کے نیچے کی تہہ کو سطح مضمحل کہتے ہیں۔ یہ پرت مائع یا ترل ہوتی ہے۔ مضبوط چٹانوں والا قشرارض اسی پرت پر تیرتا رہتا ہے۔قشرارض میں بہت مضبوط چٹانیں ہوتی ہیں، جو طشتریوں یا پلیٹ کی شکل میں ہوتی ہیں۔ یہ طشتریاں (جن کو ٹیکٹونک پلیٹ کہتے ہیں) غیر متحرک نہ ہوکر متحرک ہوتی ہیں یعنی ارض مرکزی واردات اور تہوں کی کرداری خصوصیات کی وجہ سے کھسکتی رہتی ہیں۔
ٹیکٹونک پلیٹوں کی تیز روانی کی وجہ سے کئی براعظم ملکر تین لاکھ سال پہلے عظیم پین جیا براعظم (اس وقت کا سب سے بڑا براعظم، جو کئی جزیروں سے ملکر بنا تھا) بن گئے تھے۔حقیقی معنوں میں ہندوستان تب افریقہ سے سٹا ہوا تھا۔ 20 کروڑ سال پہلے زمین کے اندر ہیٹ ٹرانسمیشن کے نتیجے میں ہونے والی ارضیاتی مظاہرہ قدرت کی وجہ سے یہ براعظم ٹوٹنے لگا اور چھوٹےچھوٹے جزیروں میں بٹکر الگ الگ سمتوں میں جانے لگے۔تب 8.40 کروڑ سال پہلے ہندوستان نے شمال کی جانب میں بڑھنا شروع کیا۔ اپنے اس مقام سے شروع کر کے اس نے چھ ہزار کلومیٹر کی دوری طے کی اور 4 سے 5 کروڑ سال پہلے ایشیا کے اس حصے سے ٹکرایا۔اس ٹکّر کی وجہ سے زمین کا وہ حصہ اوپر کی طرف اٹھنے لگا۔ دو براعظم کے ٹکرانے سے پلیٹیں ایک دوسرے پر چڑھ گئیں جس کی وجہ سے ہمالیہ بنا۔ ذرا غور کیجئے کہ اوپر اٹھنے کا مطلب کیا ہے؟ ان پہاڑوں پر سمندری جانوروں کی باقیات ملتے ہیں۔
ہمالیہ سریز کے پہاڑوں پر سمندری جانوروں کے باقیات … ان پہاڑوں کی اوپری سطح کے گرنے سے جو پتھر نکلتے ہیں، وہ بھی ایسے گول ہوتے ہیں، جیسے ندیوں یا بہتے پانی میں صورت اختیار کرلیتے ہیں، یعنی یہ حصہ کبھی نہ کبھی پانی میں رہا ہے۔مانا جاتا ہے کہ ہندوستان کا جغرافیائی خطہ زیادہ ٹھوس یا پتھریلا تھا اور ایشیا کا نرم، اس لئے ایشیا کا جغرافیائی خطہ اوپر اٹھنا شروع ہوا اور ہمالیہ پہاڑی سریز کی تخلیق ہوئی۔ دیگر دوسرے پہاڑوں کے مقابلے میں یہا ں کے پہاڑوں کی اونچائی زیادہ تیز رفتاری سے بڑھی اور یہ اب بھی ہرسال ایک سینٹی میٹر کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ان کی اونچائی بڑھتی رہےگی کیونکہ ہندوستانی عماراتی پلیٹ (ٹیکٹونک پلیٹ) زلزلوں کی وجہ سے اب بھی سست رفتار ی سے لیکن لگاتار شمال کی طرف کھسک رہی ہے ؛ یعنی ہمالیہ ابھی اور اونچا ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ سے ہمالیہ کی اونچائی 1 سینٹی میٹر کی رفتار سے نہیں بڑھ رہی تھی۔ اگر یہ رفتار ہوتی تو 4 کروڑ سال میں ہمالیہ کی اونچائی 400 کلومیٹر ہوتی۔ ماحولیاتی وجوہات اور تباہ کن انسانی ترقی کی بیوقوفی کے چلتےتعمیری پلیٹوں میں زیادہ سرگرمی ہو رہی ہے اور زلزلوں کے نقطہ نظر سے یہ علاقہ بہت حساس ترین ہو گیا ہے۔
قدرت مخالف ترقی ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ کسی کو اشاروں میں بات سمجھ آتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑوں کو کاٹنے، ندیوں کو باندھنے اور جنگلات کو مٹانے کا مطلب ترقی نہیں ہے، یہ خود کو مٹانے کی طبعی تیاری ہے۔جب کسی جدید گاڑی میں سپاٹ سڑک کے راستے ہم سیاحت کے لئے نکلتے ہیں، تب کیا ہمیں کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ زمین کے جس حصے پر ہم چل رہے ہیں، اس کی عمر4 سے 5 کروڑ سال کی ہو چکی ہے۔وہ پہاڑ دو براعظم کی ٹکّر کی وجہ سے پیدا ہوا اور یہ کبھی پانی میں ڈوبا رہا ہوگا؟ یہ تب تک پتہ نہیں چلتا جب تک ہم اس کے ساتھ اپنے اندر کےعناصر کو جوڑ نہیں لیتے۔ اپنے اندر کے وہی عناصر، جن کو ہم صبح شام پنچ عناصرکہتے ہیں۔سال 2013 میں اتّراکھنڈ کے کیدارناتھ میں سیلاب آیا تھا۔ خود تو دیکھانہیں پر سنا بہت اور تصویریں اور فلم بھی خوب دیکھیں۔ 300 گاؤں کے بہا لے جانے والی لہروں سے اس کے خوفناک منظر کا اچھی طرح سے اندازہ لگ گیا۔میں سمجھ نہیں پاتا تھا کہ پہاڑ پر سیلاب کیسے آئےگا؟ وہاں تو بارش کے پانی کو روکنے کے لئے کہیں کوئی رکاوٹ ہی نہیں ہیں۔ وہاں تو پانی آنا چاہئے اور بہہ جانا چاہئے۔ سیلاب اگر آئے تو بھی مسطح علاقوں میں آئے، پہاڑوں میں کیسے؟ لیکن بات اتنی سیدھی سی نہیں ہے۔
عام طور پر بادل بوندیں برساتا ہے، پر جب بادل پھٹتے ہیں تو دھارائیں برستی ہیں۔ تو مصیبت کی پہلی تیاری تو یہ ہوئی کہ موسم کے بدلنے، زمین اور آسمان کے رشتوں میں کڑواہٹ آنے (اب زمین آسمان کو گرمی سونپتی ہے اور زہرلی گیس بھی) سے بادل غصہ ہو رہے ہیں۔اب وہ بوندیں نہیں طوفان برساتے ہیں۔ یہی انہوں نے بدری ناتھ میں کیا۔ مصیبت کی دوسری تیاری ہم نے اتّراکھنڈ کے پہاڑوں میں کی، وہاں کے جنگل کاٹ دئے اور جلا دئے۔ اب پانی کی روانی کو کون روکےگا؟ یہ روانی باندھ سے نہیں رکنے والی۔ یہ روانی جلد ہی باندھ کو بھی بہاکے لے جانے والی ہے۔سال 2013 میں آئے سیلاب کو استثنا مانا گیا اور سب سوچنے لگے کہ مصیبت ٹل گئی، بھلے ہی 2-4 ہزار کی جان لےکر ؛ لیکن سال 2014 میں مصیبت پھر سے آئی،اس بار کشمیر کی وادی میں۔یہاں بھی وہی بات دل میں آئی کہ کشمیر تو پہاڑ پر بسا ہے، پانی آئےگا اور بہہکر نیچے چلا جائےگا۔ یہاں رکےگا تھوڑے، پر رک گیا اور ایسا رکا کہ بس نصف صدی کی طرح جم گیا لوگ کہہ رہے ہیں ساڑھے سات سال تک یہ سیلاب ہرروز دن اور رات ہمارے ساتھ رہنے والا ہے۔
شرینگر کی مثال لیجئے۔ یہ ایک کٹورے کی شکل میں بسا ہوا شہر ہے۔ جھیلم ندی اس کے بیچ سے گزرتی ہے۔ کہیں ایک آدھ حصہ تھا، جہاں سے زائدمقدار میں آیا پانی بہہکر نکل جاتا تھا۔وہاں سال 1902 میں ایسا سیلاب آیا تھا۔ پھر سیاسی اتھل پتھل ہوئی اور اب بھی چل رہی ہے۔ سب نے کہا کہ ترقی کریںگے، اس سے رکاوٹ آئےگی۔ بس اسی ترقی کے چلتے وہ نہریں اور اسٹریم پوائنٹ کو خارج کر دیا گیا تھا، جہاں سے شرینگر کا پانی باہر نکلتا تھا۔ وہاں عمارتیں بن گئی۔ سڑکیں بن گئیں۔ تو یہ چوتھی تیاری ہم نے کی کہ جب مصیبت آئےگی تو اس کے نکلنے کی جگہ بھی بند کر دیئے۔
ہم ترقی کا یہ نغمہ گاتے ہوئے خوش ہو رہے تھے کہ فطرت کو الو بنایا، بڑا مزہ آیا! پر یہ شبہ تھا آسام اور ارناچل پردیش میں بھی گزشتہ سال سیلاب آیا تھا اور کوئی دو لاکھ لوگ برباد ہو گئے۔اگلےسال پھر کشمیر کے بعد شمال مشرق میں سیلاب آگیا۔ یہ جان لیجئے کہ سیلاب یا سوکھا کسی بھی علاقے میں اگر انتہا کی حالت میں جا رہے ہیں اور بار بار پیش آرہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کچھ شدید طور سے گڑبڑ ہے۔یہ ایکٹ آف گاڈ نہیں ہے۔ یہ ایکٹ آف ہیومن بیئنگ ہے یعنی انسان کا کیادھرا۔ ہم اصل میں کسی کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے لئے اب بیمہ کرایا جاتا ہے اور حکومت معاوضہ دیتی ہے۔
راحت کاموں سے ندی کا سیلاب، آسمان سے برسنے والی قیامت اور ہمالیہ کی بڑھتی اونچائی کو کچھ سمجھ پائیںگے کیا؟ ہر سیلاب اب پہاڑوں کی ایک پرت کو بہا لے جاتا ہے۔ ہر سیلاب کھیت کی مٹی کے سب سے زندہ پرت کو اکھاڑکر لے جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار کی راحت یا معاوضے کا اب کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اگلےسال سیلاب نہ بھی آیا تو کھیتوں میں کیا اور کتنی پیداوار ہوگی؟ کس حکومت یا کمپنی میں اتنا دم ہے کہ وہ اتّراکھنڈ کے پہاڑوں کا از سر نو کرنے والامنصوبہ چلا سکے؟ یا کسان کے کھیتوں کے لئے اپنے کارخانے میں مٹی بنا سکے !
سیلاب اتنی بڑی مصیبت نہیں ہے، مصیبت یہ ہے کہ ہم دنیاوی تعمیر کی اصل کہانی اور اس کی سائنس کو جاننا نہیں چاہتے ہیں۔ جس دن ہم یہ جان لیںگے کہ ایک نیا گھر بناتے وقت جو باقیات ہم پھینک دیتے ہیں، وہ ملبہ نہیں، بلکہ ہمارے اپنے باقیات ہیں۔ ہماری زندگی کچھ سالوں کی نہیں، بلکہ کروڑوں سالوں کی ہے۔
(مصنف ایک سماجی محقق اور اشوکا فیلو ہے۔)
Categories: فکر و نظر