فکر و نظر

رویش کمار کا بلاگ : گرمیت سنگھ سرسا میں ہی رام رحیم نہیں بنتے ہیں، وہ کہیں بھی بن جاتے ہیں…

گرمیت سنگھ کے جیل جانے کے بعد کئی جگہ لکھا جا رہا ہے کہ غریب لوگ ان باباؤں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ یہ بکواس ہے۔

ram-rahim-pti-2

“کئی بارعورتوں کو  پیریڈ کی شروعات میں ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہےکہ گھر کی  مقدس جگہ پر ہوجاتا ہے۔ عموماً ایسی جگہ جہاں جانے کی مناہی ہے۔ جیسے رسوئی میں کام کرتے وقت یا پوجا گھر  میں صفائی کرتے وقت یا ایسے ہی کسی دیگر مقدس مقام پر جہاں ان دنوں خواتین کو نہیں جانا چاہئے۔ باورچی خانے کے کاموں میں شروع کے دنوں میں ہاتھ نہیں لگایا جاتا ہے لیکن یہ تو ایک سائکل ہے جو ہر ماہ ہونا ہے اور یہ آپ کے ہاتھ میں بھی نہیں ہوتا ہےاس لیے پورے سال آپ کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو اس کے گناہ کے  احساس سے بچنے کے لیے ایک دن ہوتا ہے رشی پنچمی کا۔ “

یو ٹیوب پر کئی بار ویڈیو کو آگے پیچھے کر جب آپ کے لئے اس ٹیکسٹ کو لکھ رہا تھا تب ہمارے وقت کی جدیدیت کے تمام دعوے گھور رہے تھے۔ چوٹی کے پہلے تین ہندی چینلوں میں سے ایک پر آنے والے پروگرام کا یہ ویڈیو ہے۔ نام لینا ضروری نہیں کیونکہ این ڈی ٹی وی انڈیا کو چھوڑ ہندی کے سارے چینل اس طرح کے پروگرام دکھاتے ہیں۔ تمام زبانوں کے سارے اخبار اور ویب سائٹ زائچہ سے لےکر ایسی باتیں چھاپتے ہیں۔ میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس طرح کے پروگراموں میں کیا بولا جاتا ہے، کیا تبدیلی آئی ہے، ان سے ہمارے معاشرہ کی کن پریشانیوں کی جھلک ملتی ہے۔

بابا نے پیریڈ کو لےکر جو اخلاقی درس دیا ہے، اس کو ان خواتین کی نظر سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا جو پیریڈ کو لےکر تمام روایتوں کو توڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔ حال ہی میں بی بی سی ہندی پر کئی مضمون چھپے ہیں جس میں خواتین نے ہندی میں پیریڈ کو لےکر اپنے تجربے ساجھا کئے ہیں۔ بہت سی خواتین کو یہ تو پتاہے کہ پیریڈ کو لےکر کئی طرح کی ممانعت (taboos) ہیں مگر ممکن ہے کہ کسی کو رشی پنچمی کی پوجا سے ‘ گناہ کے احساس ‘ سے آزادی کاقانون نہ معلوم ہو۔ چینلوں پر آنے والے یہ رنگین بابا جدید اسپیس میں کس طرح سے روایتوں کی دوبارہ تلاش  کر رہے ہیں اور پھر سے قائم کر رہے ہیں، دکھ رہا ہے۔ بابا جدیدیت کو بھی اتنی ہی سخاوت سے جگہ دیتے ہیں جتنی سخاوت سے روایت کے نام پر اس کے اندر کی بکواس چیزوں کو۔ وہ یہاں بغاوت کے لئے نہیں بیٹھے ہیں بلکہ ایک سیلس مین کی طرح ایک سو آٹھ مرض کی ایک دوا بیچ رہے ہیں۔

شام کو ہندی ٹی وی چینلوں کا ہجوم ‘ حفاظت ‘ کے سوال کو لےکر خواتین کو ‘ لبریٹ ‘ کرانے میں لگا ہوتا ہے، ان کو شہر کے اسپیس میں جگہ دلانے میں لگا ہوتا ہے، وہی ہجوم صبح صبح روایت کے نام پر انہی خواتین کو ‘ عدم تحفظ ‘ میں گاڑ رہا ہوتا ہے۔ یو ٹیوب پر موجود اس ویڈیو کی شروعات  میں سینٹری نیپکن کا بھی اشتہار آتا ہے۔ یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے کیونکہ کئی ویڈیو میں بالوں کے سنوارنے کی مصنوعات کے بھی اشتہار آتے ہیں۔ بابا بتا رہے ہیں کہ گھر کے کس کونے میں پیریڈ ہو جانے سے گناہ ہو جاتا ہے اور گناہ ہو جائے تو رلیکس، رشی پنچمی پوجا ہے نہ۔

ٹی وی کے تجزیہ کاروں کا سارا فوکس شام کی پرائم ٹائم پر ہوتا ہے۔ ان کو پتہ نہیں ہے کہ بیس سال سے ہندی چینلوں پر صبح کی پرائم ٹائم نجومیات  کے انہی اینکروں سے گلزار ہوتی ہے۔ طرح طرح کے بھیس اور  شکل بنا کر یہ آتے ہیں۔ میں  نجومیات کے ہونے اور نہ ہونے کی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ بحث پرانی بھی ہو چکی ہے اور نجوم بھی ہے۔ میں اپنے سماجی ماحول میں ایک دو لوگوں کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا جو ڈاکٹر کی طرح نجومیات کو کنسلٹ نہیں کرتے ہیں۔ ان کا سارا روزانہ کا عمل  علم نجوم کی ہدایت پرہوتا ہے۔ اتنے بڑے معاشرے کو متاثر کرنے والے ان پروگراموں کا کوئی جائزہ پیش نہیں کیا جاتا ہے۔

ہندی چینلوں کے نجومیوں کے بال عمر کے ساتھ اڑ گئے ہیں یا گیٹ اپ کی خاطر اڑا دئے گئے ہیں، اس کو چھوڑ دیجئے۔ کوئی شک نہیں کہ وہ بااثر لگتے ہیں۔ کپڑے ضرور مسٹر انڈیا کے موگیمبوں کے چھوڑے ہوئے لگتے ہیں۔ کئی نجومی بہت ہی اچھا بولتے ہیں۔ نیشنل اسکول آف ڈراما کے فنکار فیل ہو جائیں۔

یہ صاف نہیں ہے کہ بابا اپنا پیسہ دےکر چینلوں پر پروگرام چلاتے ہیں یا چینل باباؤں پر احسان کرتے ہیں۔ ہندی بابا کے مقابلے میں انگریزی بابا کا کلاس الگ ہے۔ وہ روزانہ زائچہ کی جگہ پریشان صارفین کو لائف مینیجمینٹ کی بوٹی بیچتے ہیں۔ کاش کسی کی مہربانی  سے دلّی میں ٹریفک جام کم ہو جاتا ہے۔ میں اسی ایک بات سے ان کی پناہ میں چلا جاتا! انگریزی والے بابا کا انٹرویو بہت عزت سے ہوتا ہے۔ ہندی والے باباؤں کو انگریزی والے حقارت سے دیکھتے ہیں۔ غریب جب روحانیت کے نام پر کسی کی پناہ میں جاتا ہے تو عقیدت میں اندھا  ہو جاتا ہے، امیر جب روحانیت کے نام پر کسی کی پناہ میں جاتا ہے تو وہ اسٹریس مینیجمینٹ کا کورس ہو جاتا ہے۔ بڑےبڑے دفتروں میں اسٹریس مینیجمینٹ کے یہ پیکیٹ بیچے جاتے ہیں۔

گرمیت سنگھ کے جیل جانے کے بعد کئی جگہ لکھا جا رہا ہے کہ غریب لوگ ان باباؤں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ یہ بکواس ہے۔ امیروں اور متوسط طبقہ نے بھی رام رحیم جیسے ہی بابا دئے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہ انگریزی بولتے ہیں اور الوویرا کا جوس بیچتے ہیں۔ آج کل رہنما لوگ وزیر لوگ کئی طرح کی خفیہ پوجا کراتے ہیں جس کا خرچ بیس بیس لاکھ آتا ہے۔ بغیر پین اور آدھار نمبر کے اس لین دین پر کوئی نہیں بولے‌گا۔ ہمارا سیاسی طبقہ اندھے اعتقاد کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ کرکٹر سے لےکر عوامی زندگی کا ہر معزز  توہم پرستی کا محافظ ہے۔ اس لئے سرسا کے ڈیرہ حامیوں کو گنواروں کی فوج نہ کہیں۔

یہ بھی بکواس ہے کہ نیوز چینل باباؤں کو پیدا کرتے ہیں، بلکہ یہ صحیح ہوگا کہ باباؤں کے اپنے چینل ہیں۔ الگ سے بھی ایسے کئی چینل ہیں جن پر کئی باباؤں کا طلوع ہوتا رہتا ہے۔ باباؤں کی اپنی ویب سائٹ ہے۔ سوشل میڈیا کی ٹیم ہے۔ ہندی چینل کے ان  نجومی پروگراموں کے درمیان حیرت انگیز مقابلہ ہے۔ ہر پروگرام ایک برانڈ ہے۔ اب تو علم نجوم کا چینل بھی ہے۔ جہاں زائچہ کی دنیا کی نئی نئی کیٹگری تلاش کر  لی گئی ہے۔ قسمت  بتانے والے یہی بتا دیں کہ ان کا شو اس ہفتے نمبر ون ہوگا کہ نہیں!

میں جس پروگرام کا جائزہ لے رہا ہوں، اس کے کئی شو کی ٹیگ لائن ہوتی ہے، ‘ سات جنم تک کیسے ملے‌گا پیسہ ہی پیسہ ‘۔ اس جنم میں جہاں کروڑوں ہندوستانی غریبی لکیر سے نیچے گزربسر کر رہے ہیں اور جو غریبی لکیر سے اوپر ہیں وہ بھی اپنی زندگی چلانے میں غریب کی طرح ہی جوجھ رہے ہیں، ان کے لئے سات جنم تک پیسہ ملنے کی تدبیر بتانا اپنے آپ میں راکیٹ سائنس ہی ہوگا۔ سوچئے کون اس لالچ میں نہیں پڑے‌گا۔ سات جنم کا پیسہ مل جائے تو جن دھن کھاتہ دھن دھن ہو جائے۔

بابا نے کہا کہ سولہ دنوں تک اور سولہ سال تک مہالکشمی کا ورت کرنے سے سات جنم تک  پورے طور پر لکشمی کی حصولیابی ہوتی ہے۔ انہوں نے بھی دکھ‌کے دنوں میں یہ ورت کیا تھا۔ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ان کی زندگی میں لکشمی یعنی دھن دولت کی آمد ٹی وی پر علم نجوم پروگرام آنے کے بعد ہوا ہے یا ورت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کئی لوگ مجھے کسی امیر کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ایسا سلوک کرتے ہیں، ویسا سلوک کرتے ہیں پھر بھی امیر ہیں۔ یہاں پر بابا امیروں کو بد عنوان ہونے کی شخصیت سے بچاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی جنم میں مہالکشمی ورت کیا ہوگا جس کے نتیجے میں اس جنم میں وہ امیر ہوئے ہیں۔ بابا کو بھی پتہ ہے کہ اس ملک کا زیادہ تر امیر کس طرح امیر ہوتا ہے اور وہاں سے دھندا ملنا سب کا ہی ٹارگیٹ ہوتا ہے۔

مجھے اچھا لگا کہ بابا ہر روز علم نجوم بتاتے وقت سب سے پہلے ‘ پرپوز ‘ کرنے کا وقت بتاتے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ جن روایتوں اور تہذیب میں لوگوں کو پھنسا رکھا ہے، ان کو پیار کرنے کی چھوٹ ملنی چاہئے تو انہی روایتوں کے سہارے’ پرپوز ‘ کرنے کا وقت بھی بتا دیتے ہیں۔ کئی ویڈیو میں دیکھا کہ صبح صبح پانچ بجے بھی شبھ مہورت ہو جاتا ہے۔ تو کسی سے پیار کا اظہار کرنا ہے تو الارم لگاکر سو جائیں!

بابا نے ایک نیا لفظ بھی گڑھا ہے۔ لومیٹ۔ یہ رومیا یا لو جہاد سے کافی الگ اور ماڈرن ہے۔ اکثر وہ لومیٹ کا استعمال اکیلے کرتے ہیں۔ لومیٹ سے لگتا ہے اس میں دو لوگ تو ہوں‌گے ہی مگر وہ ایک برج کے ایک ہی لومیٹ کی بات کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے ہیں کہ سنگھ برج والے لومیٹ  برج قوس  والے لومیٹ سے ملنے یہاں جائیں، وہاں جائیں۔ بابا بتاتے ہیں کہ لومیٹ کب مندر جائیں، کب برہمنوں کو کھانا کھلائیں اور بزرگوں کی خدمت کریں۔ ہمارے سماج میں عاشقوں کو تہذیب کے خلاف دیکھا جاتا ہے۔ ماں باپ کے حکم کی تعمیل نہ کرنے والے جوڑے کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔ یہاں بابا ان کو لومیٹ کے نام سے پکارتے ہیں اور پیار کرنے کے شبھ مہورت کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی خدمت کرنا بھی بتاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ برج ثور کے لومیٹ کسی مندر کے باہر ناشتہ کروائیں، خواہش پوری ہوگی۔

مجھے لومیٹ اچھا لگا۔ کم از کم اینٹی رومیو والے کو یہ جوڑے بول سکتے ہیں کہ ہم لومیٹ ہیں۔ بابا نے ٹی وی پر بتایا ہے تو یہاں خدمت کرنے آئے ہیں۔ ڈنڈا چھوڑو اور یہ لو آٹے کے حلوے کا پرساد اور چلتے بنو۔ پر لومیٹ بزرگوں کی خدمت میں ہی لگ جائیں‌گے تو ‘ لو ‘ کب کریں‌گے ‘ میٹ ‘ کب کریں‌گے! ایک شو میں برج حوت  والے لومیٹ کو انہوں نے بتایا کہ مذہبی مقام پر گھومنے جا سکتے ہیں۔ کاش میں ان کے کئی شو دیکھ پاتا اور جان پاتا کہ کیا بابا لومیٹ کو سنیما، نہرویا لوہیا یا دین دیال پارک یا ریستوراں جانے کے لیے بھی کہتے ہیں! ایک شو میں برج قوس کے لومیٹ کو بتایا ہے کہ لومیٹ آج غسل کے بعد بھگوان شیو کو دھتورے کا بھوگ لگائیں۔ رشتوں میں میٹھاپن آئے‌گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ لومیٹ کو شیمپو کرنے کا بھی دن اور وقت بتاتے ہی ہوں‌گے۔ ایک دن کی پیشین گوئی میں بابا نے  برج اسد والوں کو کہا کہ اپنے دوست کے ساتھ رومانٹک ڈنر پر جا سکتے ہیں۔ یہ سنتے ہی اچھل گیا۔ دیکھا ٹی وی والے بابا جدیدیت کے مخالف ہو ہی نہیں سکتے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ ان کا کنزیومر رومانٹک ڈنر پر جائے‌گاہی، بھلے ہی اس کا تصور ہندوستانی تہذیب میں نہیں ہوگا تو کیوں نہ وہاں بھی اپنی گنجائش بنائے رکھو۔

بابا یہ بھی بتاتے ہیں کہ برج اسد والے مرض مزاحمت کی قوت میں اصلاح کے لئے وٹامن بھی لیں۔ بجرنگ بلی کی قسم۔ خود اپنے کانوں سے سنا اور انگلیوں سے ٹائپ کیا ہے۔ ہمارا علم نجوم اینٹی بایوٹک بھی دینے لگا ہے، یہ مجھے نہیں پتہ تھا۔ میڈیکل کالج بند کرو۔ سیزیرئن کب کرانا ہے، اس کا صحیح وقت وہ اپنے ہر شو کی شروعات میں ہی دے دیتے ہیں۔ لگتا ہے کہ سیزیرئن کی ٹائمنگ کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ ہر کسی کو اپنے گھر میں عظیم بچہ چاہئے تاکہ اس کے ساتھ گھر میں ہی جب چاہیں سیلفی کھنچوا سکیں۔ کون جائے سیلبریٹی کے لئے ایئر پورٹ اور ہوٹل۔ ایک شو میں انہوں نے برج دلو کے ڈاکٹروں کو کہا کہ آج وہ مفت میں غریبوں کا علاج کریں، اس سے ان کے پروفیشن میں نفع ہوگا۔

بابا کی پیشین گوئی میں آفس کی پولٹکس، پرموشن پر بھی کافی زور ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ عام ہندوستانی آفس کو کتنے محدود اور فالتو موضوع  کے طور پر دیکھتا ہے۔ پرموشن اور عزّت و احترام  باقاعدہ کیٹگری ہیں۔ ہندوستان ایک پرموشن پر مبنی ملک ہے۔ ہندوستانی اپنی ہندوستانیت چھوڑ سکتا ہے مگر پرموشن نہیں چھوڑ سکتا ہے۔ شفٹ چینج ایک نیا آئٹم جڑ گیا ہے۔ برج ميزان  والے کو بتاتے ہیں کہ آج آپ کی شفٹ چینج ہو سکتی ہے، اس سے پریشانی ہوگی۔ ارے بھائی تھوک مقدار میں دفتروں میں لاکھوں لوگوں کی شفٹ چینج ہوتی ہے۔ اس میں بھی لوگوں نے علم نجوم گھسا دیا ہے۔ دفتر میں پاخانہ پیشاب کے لئے کب کب جانا ہے، یہ بھی جلد ہی بابا لوگ بتانے لگیں‌گے۔ برج جوزا والے کو کہتے ہیں کہ آج کے دن بزنس کا پلان خفیہ رکھیں۔ برج قوس والے آج کے دن بزنس کی ساجھے داری رکھیں۔ اب مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کیا اس دن برج قوس اور برج جوزا والے بزنس کی ساجھے داری کر سکتے ہیں کیونکہ برج جوزا والے کو تو بابا نے بزنس کی پلاننگ خفیہ رکھنے کے ٹپس دئے ہیں!

ایک جگہ ذرا کنفیوز ہو گیا جب بابا نے کہا کہ 27 اگست کی رات 2 بج‌کر 18 منٹ کے 12 منٹ آگے اور 12 منٹ بعد میں کوئی متبرک کام نہ کریں۔ یہ غیر متبرک وقت ہے۔ کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اس وقت کون متبرک کام کر رہا ہوگا۔ کہیں بابا نے اشارے میں سیکس۔ نہیں نہیں، جب جو کہا ہی نہیں تو اس کے بارے میں کیوں سوچا جائے۔ پر کون ہے جو اتنی رات کو وہ بھی 2 بج‌کر 18 منٹ کے آس پاس کوئی متبرک کام کر سکتا ہے، وہ متبرک کام کیا ہو سکتا ہے، یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ بابا کہنے لگے کہ آج کے دن جنوب مشرق میں منھ کرکے شک کی آزادی کا عہد لینا ہے۔ طے کر لینا ہے کہ شبہ یعنی شک کرنا ہی نہیں۔ بس اس عہد کے کرتے ہی میں اس سوال سے آزاد ہو گیا کہ رات 2 بج‌کر 18 منٹ کے آگے پیچھے کا متبرک کام کیا ہو سکتا تھا۔

Astrology-News-Channel

ان کے نفری علم نجوم کی سب سے اہم کیٹگری لگی ‘ یائی جید یوگ ‘۔ ہم آپ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان میں مقدمے زیر التوا  ہیں۔ سب کی قسمت گرمیت سنگھ جیسی نہیں ہوتی کہ پندرہ سال بعد بھی فیصلہ آ گیا۔ بہت تو انصاف کی لڑائی لڑنے کے لئے ہی ظلم کے شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اصلی ظلم وہ نہیں ہوتا جس کے لئے وہ مقدمہ کرتے ہیں، وہ تو کب کا پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔ مقدمہ لڑنا اور کیس جیتنا کے عمل سے بڑا  ہندوستان میں کوئی ظلم ہے ہی نہیں۔ مگر بابا ‘ یائی جید یوگ ‘ کے تحت بتاتے ہیں کہ کب عرضی دائر کرنی ہے، کب وکیل سے ملنا ہے اور کب پیروی کرنی ہے۔ عدالتوں کے چکر لگانے والا شاید ہی کوئی سن‌کر نہیں روکےگا کہ بابا کورٹ جانے کا وقت بتا رہے ہیں۔ سب رک جائیں‌گے۔ جب کورٹ کے لئے گھنٹوں بس سٹاپ پر رکنا ہی ہے تو چینل کے سامنے رک جانے میں کیا پرابلم ہے۔ انڈیا ہے بھائی، یہاں ججوں کی تعداد بڑھانے کے لئے ججوں کے صدر کو رونا پڑتا ہے۔ جب جج رو رہے ہیں تو موکّل کیسے نہیں روئے‌گا؟

موقع دیکھ بابا نے اپنی مارکیٹ بڑھا لی۔ مجھے لگ رہا ہے کہ علم نجوم ہردن ہندوستان کے  الگ الگ مسائل کے علاقے کی طرف اپنی توسیع کر رہا ہے۔ ہندوستان کے مسائل کی ایک اور خوبی ہے۔ ہوا یہ ہوگا کہ کسی عرصے میں مسائل نے ہی سنجیونی بوٹی پی لی ہوگی۔ اس لئے وہ لافانی ہو چکی ہیں۔ حل تو ہونا نہیں ہے چاہے منموہن سنگھ آئیں یا نریندر مودی آئیں۔ ظاہر ہے علم نجوم ہی بتا سکتا ہے کہ مسائل سے دھیان کیسے ہٹائیں۔ بابا نے ایک شو میں بتایا کہ مقدمہ کرنے کے لئے یائی جیدیوگ آج رات 8 بج‌کر دس منٹ سے لےکر رات 12 بج‌کر 37 منٹ کے درمیان ہی ہے۔ میں تو چکرا گیا کہ اس وقت تو کورٹ بند رہتا ہے۔ مگر بابا نے شبہ کا حل اگلی لائن میں کر دیا، کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ کورٹ بند رہتا ہے مگر اس وقت وکیل کے پاس جا سکتے ہیں۔ ان سے گفتگو کر سکتے ہیں۔ بتائیے کہ کسی دن یائی جید یوگ رات بارہ بجے سے لےکر صبح پانچ بجے نکل گیا تو اگلے دن وکیل صاحب کورٹ میں ہی سوتے نظر آئیں‌گے۔

علم نجوم سے متعلق پروگراموں کی توسیع دیکھ‌کر حیرت زدہ ہوں۔ جس طرح صبح صبح استری پردھان موسم خبروں میں الگ الگ شہروں کے موسم بتائے جاتے ہیں اسی طرح ہردن دلّی، ممبئی، بھوپال، لکھنؤ، کولکاتہ، چنڈی گڑھ اور احمد آباد میں راہو کال کا وقت بتایا جاتا ہے۔ پٹنہ اور جئے پور کیوں چھوڑا بھائی؟ بروجوں کے مطابق آج کا دن کیسا رہے‌گا اس کے لئے کئی کیٹگری ہیں۔ شاندار رہے‌گا، بہترین رہے‌گا، شروعات اچّھی رہے‌گی، عام رہے‌گا، فیوریبل رہے‌گا، سنہرے لمحے لےکر آئے‌گا، نئی سوغات لےکر آئے‌گا، خاص رہنے والا ہے۔

ہندوستان  علم نجوم والا ملک ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ جو نہیں مانتے وہ بھی حقیقت ہیں مگر اتنے کم ہیں کہ سب ایک دوسرے کو جانتے ہوں‌گے۔ نیوز چینلوں کے باباؤں کا مطالعہ کیجئے۔ گرمیت سنگھ سرسا میں ہی رام رحیم نہیں بنتے ہیں، وہ کہیں بھی بن جاتے ہیں۔ کبھی بھی بن جاتے ہیں۔ بس ایک کال چکر  شو لےکر آنے کی ضرورت ہے، کسی کو بال بڑھانے کے تیل بنا لینے کی ضرورت ہے، کسی کو کامیابی بیچنے کی کتاب ہٹ کرا لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے وقت میں طرح طرح کے گرمیت رام رحیم کے پیکیج میں مل جائیں‌گے۔ دل پر مت لیجئے۔ یہی ہندوستان ہے۔ یہی ہم اور آپ ہیں۔ بابا بھی وہی ہیں جو ہم اور آپ ہیں۔