پرائیویسی کےحق پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اقتدار اور معاشرے کے موقف کے بارے میں مجموعی طور پر سوچنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔
اگر آپ کو معلوم ہو کہ چینی موبائل کمپنیوں سے لےکر، امریکی گوگل سے فیس بک، واٹس ایپ تک نہ جانے کتنی ذاتی کمپنیاں ہیں جن کے پاس آپ کی پوری معلومات ہیں، تو آپ کا پہلا رد عمل کیا ہوگا؟گوگل جیسی کمپنی کے پاس تو آپ کا سارا حساب کتاب ہو گا۔ آپ کہاں گئے، کتنی دیر بعد لوٹے، کب تک رات کو جگے رہے، کس طرح کا ادب پڑھا، آپ کا نظریہ، آپ کی پسندناپسند سے لےکر آپ کے دوستوں کی بھی معلومات ان کے پاس ہو گی۔ روز ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے آپ کے دوستوں سے زیادہ اگر گوگل، فیس بک کو آپ کے بارے میں معلومات رکھتے ہو ں تو اس پر تعجب مت کیجئےگا۔
آج کل ہم طرح طرح کے موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، کئی ویب سائٹ پر سائن ان کرتے ہیں۔ آپ کوئی بھی ایپ ڈاؤن لوڈ کریں یا کسی بھی ویب سائٹ پر جائیں، کام اس کا کوئی بھی ہو، لیکن ان کو آپ کی تمام معلومات چاہئے۔آپ کا لوکیشن، آپ کے تمام کانٹیکٹ، آپ کے فوٹو، ویڈیوز اور معلوم نہیں کیاکیا۔ اگر معلومات نہیں دیںگے، تو ایپ آگے نہیں بڑھےگا۔ کرتے رہئے ڈاؤن لوڈ! اب حکومت کے بارے میں بات کرتے ہیں! ذاتی کمپنیوں کے ذریعے لی جا رہی ان اطلاعات سے کئی قدم آگے بڑھکر حکومت نے آدھار کارڈ بنوانے کے نام پر آپ کی بایومیٹرک تفصیل بھی لے لی ہے۔
بایومیٹرک کا مطلب ہوتا ہے آپ کے انگوٹھےکے نشان، آپ کی آنکھوں کی پتلیاں جیسی معلومات۔ یعنی اب تو کچھ بچا ہی نہیں۔ اور اس آدھار کارڈ کو بینک اکاؤنٹ، راشن کارڈ، پین کارڈ سے لےکر موبائل فون کے علاوہ معلوم نہیں کہاں کہاں سے لنک کیا جا رہا ہے۔سرکار کی ویب سائٹ سے آدھارکے لئے لی جا رہی حساس ترین معلومات کے لیک ہونے کی خبریں بھی آ چکی ہیں۔ سرکاری پروجیکٹس پر کام کرنے والی اور کن نجی کمپنیوں کو ہماری ذاتی معلومات دی جا رہی ہیں۔یہ تو ہم جانتے ہی نہیں۔ ویسے، آپ کو اپنے بینک برانچ سے پیار بھری دھمکیاں تو آ رہی ہوںگی کہ اپنا اکاؤنٹ فلاں تاریخ تک آدھار سے لنک کر لو، ورنہ۔۔۔
خیر، یہ تو ہو گئی ڈیٹا سکیورٹی کی بات ۔ اب بات کرتے ہیں آپ کی ذاتی زندگی اور ذاتی خواہشوں کی، جس کا سب سے اہم پہلو ہے۔نجی معلومات کی رازداری کا حق۔ہر مہذب سماج اپنی عملی زندگی اور ترقی کے لئے کوئی نہ کوئی نظام یا ماڈل بناتا ہے۔ ہر ماڈل میں ایسی طاقت ہوگی جو حکومت کرے گی تاکہ معاشرتی خلوص کے ساتھ امن قائم رہ سکے۔ اس میکانزم کو تیار کرنے اور چلانے کے لئے اصول،قوانین، آئین بنائے جاتے ہیں۔ اقتدار کے ذریعے بنائے گئے قانون کا کسی نہ کسی سطح پر ہماری ذاتی خواہشات اور رازداری سے ٹکرانا لازمی ہے۔
مثال کےطور پر، اگر اصول بنایا گیا کہ ٹریفک سگنل پر لال رنگ کی بتی دیکھکر رکنا ہے تو وہاں اپنی ذاتی خواہش یا ذاتی جلدبازی کا حوالہ دےکر اگر ہم نے اصول کو نہیں مانا، تو آپ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ نتیجہ کیا ہوگا۔ایک مہذب معاشرے کا فرد یہ بھی نہیں کہہ سکتاکہ وہ چوری کرے گا، کسی کا قتل یا مارپیٹ کرےگا کیونکہ اس کی اپنی مرضی یا رازداری کا حق ہے۔ اقتدار کو اس طرح کا نظام تو بنانا ہی پڑے گا جہاں ایسے لوگوں کو سزا مل سکے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی خواہشات یا ہماری رازداری کو کبھی بھی خود مختار یا لامحدود نہیں ہوناچاہئے۔ اگر ایسا ہے، تو کن معاملات میں یا کس سطح تک اقتدار ہماری ذاتی رازداری کا احترام کرتی ہے اور ذاتی خواہشات کو روکنے کی کوشش نہیں کرتی ہے؟ ‘ رازداری کا حق’ کی بحث میں یہی سب سے بڑا اور اہم سوال ہے۔میرے حساب سے کسی بھی اصول، قانون یا ریگولیشن کو آپ کی ذاتی رازداری سے تب تک معاہدہ نہیں کرنا چاہئے، جب تک کہ آپ کی خواہشات اور رازداری کسی دیگر افراد یا طبقے کو منفی طریقوں سے متاثر نہ کرتی ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کویہ طے کرنے کا حق بالکل بھی نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کیا کھائیں، کیا پہنیں، کیا دیکھیں، کیا نہ دیکھیں، کس کو مانیں یا نہ مانیں، کس سے تعلق بنائیں، کس کو اپنی ذاتی معلومات دیں یا نہ دیں، جب تک کہ ہمارے انتخاب، پسند، ناپسند یا اعمال کسی دوسرے شخص یا کمیونٹی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔عزت مآب عدالت عظمیٰ کے 9 ججوں کی بنچ نے جمعرات کو متفقہ طور پر تاریخی فیصلے کا اعلان کیا۔ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے ‘رازداری کے حق ‘ کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا ہے۔
مرکز ی حکومت کے اٹارنی جنرل کی دلیلوں کو ججوں نے خارج کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ دیا جو ہر عام وخاص کی زندگی پر اثر پڑےگا۔ ساتھ ہی، کچھ اوراہم معاملات پر بھی اس تاریخی فیصلے کااثردکھےگا۔ ملک کی سب سے اونچی عدالت کا یہ فیصلہ ہر ہندوستانی کے لئے جشن اور خوشی کی بات ہے۔آج جس طرح ایک اندھی دوڑ میں ہم بھاگے جا رہے ہیں، اطلاعاتی ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کا ہمارے روزمرہ کی زندگی میں بھی جس طرح مداخلت بڑھتی جا رہی ہے اس کے کئی فائدے ہیں اور ملک کو اس شعبہ میں اور مزید سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ لیکن ایک معاشرے کے طور پر، ہمیں ٹھہرکرسوچنے کی ضرورت تھی۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے آج ہمارے اسی اندھی دوڑ پر لگام لگایا ہے۔ مجھے اس دوڑ سے پر کوئی اعتراض نہیں، بس دوڑ کی سمت صحیح ہونی چاہئے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اقتدار اور معاشرے کے موقف کے بارے میں مجموعی طور پر سوچنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لئے سوچئے، سمجھئے اور صحیح سمت کی نوعیت کیسی ہو یہ طے کیجیے۔ پھر لگ جائیے دوڑ میں، جیت ہماری ہی ہوگی!
( مضمون نگارسوراج انڈیا پارٹی کے چیف قومی ترجمان اور دلّی پردیش کے صدر ہیں۔ )
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر