اس وقت کشمیر میں یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ مودی اگرچہ اس حوالے سے باتیں کرتے ہیں لیکن وہ عملاً اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کرتے اور ان کی تقریریں محض زبانی جمع خرچ ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر پوری قوم کو غلط ثابت کیا کہ وہ کشمیر اور وہاں ہونے والی وارداتوں کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ یوم آزادی یعنی15اگست کو دلی کے لال قلعے سے اپنی تقریر کے دوران اگرچہ انہوں نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی کے تین الفاظ ’ انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت‘ کو نہیں دوہرایا لیکن انہوں نے ایک نئے انداز میں کہا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل ہوگا۔ ان کے اپنے الفاظ میں ’’ مسئلہ نہ تو گولی سے حل ہوگا اور نہ ہی گالی سے بلکہ کشمیری عوام کو گلے لگانے سے حل ہوگا اور ہم اس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں‘‘ لال قلعے کی فصیلوں سے ان کی اس تقریر کے ساتھ ہی اس حوالے سے ردِ عمل بھی آنا شروع ہوگیااور اس کا آغازاور کسی نے نہیں بلکہ حریت کانفرنس کے چیئر مین میر واعظ عمر فاروق نے اپنے بیان میں خیر مقدم کرتے ہوئے کیا۔ ان کے بعد ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی جانب سے بھی اسی طرح
سخت گیرموقف
اپنے اقتدار کے گزشتہ تین برسوں کے دوران مودی نے اپنی اس سخت گیر پالیسی میں کوئی نرمی نہیں برتی اور کشمیر کے حوالے س اُس انتہائی سخت گیر موقف پر قائم رہے، جو ان کی انتظامیہ کی جانب سے تیار کی گئیتھی۔ سال2016کے دوران یہاں پیدا ہونے والی صورت حال کو دبانے کے دوران انہوں نے یہ بات واضح کردی تھی کہ یہ محض لاٹھی اور گولی ہی ہے، جو یہاں کے عوام کے اس غصے اور زبردست احتجاج کو دبانے کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے ، جس کا اظہار انہوں نے اس دوران کیا تھا۔ ہلاکتوں کا لا محدود سلسلہ، زخمیوں کی قطاریں اور خاص طور پر نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی آنکھوں کا تباہ ہونا اس پالیسی کا اہم حصہ تھا، جو نئی دلی نے کشمیر مسئلہ کے حوالے سے پاکستان کو روائتی طور مورود الزام ٹھہراتے ہوئے اپنائی ۔اس کے ساتھ ہی بھارتی ٹیلی ویژن چینلوں نے بھی ’پانچ فیصد‘ کا شوشہ کھڑا کرکے یہ شور مچانا شروع کردیا کہ مٹھی بھر نوجوان پاکستان کے بہکاوے میں آکر حالات بگاڑنے میں مصروف ہیں اور ایک افسوس ناک انداز سے عام لوگوں کی ہلاکتوں کو ایک جواز بخشا گیا۔یہ سب اس عمل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، جو حکومت کشمیر میں جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس دوران نہ تو کوئی ’ہیلنگ ٹچ‘ محسوس کیا گیا اور نہ ہی کشمیریوں کے ساتھ کوئی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ریاست میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی دو متضاد نظریات رکھنے والی جماعتوں کی مخلوط حکومت ہونے کے باوجود نئی دلی کی بی جے پی حکومت نے دونوں جماعتوں کے درمیان طے شدہ ایجنڈا آف الائنس کا کوئی احترام نہیں کیا ۔ ایجنڈا آف الائنس کا مرکزی نکتہ سیا سی طور پر مسائل کو حل کرنا تھا اور بے جے پی نے اس میں علیحدگی پسند قیادت ، بشمول حریت کانفرنس اورپاکستان کو شامل کرنے کا عہد کیا تھا اور ساتھ ہی ریاست کے خصوصی درجے کا تحفظ کرنے کا بھی یقین دلایا تھا۔ کا بیان آیا اور کئی دیگران نے بھی حسب روایت اس کی تقلید کی لیکن سبھی کا زور ایک ہی بات پر تھا کہ یہ محض بیان بازی کی حد تک نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔
کافی طویل چلنے والی اس سخت گیر انہ پالیسی کا آخر کار کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا اور حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ اس کی وجہ سے کشمیر کے حالات دن بہ دن بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔ اس دوران ملی ٹنسی کا گراف کافی اوپر چلا گیا اور اس میں زیادہ سے زیادہ نوجوان شامل ہونے لگے ۔ حریت کانفرنس کے قائدین کو ایک عرصے تک انتہائی پریشان کن حالات میں رکھنے کے بعد بالآخر این آئی کے پھندے میں اس غرض سے پھنسایا گیا تاکہ یہ بات باور کرائی جاسکے کہ انہیں پاکستان سے یہاں کے حالات کو بگاڑنے کے لئے بھاری رقومات دی جارہی ہیں ۔ اس بات سے شاید انہیں وقتی طور پر کچھ پریشان کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے صورت حال میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں اور نہ ہی اس سے کوئی متبادل سیاسی دائرہ بنانے میں مدد مل سکتی ہے، جس سے مودی کی جانب سے اپنائی جارہی کشمیر پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جاسکے ۔کشمیر کی موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے ایک انتہائی سنجیدہ سیاسی اپروچ کی ضرورت ہے، جس سے کشمیری عوام کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ ان کے مسائل کا حل ایک مسلسل گفت و شنید کے ذریعے تلاش کیا جائے گا ۔ جو کچھ مودی نے 15 اگست کی اپنی تقریر میں کہا، اس کے چند ایک خریدار تو کشمیر میں مل سکتے ہیں لیکن زیادہ تر اس کو ’’ ریچھ کی بغل گیری‘‘ سے ہی تعبیر کریں گے، جس کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں ابھی تک کشمیری عوام شاید نہ ہوں، کیونکہ جہاں تک ایک سیاسی حل تلاش کرنے کا تعلق ہے، اس میں گزشتہ تین برسوں کے دوران ایک انچ کی بھی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے مسلح فورسز کو اگلی صفوں میں کھڑا کردینے اور انہیں صورت حال سے نمٹنے کے پورے اختیار ات دے دینے سے ایک بات واضح ہورہی ہے کہ نئی دلی محض اس خطۂ اراضی پر اپنا قبضہ قائم رکھنا چاہتی ہے نہ کہ اپنے اس ’’ناقابلِ تنسیخ حصے‘‘ کے عوام کو سیاسی طریقے سے بات چیت میں شامل کرکے گلنے لگا نے میں۔اس نے اپنی شریک اقتدار جماعت پی ڈی پی کے ساتھ کئے گئے ایجنڈا آف الائنس کے ایک بھی وعدے کو پورا نہیں کیا بلکہ برعکس اس کے، اس کو کئی ایک سیاسی تضحیکوں کے بوجھ تلے دبانے کی کوشش ضرور کی گئی ۔ ریاستی وزیر اعلیٰ ،جو اس سے قبل ایک سیاسی سپاہی مانی جاتی تھیں کو محض ایک منتظم کے دائرے میں بند کر کے رکھ دیا گیا ہے اور اس کے لئے بھی فیصلے نئی دلی سے نازل ہوتے ہیں اور اس طرح سے انہیں زمینی سطح پر بے اعتباریت کی صورت میں کافی قیمت چکانا پڑی ہے۔
مودی پر کشمیر میں بھروسہ کیوں نہیں کیا جاتا؟
اس کی بھی ایک بڑی اور واضح وجہ ہے۔ ماضی میں پہلے انہوں نے واچپائی کے اصول’ جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت‘ کے اصول کی بہت تشہیر کی اور کافی کوشش بھی کی کہ وہ اس کی وجہ سے کشمیر ی عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، انہوں نے اس سیاسی محاورے کا استعمال کم و بیش سات مرتبہ کیا ۔ پہلی مرتبہ انہوں نے اس کا استعمال 2014ء میں تب کیا، جب وہ الیکشن لڑ رہے تھے اور ان کی نظر نئی دلی پر تھی اور یہ تاریخ تھی 26مارچ 2014کی۔اس وقت انہوں نے یہ بات جموں میں ایک جلسہ عام سے خظاب کے دوران کہی تھی کہ وہ کشمیر کے حوالے سے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا ’’ یہ میری خواہش ہے کہ میں واچپائی کے شروع کردہ کام کو انجام تک پہنچاؤں، یہ میری خواہش ہے اور میں اس کے لئے یہاں بار بار آتا رہوں گا‘‘ وزیر اعظم کے دفتر میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ اس پر قائم رہے اور 4جولائی2014کو انہوں نے کٹڑہ جموں میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ میرا جموں و کشمیر کے عوام کے نام یہی پیغام ہے کہ میری حکومت ریاست میں وزیر اعظم واچپائی کے منصوبے کو آگے لے جانا چاہتی ہے ، میرا مقصد ریاست کے عوام کے دلوں کو جیتنا ہے ‘‘ اسی طرح سے22نومبر2014کو انہوں نے ریاست کے دورے کے دوران کشتواڑ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’ اٹل جی کے الفاظ انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت نے کشمیری نوجوانوں کے دلوں پر گہرا اثر ڈالا ہے اور انہیں ان میں اپنے مستقبل کے حوالے سے امید کی کرن نظر آ رہی ہے ‘‘ آگے چل کر 10اگست2016ء کو، جب پورا کشمیر سیاسی بے چینی کی وجہ سے جل رہا تھا، انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس بارے میں بات کی لیکن جب سے انہوں نے اقتدار سنبھالا ہے، وہ اس ضمن میں ایک بھی انچ آگے نہیں بڑھ پائے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں زمینی سطح پر ان باتوں سے بالکل مختلف دیکھنے کو ملا۔ جہاں تک واچپائی کا تعلق ہے، وہ اس قدربے باک شخص تھا کہ حالانکہ پاکستان نے اسے دھوکہ دیا لیکن اس کے باوجود اس نے پاکستان کے ساتھ ’ جنگ بندی‘ کا معاہدہ کیا ۔ حزب المجاہدین کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا اور حریت والوں کو بات چیت کے میز پر لایا۔ حالانکہ واچپائی کے نظریے کی نکتہ چینی بھی کی گئی لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس کی وجہ سے ہزاروں ایسے لوگوں کو راحت محسوس ہوئی تھی، جو یہاں جاری مسلسل جنگی صورت حال کی وجہ سے پریشان تھے۔
اس وقت کشمیر میں یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ مودی اگرچہ اس حوالے سے باتیں کرتے ہیں لیکن وہ عملاً اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کرتے اور ان کی تقریریں محض زبانی جمع خرچ ہیں ، کشمیریوں گلے لگانے کا مطلب ہے ان کے جذبات کا ان کے ساتھ اختلاف کے باوجود احترام کرنا لیکن ساتھ ہی جب تک زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کیا جاتا، ان کے گلے لگانے کے ارادے کو کامیابی ملتی نظر نہیں آتی جبکہ اس ارادے کو کامیاب بنانے کا واحد راز ایسے اقدامات کرنے میں پوشیدہ ہے، جن سے ان پر یقین کرنے کا ایک ماحول پیدا ہوسکے اور یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس ارادے کو کامیاب بنانے کے لئے پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ۔ اس تناظر میں ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا یہ محض یوم آزادی کی تقریر کے دوران خالی جگہوں کو پر کرنا تھا یا اس میں کوئی سنجیدگی بھی شامل ہے کیونکہ گزشتہ برس کی تقریر میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان شامل تھا اور ہوسکتا ہے کہ اس سال کشمیر کو ان ’خالی جگہوں ‘ میں ڈال دیا گیا ہو۔
( مضمون نگارانگریزی روزنامہ رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر ان چیف ہیں۔)
Categories: فکر و نظر