تقریر اور تحریر کی آزادی جس کو ہم میں سے بیشتر لوگ فطری طور پرملا ایک حق سمجھتے ہیں، اسکے لئے کتنی جدو جہد اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بنگلور میں ہوۓ اس واقعہ اور ان تمام واقعات سے سمجھ میں آتا ہے-
اظہار راۓ کی آزادی کے لیئے کتنی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے، یہ صحافی گوری لنکیش کے قتل نےایک بار پھر ثابت کر دیا ہے۔ایک کے بعد ایک متواتر آدھا درجن سے زایئد گولیا ں داغی گئیں جن میں سے دوانکے سینے میں اور ایک پیشانی میں لگیں تا کہ خاتون صحافی کے بچنے کی کوئ گنجایئش نہ رہے۔ یہ’ٹارگٹ کلنگ’ اسی طرز پر ہوئ جس طرح اس سےپہلےکئ معروف دانشوروں کو مہاراشٹر اور کرناٹک میں قتل کیا جا چکا ہے۔
آخر گوری لنکیش سے کسے خطرہ تھا؟ گوری ایک ایسی صحافی تھیں جو دایئں بازو کی انتہا پسند جماعتوں اور ہندوتو کی سیاست کے خلاف تھیں، وہ انسانی حقوق، مذہبی رواداری، خواتین کے مسائل اور دلت، پسماندہ اقوام کی آواز ببانگ دہل بلند کرتی تھیں-یہ بات صاف ہے کہ انکا قلم ،انکی حق گوئ اور جراءت اظہار انکےمخالفین برداشت نہیں کر پاۓ -بالکل اسی طرح پروفیسر ایم ایم کلبرگی کو دو سال قبل مار دیا گیا تھا۔ایسے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے۔
ایک سو تین کتابیں لکھنے والے پروفیسر کلبرگی کو کرناٹاک کے دھارواڑمیں قتل کیا گیاتھا۔ اکیس کتابیں لکھنے والے گوبند پنسارے کو مہاراشٹر میں مار دیا گیا تھا۔مشہور دانشور نریندر دابھولکر کا قتل بھی اسی طرح ہوا تھا، جب وہ صبح کی سیر پر نکلے تھے۔اسکے علاوہ ڈاکٹر بھارت پاٹنکر اور پروفیسر کے ایس بھگوان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں۔
فیسبک پر گوری کا آخری پوسٹ روہنگیا پناہ گزینوں سے متعلق تھا۔ ایک مضمون جس میں سپریم کورٹ نے حکومت سے ان پناہ گزینوں کے تیئں اسکے سخت رویہ پرسش کی تھی، اس کو گوری نے پوسٹ کیا تھا-
سوال یہ ہے کہ حق کی بات کرنے والے، استدلال پسند اور رواداری کا نظریہ رکھنے والے دانشوروں ، پڑھنے لکھنے والے بے ضررادیبوں اور صحافیوں سے کسے اتنا خطرہ ہے؟یہ لوگ سیاست داں نہیں تھے، کسی کے مفادات پر اثر انداز نہیں ہو رہے تھے مگر ان کا سچ بولنا اور سچ لکھنا ہیانکے لیئے مہلک بن گیا۔
تقریر اور تحریر کی آزادی جسکو ہم میں سے بیشتر لوگ فطری طور پرملا ایک حق سمجھتے ہیں، اسکے لئے کتنی جدو جہد اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بنگلور میں ہوۓ اس واقعہ اور ان تمام واقعات سے سمجھ میں آتا ہے-دانشوروں اور ادیبوں کے ان تمام قتل کے معاملات میں ایک اور مماثلت ہے-پولس اور تفتیشی ایجینسیوں نے ان کییسیز میں مجرموں کو پکڑنے میں کبھی زیادہ دلچسپی نہیں لی-
یہ تمام لوگ مذہبی رواداری کے حامی تھے اور بھگوا تنظیموں کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔گوری کے قتل کے بعد، ٹویٹر پر دایئں بازو کے کئ انتہا پسند لوگوں نے ایسے ٹویٹ کئے جسسے یہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ گوری لنکیش کی موت پر انہیں کوئ افسوس نہیں ہے۔
گوری بیحد اصول پرست تھیں-انکے رسالہ میں سرکاری اور کارپوریٹ اشتہارات نہیں ہوتے تھے – اسکی وجہ یہ تھی کہ سرکار یا کمپنیاں اکثر اشتہارات کے ذریعہ دباؤ بنانے کی کوشش کرتی ہیں–اس دور میں ایک ایسے پبلیکیشن کا تصور آسان نہیں ہے۔انہوں نے رعنا ایوب کی کتاب ‘گجرات فایلس’ کو بھی کنڑ میں شایئع کیا تھا۔ظاہر ہے جو فسطائ طاقتیں دماغوں پر قدغن لگانا چاہتی ہیں، عوام کے ذہن اور سوچ کو قابو میں کرنا چاہتی ہیں، انکے لیئے سچ لکھنے اور بولنے والے سبسے بڑے دشمن ہیں چاہے انکے ہاتھ میں صرف ایک قلم ہو۔
جب اقتدار سے سوال پوچھنا ‘دیش دروہ’ سمجھا جانے لگے اور جو صحافی یا ادیب حکمرانوں کےہمنوانہ بنیں انہیں معتوب قرار دیا جاۓ،یہ لازمی ہے کہ تمام اہل قلم اور معاشرہ اظہار راۓ کی راہ میں دی جانے والی ان قربانیوں کو رایئگاں نہ ہونے دیں۔حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے غلط فیصلوں کی نکتہ چینی ضروری ہے اور اظہار کی آزادی کتنی اہم ہے، انکی موت سے ہم سب کو ملنے والا یہ سبق ہے۔
فیض کے الفاظ میں اگر کہا جاۓ
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
ملک کے مختلف شہروں میں صحافیوں نے گوری کے قتل پر تعزیتی اجلاس کئے۔سینیر صحافی راکیش دکشت کہتے ہیں کہ یہ ایک بڑی سازش ہے، سب کو ڈرانے اور خاموش کرنے کی-صحافیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک ایسی ہائ لیول جانچ ہو جس سے یہ پتا چلے آخر یہ کون لوگ ہیں جو ایسے منظم قتل کر رہے ہیں اور انہیں کس کی پشت پناہی حاصل ہے جسکی وجہ سے ان معاملوں میں ملزم پکڑے نہیں جاتے۔
ظاہر ہے ہم سب کی زمہ داری ہے کہ اس معاشرے کو بچانے کے لیئے آگے آیئں، سچ لکھیں، سچ بولیں اور حق کی آواز اٹھایئں- اسی میں ان قاتلوں کی ہار ہے-گوری کو خراج عقیدت کے طور پر مرحوم حبیب جالب کے یہ اشعار:
دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا
مت گھبرانا مت ڈر جانا سچ ہی لکھتے جانا
باطل کی منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پایئں
وہ شمعیں روشن کر جانا سچ ہی لکھتے جانا…
Categories: فکر و نظر