گؤری لنکیش نام ہے رسالے کا۔ 16 صفحات کا یہ رسالہ ہر ہفتے نکلتا ہے. 15روپئے قیمت ہوتی ہے. 13ستمبر کا شمارہ آخری ثابت ہوا گؤری لنکیش کے لئے. ہم نے اپنے دوست کی مدد سے ان کے آخری اداریہ کا ترجمہ کیا ہے تاکہ آپ کو پتا چل سکے کہ کنّڑا میں لکھنے والی اس صحافی کی تحریر کیسی تھی، اس کی دھار کیسی تھی۔ ہر شمارے میں گؤری ‘ کنڈا ہاگے’ نام سے کالم لکھتی تھیں۔ کنڈا ہاگے کا مطلب ہوتا ہے جیسا میں نے دیکھا۔ ان کا اداریہ میگزین کے تیسرے صفحہ پر شائع ہوتا تھا۔ اس بار کا اداریہ فیک نیوز پر تھا اور اس کا عنوان تھا “فیک نیوز کے زمانے میں” (جعلی خبر کے زمانے میں):
اس ہفتے کے شمارے میں میرے دوست ڈاکٹر واسو نے گوئیبلس کی طرح انڈیا میں فیک نیوز بنانے کے کارخانہ کے بارے میں لکھا ہے۔ جھوٹ کا ایسا کارخانہ بیشتر مودی بھکت (عقیدت مند) ہی چلاتے ہیں۔ جھوٹ کے کارخانے سے جو نقصان ہو رہا ہے میں اس کے بارے میں اپنے اداریہ میں بتانے کی کوشش کروںگی۔ ابھی پرسوں ہی گنیش چترتھی تھی۔ اس دن سوشل میڈیا میں ایک جھوٹ پھیلایا گیا۔ پھیلانے والے سنگھ کے لوگ تھے۔ یہ جھوٹ کیا ہے؟ جھوٹ یہ ہے کہ کرناٹک حکومت جہاں بولےگی وہیں گنیش جی کا مجسمہ نصب کرنا ہے، اس کے پہلے دس لاکھ کا ڈپازٹ کرنا ہوگا، مجسمہ کی اونچائی کتنی ہوگی، اس کے لئے حکومت سے اجازت لینی ہوگی، دوسرے مذاہب کے لوگ جہاں رہتے ہیں ان راستوں سے وسرجن کے لئے نہیں لے جا سکتے ہیں۔ آتش بازی وغیرہ نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ سنگھ کے لوگوں نے اس جھوٹ کو خوب پھیلایا۔ یہ جھوٹ اتنا زور سے پھیل گیا کہ آخرمیں کرناٹک کے پولیس سربراہ آرکے دتّا کو پریس بلانی پڑی اور صفائی دینی پڑی کہ حکومت نے ایسا کوئی قانون نہیں بنایا ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔
اس جھوٹ کا سورس جب ہم نے معلوم کرنے کی کوشش کی تو وہ جاکر پہنچا postcard.in نام کی ویب سائٹ پر. یہ ویب سائٹ پکّے ہندتو وادیوں کی ہے۔ اس کا کام ہردن فیک نیوز بناکر سوشل میڈیا میں پھیلانا ہے۔ گیارہ اگست کو postcard.in میں ایک ہیڈنگ لگائی گئی۔ کرناٹک میں طالبان سرکار۔ اس سرخی کے سہارے ریاست بھر میں جھوٹ پھیلانے کی کوشش ہوئی۔ سنگھ کے لوگ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ جو لوگ کسی نہ کسی وجہ سے سدّھارمیّا حکومت سے ناراض رہتے ہیں ان لوگوں نے اس فیک نیوز کو اپنا ہتھیار بنا لیا۔ سب سے تعجب خیز اور افسوسناک بات ہے کہ لوگوں نے بھی بغیر سوچے سمجھے اس کو درست مان لیا۔ اپنے کان، ناک اور بھیجے کا استعمال نہیں کیا۔
پچھلے ہفتہ جب کورٹ نے رام رحیم نام کے ایک ڈھونگی بابا کو زنابالجبر کے معاملے میں سزا سنائی تب اس کے ساتھ بی جے پی کے رہنماؤں کی کئی تصویریں سوشل میڈیا میں وائرل ہونے لگیں۔ اس ڈھونگی بابا کے ساتھ مودی کے علاوہ ہریانہ میں بی جے پی کے قانون سازوں کی تصویریں اور ویڈیو وائرل ہونے لگے۔ اس سے بی جے پی اور سنگھ پریوار والے پریشان ہو گئے۔ اس کو کاؤنٹر کرنے کے لئے گرمیت بابا کے ساتھ کیرل میں سی پی ایم کے وزیراعلی پنرائی وجین کے بیٹھے ہونے کی تصویر وائرل کرا دی گئی۔ یہ تصویر فوٹوشاپ تھی۔ اصل تصویر میں کانگریس کے رہنما اومن چانڈی بیٹھے ہیں لیکن ان کے دھڑ پر وجین کا سر لگا دیا گیا اور سنگھ کے لوگوں نے اس کو سوشل میڈیا میں پھیلا دیا۔ شکر ہے سنگھ کا یہ طریقہ کامیاب نہیں ہوا کیونکہ کچھ لوگ فوراً ہی اس کا اوریجنل فوٹو نکال لائے اور سوشل میڈیا میں سچائی سامنے رکھ دی۔
دراصل، گزشتہ سال تک راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے فیک نیوز پروپیگینڈا کو روکنے یا سامنے لانے والا کوئی نہیں تھا۔ اب بہت سے لوگ اس طرح کے کام میں جُٹ ہو گئے ہیں، جو کہ اچّھی بات ہے۔ پہلے اس طرح کی فیک نیوز ہی چلتی رہتی تھی لیکن اب فیک نیوز کے ساتھ ساتھ اصل خبریں بھی آنی شروع ہو گئی ہیں اور لوگ پڑھ بھی رہے ہیں۔
مثال کے طور پر15 اگست کو جب لال قلعہ سے وزیر اعظم مودی نے خطاب کیا تو اس کا ایک تجزیہ 17اگست کو خوب وائرل ہوا۔ دھرو راٹھی نے اس کا تجزیہ کیا تھا۔ دھرو راٹھی دیکھنے میں تو کالج کے لڑکے جیسا ہے لیکن وہ پچھلے کئی مہینوں سے مودی کے جھوٹ کی پول سوشل میڈیا میں کھول دیتا ہے۔ پہلے یہ ویڈیو ہم جیسے لوگوں کو ہی دکھائی دے رہا تھا، عام آدمی تک نہیں پہنچ رہا تھا لیکن 17 اگست کا ویڈیو ایک دن میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ گیا۔ ۔ دھرو راٹھی نے بتایا کہ راجیہ سبھا میں ‘ بوسی بسیا ‘ کی حکومت نے راجیہ سبھا میں مہینہ بھر پہلے کہا کہ 33 لاکھ نئے ٹیکس دہندہ آئے ہیں۔ اس سے پہلے وزیرخزانہ جیٹلی نے اکیانوے لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کی بات کہی تھی۔ آخرمیں اقتصادی سروے میں کہا گیا کہ صرف 5 لاکھ 40 ہزار ٹیکس دہندگان کا اضافہ ہوا ہے۔ تو اس میں کون سا سچ ہے، یہی سوال دھرو راٹھی نے اپنے ویڈیو میں اٹھایا ہے۔ (گؤری لنکیش اکثر مودی کو بوسی بسیا لکھا کرتی تھیں جس کا مطلب ہے ‘جب بھی منھ کھولیں گے جھوٹ ہی بولیں گے’)
آج کی مین اسٹریم میڈیا مرکزی حکومت اور بی جے پی کے ذریعہ دئے گئے اعدادوشمار کو جوں کا توں ویدک احکامات کی طرح پھیلاتی رہتی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کے لئے حکومت کا بولا ہوا ویدک احکام ہوکر رہ گیا ہے۔ اس میں بھی جو ٹی وی نیوز چینل ہیں، وہ اس کام میں دس قدم آگے ہیں۔ مثال کے طور پر جب رام ناتھ کووند نے صدارتی عہدے کا حلف لیا تو اس دن بہت سارے انگریزی ٹی وی چینلوں نے خبر نشر کی کہ صرف ایک گھنٹے میں ٹویٹر پر صدر کووند کے فولوورز کی تعداد 30لاکھ ہو گئی ہے۔ وہ چلّاتے رہے کہ 30 لاکھ بڑھ گیا،30 لاکھ بڑھ گیا۔ ان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ کتنے لوگ کووند کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ بہت سے ٹی وی چینل آج راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی طرح ہو گئے ہیں۔ سنگھ کا ہی کام کرتے ہیں۔ جبکہ سچ یہ تھا کہ اس دن سابق صدر پرنب مکھرجی کا سرکاری اکاؤنٹ نئے صدر کے نام ہو گیا تھا۔ جب یہ تبدیلی ہوئی تو راشٹرپتی بھون کے فولوورز اب کووند کے فولوورز ہو گئے۔ اس میں ایک بات اور بھی غور کرنے والی یہ ہے کہ پرنب مکھرجی کو بھی تیس لاکھ سے زیادہ لوگ ٹویٹر پر فولو کرتے تھے۔
آج راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی اس طرح سے پھیلائی گئی فیک نیوز کی سچائی لانے کے لئے بہت سے لوگ سامنے آ چکے ہیں۔ دھرو راٹھی ویڈیو کے ذریعے یہ کام کر رہے ہیں۔ پرتیک سنہاAltNews.in کے نام کی ویب سائٹ سے یہ کام کر رہے ہیں۔ smhoaxslayer.com، BoomLive اور نام کی ویب سائٹ بھی یہی کام کر رہی ہے. TheWire، Scroll.in، NewsLaundry.com، TheQuint.com جیسے ویب سائٹس بھی فعال ہیں. میں نے جن لوگوں کے نام بتائے ہیں، ان سبھی نے حال ہی میں کئی فیک نیوز کی سچائی کو اجاگر کیا ہے۔ ان کے کام سے سنگھ کے لوگ کافی پریشان ہو گئے ہیں۔ اس میں قابل ذکر یہ ہے کہ یہ لوگ پیسے کے لئے کام نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ فسطائی طاقتوں کے جھوٹ کی فیکٹری کو لوگوں کے سامنے لیا جائے۔
کچھ ہفتہ پہلے بنگلورو میں زوردار بارش ہوئی۔ اس موقعہ پر سنگھ کے لوگوں نے ایک فوٹو وائرل کروایا۔ کیپشن میں لکھا تھا کہ ناسا نے منگل سیارے پر لوگوں کے چلنے کی تصویر جاری کی ہے۔ بنگلورو میونسپلٹی بی بی ایم سی نے بیان دیا کہ یہ منگل سیارے کی تصویر نہیں ہے۔ سنگھ کا مقصد تھا، منگل سیارے کا بتاکر بنگلورو کا مذاق اڑانا۔ جس سے لوگ یہ سمجھیں کہ بنگلورو میں سدّھارمیّا کی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا ہے، یہاں کے راستے خراب ہو گئے ہیں، اس طرح کے پروپیگینڈے کرکے جھوٹی خبر پھیلانا سنگھ کا مقصد تھا۔ لیکن یہ ان کو بھاری پڑ گیا کیونکہ یہ فوٹو بنگلورو کا نہیں، مہاراشٹر کا تھا، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔
حال ہی میں مغربی بنگال میں جب دنگے فساد ہوئے تو آر ایس ایس کے لوگوں نے دو پوسٹرز جاری کئے۔ ایک پوسٹر کا کیپشن تھا، بنگال جل رہا ہے، اس میں پراپرٹی کے جلنے کی تصویر تھی۔ دوسرے فوٹو میں ایک خاتون کی ساڑی کھینچی جا رہی ہے اور کیپشن ہے بنگال میں ہندو خواتین کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ بہت جلدی ہی اس فوٹو کا سچ سامنے آ گیا۔ پہلی تصویر 2002کے گجرات فسادات کی تھی جب کہ نریندر مودی وہاں کے وزیراعلی تھے۔ دوسری تصویر بھوجپوری سینما کے ایک سین کی تھی۔ صرف آر ایس ایس ہی نہیں بی جے پی کے مرکزی وزیر بھی ایسی فیک نیوز پھیلانے میں ماہر ہیں۔ مثال کے طور پر مرکزی وزیر نتن گڈکری نے ایک فوٹو شیئر کیا، جس میں کچھ لوگ ترنگے میں آگ لگا رہے تھے۔ فوٹو کے کیپشن پر لکھا تھا یوم جمہوریہ کے موقع پر حیدر آباد میں ترنگے کو آگ لگایا جا رہا ہے۔ ابھی گوگل امیج سرچ ایک نیا ایپلکیشن آیا ہے، اس میں آپ کسی بھی تصویر کو ڈال کر جان سکتے ہیں کہ یہ کہاں اور کب کی ہے۔ پرتیک سنہا نے یہی کام کیا اور اس ایپلکیشن کے ذریعے گڈکری کے ذریعہ شیئر کی گئی تصویر کی سچائی سامنے لا دی۔ پتا چلا کہ یہ فوٹو حیدر آباد کا نہیں ہے۔ پاکستان کا ہے جہاں ایک ممنوعہ انتہاپرست تنظیم ہندوستان کی مخالفت میں ترنگے کو جلا رہی ہے۔
اسی طرح ایک ٹی وی پینل کے ڈسکشن میں بی جے پی کے ترجمان سنبت پاترا نے کہا کہ سرحد پر فوجیوں کو ترنگا لہرانے میں کتنی مشکلیں آتی ہیں، پھر جےاین یو جیسی یونیورسٹیوں میں ترنگا لہرانے میں کیا مسئلہ ہے۔ یہ سوال پوچھ کر سنبت نے ایک تصویر دکھائی۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ ایک مشہور تصویر ہے مگر اس میں ہندوستانی نہیں، امریکی فوجی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی فوج نے جب جاپان کے ایک جزیرہ پر قبضہ کیا تب انہوں نے اپنا پرچم لہرایا تھا۔ مگر فوٹوشاپ کے ذریعے سنبت پاترا لوگوں کو چکمہ دے رہے تھے۔ لیکن یہ ان کو کافی بھاری پڑ گیا۔ ٹویٹر پر سنبت پاترا کا لوگوں نے کافی مذاق اڑایا۔
مرکزی وزیر پیوش گوئل نے حال ہی میں ایک تصویر ساجھا کی۔ لکھا کہ ہندوستان کے 50 ہزار کلومیٹر راستوں پر حکومت نے 30 لاکھ ایل ای ڈی بلب لگا دیے ہیں۔ مگر جو تصویر انہوں نے لگائی وہ فیک نکلی۔ ہندوستان کی نہیں،2009 کے جاپان کی ایک تصویر تھی۔ اسی گوئل نے پہلے بھی ایک ٹویٹ کیا تھا کہ کوئلے کی فراہمی میں حکومت نے پچیس ہزار نو سو کروڑ کی بچت کی ہے۔ اس ٹویٹ کی تصویر بھی جھوٹی نکلی۔
چھتّیس گڑھ کے پی ڈبلیو ڈی وزیر راجیش مونت نے ایک پُل کی تصور شیئر کی۔ اپنی حکومت کی کامیابی بتائی۔ اس ٹویٹ کو 2 لاکھ لائکس ملے۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ تصویر چھتّیس گڑھ کی نہیں، ویتنام کی ہے۔
ایسی فیک نیوز پھیلانے میں ہمارے کرناٹک کے آر ایس ایس اور بی جے پی لیڈر بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ کرناٹک کے رکن پارلیمان پرتاپ سمہا نے ایک رپورٹ شیئر کی، کہا کہ یہ ٹائمس آف انڈیا میں آیا ہے۔ اس کی ہیڈلائن یہ تھی کہ ہندو لڑکی کو مسلمان نے چاقو مارکر قتل کر دیا۔ دنیا بھر کو اخلاقیات کا درس دینے والے پرتاپ سمہا نے سچائی جاننے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی۔ کسی بھی اخبار نے اس نیوز کو نہیں شائع کیا تھا بلکہ فوٹوشاپ کے ذریعے کسی دوسری نیوز میں ہیڈلائن لگا دیا گیا تھا اور ہندو مسلم رنگ دیا گیا۔ اس کے لئے ٹائمس آف انڈیا کا نام استعمال کیا گیا۔ جب ہنگامہ ہوا کہ یہ تو فیک نیوز ہے تو رکن پارلیامان نے ڈلیٹ کر دیا، مگر معافی نہیں مانگی۔ فرقہ وارانہ جھوٹ پھیلانے پر کوئی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔
جیسا کہ میرے دوست واسو نے اس بار کے کالم میں لکھا ہے، میں نے بھی بغیر سمجھے ایک فیک نیوز شیئر کر دیا۔ پچھلے اتوار کو پٹنہ کی اپنی ریلی کی تصویر لالو یادو نے فوٹوشاپ کرکے شیئر کی تھی۔ تھوڑی دیر میں دوست ششی دھر نے بتایا کہ یہ فوٹو فرضی ہے۔ نقلی ہے۔ میں نے فوراً ہٹا لی اور غلطی بھی مانی۔ یہی نہیں جعلی اور اصلی تصویر دونوں کو ایک ساتھ ٹویٹ کیا۔ اس غلطی کے پیچھے فرقہ وارانہ طور پر بھڑکانے یا پروپیگینڈا کرنا مقصد نہیں تھا۔ فاشسٹوں کے خلاف لوگ جمع ہو رہے تھے، اس کا پیغام دینا ہی میرا مقصد تھا۔ آخر میں، جو بھی فیک خبر کو ایکسپوز کرتے ہیں، ان کو سلام۔ میری خواہش ہے کہ ان کی تعداد اور بھی زیادہ ہو۔
بشکریہ : naisadak.org
Categories: فکر و نظر