نئی دہلی : مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کشمیری علیحدگی پسندوں کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ جو کوئی مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے وہ اس کے لئے کھلے دل و دماغ سے تیار ہیں۔ انہوں نے جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے پر مبینہ طور پر منڈلا رہے خطرے پر کہا کہ مرکزی حکومت کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی جس سے کشمیر کے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں۔ ’’ ہم اپنے پڑوسی ملک پاکستان سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور اسے ہندستان میں دہشت گرد بھیجنے اور دہشت گرد کاروائیوں کی فنڈنگ کا سلسلہ بند کرنا چاہیے‘‘۔
راج ناتھ سنگھ پیر کے روز یہاں اپنے چار روزہ دورے کے تیسرے دن نیوز کانفرنس میں نامہ نگاروں سے بات چیت کررہے تھے۔اس موقع پروزیراعظم دفتر میں وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ اور ریاستی نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ بھی موجود تھے۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کے دوران چھرے والی بندوقوں کے لگاتار استعمال پر کہا کہ ’پاوا شیل‘ کو اس کے متبادل کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا لیکن وہ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوا۔ انہوں نے قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی ای)کی طرف سے علیحدگی پسندوں اور تجارت پیشہ افراد کے گھروں اور دفاتر پر جاری چھاپہ مار کاروائیوں پر کہا کہ این آئی اے ایک خودمختار ایجنسی ہے اور وہ اپنا کام کررہی ہے۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے وادی میں شروع کئے گئے آپریشن آل آوٹ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جنگجوؤں کا خیرمقدم نہیں کیا جاسکتا۔ مسٹر سنگھ نے کشمیری نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ کسی کے بھکاوے میں آکر پتھر بازی نہ کریں۔ مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنے ’مستقل حل‘ کی وضاحت کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ اس حل کی بنیاد ’پانچ سیز‘ پر ہے۔ وزیر داخلہ نے کشمیر کو پھر سے جنت بنانے کی بات دھراتے ہوئے ملکی اور غیرملکی سیاحوں کو کشمیر آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز سے کہاگیا ہے کہ کشمیر میں کہیں پر بھی طاقت کا حد سے زیادہ استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ کشمیر میں امن کے درخت سوکھے نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ محترمہ مفتی سے مسٹر سنگح نے کہا ہے کہ 18 سے کم عمر کے بچوں کو جن سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے، عام جیلوں میں نہیں جوینائل ہاوسز میں رکھا جانا چاہیے اور ان کی مناسب کونسلنگ کی جانی چاہیے۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے خطاب کے دوران ریاستی پولیس کے اے ایس آئی عبدالرشید کی بیٹی زوہرہ کا ایک بار پھر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے روتے چہرے کو بھول نہیں پاتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کشمیری علیحدگی پسندوں کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ’جب جب یہاں آیا ہوں تو دل اور دماغ کھول کر آیا ہوں۔’’ میں نے بارہا کہا کہ میرے ہاتھ کھلے ہیں۔۔۔ میں سب سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن بات کرنے والے لوگ آنے چاہیں‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ علیحدگی پسندوں کو تو جیلوں یا اپنے گھروں میں مقید رکھا گیا ہے، تواس پر وزیر داخلہ نے کہا ’قانون اپنا کام کرتا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن ہم تو سب سے بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ کل جماعتی وفد آیا تھا۔ ہمارے لوگوں نے علیحدگی پسندوں تک پہنچنے کی پہل کی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے بھی اپنی طرف سے پہل کی۔ ہم نے کبھی منع نہیں کیا ہم کسی سے بات نہیں کریں گے۔ میں کئی بار اس کو واضح کرچکا ہوں ۔ میں اپنے پریس کے دوستوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ میرا یہ پیغام ہر ایک تک پہنچائیں‘۔ انہوں نے کہا ’میں نے آپ سے پہلے ہی کہا کہ جتنے بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں اور جو بھی مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں، میں بات کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں یہ بات کتنی بار کہوں ۔ کن لفظوں میں کہوں۔ آپ مجھے بتائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے‘۔ اس سوال کے جواب میں کہ ’علیحدگی پسندوں کو بات چیت کے لئے رسمی طور پر مدعو نہیں کیا جارہا ہے‘ تو وزیر داخلہ کا اس پر کہنا تھا ’رسمی اور غیر رسمی کیا ہوتا ہے۔ کوئی تو کہے کہ میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔ میرے پریس کے دوستوں میری مدد کیجئے۔ میں آپ کی مدد چاہتا ہوں۔ امن وامان کے حالات یہاں ٹھیک ہو، اس کے لئے مدد چاہتا ہوں۔ آپ میرے اور ہمارے وزیر اعظم کے ارادے کو سمجھئے‘۔
مسٹر راج ناتھ سنگھ نے ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے پر منڈلا رہے خطرے پر کہا کہ مرکزی حکومت کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی جس سے اہلیان کشمیر کے جذبات مجروح ہوں۔ انہوں نے کہا ’میرا ماننا ہے کہ کسی شک وشبے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ ایک نان ایشو کو ایشو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں مرکزی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ وہ عدالت میں نہیں گئی ہے۔ میں یقین دلانا چاہتا ہوں ۔ میں صرف دفعہ 35 اے کی بات نہیں کررہا ہوں ، جو بھی ہماری سرکار کرے گی، ہم یہاں کے لوگوں کے جذبات کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ کوئی ایشو بچا نہیں ہے۔ اس لئے اب نان ایشوز کو ایشو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے‘۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم اپنے پڑوسی ملک پاکستان سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور اسے بھار ت میں دہشت گرد بھیجنے اور دہشت گرد کاروائیوں کی فنڈنگ کا سلسلہ بند کرنا چاہیے۔\\\ انہوں نے کہا ’ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ 26 مئی 2014 کو جب ہمارے وزیراعظم کی حلف برداری تقریب تھی تو ہم نے اپنی تمام پڑوسی ملکوں کے سرپرستوں کو اس تقریب میں مدعو کیا۔ ہم نے ہاتھ سے ہاتھ ملانے کے لئے نہیں بلکہ دل سے دل ملانے کے لئے مدعو کیا تھا۔ ہمارے وزیراعظم نے تمام پروٹوکال توڑ کر وہاں کے وزیراعظم (میاں نواز شریف) کی ایک تقریب میں شرکت کی۔ اپنی طرف سے بھرپور کوششیں کیں۔ اٹل بہاری واجپائی جی نے کہا تھا کہ زندگی میں دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں۔ اس لئے پڑوسی سے اچھے رشتے بنائے رکھنے چاہیے۔ پاکستان وہاں سے کیا کررہا ہے۔ وہ دہشت گردوں کو یہاں بھیج رہا ہے۔ میں پاکستان سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دراندازی کا یہ سلسلہ رکھنا چاہیے۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ہم پڑوسی سے اچھے رشتے نہیں چاہتے ہیں۔ برابر اچھے رشتے چاہتے ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی جی اور موجودہ وزیراعظم نے اپنی طرف سے برابر کوششیں کیں۔ پاکستان ٹیرر فنڈنگ بھی کر رہا ہے‘۔
مسٹر راجناتھ نے کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کے دوران چھرے والی بندوقوں کے لگاتار استعمال پر کہا کہ ’پاوا شیل‘ کو اس کے متبادل کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا لیکن وہ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا ’امن وامان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لئے کبھی کبھی کوئی کاروائی کرنی پڑتی ہے۔ میں نے لوگوں (ماہرین) سے کہا تھا کہ پیلٹ گن کا متبادل کیا ہوسکتا ہے تو انہوں نے پاوا شیل تجویز کیا۔ پاوا متعارف کیا گیا۔ کوئی اعدادوشمار اٹھائیں۔ پہلے کے مقابلے میں پیلٹ گن کا استعمال بہت کم ہورہا ہے۔ پاوا شیل کے بارے میں لوگوں (ماہرین) نے بتایا کہ جتناموثر ثابت ہونا چاہیے، اتنا موثر ثابت نہیں ہوا۔ ہمیں پیلٹ گن سے بچنے کی ضرورت ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ جو بھی میں کہوں گا وہ میں کروں گا۔ ہم بحران کسی بھی صورت میں پیدا نہیں ہونے دیں گے‘۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ گذشتہ دو دنوں کے دوران قریب 55 وفود نے ن کے ساتھ ملاقات کی، مگر کسی نے بھی آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ کی منسوخی کا مطالبہ نہیں کیا۔
اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’مجھ سے کسی ڈیلی گیشن نے ایسا مطالبہ نہیں کیا۔ جتنے لوگ ملے کسی نے اس قانون کے بارے میں بات نہیں کی‘۔ مسٹر راجناتھ نے این آئی اے کی طرف سے علیحدگی پسندوں اور تجارت پیشہ افراد کے گھروں اور دفاتر پر جاری چھاپہ مار کاروائیوں پر کہا کہ این آئی اے ایک خودمختار ایجنسی ہے اور وہ اپنا کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا ’این آئی اے اپنا کام کررہی ہے۔ میں نے بھی اخباروں میں ہی پڑھا کہ وہ ٹیرر فنڈنگ کی جانچ کررہی ہے۔ اس کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہوں گا۔ کوئی بھی ایجنسی جانچ کرتی ہے تو اسے یہ یقینی بنایا جانا چاہیے کہ کسی کی ہراسانی نہ ہو۔ وہ ایک خودمختار ایجنسی ہے۔ وہ اپنا کام کررہی ہے‘۔ وزیر داخلہ نے سیکورٹی فورسز کی جانب سے وادی میں شروع کئے گئے آپریشن آل آوٹ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جنگجوؤں کا خیرمقدم نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا ’جنگجوؤں کا خیرمقدم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا‘۔ مسٹر راجناتھ سنگھ نے کشمیری نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ کسی کے بھکاوے میں آکر پتھر بازی نہ کریں۔ انہوں نے کہا ’میں اپنے نوجوانوں سے بھی کہوں گا کہ پتھربازی کے لئے آپ کو کوئی کتنا بھی اکسانے کی کوشش کریں ، آپ اس سے دور رہیں۔ ہم سب یہاں کے نوجوانوں کے مستقبل کو لیکن تشویش مند ہیں‘۔
وزیر داخلہ نے مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنے ’مستقل حل‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس حل کی بنیاد ’پانچ سیز‘ پر ہے۔انہوں نے کہا ’ہم نے مستقل حل کی بات کی تھی۔ طرح طرح کی اٹکلیں لگائی جارہی تھیں کہ مستقل حل کا مطلب کیا ہے۔ تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا یہ مستقل حل پانچ سیز پر مشتمل ہے۔کمپیشن (شفقت)، کیمونی کیشن (ترسیل)، کو ایگزسٹنس (بقائے باہمی)، کانفڈنس بلڈنگ (اعتماد سازی) اور کانسسٹنسی (مستقل مزاجی)۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو امن کے ساتھ ساتھ عزت اور وقار بھی حاصل ہو۔ اس کے لئے ہم کوششیں کریں گے‘۔
وزیر داخلہ نے کشمیر کو پھر سے جنت بنانے کی بات دھراتے ہوئے ملکی اور غیرملکی سیاحوں کو کشمیر آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا ’دہشت گردوں نے کشمیر کی کئی پیڑیوں کو برباد کردیا ہے۔ ہم ایک اور پیڑی کو کسی بھی صورت میں خراب نہیں ہونے دیں گے۔ خاص طور پر یہاں کے جولوگ غریب اور محنت کش لوگ ہیں، وہ دہشت گردی کے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ ہماری کاروباری افراد بھی پریشان ہوئے ہیں۔ سیاحتی انڈسٹری کی حالت بھی بہت بگڑ چکی ہے۔ بھار ت میں ہی نہیں پوری دنیا میں یہ مسیج چلا گیا کہ کشمیر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں ، اس لئے کشمیر سیر کے مقصد سے نہیں جانا چاہیے۔ کشمیر کے حالات دیکھنے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بھارت اور پوری دنیا کے جو سیاح ہیں، میں ان سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے لوگ آپ کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کشمیری اس کشمیر کو ایک بار پھر جنت بنانا چاہتے ہیں۔ دہشت گردوں کے ہاتھ سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ آپ سیر کی مقصد سے یہاں آئیں، کاروباری کے مقصد سے آئیں، کشمیر کے لوگ آپ کا خیر مقدم کریں گے۔ یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم مرکزی سرکار کی طرف سے یہاں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ایک خصوصی پراموشنل مہم بھی چلائیں گے‘۔
مسٹر راجناتھ نے کہا کہ کشمیر میں امن کے درخت سوکھے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا ’دو تین دنوں کے اندر میں نے کشمیر میں جو کچھ دیکھا ہے ، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کشمیر میں امن کے درخت سوکھے نہیں ہیں۔ ان امن کے درختوں پر ہمیں سبز پھل نظر آرہے ہیں۔ اس لئے میں نے کشمیر مسئلے کے مستقل حل کی بات کی ہے۔ بغیر سوچے سمجھے میں نے کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ جموں وکشمیر کے لوگ اپنا مقدر اور اپنی مستقبل ، اپنی محنت کے سہارے ہی لکھنا چاہتے ہیں‘۔
مسٹر راجناتھ سنگھ نے کہا کہ میں نے وزیر اعلیٰ محترمہ مفتی سے کہا ہے کہ 18 سے کم عمر کے بچوں جن سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے، کو عام جیلوں میں نہیں جوینائل ہاوسز میں رکھا جانا چاہیے اور ان کی مناسب کونسلنگ کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا ’میں نے یہاں سیکورٹی جائزہ میٹنگ کی صدارت بھی کی۔ سیکورٹی جائزہ میٹنگ کے دوران میں نے کہا کہ چھوٹے بچے ہیں جن کی عمر 18 برس سے کم ہے۔ ان میں سے بہت بچے ایسے ہوں گے جنہوں نے کسی کے بھکاوے میں آکر پہلی بار کوئی کرائم کیا ہوگا۔ کوئی گستاخی کی ہوگی یا کوئی غلطی کی ہوگی۔ لیکن ان کے ساتھ ایک مجرم کی طرح برتاؤ نہیں کیا جانا چاہیے۔ جو بھی کاروائی کرنی ہوگی جوینائل ایکٹ کے تحت ہی ہونی چاہیے۔ اور انہیں عام جیلوں میں مقید نہ رکھا جائے۔ جوینائل ہاوسز میں بھیجا جانا چاہیے۔ میں نے وزیر اعلیٰ محترمہ مفتی سے بھی کہا ہے کہ وہ ازخود ان معاملات کا جائزہ لیں۔ ان کی مناسب کونسلنگ ہونی چاہیے‘۔
وزیر داخلہ نے نامہ نگاروں سے خطاب کے دوران ریاستی پولیس کے اے ایس آئی عبدالرشید کی بیٹی زوہرہ کا ایک بار پھر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے روتے چہرے کو بھول نہیں پاتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’یہاں آنے کے بعد میں اننت ناگ بھی گیا ۔ جموں وکشمیر پولیس کے جوانوں سے ملا۔ اور اپنے سی اے پی ایف کے جوانوں سے بھی میں نے ملاقات کی ہے۔ میں فوج کے جوانوں کے پاس بھی جاؤں گا۔ ان لوگوں سے بھی میں ملوں گا۔ میں کسی کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ کل جب میں ریاستی پولیس کے جوانوں کے بیچ گیا اور شہیدوں کے تئیں عقیدت پیش کرنے کے لئے پھول چڑھا رہا تھا۔ زوہرہ نام کی وہ لڑکی (اے ایس آئی عبدالرشید کی بیٹی) کی تصویر میں نے پھر سے دیکھی۔ اس سے پہلے بھی دیکھی تھی۔ اس کا وہ چہرہ نہیں بھول پاتا ہوں۔ ہم کشمیر کے ہر ایک نوجوان کے چہرے پر خوشی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری تمنا ہے۔ اس کے لئے ہم برابر کوششیں کرتے رہیں گے‘۔
مسٹر راجناتھ نے کہا کہ وہ پچھلے ڈیڑھ برس کے دوران پانچ مرتبہ کشمیر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا ’درحقیقت میں نے اس کا حساب نہیں رکھا ہے کہ میں یہاں کتنی بار آیا ہوں۔ میں جموں وکشمیر کے عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پانچ بار کیا، ایک سال میں پچاس بار آنے کی ضرورت پڑے تو ضرور آؤں گا۔ جموں وکشمیر میں امن وامان کی بحالی کے لئے جو بھی اقدامات مجھے اٹھانے کی ضرورت درکا ہوگی، میں اٹھاؤں گا۔ بار بار آنے کا ارادہ صاف ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس دورے کا مقصد یہ بھی ہے کہ 15 اگست کو ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی لال قلعہ سے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل گالی سے ہوگا نہ گولی سے ہوگا۔ کشمیر کے لوگوں کو گلے لگاکر ہوگا۔ انہوں نے جو کچھ کہا تھا، اسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میں اپنی طرف سے سرگرم ہوں‘۔
وزیر داخلہ نے مختلف وفود سے ہوئی ملاقات کے بارے میں بتایا’ پچھلے دو دنوں کے دوران قریب 55 وفود نے ہم سے ملاقات کی۔ آنے کے پہلے دن بھی میں نے کہا تھا کہ میں کھلے دل سے آیا ہوں۔ جتنے بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں، میں سبھی سے بات کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جب جب میں آیا ہوں تب تب میں نے واضح کیا کہ میں سبھی اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کرنا چاہوں گا۔ کوئی تحفظات دل و دماغ میں رکھ نہیں آیا ہوں۔ یہاں سول سوسائٹی کی بہت سی وفود سے ہماری ملاقات ہوئی ہے۔ اس میں غیرسیاسی تنظیمیں، طلباء اور اساتذہ بھی ہم سے ملے ۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈران بھی ہم سے ملے۔ سبھی کے ساتھ ہماری بات چیت ہوئی ہے۔ سب کو سمجھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کشمیر کی صورتحال پہلے سے بہت بہتر ہوئی ہے۔ حالات دن بہ دن بہتر ہورہے ہیں۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہتا ہوں کہ حالات پوری طرح سے ٹھیک ہوگئے ہیں۔ لیکن پہلے سے بہتر ضرور ہورہے ہیں۔ یہ میں پورے بھروسے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں‘۔
انہوں نے کہا ’یہاں آنے کے بعد میں نے جموں وکشمیر سے متعلق وزیر اعظم کے خصوصی پیکیج کا بھی جائزہ لیا۔ کچھ پروجیکٹ ایسے ہیں جن کا خرچہ بڑھ گیا ہے۔ جو 80 ہزار کروڑ کا پیکیج تھا، وہ اب بڑھ کر ایک لاکھ کروڑ کا پیکیج بن گیا ہے۔ میں نے میٹنگ میں کہا ہے کہ اس پروجیکٹ کے نفاذ میں اور تیزی لائی جانی چاہیے‘۔
Categories: خبریں