حقوق انسانی

روہنگیا معاملے میں حکومت ہند کا رویہ سوچی سمجھی پالیسی تو نہیں؟

ملک کا تجارتی مفاد تو محض ایک بہانہ ہے اصل حقیقت وہ فکری میلان ہے جس کی بنیاد مسلمانوں سے شدید نفرت ہے۔

Modi-Suu-Kyi-Hasina

روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر آخر کار مرکزی حکومت لچک دکھانے پر مجبور ہو ہی گئی۔وزارت خارجہ کے ذریعہ جاری ایک بیان میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ “ہندوستان کو میانمار کی ریاست رخائن کی صورت حال پر بہت زیادہ تشویش ہے اور اس علاقے سے پناہ گزینوں کے اخراج پر بھی”دی ہندو کی اطلاع کے مطابق وزارت خارجہ نے اس مختصر سے بیان پر مزید استفسار کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔اس کے باوجود حکومت کے موقف میں یہ تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔پچھلے پندرہ دنوں میں، جبکہ رخائن میں میانمار کی فوج، پولیس اور بدھ انتہا پسندوں کے ذریعہ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ،جس کے نتیجے میں چار سو جانیں تلف ہو چکی ہیں، بے شمار لوگ پانی میں ڈوب کر مر چکے ہیں،تین لاکھ روہنگیا لُٹ پِٹ کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں اور پوری دنیا میانمار پر نسل کشی کا الزام لگا رہی ہے، ہندوستان کی طرف سے یہ پہلا ردعمل ہے جو باقی دنیا سے ہم آہنگ نظر آتا ہے ورنہ اس سے پہلے تک ہماری حکومت نے جو رویہ اپنا رکھا تھا وہ ایک جمہوری ملک کے لئے شرم کی بات تھی۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت کے رویہ میں یہ تبدیلی بنگلہ دیش کی مداخلت پر آئی ہے نہ کہ داخلی طور پر کسی دباؤ کے نتیجے میں گو ہندوستان میں بڑے پیمانے پر روہنگیا کی حمایت میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔مسلمانوں اور حقوق انسانی کی تنظیموں اور میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے مسلسل حکومتی پالیسی کی مذمت ہو رہی تھی اور حکومت سے مانگ کی جا رہی تھی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر ہو رہے مظالم پر توجہ دے اور میانمار سے اس سلسلے میں بات کرے۔وزیراعظم نریندر مودی کے میانمار دورے سے یہ امید جاگی تھی کہ ایک جمہوری ریاست کے نمائندہ کی حیثیت سے وہ ملٹری جنتا سے نہ سہی کم از کم نوبل انعام یافتہ آن سانگ سو چی سے تو ضرور بات کریں گے۔مگرمودی اور سو چی کی طرف سے جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا وہ سب کے لئے مایوس کن تھا۔اس میں پناہ گزینی پر مجبور روہنگیا کے کسی ذکر کی بجاے “دہشت گردی” کو نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ ” رخائن میں جاری تشدد کے مسئلے، جس میں بے گناہ جانیں جا رہی ہیں، پر ہندوستان میانمار کے ساتھ ہے۔”

یہی نہیں 8 ستمبر کو انڈونیشیا میں ورلڈ پارلیمنٹری فورم کی جانب سے جاری “بالی ڈیکلریشن” سے بھی ہندوستان نے اپنے کو الگ رکھا۔لوک سبھا کی سپیکر سمترا مہاجن جو کہ ہندوستان کی نمائندگی کر رہی تھیں نے اس پر دستخط نہیں کیا کیونکہ اس میں”رخائن میں امن و سلامتی اور حقوق انسانی کی بحالی” کا ذکر تھا۔اس سے پہلے وزیر مملکت برائے داخلہ کرن ریجوجو نے ہندوستان میں روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کی بات کی تھی اور سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن کے باوجود اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔غور طلب ہے کہ ہندوستان نے اقوام متحدہ کی اپیلوں کو نظر انداز کیا مگر بنگلہ دیش کے دباؤ میں آگیا۔اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں یہ ایک الگ گفتگو کا موضوع ہے۔

ویڈیو : روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلے پر مختلف تنظیموں نے بدھ کو نئی دلّی میں مظاہرہ کیا۔ 

ہندوستان کے مختلف شہروں میں پناہ گزیں تقریباً 40 ہزار بدحال روہنگیا مسلمانوں کو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بتانا اور انہیں دہشت گرد کے طور پر دیکھنا بھلے ہی مضحکہ خیز لگتا ہو مگر جن ہندوقوم پرست نظریہ سازوں  نے یہ حکومتی پالیسی بنائی ہے انہیں پتہ ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔اس پالیسی کی مخالفت کرنے والوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہونے والا۔میانمار میں جاری نسل کشی، جس کا ذکر انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر زید بن رعد الحسین اب تک کئی بار کر چکے ہیں، اور دبی کچلی روہنگیا آبادی کو میانمار سے نکال باہر کرنے اور ان کی واپسی کے تمام امکانات کو ختم کرنے کی سازش ایسے” کارنامے”ہیں جو خود راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ہندوستان میں انجام دینا چاہتا ہے۔بھلا اس کی فکری بنیادوں پر بنی پارٹی اور مرکز میں اس کی حکومت کیونکر اس کو بُرا سمجھے گی یا اسے روکنے کی بات کرے گی۔ یہاں توایک مذہبی اقلیت کے خلاف نفرت کے زہر بوئےجاتے ہیں۔ ان کے خلاف پائے جانے والے جذبات کو برانگیختہ کیا جاتا ہے تاکہ اکثریتی طبقے کو ان کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔

میانمار روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک کا شہری نہیں مانتا ۔قانون بنا کر 25 سال پہلے ہی  ان کی شہریت ختم کر دی گئی تھی ۔اس کے بعد سے لگاتار ان کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہی ہیں اور ایسی پالیسی اپنائی گئی ہے کہ مسلم اقلیت ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو جائے۔اس وقت روہنگیا مسلمانوں کی آدھی سے زیادہ آبادی دنیا کے مختلف ملکوں بشمول ہندوستان میں پناہ گزیں ہے اور انتہائی بدحال ہے۔جو لوگ ملک میں رُکے ہوئے ہیں ان کی حالت فلسطینیوں جیسی ہے۔فلسطینیوں کی طرح ہی روہنگیا آبادی کی پیٹھ دیوار سے لگ چکی ہے۔ایسے میں ان کی طرف سے مزاحمت ایک فطری امر ہے۔جس طرح اسرائیل فلسطینی مزاحمت کاروں کو دہشت گرد کہہ کر اپنے گناہوں پر پردہ ڈالتا رہا ہے ٹھیک اسی طرح میانمار کی ملٹری جنتا اور اب آن سانگ سو چی کی سویلین انتظامیہ روہنگیا مسلمانوں کی جانب سے ہونے والی مزاحمت کو بہانہ بنا کر پوری قوم پر دہشت گردی کا الزام لگا رہی ہے۔مگر یہ ایسا الزام ہے جسے دنیا میں کسی نے قبول نہیں کیا ہے سوائے ہندوستان کے کیونکہ یہاں بدقسمتی سے بی جے پی اقتدار میں ہے۔اس حکومت کو میانمار کی حکومت کی شکل میں ایک مسلم دشمن اتحادی مل گیا ہے۔ملک کا تجارتی مفاد تو محض ایک بہانہ ہے اصل حقیقت وہ فکری میلان ہے جس کی بنیاد مسلمانوں سے شدید نفرت ہے۔

میانمار کے حالیہ بحران کا آغاز 25اگست کو اس وقت ہوا تھا جب ارکان روہنگیا سیلویشن آرمی (آرسا) نامی تنظیم کے شدت پسندوں نے شمالی رخائن میں پولیس کی چیک پوسٹس کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں بارہ سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ میانمار کی ملٹری اور پولیس انتظامیہ کو جیسے ایک بہانہ مل گیا۔اس کے بعد سے تشدد کی جو لہر حکومت کی جانب سے شروع ہوئی ہے وہ ایسا لگتا ہے کہ اب اسی وقت ختم ہوگی جب سارے روہنگیا یا تو ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں گے یا پھر انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا۔