حقوق انسانی

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملہ انصاف کی اندھی سرنگ میں داخل ہو چکا ہے ؟

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملہ  کاسياه پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کے نام پر اگر مسلم لڑکےپولیس کی گولی کا شکار ہوئے تو انصاف دلانے کا وعدہ کرنے والے ‘اپنوں’ نے بھی انہیں جم کر ٹھگا۔

BatlaHouse 

19ستمبر2008کودہلی کےجامعہ نگر میں بٹلہ ہاؤس کے ایل 18 فلیٹ میں مبینہ طور پر پولیس کے ‘انکاؤنٹر’کے دوران دومسلم نوجوان مارے گئے۔ان پر2008کےدلی سیریل بم دھماکوں کوانجام  دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔اس ‘انکاؤنٹر ‘میں دلی پولیس کےاسپیشل سیل کےانسپکٹرموہن چند شرما کی بھی موت ہوئی تھی ۔

لیکن یہ انکاؤنٹرہوتے ہی تنازعوں میں گھر گیا۔کانگریس کےسلمان خورشید اور دگ وجےسنگھ سمیت کئی پارٹیوں نےدعویٰ کیا کہ بٹلہ ہاؤس میں ہوا’انکاؤنٹر’فرضی ہے۔اس وقت میں جامعہ ملیہ میں جرنلزم کی پڑھائی کررہا تھااوراس مبینہ انکاؤنٹرتک پہنچنے میں آرٹی آئی داخل کر رہا تھا۔تب کم و بیش تمام سرکاری محکموں نےآر ٹی آئی کو دبانےکی کوشش کرتے ہوئے جانکاری نہیں دینےکی کوشش کی۔میری نظرمیں یہ’انکاؤنٹر’اورمشکوک ہوچکاتھا۔ان سوالات کے جواب آج تک نہیں ملےہیں۔

میں جب بھی خبر پڑھتا ہوں کہ پولیس نے انکاؤنٹر میں ایک بدمعاش یا دہشت گردکو مارگرایا ہے،تو ذہن میں فوراًایک سوال کوند جاتا ہے۔کیا انہیں بھی انکاؤنٹر کے نام پر پکڑ کر مار ڈالا گیا؟ایک سوال یہ بھی آتا ہے کہ اس طرح کی واردات میں کتنے لوگ اپنی زندگی گنواچکے ہوں گے،جن کی موت کی حقیقت شایدکبھی سامنے نہ آ پائے۔

مشہور سماجی کارکن ارونا رائے اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتی ہیں”ایک نکسلی یا دہشت گرد، پولیس کے ساتھ ایک تصادم میں مارا گیا”اخبار میں ایسی خبریں پڑھ کر ہمیں کیا محسوس ہوتا ہے؟بہت کم ایسے لوگ ہیں جوان خبروں کو سچ مان لیتے ہیں۔زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ “مڈبھیر” کا مطلب ہے “قتل” …

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹرکے وقت میں جامعہ میں پڑھ رہا تھا۔یونیورسٹی پردہشت گردی کے گہرے داغ لگائے جا رہے تھے۔اخباروں کی سرخیوں میں جامعہ کے طالب علموں کو دہشت گردکہا جارہا تھا۔میں نےاس یونیورسٹی میں پڑھ کر ستیہ اہنسا ،بھائی چارگی اور اور دیش پریم جیسے گاندھی وادی اورجمہوری اقدارکو سیکھا تھا۔لہذامیں انکاؤنٹر سے جڑے ان سلجھے سوالوں اور سچ کو جاننے کے لیے بے چین رہنے لگا۔

میرے لئے یہ ضروری تھا کیونکہ اگر بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر صحیح ثابت ہوتا تو اس سے حکومت اور پولیس محکمے میں میرا یقین اور بڑھ جاتا اور اگر فرضی ثابت ہوا تو ملک کوپتہ چلتا کہ دہشت گردی کا کھیل کہاں سےکھیلا جا رہا ہے۔مگر جتنا میں سمجھ پایا ،بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹرکی جانچ کوہمیشہ دبانے اور چھپانے کی کوشش کی گئی ۔

مجھے یاد ہے کہ دلی کے اس وقت کے لیفٹیننٹ گورنر تجیندرکھنہ نے اس ‘انکاؤنٹر’کی مجسٹریل انکوائری کی مخالفت کی تھی ۔دلی اقلیت کمیشن نے چار رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم بنائی تھی ،لیکن وہ ٹیم کبھی جائے وقوع پر گئی ہی نہیں ۔قومی انسانی حقوق کمیشن نے خود کی گائیڈ لائن اورہدایات پر عمل نہیں کیا۔اس کیس میں انسانی حقوق کے ہدایات کی خلاف ورزی ہر جگہ نظر آتی ہے۔

اس دوران میری طرف سے داخل آرٹی آئی سے پتا چلا کہ 1993اور2009تک ملک بھر میں 1224انکاؤنٹر فرضی ہوئے تھے ۔کمال یہ ہے کہ انسانی حقوق کمیشن سے ملی جانکاری میں بٹلہ ہاؤس کا نام بھی شامل تھا۔

اب جب میں اپنےنظریےسے اس”انکاؤنٹر”کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں اب تک صرف سیاست ہوئی ہے۔اس’انکاؤنٹر’کے 9 سالوں بعدآج بھی کئی بے قصور جیل کی سلاخوں میں بند ہیں اور ان کے گھر والے انصاف کی امید میں در بدر بھٹک رہے ہیں ۔

شرم کی بات یہ ہے کہ کانگریس کی حکومت میں سسٹم میں مضبوط گرفت رکھنے والی انسانی حقوق سے متعلق ادارے،قوم کے ٹھیکیدار اور ملی سیاسی رہنماؤں نے اس انکاؤنٹر کے بہانے اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کی اور اب خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔

جامعہ نگر علاقے کے دو نیتا اسی بٹلہ  ہاؤس’انکاؤنٹر’کی وجہ سےایم ایل اے بن گئے اور اب وہ بھی پوری طرح خاموش ہیں ۔

ایسا لگتا ہے کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں انصاف کسی اندھی سرنگ میں جاکر گم ہو گیا ہے۔مگر افسوس اس کا ہے کہ بڑے بڑے کارکن اور وکیل انصاف تلاش کرنے کے بجائے بس مسئلے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کاسياه پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کے نام پر اگر مسلم لڑکےپولیس کی گولی کا شکار ہوئے تو انصاف دلانے کا وعدہ کرنے والے ‘اپنوں’ نے بھی انہیں جم کر ٹھگا۔

(مضمون نگار صحافی اور آر ٹی آئی ایکٹوسٹ ہیں۔)