گزرے زمانے کی چیز قرار دئے جانے کے بعد بھی نہ صرف ‘ داس کیپٹل’بلکہ مارکس بھی زندہ ہو گئے ہیں۔اس بار ان کا اوتارکسی مذہبی صحیفہ یا کسی گروکی طرح نہیں ہوا ہے،بلکہ سرمایہ داری نظام کے معاصربحران کی تشریح کرنے کے کارآمد اوزار کے طور پر ہوا ہے۔
14 ستمبر کو کارل مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف داس کیپٹل (یا صرف کیپٹل)کے پہلے ایڈیشن کیپٹل :کرٹیک آف پالیٹکل اکانومی کی اشاعت کے 150سال پورے ہو گئے۔اس کتاب کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین ضخیم جلدوں والی اس کتاب کی پہلی جلد کی اشاعت ہیم برگ کے ایک ناشر کے ذریعے امریکی خانہ جنگی کے دو سالوں بعد، لیکن چمکیلے بلب کی ایجاد کی ایک دہائی پہلے ہوئی تھی۔اصل میں کیپٹل نے بھی دنیا کو روشن کرنے والے بلب جیسا کردار نبھایا۔داس کیپٹل کو مقدس بائبل کے بعد دوسری سب سے متاثرکن کتاب مانی جاتی ہے۔اس نے ایک صدی سے زائد عرصے تک محنت کشوں کے لیے سچے بائبل کا کام کیا۔کئی نسلوں کے لئے مارکس گرو تھے اور کیپٹل ان کا مقدس صحیفہ۔
مارکس کی وفات1883میں ہوئی۔ان کی زندگی میں کیپٹل کی صرف پہلی جلد ہی شائع ہو پائی تھی۔اس کے بعد کےدو جلدوں کی اشاعت فریڈرک انگلس نے مارکس کے نوٹس اور مخطوطے کی مدد سے کرائی، جو ان کو مارکس کے اسٹڈی روم میں ملے تھے۔1990 کی دہائی کی ابتدا میں کیپٹل نے اشاعتی صنعت کی سرفہرست کتابوں میں سب سے اثرانگیز ہونے کا فخرگنوا دیا تھا۔ لیکن، عالمی اقتصادی بحران کے بعد ایک بار پھر لوگوں کو مارکس کی اس اہم تصنیف کی یاد آئی۔اس بحران نے اس نقطہ نظر کو مضبوطی دی کہ برلن کی دیوار کےمنہدم ہونےاورسوویت یونین کی تحلیل کے باوجودسرمایہ داری اپنی فطرت سے ہی بحران زدہ اور زوال پذیر ہے۔ جوابات اور وضاحتوں کی تلاش کی کوششوں نے ایک بار پھر لوگوں کو داس کیپٹل کی طرف متوجہ کیا۔
عام طور پر چھوٹے سائز کے حروف میں چھپی ہوئی تین جلدوں والی 2000 صفحات کے مہاگرنتھ نے زیادہ تر لوگوں کو حیران کر دیا۔ خاص کر اس بات کی روشنی میں کہ کتنی آسانی سے معاصر دنیا کے ذریعے اس کتاب کو غیر متعلق اور گزشتہ زمانے کا قرار دیا گیا تھا۔اس سے یہ پتا لگتا ہے کہ بھلےہی یہ کتاب کسی زمانے میں اس کو سنبھال کر رکھنے والوں کے لئے ‘ اسٹیٹس سنبل ‘رہی ہو، لیکن یہ اصل میں اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ کتاب اپنی ادبی بصیرت اور ہم عصر مصنفین اورمبصرین کے ساتھ مارکس کے متصادم مباحث کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ آج کے قاری کے لئے ان کے ساتھ قدم تال ملانا مشکل ہو سکتا ہے۔ پھر بھی کیپٹل کا محفوظ رہ جانا،اس بات کا ثبوت ہے کہ اس میں موجودہ زمانے کی سرمایہ داری کی بھول بھلیوں کو سلجھانے کی چابی ہے۔
گزشتہ دہائی میں کیپٹل کاپنرجنم کسی معجزے سے کم نہیں۔اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ آج بھی اس کو ایک ایسے اوزار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کے پاس وژن اوردور اندیشی عطاکرنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے۔ساتھ ہی 20ویں صدی کے پورے منظرنامے کو بدلکر رکھ دینے والے کئی واقعات کو جنم دینے میں اس کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔21ویں صدی میں داس کیپٹل بھلےہی مستقبل کا نقشہ پیش کرنے سے چند قدم پیچھے رہ جائے، لیکن اس نے ثابت کیا ہے کہ اس کو آج بھی ماضی کی یادگار نہیں کہا جا سکتا۔ کیپٹل کے مختلف حوالوں اور سیاق پر بات چیت شروع کرکے ہم مارکس کے آنے والےدو سو سالہ یوم پیدائش کے انعقاد کے لئے زمین تیار کر سکتے ہیں، جس کو آئندہ سال مئی میں پورے دھوم دھام سے منایا جانا چاہیے۔
بےشک کیپٹل کو کارل مارکس کا مہاکاویہ کہا جا سکتا ہے، جس کی اشاعت 1848میں کمیونسٹ منشور کی اشاعت کے تقریباً دو دہائیوں کے بعد ہوئی تھی۔ کیپٹل کو خشک اقتصادی یا سماجی اقتصادی اصولوں کے طور پر دیکھنا بڑی بھول ہوگی۔جیسا کہ برٹش صحافی اور مصنف فرانسس وہین نے داس کیپٹل کے بارے میں لکھا تھا، یہ کتاب ‘ایک انقلابی ادبی کولاژ ہےجس میں اساطیر اور ادب سے، فیکٹری انسپکٹر کی رپورٹوں اورپریوں کی کہانیوں سے آوازوں اور اقتباسات کو کچھ اسی طرح سے ترتیب میں سجایا گیا ہے، جیسا ہم ایزراپاؤنڈکی ‘دی کین ٹوس ‘ یا ایلیٹ کی ‘دی ویسٹ لینڈ ‘میں دیکھتے ہیں۔ داس کیپٹل شوئن برگ کی طرح ناموافق بھی ہےاور کافکا کی طرح ڈراونا خواب بھی ہے۔ ‘
انگلس کو لکھے ایک خط میں مارکس نے ا س کے مصنف کا بیان خود اس طرح کیا تھا :ایک تخلیقی فنکاریا ‘جدلیات’کا شاعر۔انہوں نے یہاں ایک بار بھی ماہراقتصادیات لفظ کا استعمال نہیں کیا ہے۔ ان کے لئے، ان کی یہ تخلیق، جو مسلسل اشاعتی ڈیڈلائنوں کو چکمہ دیتی رہی، ایک ‘مکمل تخلیق’تھی۔امریکی مصنف مارشل برمین نے لکھا تھا کہ کسی صوفی کی طرح دکھنے والا یہ داڑھی والا آدمی، ‘بی تھوون، گویا، ٹالستائے، دستووسکی، ایبسن، نطشے، وان گاگ وغیرہ کے ساتھ 19ویں صدی کی عظیم مظلوم شخصیتوں میں سے ایک تھا، جو ہمیں دیوانہ بنا دیتے ہیں، جیسے انہوں نے خود کو بنا ڈالا تھا لیکن جن کی تکلیف نے اس قدر روحانی سرمایے کی تخلیق کی، جو ہمیں آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔’
مارکس کی ادبی اذیّت کی وجہ اپنی ہی کامیابیوں کو مسلسل جانچتے رہنے کی ان کی عادت تھی۔ وہ مسلسل طور سے ہرروز، ہر ہفتہ، ہر مہینے اور سال اس بات کی جانچ کرنے میں لگے رہتے تھے کہ کیا کسی ڈھانچہ/اصول میں اصلاح کئے جانے کی ضرورت تو نہیں ہے!ایک مصنف اور مفکر کے طور پر مارکس نے خوداعتمادی سے معموراور اسی کے ساتھ مسلسل خود اطمینانی کے بوجھ سے دبے ہوئے مصنف کے درمیان ایک زبردست توازن بناکر رکھا تھا۔کیپٹل کے مقدمے کی ایک سطر میں مارکس نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ سب سے پہلے کس کو اپنے قاری کے طور پر دیکھتے تھے : ویسا کوئی آدمی جو’کچھ نیا سیکھنے کی خواہش رکھتا ہو اور جس کی اپنی سوچ ہو۔ ‘بےشک، مارکس کے ذہن میں ان کا قاری، ان کا ہی ہمزاد تھا۔
مارکس مانتے تھے کہ عوامی مباحث میں کوئی آخری نتیجہ ممکن نہیں ہے اور اگر وہ بشمول ہندوستان آج کے معاصر معاشرہ کا جائزہ لیتے، تو یقینی طور پر حیرت میں پڑ جاتے۔ان کا نتیجہ یہی ہوتا کہ طے شدہ عصبیت کے ساتھ تخلیقی بصیرت ممکن نہیں ہے۔آج کے وقت میں لوگوں میں اپنے استحکام کو لےکر بڑھتے غرور کے بر عکس مارکس نے کبھی بھی اپنے اصولوں کو آخری اور مکمّل نہیں مانا اور اپنی شاہکارتخلیق کو ادھورا ہی رہنے دیا۔اپنی کتاب کیپٹل :کرٹیک آف پالیٹکل اکانومی، کو ناشر کو سونپنے سے کچھ دن پہلے مارکس نے انگلس سے آنیرے دی بالزاک کی ‘ دی اننون ماسٹر پیس ‘ پڑھنے کے لئے کہا تھا، جو ان کی نظر میں شگفتہ پیراڈوکس سے بھری ہوئی تھی ۔
اسے ان کی ذہنی حالت کا مظہر کہا جا سکتا ہے۔ وہین نے لکھا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انگلس نے اپنے دوست کی صلاح مانی تھی یا نہیں،مگر اس کہانی سے یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ مارکس کے ذہن میں آخر کیا تھا :اگر تخلیقی فنکار جانچ اور غور و فکر کے جذبات کے مطابق ایماندار بنے رہنا چاہتے ہیں، اذیّت سے نہیں بچ سکتے۔’ دی اننون ماسٹر پیس ‘ معروف فنکار فرین ہافر کی کہانی تھی۔ مارکس کو 1831 میں شائع یہ کتاب شاید اس لئے پسند آئی ہوگی کیونکہ اس میں بالزاک نے کافی دل لگاکر ایک فنکار کی تکلیف کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔اس کہانی کا فنکار ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک اس امید میں ایک پینٹنگ پر محنت کرتا رہا کہ یہ حقیقت کو تکمیلیت میں اور بے مثال انداز میں دکھائےگی۔ لیکن، جب پوری طرح سے تیار کینوس کی نمائش کی گئی، تو ان کے ساتھ فنکاروں کو اس میں یہاںوہاں، بے ترتیب طریقے سے چلائے گئے اسٹروک کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آیا، جو آپس میں ملکر انتشار کے علاوہ کسی دیگر چیز کی نمائش نہیں کرتے تھے۔
اس پینٹنگ کی خوب تنقید ہوئی اور فرین ہافر نے اپنی ساری پینٹنگس کونذر آتش کر دیا اور خودکشی کر لی۔شکر ہے، مارکس نے اس طرح کی نادانی کا کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن،ان کے دماغ کی بناوٹ کچھ کچھ ایسی ہی تھی، بھلےہی ٹھیک اس کی نقل نہ ہو۔کیپٹل کو لکھنے کے دوران وہ بار بار بالزاک کے ذریعے فرین ہافر کا منھ سے کہلوائی گئی سطریں دوہراتے رہے :’ کاش!ایک لمحے کے لئے بھی میں یہ سوچ پاتا کہ میرا کام مکمّل ہو گیا ؛ لیکن یقیناً میں نے کچھ تفصیلات میں غلطی کی ہے اور جب تک میرا شک دور نہیں ہو جاتا، میرا ذہن چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ ‘برمین کے مطابق، بالزاک کے ذریعے کیا گیا فرین ہافر کے کینوس کا بیان 20ویں صدی کی ایبسٹریکٹ پینٹنگ سے میل کھاتا ہے۔انہوں نے یہ دلیل دی ہے کہ کسی زمانے کا انتشار اور تضاد، کسی دوسرے زمانے میں زبردست طریقے سے معنی اور خوبصورتی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
شاید اس سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ آخر کیسے گزرے زمانے کی چیز قرار دئے جانے کے بعد بھی نہ صرف کیپٹل بلکہ مارکس بھی زندہ ہیں۔اس بار ان کا اوتار کسی مقدس کتاب یا فنکار کی طرح نہیں ہوا ہے، بلکہ سرمایہ داری کے معاصر بحران کی وضاحت کرنے کے کارآمد اوزار کے طور پر ہوا ہے۔کیپٹل کو کبھی بھی ایک الہامی شاہ کار کے طور پر نہیں دیکھا جانا تھا، جیسا کسی زمانے میں اس کو کمیونسٹوں کے ذریعے سمجھا گیا۔ کئی ایسے پہلو تھے، جن میں اپنی بصیرت کی وجہ سے مارکس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ لیکن، ایسے شعبے بھی تھے، جن میں اگر وہ ہاتھ نہیں ڈالتے، تو ان کے مقصد کو زیادہ فائدہ پہنچا ہوتا۔
مارکس بڑی پیشین گوئی کرنے سے یقینی طور پر بچ سکتے تھے۔ وہ سرمایہ داری کے آج نہ کل ہونے والے خاتمہ کے بارے میں یقین رکھتے تھے اور اس بات کو لےکر بھی کہ محنت کش طبقہ کا پہلاصنعتی انقلاب لندن میں ہوگا، نہ کہ زراعتی مرکوز روس میں۔ان کے مطابق مزدوروں کو انقلاب کی قیادت کرنی تھی۔ پھر بھی یہ انقلاب کسانوں نے روس میں کی۔سماجی رویے کو لےکر مارکس کے کئی اصول بھی ہدف سے بھٹک گئے۔ انہوں نے یہ اصول دیا تھا کہ محنت کش طبقے کے پاس حکمراں طبقہ کے خلاف بغاوت میں اٹھ کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لیکن، آج کے مزدوروں کے بڑے طبقہ میں ایسے انقلاب کی کوئی خواہش نہیں دکھائی دیتی۔اس کی جگہ ان کا ہدف صرف اپنے استحصال کرنے والوں کی نقل اور ان کی پیروی کرنے کا دکھائی دیتا ہے۔ کسی دفتر یا کارخانے کے ملازم کی تمنا باس بن جانے کی ہوتی ہے، جس سے اس کا استحصال بند ہو سکے اور وہ بھی استحصال کرنے والے میں شامل ہو سکے۔
جس شعبے میں کیپٹل ہماری تجزیاتی صلاحیت کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، وہ ہے سماجی و اقتصادی تجزیے کی اس کی طاقت،جو کہ ایک ساتھ شاعرانہ بھی ہے اور منصفانہ بھی ہے۔ یہ ایک ایسا وقت ہے، جب، اقتصادی اصلاح کا نتیجہ پیداوار کے وسائل پر ملکیت کے زیادہ سے زیادہ توجہ ارتکاز کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔معیشت کی ترقی پیداوار کی نئی شکلوں میں ہو رہی ہے، جس کی اہم خصوصیت محصول ہے۔ ایسے میں محنت کش طبقہ کے یا مساوات کی سیاست میں یقین کرنے والوں کے لئے کیپٹل میں جانچ کا ایک اچھا آلہ ہونے کی صلاحیت ہے۔کیپٹل کی مناسبت اس سبب اور کم ہو جاتی ہے، کیونکہ مارکس نے سرمایہ داری پیداوار کی جو تین بنیادی خصوصیت بتائی تھیں :پیداوار کے اسباب کے وجہ ارتکاز، مزدورکی تنظیم اور عالمی بازاروں کا عروج، اس میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔
مارکس کے شاگردوں اور کیپٹل کی ستائش کرنے والوں نے اسے تمام بیماریوں کا علاج ماننے کی غلطی کی۔ کیپٹل اپنی زندگی کے ڈیڑھ سو سال کے بعد بھی زندہ رہے، اس کے لئے اس کو قدامت پرست پیغام ماننے سے انکار کرنا ہوگا اور اسے حوالہ جاتی متن کے طور پر دیکھنا ہوگا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ داس کیپٹل انسانی فطرت کو سمجھنے کی قوت عطا کرتی ہے، جس کی وجہ سے ہم یہ جان پاتے ہیں کہ کیسے کوئی دوسرے کے استحصال کو جائز ٹھہرانے لگتا ہے۔مارکس کے لئے سرمایہ داری ایک استعارہ تھی جس نے لوگوں کو انسان سے شیطان بنا دیا اور اس کا ان کو افسوس بھی نہیں تھا۔ وہین کا یہ کہنا صحیح ہے کہ ‘ داس کیپٹل بالکل منفرد ہے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بھی کتاب اس جیسی نہیں ہے۔ ‘
(مضمون نگارمصنف اور صحافی ہیں۔وہ نریندرمودی :دی مین، دی ٹائمس اور سکھس:دی انٹولڈ اگونی آف 1984،کے مصنف ہیں)