اس قانون کے ہاتھوں سعودی خواتین اورہم جیسی غیرملکی خواتین جو برسہا برس سے وہاں رہتی ہیں کس قدر مجبور تھیں،اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے ۔
مرحبا!کالے عبایہ (سعودی عرب میں خواتین جو برقعہ پہنتی ہیں وہ عبایہ کہلاتا ہے )اور پورے حجاب میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی سعودی خاتون !یہ تو ہونا ہی تھا ، بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔
سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی چلانے پر لگی برسوں کی پابندی ختم ہوگئی،یہ خبر سن کر دل خوش ہوگیا،کتنے ہی مناظر نگاہوں میں گھوم گئے۔ رات گئے لمبی اور بیش قیمتی گاڑیوں میں،مردانہ لباس میں،سر پرغترہ لگائے ( سعودی عرب کے مرد سر پر ایک بڑا سا رومال رکھتے ہیں )کوئی سعودی امیر زادی،ریاض کی فیشن ایبل علیا اسٹریٹ پر تیزی رفتار سے گاڑی چلاتی ہوئی گذر جاتی ہے۔سنا ہے جدہ میں سمندر کے کنارے کورنیش کے اطراف بھی کبھی کبھار یہ جھلک دکھائی دے جاتی تھی۔ظاہر ہے ایسی خبریں اخبار میں نہیں آتی تھیں ۔بیرونی میڈیا کے ذریعے اکثر خبریں ملتی تھیں کہ سعودی لڑکیوں نے احتجاج کے طور پر گاڑی چلائی،اور سزا جھیلی۔ایک منظراوریاد آیا ۔ کار میں کسی لمبے سفر کے دوران ، کسی گاؤں میں دور سے، کوئی بدوّ خاتون اپنا روایتی لباس پہنے گاڑی چلا کر اپنے کھیتوں،بھیڑوں اور اونٹوں کی دیکھ بھال کرتی بھی شاذ و نادر نظر آتی تھی۔ دور دراز کے گاؤں میں خواتین پوری آستینوں والا لمبا گاؤن پہنتی ہیں،سر پر لمبا سا دوپٹہ لپیٹ لیتی ہیں،چہرہ نہیں ڈھکتیں۔شہروں میں رہنے والی خواتین کی طرح کالا عبایہ پہننے کی پابندی ان پر شدت سے لاگو نہیں ہوتی ۔
لیکن بہر حال یہ معاشرتی قانون اپنی جگہ اٹل تھا کہ عورتیں سعودی عرب میں گاڑی نہیں چلا سکتیں ۔ بس!
اس قانون کے ہاتھوں سعودی خواتین اورہم جیسی غیرملکی خواتین جو برسہا برس سے وہاں رہتی ہیں کس قدر مجبور تھیں،اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے ۔
سعودی خواتین کا ایک اسٹریوٹائپ عموماً لوگو ں کے ذہن میں ہے۔پابند، مجبور ،قید ی کی طرح جیتی عورت ۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ میں نے تقریباً پندرہ برس ریاض میں گذارے،اس عرصے میں ،میں نے سعودی عرب کی افسانہ نگار خواتین کی ایک انتھالوجیvoices of change پڑھی تھی۔اس کتاب میں جو افسانے شامل تھے ان کو پڑھ کر میں حیران رہ گئی تھی کہ یہ خواتین کتنی سچائی اور ہمت سے زندگی کی حقیقتوں کو اپنی کہانیوں میں پیش کررہی تھیں۔ لیکن آج کی سعودی خواتین ان افسانوں سے کہیں آگے نکل گئی ہیں، میڈیا میں ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، صاحب رائے ، نوکری پیشہ،بزنس کرنے والی یہ خواتین معاشرے میں بہت اہم رول ادا کررہی ہیں۔ لیکن یہ سب خواتین روز مرہ کے کاروبار جہاں کے لئے اپنے بھائی، شوہر ،یا بدیسی ذاتی ڈرائیوروں ےا ٹیکسی پر منحصر تھیں،اور اس پر سے یہ بھی مصیبت کہ محرم کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ گاڑی میں تنہا سفر کرنہیں کرسکتی تھیں۔ چاہے وہ کوئی رشتہ دار ہو، یا کوئی معتبرد وست ۔اگر کسی ایمرجنسی میں چلی بھی گئیں تو وہ بھی خوف کے سائے میں کہ کسی وجہ سے ٹریفک پولس نے پکڑ لیا تو فوراً پولیس اسٹیشن جانا پڑے گا۔ بدکرداری کا بھی الزام لگ سکتا تھا۔
کل رات میں کسی چینل پر اس خبر سے متعلق کسی صاحب کا انٹرویو دیکھ رہی تھی۔ ان کو یہ فکر لاحق تھی کہ اس نئے قانون کے پاس ہونے کے بعد ، خانگی مسائل بڑھیں گے،یعنی میں اور اندیشہ ہائے دور داز ۔ لیکن عورتوں کے لئے یہ بہت خوش آئند قدم ہے، دیگر حقوق کی بازیابی کے لئے راہیں نکلتی رہیں گی ،ہم کچھ اور نہیں چاہتے ، صرف ؛ایک انساں کی طرح جینے کا حق چاہتے ہیں
Categories: فکر و نظر